عصرِ حاضر میں اردو رسم الخط میں اعراب کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے جس نے اِملاء کو تو بے شک سہل بنا دیا ہے لیکن وہیں غلط تلفُّظ اور اِملاء کی اغلاط کا تناسب بھی کئی گُنا بڑھا دیا ہے۔ یہاں پر چند ایسے الفاظ کا صحیح تلفُّظ درج کرنا مقصود ہے جو عموماً غلط بولے یا لکھے جاتے ہیں۔
• جن الفاظ میں تشدید نہیں
• جن الفاظ میں تشدید ہے
• جن الفاظ میں (ز) ہے۔ (ذ) نہیں
• جن الفاظ میں (ژ) ہے۔ (ز) نہیں
• ہائے ہَوَّز کی اقسام اور اُن کا استعمال
• جن الفاظ کے آخر میں دو (ہ) نہیں ہیں
• جن الفاظ کے آخر میں دو (ہ) ہیں
• جن الفاظ میں (ی) ہے ہمزہ (ء) نہیں
• ہمزہ (ء) کا استعمال
جن الفاظ میں تشدید نہیں
بُقعہ: جگہ ۔ عبادت گاہ
تَعارُض: اعتراض کرنا
تَعارُف
تَعاقُب
تَعاوُن
حِسام یا حُسام: تلوار
رَدَہ: دیوار کی چُنائی میں اینٹوں کی ایک قطار
رُقعہ
عِظام: عظیم کی جمع
غَیُور: باغیرت
قَدَح: بڑا پیالہ
کَدُو: ایک سبزی۔ لوکی
کُنیت: ماں، باپ، بیٹا، بیٹی کے تعلّق سے لیے جانے والا نام
مُتَرجِم: تَرجَمہ کرنے والا
مُتَرجَم: تَرجَمہ کیا ہُوا
مُتَعارِف: جانا پہچانا۔ شناسا
ہِجے: حروف کو آپس میں ملانا
جن الفاظ میں تشدید ہے
آدمِیَّت
اِنسانِیَّت
اہَلِیَّت
جَمعِیَّت
خَیرِیَّت
رَعِیَّت
زَکَرِیّا
صِحَّت
عَطِیَّہ
غَیرِیَّت: بے گانگی
فَوقِیَّت
فِرعَونِیَّت
قابِلِیَّت
قَومِیَّت
کُلِّیات
کَیفِیَّت
مادَّہ
ماہِیَّت: اصل حقیقت۔ مادَّہ
مَجرِیَّہ: جاری کیا گیا
مصرُوفِیَّت
مظلُومِیَّت
معصُومِیَّت
مَعِیَّت: ساتھ۔ ہمراہی
مُقَدَّمہ
مُکَعَّب: جس کی لمبائ، چوڑائ اور اونچائ برابر ہو
نَفسانِیَّت: خود غَرَضی
نَوعِیَّت: قسم
وَہَّاب
وَہَّابی
جن الفاظ میں (ز) ہے۔(ذ) نہیں
آزر: حضرت ابراہیم کے والد کا نام۔ جبکہ آذر بمعنی آگ درست ہے
زَکَرِیّا
سَرگُزَشت
گُزَر
گُزارش
گُزَشتَہ
جن الفاظ میں (ژ) ہے۔ (ز) نہیں
اَژدَہا
پَژمُردہ: افسُردہ
ژالہ: اولا
مُژدہ: خوشخبری
نَژاد: اصل۔ اصلاً
مِژگاں: مِژَہ کی جمع۔ پلکیں
مِژَہ: پلک
واژگُوں: اَوندھا
ہائے ہَوَّز (ہ) کی اقسام اور اُن کا استعمال
ہائے ہَوَّز "ہ" کی تین اقسام ہیں۔
پہلی عام "ہ" جو تمام الفاظ میں خواہ وہ کسی زبان کے ہوں، لفظ کے آخر، شروع یا درمیان میں، کہیں بھی استعمال ہو کر اپنی پوری آواز دیتی ہے۔ اس کو ہائے ملفوظی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہار، بہار، جوہر، کَہ، سیاہ، وغیرہ
دوسری قسم کو ہائے مُختَفی کہا جاتا ہے اور یہ صرف عربی اور فارسی الفاظ کے آخر میں آتی ہے اور اپنی پوری واضح آواز کی بجائے محض مُختَفی یعنی پوشیدہ و غیر واضح آواز دیتی ہے جو الف کی آواز سے مشابہ ہوتی ہے۔ مثلاً پردہ، نغمہ، جامہ، جلسہ، وغیرہ۔ اس کے علاوہ یہ کچھ اسمائے معرفہ اور غلط العام (فصیح) الفاظ کے آخر میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً آگرہ، کلکتّہ، گھنٹہ، گیارہ، بارہ، وغیرہ۔
ہائے ہَوَّز کی تیسری قسم ہائے مخلوط (ھ) ہے۔ اور اردو میں یہ صرف دس حروف کے بعد آتی ہے اور اُن حروف کے ساتھ مل کر مخلوط آواز نکالتی ہےاور وہ حروف یہ ہیں: ب، پ، ت، ٹ، ج، چ، د، ڈ، ک اور گ۔
جو کہ دراصل ہندی حروف بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، کھ اور گھ ہیں۔
چند غیر عربی و فارسی الفاظ جن کے آخر میں الف ہوتا ہے لیکن غلطی سے ہ لکھا جاتا ہے:
اَولا، باجا، بَتاشا، بُلبُلا، بھُرتا، بھَٹّا، بھروسا، پانسا، پسینا، پٹاخا، پُتلا، پھایا، پیندا، تانبا، تانگا، تَسلا، تھَیلا، جالا، جھنڈا، چبوترا، چرخا، چمچا، چمڑا، چولہا، چھَتّا، چھَجَّا، چھَرَّا، دَلیا، ڈِبَّا، ڈِبیا، ڈنڈا، ڈیرا، راجا، رَسَّا، رَس گُلَّا، روڑا، سِرکا، سموسا، غُبّارا، غَلَّا، کُرتا، کَمرا، کُنڈا، کوئلا، گھونسلا، گیندا، مَسالا، نَخرا، چھَلّا، ڈاکا، باڑا، وغیرہ
چند عربی و فارسی الفاظ جن کے آخر میں ہائے مُختَفی نہ ہونے کے باوجود غلطی سے "ہ" استعمال کی جاتی ہے:
بُرقَع،بے تحاشا، پَروا، تَقاضا، تَماشا، تَمغا، تنازُع، حلوا، دعویٰ یا دعوا، شوربا، طُغرا، عاشُورا، فتویٰ یا فتوا، گُوارا، ماجَرا، مُتَوَقِّع، مُحابا، مَذبَح، مُربَّع، مُرَبّیٰ یا مُرَبّا، مُرَقَّع، مع، مُعَمَّیٰ یا مُعَمَّا، مَقطَع، مُلَمَّع، مُنافِع، مُنَقَّیٰ یا مُنَقَّا، مَوقَع، وغیرہ
جن الفاظ کے آخر میں دو (ہ) نہیں ہیں
کَہ: کہنا کا فعل امر
بَہ: بہنا کا فعل امر
تشبیہ
تنبیہ
توجیہ
تَہ: پیندا، نچلی سطح
سَہ: سہنا کا فعل امر
فقیہ: فقہ کا ماہر
کرَِیہ: قابلِ نفرت
جن الفاظ کے آخر میں دو (ہ) ہیں
شُبہہ
قہقہہ
مُشافَہہ
جن الفاظ میں (ی) ہے ہمزہ (ء) نہیں
آیِندہ
رِعایَت
حِمایت
شایَد
شایِستہ
شِکایَت
عِنایَت
غَایَت
کِفایَت
مُضایَقہ
مُعایَنہ
تایِید
ہِدایَت
ہمزہ (ء) کا استعمال
ہمزہ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ لفظ کے آخر میں ہو تو اسے علاحدہ لکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی لفظ کے درمیان ہو تو حرفِ رابط (ا، و، ی) کا اضافہ کر کے اُس پر ہمزہ لکھی جاتی ہے۔
ہمزہ کے غلط استعمال کے الفاظ کی فہرست نسبتاً طویل ہے اور اچھی خاصی مغز ماری کرنا پڑے گی۔ لہٰذا اس پر اگلی دفعہ پوسٹ میں بحث کریں گے۔
لیکن ناچیز نے ایک قدرے تن آسانی کا اصول اختیار کیا ہوا ہے جو ناقدین و اہلِ زبان کے نزدیک بالاتّفاق رائے درست ہے۔ آپ بھی اس حربہ کو آزما کر میری طرح کم از کم ایک غلطی سے تو بچ ہی سکتے ہیں اور وہ اہلِ زبان کا بنایا ہوا اصول یہ ہے کہ "جن الفاظ کے آخر میں ہمزہ ہو اگر انہیں بغیر ہمزہ کے لکھا جائے تو ہرج نہیں کیونکہ ہمزہ کے نہ لکھنے سے تلفّظ میں کوئی فرق نہیں پڑتا"۔ لیکن ان الفاظ کے مرکّبات بناتے یا اضافت لگاتے ہوئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کے آخر میں ہمزہ واقع ہے یا نہیں۔
حوالہ جات: صِحَّت الفاظ، فرہنگ آصفیّہ، فیروز اللّغات اور امیر اللّغات