شکیل عادل زادہ کا سب رنگ ڈائجسٹ کیوں بند ہوا؟ اس میں کسی حد تک جنرل ضیاء الحق کا بھی ہاتھ تھا۔ بقول حامد میر:
یہ ماضی کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں آپ کو آج کے پاکستان کے سب رنگ ملیں گے ۔یہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا دور تھا ۔ اسلام آباد میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای ) کا سالانہ اجلاس تھا جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق تھے۔صدر صاحب کی طویل تقریر کے بعد ڈنر تھا لیکن ڈنر سے قبل سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل انور خلیل نے پاکستان بھر سے آئے ہوئے ایڈیٹرز کا صدر سے تعارف کرایا ۔جب وہ میر خلیل الرحمٰن صاحب کے پاس پہنچے تو تعارف کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ صدر صاحب انہیں پہلے سے جانتے تھے ۔ان سے مل کر صدر صاحب آگے بڑھے تو انور خلیل نے تعارف کرایا ’’یہ ہیں شکیل عادل زادہ، سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر اور مالک‘‘۔
صدر صاحب مسکرائے اور آگے بڑھ گئے لیکن پھر یک دم انہیں کچھ یاد آیا اور پلٹ کر انور خلیل سے پوچھا کہاں ہیں سب رنگ کے مدیر؟ سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل نے میر خلیل الرحمٰن کے پہلو میں کھڑے شکیل عادل زادہ کی طرف اشارہ کیا تو جنرل ضیاءالحق نے بہت غور سے انہیں دیکھا۔سرہلا کر ایک لمبا سا ’’ہوں‘‘ کہا اور پھر مسکراتے ہوئے ایک بھرپور مصافحہ کیا جس پر دائیں بائیں کھڑے کئی مدیران حیران رہ گئے ۔جنرل ضیاء الحق نے شکیل عادل زادہ سے کہا ’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی ‘‘۔جب صدر صاحب آگے بڑھ گئے تو میر خلیل الرحمٰن نے ستائشی انداز میں شکیل عادل زادہ سے کہا واہ شکیل میاں ! آپ تو چھپے رستم نکلے۔فوجی صدر کے پلٹنے اور دوبارہ مصافحہ کرنے پر کسی نے سمجھا کہ صدر صاحب بھی سب رنگ ڈائجسٹ کے قاری ہیں، کسی کا خیال تھا کہ صدر صاحب نہیں بلکہ ان کی بیگم صاحبہ غلام روحیں، امربیل اور بازی گر جیسی سلسلے وار کہانیوں کی اسیر ہونگی اور خود شکیل عادل زادہ بھی حیران تھے۔
صدر صاحب کی توجہ اور مسکراہٹ سے ’’بازی گر‘‘ کے خالق کو یہ احساس ہوا کہ حکمران وقت اگر ان کا گرویدہ نہیں تو کم از کم ان کے بارے میں نیک جذبات ضرور رکھتا ہے ۔اگر جنرل ضیاءالحق کو پتہ ہوتا کہ امرتا پریتم، گلزار، قرۃالعین حیدر، عصمت چغتائی، ابن انشاء، احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد سے لیکر نصیر ترابی تک برصغیر پاک وہند کے درجنوں ادیب اور شاعر شکیل عادل زادہ کے گرویدہ ہیں تو وہ انہیں گلے بھی لگاتے لیکن اگلی ہی شام شکیل عادل زادہ آرمی ہائوس راولپنڈی میں جنرل ضیاء الحق کے سامنے بیٹھے تھے ۔ہوا یوں کہ شکیل عادل زادہ نے کافی عرصہ سے خواتین کے ایک پرچے کیلئے ڈکلیئریشن کی درخواست دے رکھی تھی لیکن انہیں ڈکلیئریشن نہیں مل رہا تھا ۔جس رات جنرل ضیاء الحق نے پلٹ کر ان کے ساتھ مصافحہ کیا اسی رات انہیں پتہ چلا کہ کل انور خلیل نے دوپہر میں صدر کو ملنا ہے ۔انہوں نے انور خلیل سے کہا کہ آپ صدر صاحب سے ملنے جائیں تو براہ کرم میرے ڈکلیئریشن کی بات بھی کر دیجئے گا۔
۔۔۔
ڈکلریشن تو نہ ملا، پابندیاں لگ گئیں۔ مزید تفصیل
یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔۔