کہانیوں، کرداروں اور مصنفین پہ بات چیت

عدنان عمر

محفلین
سب رنگ ڈائجسٹ بند کیو ں ہوا؟
شکیل عادل زادہ نے کبھی سب رنگ کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ خوب سے خوب تر کی جستجو کا یہ نتیجہ نکلا کہ ماہانہ رسالہ، سالانہ بن گیا۔ سال میں ایک بار اور کبھی ڈیڑھ دو سال کے وقفے سے آنے لگا۔
شکیل صاحب نے سب رنگ کے عشق میں خوب مالی نقصان اٹھایا۔ جب یارا نہ رہا تو مجبوراً یہ رسالہ کسی دوست کے بیٹے یا شاید رشتے دار کے حوالے کیا۔ نئی انتظامیہ معیار برقرار نہ رکھ سکی۔ گرتا معیار دیکھ کر شکیل صاحب نے اپنے مقبول ترین ناول "بازی گر" کی مزید اقساط بھی اس رسالے میں چھپوانے سے معذرت کرلی۔ یوں اس رسالے کی فروخت کم ہوگئی۔ کاروباری لوگ نقصان کہاں برداشت کرتے ہیں؛ ناچار یہ ڈائجسٹ بند ہوا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شکیل عادل زادہ کا سب رنگ ڈائجسٹ کیوں بند ہوا؟ اس میں کسی حد تک جنرل ضیاء الحق کا بھی ہاتھ تھا۔ بقول حامد میر:
یہ ماضی کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں آپ کو آج کے پاکستان کے سب رنگ ملیں گے ۔یہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا دور تھا ۔ اسلام آباد میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای ) کا سالانہ اجلاس تھا جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق تھے۔صدر صاحب کی طویل تقریر کے بعد ڈنر تھا لیکن ڈنر سے قبل سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل انور خلیل نے پاکستان بھر سے آئے ہوئے ایڈیٹرز کا صدر سے تعارف کرایا ۔جب وہ میر خلیل الرحمٰن صاحب کے پاس پہنچے تو تعارف کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ صدر صاحب انہیں پہلے سے جانتے تھے ۔ان سے مل کر صدر صاحب آگے بڑھے تو انور خلیل نے تعارف کرایا ’’یہ ہیں شکیل عادل زادہ، سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر اور مالک‘‘۔

صدر صاحب مسکرائے اور آگے بڑھ گئے لیکن پھر یک دم انہیں کچھ یاد آیا اور پلٹ کر انور خلیل سے پوچھا کہاں ہیں سب رنگ کے مدیر؟ سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل نے میر خلیل الرحمٰن کے پہلو میں کھڑے شکیل عادل زادہ کی طرف اشارہ کیا تو جنرل ضیاءالحق نے بہت غور سے انہیں دیکھا۔سرہلا کر ایک لمبا سا ’’ہوں‘‘ کہا اور پھر مسکراتے ہوئے ایک بھرپور مصافحہ کیا جس پر دائیں بائیں کھڑے کئی مدیران حیران رہ گئے ۔جنرل ضیاء الحق نے شکیل عادل زادہ سے کہا ’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی ‘‘۔جب صدر صاحب آگے بڑھ گئے تو میر خلیل الرحمٰن نے ستائشی انداز میں شکیل عادل زادہ سے کہا واہ شکیل میاں ! آپ تو چھپے رستم نکلے۔فوجی صدر کے پلٹنے اور دوبارہ مصافحہ کرنے پر کسی نے سمجھا کہ صدر صاحب بھی سب رنگ ڈائجسٹ کے قاری ہیں، کسی کا خیال تھا کہ صدر صاحب نہیں بلکہ ان کی بیگم صاحبہ غلام روحیں، امربیل اور بازی گر جیسی سلسلے وار کہانیوں کی اسیر ہونگی اور خود شکیل عادل زادہ بھی حیران تھے۔

صدر صاحب کی توجہ اور مسکراہٹ سے ’’بازی گر‘‘ کے خالق کو یہ احساس ہوا کہ حکمران وقت اگر ان کا گرویدہ نہیں تو کم از کم ان کے بارے میں نیک جذبات ضرور رکھتا ہے ۔اگر جنرل ضیاءالحق کو پتہ ہوتا کہ امرتا پریتم، گلزار، قرۃالعین حیدر، عصمت چغتائی، ابن انشاء، احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد سے لیکر نصیر ترابی تک برصغیر پاک وہند کے درجنوں ادیب اور شاعر شکیل عادل زادہ کے گرویدہ ہیں تو وہ انہیں گلے بھی لگاتے لیکن اگلی ہی شام شکیل عادل زادہ آرمی ہائوس راولپنڈی میں جنرل ضیاء الحق کے سامنے بیٹھے تھے ۔ہوا یوں کہ شکیل عادل زادہ نے کافی عرصہ سے خواتین کے ایک پرچے کیلئے ڈکلیئریشن کی درخواست دے رکھی تھی لیکن انہیں ڈکلیئریشن نہیں مل رہا تھا ۔جس رات جنرل ضیاء الحق نے پلٹ کر ان کے ساتھ مصافحہ کیا اسی رات انہیں پتہ چلا کہ کل انور خلیل نے دوپہر میں صدر کو ملنا ہے ۔انہوں نے انور خلیل سے کہا کہ آپ صدر صاحب سے ملنے جائیں تو براہ کرم میرے ڈکلیئریشن کی بات بھی کر دیجئے گا۔
۔۔۔
ڈکلریشن تو نہ ملا، پابندیاں لگ گئیں۔ مزید تفصیل یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اور یہ الفاظ جہاں سے نقل کیے گئے ہیں، وہاں پہنچ کر میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ لکھنے والے کا نام رؤوف کلاسرا ہے یا پھر رضی الدین رضی؟
شکیل عادل زادہ اس نسل سے ہیں‘ جس نے پنجاب کے دیہاتیوں کی ہمارے جیسی پہلی نسلوں کو لٹریچر اور کہانی کی طرف متوجہ کیا‘ جن کے والدین کبھی سکول نہیں گئے تھے۔ کراچی کے ادیبوں‘ شاعروں اور رسالوں کا پنجاب میں شعور پھیلانے میں اہم کردار ہے۔ کراچی میں شکیل عادل زادہ‘ معراج رسول‘ اقبال پاریکھ اور محمود احمد مودی جیسے لوگ اور لکھاری نہ ہوتے تو پنجاب کے دیہاتوں میں ہم جیسے شکاری‘ موت کے سوداگر‘ گمراہ‘ دیوتا‘ غلام روحیں‘ انکا‘ اقابلا‘ جانگلوس یا بازیگر جیسی تحریروں سے محروم رہتے۔ اب انہی شکیل عادل زادہ کا ایک لائن میںگلہ پہنچا ہے‘ جس نے ایک تیز نوکیلے خنجر جیسا کام دکھایا ہے۔ وہی شکیل عادل زادہ جن کے استاد بٹھل اور بابر زمان کی کہانیوں کا گائوں کی تیز دوپہروں میں تین تین سال انتظار کرتے تھے۔ ہم انسان بھی کتنا جلدی رنگ بدل جاتے ہیں۔ یہ بے وفائی ہماری جبلت میں کیوں ہے؟ پہلی دفعہ احساس ہوا شاید میں بھی خود غرض ہوں۔ سنا تھا معشوق دھوکہ دیتے ہیں لیکن یہاں تو مجھ جیسا شکیل عادل زادہ کا ایک عاشق دن دیہاڑے انہیں دھوکہ دے آیا تھا۔ خود پر شدید غصہ ہے اور شرمندگی بھی!
۔۔۔ مزید تفصیل یہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے، اور مجھے بتایا بھی جاسکتا ہے کہ لکھنے والے کی کیا شناخت ہوگی؟
 

محمداحمد

لائبریرین
اور یہ الفاظ جہاں سے نقل کیے گئے ہیں، وہاں پہنچ کر میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ لکھنے والے کا نام رؤوف کلاسرا ہے یا پھر رضی الدین رضی؟

غالباتحریر رؤوف کلاسرا کی ہے ۔ پوسٹ اسے رضی الدین صاحب نے کیا ہے۔ کیونکہ باقی تمام تحریروں پر بھی یہی تھیم نظر آ رہی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
محمد خرم یاسین !
کیا اردو کے تحقیق نگاروں نے تقسیمِ ہند پہ لکھے گئے افسانوں/ناولوں کے صرف اسی پہلو پہ تحقیق کی ہے؟
ابھی کچھ عرصہ پہلے میں نے تارڑ کا "خس و خاشاک زمانے" پڑھا۔ پھر "چک پیراں کا جسّا" پڑھا تو یہ بات سوچی کہ ہندوستان اور پاکستان کے بہت سے مصنفین نے اس موضوع پہ ناولز اور افسانے لکھے ہیں۔ سب نہ سہی ایک مخصوص تعداد میں ایسے افسانے اور ناول جمع کیے جائیں اور سب کا جائزہ لیا جائے تو زبردست مواد مل سکتا ہے۔
آپس میں تقابل بھی کیا جا سکتا ہے۔کہانی کے ساتھ مصنفین کا تقابل بھی ہو سکتا ہے۔ کس کی تحریر کیا اثرات کرتی ہے۔ وغیرہ
 

جاسمن

لائبریرین
اس کے علاؤہ کافی عرصے سے میرے ذہن میں تھا کہ سماجی مسائل کو اجاگر کرنے والے ناولز کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ مصنفین نے انھیں کیسے اجاگر کیا ہے اور کیا ان کا حل بھی نکالا ہے؟
 
ریڈیو کے صداکاروں کے معاوضے پہلے سے بڑھے ہیں لیکن وفاق کے بڑھے بھی ہیں اور انھیں پروگرام بھی زیادہ مل رہے ہیں ۔۔۔ پنجاب کے بڑھے تو ہیں لیکن پروگرام کم مل رہے ہیں۔
یہ "زیادتی" بھی کم ہی ہے۔ :)
میں نے ریڈیو پاکستان پر ڈیڈھ سال کے قریب کام کیا اور فی پروگرام مجھے دو سو پچاس روپے ملے۔ میرے پاس دو پروگرام تھے :ہم نوجوان اور دبستان۔
دبستان خاص ادبی پروگرام تھا جس کے لیے ادبی موضوعات پر بول سکنے والے مہمانوں کی تلاش، موضوعات کی تیاری اور بہت کچھ شامل تھا۔ دورانِ گفتگومیر ی پروڈیوسر کئی بار ٹوکتی بھی تھی اور پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے سٹوڈیو کے فارغ ہونے کا انتظار الگ سے مصیبت تھا۔ سب سے بڑھ کر مصیبت یہ کہ پروگرام محض سرکاری وقت یعنی 8 بجے سے 3-4 تک ہی ریکارڈ ہوسکتا تھا۔ اتنی محنت کے بعد 250 روپے کی رقم ، محض ایک مذاق تھی۔ میری آواز کو اگلے گریڈ میں ترقی دی گئی تھی لیکن اس سے بھی ادا کی جانے والی فیس میں بیس تیس روپے ہی کا فرق پڑا تھا۔
 
محمد خرم یاسین !
کیا اردو کے تحقیق نگاروں نے تقسیمِ ہند پہ لکھے گئے افسانوں/ناولوں کے صرف اسی پہلو پہ تحقیق کی ہے؟
ابھی کچھ عرصہ پہلے میں نے تارڑ کا "خس و خاشاک زمانے" پڑھا۔ پھر "چک پیراں کا جسّا" پڑھا تو یہ بات سوچی کہ ہندوستان اور پاکستان کے بہت سے مصنفین نے اس موضوع پہ ناولز اور افسانے لکھے ہیں۔ سب نہ سہی ایک مخصوص تعداد میں ایسے افسانے اور ناول جمع کیے جائیں اور سب کا جائزہ لیا جائے تو زبردست مواد مل سکتا ہے۔
آپس میں تقابل بھی کیا جا سکتا ہے۔کہانی کے ساتھ مصنفین کا تقابل بھی ہو سکتا ہے۔ کس کی تحریر کیا اثرات کرتی ہے۔ وغیرہ
السلام علیکم!
مجھے معلوم نہیں آپ نے کس پہلو پر تحقیق کے حوالے سے استفسار کیا ہے۔ اگر میرے گزشتہ دو موضوعات یعنی
نمبر دار کا نیلا: مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ
اور

"تنہائی کے سو سال "عالمی نو آبادیات و استعمارکے تناظر میں​

کے حوالے سے نوآبادیاتی مطالعات کے ضمن میں دریافت کیا گیا ہے تو عرض یہ کہ ہر گز نہیں۔ یہ تو محض ایک زاویہ ہے یا ایک عدسہ کہیے جس کے تحت میں نے ان دو ناولوں کا مطالعہ کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ کہ ان دونوں میں غالب رجحان نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات کے مسائل کا ہے۔ اسے عصرِ حاضر کے سب سے بڑے مسائل کے ضمن میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر تحقیق اور تنقید کے جتنے عدسے ہیں، ان سبھی کے تحت تحقیق و تنقید کی جارہی ہے۔ میرے شاید چھبیس تحقیقی مضامین چھپ چکے ہیں، ان میں سے بیشتر کے زاویے مختلف ہیں۔
 
محمد خرم یاسین !
کیا اردو کے تحقیق نگاروں نے تقسیمِ ہند پہ لکھے گئے افسانوں/ناولوں کے صرف اسی پہلو پہ تحقیق کی ہے؟
ابھی کچھ عرصہ پہلے میں نے تارڑ کا "خس و خاشاک زمانے" پڑھا۔ پھر "چک پیراں کا جسّا" پڑھا تو یہ بات سوچی کہ ہندوستان اور پاکستان کے بہت سے مصنفین نے اس موضوع پہ ناولز اور افسانے لکھے ہیں۔ سب نہ سہی ایک مخصوص تعداد میں ایسے افسانے اور ناول جمع کیے جائیں اور سب کا جائزہ لیا جائے تو زبردست مواد مل سکتا ہے۔
آپس میں تقابل بھی کیا جا سکتا ہے۔کہانی کے ساتھ مصنفین کا تقابل بھی ہو سکتا ہے۔ کس کی تحریر کیا اثرات کرتی ہے۔ وغیرہ
ایک بات یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اردو تحقیق میں معیاری تحقیق ، مقداری تحقیق کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابرہے۔ اسی لیے قارئین پر تحریر کے اثرات کا اندازہ لگانا یا تحقیق کرنا ، کارِ ندارد ہے۔ البتہ موازنہ تو بہت زیادہ تحقیقات کا حصہ رہا ہے۔ میں نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں اس تکنیک کا بہت استعمال کیا ہے۔ آپ جامعات سے نکلنے والے تحقیقی رسائل جن میں زبان و ادب، الماس، تحقیقی جریدہ، دریافت، بازیافت وغیرہ شامل ہیں، ان کا مطالعہ فرمائیے، آپ کو جدید و قدیم دونوں موضوعات پر تجزیہ، موازنہ ایسی بہت سے تکنیکوں کے تحت تحقیقی مضامین ملیں گے۔ میں بھی اولاً مضامین وہیں شایع کرواتا ہوں، پھر کہیں اور اس کا اشتراک کرتا ہوں۔
 
صھیح یا غلط مگر ہماری ادبی تاریخ میں ڈائجسٹ کے ادیب اور فلمی شاعر ہمیشہ ایک درجہ کم تر ہی سمجھے جاتے رہے ہیں - یہ شائد ہمارے کلچر کا حصہ ہے
ادب کے ساتھ کسی بھی کاروباری سرگرمی (شو بز ) کو ہم ادب سے بے ادبی سمجھتے ہیں-
آپ کی بات جزوی طورپر درست ہے ، اگر اس المیے کی جڑ تلاش نہ کی جائے تو۔ اس عمل کی بنیاد کی تلاش میں ہمارے سامنے در ج ذیل سوالات ہوں گے:
آپ کتنے گیتوں کو معیاری قرار دے سکتے ہیں؟یا یوں کہیے کہ فلمی گیتوں میں لگے بندھے مضامین کی دہرائی کے سوا کیا ہے ؟اس کے موازنے میں غزلیات سامنے رکھیے اور دیکھیے کہ مضمون آفرینی اور خیالات میں کیسی جدت ہے۔توتو تو تو تو تارا۔ توڑو نہ دل ہمارا، لکھنے والے شعرا کو مشاعروں میں نہیں بلایا جاتا، جائیں بھی تو عزت و تکریم نہیں ہوتی۔ قصور شاعر کا نہیں، اس گیت کا ہے جو آواز ، موسیقی اور خوبصورت ہیرو ہیروئنوں اور ان کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے مقبول عام تو ہوجاتا ہے لیکن شاعری میں جگہ نہیں بنا پاتا۔۔۔ میں نے اردو کی تین سو فلموں کے گیتوں کی تدوین کا پراجیکٹ شروع کیا تھا، فنڈنگ اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے اس کا م کو ترک کردیا۔ اس میں موضوعاتی تبدیلیوں پر تحقیق ہی میرا موضوع تھا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی مضائقہ نہیں کہ اکثر موضوعات دہرائے گئے تھے، غیر ضرور جذباتیت، جسے بنا موسیقی سنا جائے تو شعر پڑھنے کو بھی دل نہیں کرتا اور ایسے دیگر مسائل مثلاً عصرِ حاضر اور ہر عمر کے لوگوں کے معیار کو چھوڑ کر محض چھچھور پنے کی عمر کو ہدف بنا کر ، غیر ضروری جذباتیت اور نیم فحش مناظر سے گیت کی عکس بندی کی گئی تھی۔ ایسے میں ایسے شعرا یا ایسے ادب کو کیوں کر ادبِ عالیہ کا حصہ بنایاجاسکتا ہے ؟
دوسری جانب نثر کی بات کی جائے تو ایک اچھا ناول لکھتے ہوئے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ اردو کے بہترین ناول نگار بھی اپنی زندگی میں شاید ہی دس ناول دے سکے ہوں۔قرۃ العین حیدر سے سید محمد اشرف تک دیکھ لیجیے۔ جب کہ ڈائجسٹ کے ایسے ناول نگار جنھوں نے ہزاروں صفحات مہیا کیے، قابلِ ستائش تو ہیں لیکن ادبِ عالیہ کے معیا رپر پرکھا جائے تو ان کے ہاں بھی کہانی کو آگے بڑھانے کےلیے غیر ضروری تجسس، پلاٹ کی وسیع سےوسیع تر شکل اور اگلی قسط کے دباؤ کے تحت کہیں مسخرے کردار اور کہیں خالص فکشن کردار جو بہ یک وقت تمام سائنس دان ، فلاسفر اور بہت کچھ ہیں، مل جاتے ہیں۔ لکھاری ، لکھاری ہی ہوتا ہے، ہمیں ڈائجسٹ اور دیگر تحاریر میں موضوع، معیار، کردار، پلاٹ وغیرہ کی بنیاد پر فرق کرنا چاہیے۔ اگرایک شخص ڈائجسٹ میں بہترین کہانی پیش کر رہا ہے، جسے اقساط سے ہٹ کر بھی پڑھاجائے اور اس کا بنیادی تصور یا تسلسل بہترین رہے تو یقینا وہ ایک عمدہ ناول ہوگالیکن اگر اس میں فرق پیدا ہوجائے تو ہمیں سوچنا پڑتا ہے کہ اسے ادب عالیہ میں شامل کیا جائے یا نہیں ؟اسی تقسیم کی بنیاد پر ڈائجسٹ رائٹرز کو عزت نہیں مل پاتی ۔ البتہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ڈائجسٹ میں پاپولر فکشن لکھنے کے باوجود، خود کو ادب عالیہ کا لکھاری منوانے میں بھی کامیاب ہوئے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
یہ کس قسم کا ناول ہے؟
دیہی پس منظر میں لکھا گیا ناول ہے۔ یہ ایک علامتی کہانی ہے جس میں نیل گائے کے بچھڑے کو سب سے بنیادی کردار کے طور پہ پیش کیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں کی ظالم سیاست ، سفاکی اور گاؤں کے عام لوگوں کا جبر کے سامنے سرنگوں ہونا موضوع ہے۔
اس ناول کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔
اپنی طرز کا واحد ناول ہے۔ میں نے اس طرح کا ناول ابھی تک نہیں پڑھا۔ مجھے بھی بہت پسند آیا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دیہی پس منظر میں لکھا گیا ناول ہے۔ یہ ایک علامتی کہانی ہے جس میں نیل گائے کے بچھڑے کو سب سے بنیادی کردار کے طور پہ پیش کیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں کی ظالم سیاست ، سفاکی اور گاؤں کے عام لوگوں کا جبر کے سامنے سرنگوں ہونا موضوع ہے۔
اس ناول کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔
اپنی طرز کا واحد ناول ہے۔ میں نے اس طرح کا ناول ابھی تک نہیں پڑھا۔ مجھے بھی بہت پسند آیا ہے۔

بہت شکریہ تفصیل بتانے کا۔

ویسے میں نے سوال تو کسی اور لڑی میں کیا تھا۔ :)
 

شہزاد وحید

محفلین
بات کہانیوں کرداروں اور مصنفین کی ہورہی ہے تو ایم اےراحت کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ان کے نروان کی تلاش ، صدیوں کا بیٹا، طالوت، پائل اور دیگر بیشتر میرے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ دور کی یادیں ہیں۔ سب رنگ ڈائجسٹ اور عمران ڈائجسٹ کا تو میں باقاعدہ کلیکٹر تھا۔
 
جاسمن صاحبہ آپ کے نام کے آگے لائبریرن لکھا ہے اس لیئے آپ سے ہی پوچھ لیتا ہوں کہ مجھے ایک میسج اس سائٹ نے دیا کہ آپ کو ایک ٹرافی ملی ہے
جسکا نام ہے : نہ رکنے والا : سمجھ نہیں آیا کہ یہ میرا مذاق اڑا یا جارہا ہے یا تعریف کی جا رہی ہے -
کیا میں سائٹ پہ اِدھر اُدھر کچھ لکھنے سے باز آجاؤں؟
بہت اعلی ۔۔۔
 
Top