کشمیر کے پس منظر پر کہی گئی نظم
"سدا اِک رت نہیں رہتی"
پرندے جاگ اٹھے ہیں
انہیں اب جال میں بے آب و دانہ ،
اِس طرح پابند کرنے کا ارادہ ترک کو ڈالو
انہیں بھی چاہیے آزاد سی کچھ سرمئی شامیں،
انہیں اجلے سویرے ، رت بہاروں کی بلاتی ہے
انہیں بھی کچے آنگن کی وہ مٹی یاد آتی ہے
انہیں خوشبو بھرے سندیسے بھاتے ہیں گلابوں کے
انہیں بھی یاد آتے ہیں حوالے کچھ کتابوں کے
پرندے جاگ اٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو اِن کے آشیاں تھے سبز پیڑوں پر ،
سسکتے بین کرتے ہیں
بہت بے چین کرتے ہیں
جو تتلی کے پروں سے بڑھ نازک خواب تھے ان کے ،
وہ انگاروں میں جلتے ہیں
وہ سب شعلوں میں پلتے ہیں
مگر اب ان کی بیداری کا موسم ہے
کہ یہ جو سرخ آندھی ہے ،
فقط اِک ریت کی گرتی ہوئی دیوار جیسی ہے
ہمیشہ ہجر کی زنجیر پیروں میں نہیں بجتی
ہمیشہ وصل کی تحریر آنکھوں میں نہیں جلتی
ہمیشہ پھولوں سے آکر ہوا خوشبو نہیں کہتی
سدا اِک رت نہیں رہتی
نہیں رہتی ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں رہتی
"سدا اِک رت نہیں رہتی"
پرندے جاگ اٹھے ہیں
انہیں اب جال میں بے آب و دانہ ،
اِس طرح پابند کرنے کا ارادہ ترک کو ڈالو
انہیں بھی چاہیے آزاد سی کچھ سرمئی شامیں،
انہیں اجلے سویرے ، رت بہاروں کی بلاتی ہے
انہیں بھی کچے آنگن کی وہ مٹی یاد آتی ہے
انہیں خوشبو بھرے سندیسے بھاتے ہیں گلابوں کے
انہیں بھی یاد آتے ہیں حوالے کچھ کتابوں کے
پرندے جاگ اٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو اِن کے آشیاں تھے سبز پیڑوں پر ،
سسکتے بین کرتے ہیں
بہت بے چین کرتے ہیں
جو تتلی کے پروں سے بڑھ نازک خواب تھے ان کے ،
وہ انگاروں میں جلتے ہیں
وہ سب شعلوں میں پلتے ہیں
مگر اب ان کی بیداری کا موسم ہے
کہ یہ جو سرخ آندھی ہے ،
فقط اِک ریت کی گرتی ہوئی دیوار جیسی ہے
ہمیشہ ہجر کی زنجیر پیروں میں نہیں بجتی
ہمیشہ وصل کی تحریر آنکھوں میں نہیں جلتی
ہمیشہ پھولوں سے آکر ہوا خوشبو نہیں کہتی
سدا اِک رت نہیں رہتی
نہیں رہتی ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں رہتی