جناب
تلمیذ نے بات چھیڑی۔ داستان تو میں خیر یہاں نہیں سنانے جا رہا، اگرچہ ہیں بہت اور مجھ پر بھی بیت چکی ہیں۔
پطرس بخاری کے لاہور میں چار طرح کے طلبا ہوتے ہیں یا ہوتے تھے، ہمارے ہاں نوعیت کے اعتبار سے تین طرح کے ڈاکٹر میدان میں ہیں۔
ایک تو وہی جنہیں عرفِ عام میں ڈاکٹر کہتے ہیں؛ انگریزی طریقہ علاج والے۔ میرا اندازہ یہ ہے اس طریقہ میں مریض کے مزاج، عادات، خوراک، طرزِ زندگی سب کچھ کو چھوڑ چھاڑ کر ایک بات سامنے رکھ لی جاتی ہے کہ علامات یہ ہیں تو اس کی دوا فلاں ہے۔ اس کے ضمنی اثرات فلاں فلاں ہیں سو اس کو روکنے کے لئے فلاں فلاں دوائی شامل کر دیجئے۔ مریض کا معائنہ اول تو ہوتا ہی نہیں اگر ہوتا ہے تو کچھ مشینوں پر اور وہ بھی مشینی انداز میں: فشارِ خون اتنا، نبض اتنی، جسم کا درجہ حرارت اتنا، عمر اتنی؛ قد، وزن وغیرہ بھی کبھی کبھار ریکارڈ پر لےآتے ہیں۔ مریض سے پوچھا: ہاں جی، کیا ہے؟ گلا خراب ہے؟ کھانسی ہے؟ بخار ہے؟ درد کہاں ہے، کب سے ہے؟ اوکے۔ دوائیاں لکھ دیں اللہ اللہ خیر سلا۔ ایک بات لازماً لکھی جاتی ہے: اتنے دن بعد پھر دکھائیں۔ خوراک اور پرہیز یا ورزش وغیرہ کا تذکرہ بس چند ایک امراض میں ہوتا ہے ذیابیطس، امراضَ قلب، وغیرہ ۔ باقی کے معاملے میں نہ کچھ پوچھا جاتا ہے نہ بتایا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں ڈاکٹر کے تین سے پانچ منٹ لگتے ہیں؛ اب فیس بھی بتانی ہو گی کیا؟ وہ جو تھیلا بھر دوائیاں لکھی ہیں ان پر بھی کچھ نہ کچھ تو خرچہ اٹھتا ہی ہے نا! ۔۔۔ خیر! کہہ لیجئے کہ میاں بیمار پڑنا ہے تو خرچہ تو ہوگا۔
آگے چلئے، دوائی لی پرہیز کیا ہفتہ عشرہ گزر گیا، پھر ڈاکٹر صاحب کے حضور حاضری دی: جی، آرام نہیں آیا؟ یہ تین یا چار دوائیاں اور شامل کر لیجئے۔سائیڈ ایفیکٹ میں بھی اضافہ، اور جیب کا تو خیر مذکور ہی کیا۔ پورے ہسپتال والوں کے لئے تیل کا کنواں نکل آیا، مریض کا تیل ویسے بھی بہت کشش رکھتا ہے۔ ہوتے ہوتے اگر کیس بگڑ گیا تو اپنے سے بڑے ڈاکٹر کو بھیج دیا۔ وہ بڑے صاحب، انہوں نے پوری فائل کی ورق گردانی ضرور کی، پڑھا یا نہیں پڑھا یہ وہی جانیں۔ مریض سے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ سب کچھ تو فائل میں موجود ہے! مزاج کی بات ہے، یا تو کہہ دیا کہ یہی دوائیاں جاری رکھیں یا پھر کچھ ادل بدل کر دیا اور اپنے پیڈ کا ایک ورق مریض کو تھما دیا کہ جائیے صاحب، عیش کیجئے۔ آپ نہیں عیش کرتے نہ کیجئے، ہم تو کریں گے! فیس؟ وہ پہلے والے ڈاکٹر کی فیس کو دو سے، پانچ سے یا دس سے ضرب دی دیتے ہیں کہ زمانہ بائنری، پینٹل اور ڈیسیمل سسٹم ہے۔ الحذر! کہ اب تو ہیکساڈیسیمل سے بھی بات آگے نکل چکی۔
مریض کی اپنی صحت تو جو رہی سو رہی وہ بےچارہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہتا ہے کہ دوائیاں خریدنے کے بعد اس ماہ کا پانی بجلی گیس کا بل کیسے ادا ہو گا؟ بچوں کے سکول کالج کی فیس کیسے دی جا سکے گی؟ اور کچھ نہ سہی کچن تو چلانا ہی ہے، کہ کھانا مجبوری ہے؛ اکیلا دودھ والا ہی کیا کم ہےجو سو روپے لیٹر کے حساب سے سیونٹی تھرٹی دودھ فراہم کرتا ہے۔
مزید جسارتیں پھر سہی۔
محمد خلیل الرحمٰن صاحب