کیا آپ اپنے منہ کی بدبُو سے پریشان ہیں؟ ٪200 کامیاب نسخہ!

عمر سیف

محفلین
یہ دوائیں آہستہ آہستہ مگر دیر پا اثر کرتی ہیں
ان کے کوئی بھی سائڈ ایفکٹ نہیں ہوتے
ایلوپیتھک کو ترجیح اس لیئے دی جاتی ہے کیونکہ فوری طور پر اثر دکھاتی ہیں
اسی لیئے مشہور بھی ہیں، اور عوام کا عتماد بھی حاصل ہے
جبکہ ان کے سائڈ ایفیکٹس بہت زیادہ ہیں اور ان کے اثرات جلد ہی ختم بھی ہو جاتے ہیں۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں ۔۔ ایسا ہی ہے ۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
عنوان کے مطابق میرے پاس کچھ زیادہ نہیں ہے کہنے کو
مگر اتنا کہ جانتی ہوں کہ ایک عام انسان (شوگر، بلڈ پریشر اور ایسی باقی بیماریوں سے بچا ہوا شخص) اگر روزانہ صبح کھانے کے بعد اور رات کو سونے سے پہلے دانت صاف کرے اور پانی پیئے تو منہ سے بدبو نہیں آئے گی۔ صبح نہار منہ اگر کم از کم بھی ایک گلاس پانی پینا عادت بنا لی جائے تو یہ بہت مفید ہے۔ اگر ٹوتھ برش کی جگہ مسواک استعمال کی جائے (جو کہ سنت بھی ہے) تو اس سے نہ صرف منہ کی بدبو ختم ہوتی ہے بلکہ ہاضمہ بھی ٹھیک رہتا ہے۔ دن میں زیادہ سے زیادہ پانی پینا بھی ایک حل ہے :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
عمر سیف بھائی والد صاحب کی بیماری شائد اس سٹیج پر نہ ہو کہ ہومیو پیتھک دوائیں اپنا اثر دکھا سکتیں کیونکہ ان کو بھی ایک مخصوص وقت درکار ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں ایلوپیتھک ہی بہتر رہتی ہی۔
 

تلمیذ

لائبریرین
دیسی اور ولائتی دوائیوں کو ملا کر دینے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا ، اور شاید آخری بھی!

بات سے بات نکلتی ہے، مجھے احساس ہے کہ شاید میں موضوع سے دور ہورہا ہوں لیکن چونکہ ڈاکٹروں کی بات چھڑ گئی ہے اس لئے عرض ہے کہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں دیسی اور ولائٹی دواؤں کو ملا کر دینے کی افادیت تو چلو ہوگی ہی لیکن تجربے میں آیا ہے کہ یہ لوگ کسی مرض کے لئے ایک ہی قسم کی (مثلاً اینٹی بائیوٹیکس ) ایک سے زائد ایلو پیتھک دوائیں بیک وقت تجویز کر دیتے ہیں۔ جن مین سے کسی ایک کے (یاسب کے) مؤثر ہو نے پر فوری افاقے کی صورت میں داکٹر کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔ مزا تو تب ہے کہ تشخیص درست ہو اور نسخہ کم دواؤں پر مشتمل اور تیر بہدف ہو۔ اورتشخیص کے بھی کیا کہنے۔ سینکڑوں روپے مالیت کے لیبارٹری ٹیسٹوں کے بغیر یہ ایک قدم آگے نہیں بڑھتے۔ اگلے وقتوں کی طرح خود سے تشخیص کرنے والے طبیب توبہت کمیاب ہو گئے ہیں۔ موجودہ ڈاکٹر برادری کی دولت کی ہوس کے بارے میں داستانیں لکھی جا سکتی ہیں۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
بات سے بات نکلتی ہے، مجھے احساس ہے کہ شاید میں موضوع سے دور ہورہا ہوں لیکن چونکہ ڈاکٹروں کی بات چھڑ گئی ہے اس لئے عرض ہے کہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں دیسی اور ولائٹی دواؤں کو ملا کر دینے کی افادیت تو چلو ہوگی ہی لیکن تجربے میں آیا ہے کہ یہ لوگ کسی مرض کے لئے ایک ہی قسم کی (مثلاً اینٹی بائیوٹیکس ) ایک سے زائد ایلو پیتھک دوائیں بیک وقت تجویز کر دیتے ہیں۔ جن مین سے کسی ایک کے (یاسب کے) مؤثر ہو نے پر فوری افاقے کی صورت میں داکٹر کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔ مزا تو تب ہے کہ تشخیص درست ہو اور نسخہ کم دواؤں پر مشتمل اور تیر بہدف ہو۔ اورتشخیص کے بھی کیا کہنے۔ سینکڑوں روپے مالیت کے لیبارٹری ٹیسٹوں کے بغیر یہ ایک قدم آگے نہیں بڑھتے۔ اگلے وقتوں کی طرح خود سے تشخیص کرنے والے طبیب توبہت کمیاب ہو گئے ہیں۔ موجودہ ڈاکٹر برادری کی دولت کی ہوس کے بارے میں داستانیں لکھی جا سکتی ہیں۔
آجکل ایم بی بی ایس ڈگری ہولڈرز کی تعداد ڈاکٹروں کی نسبت زیادہ ہے۔
ہمارے اس پیشے سے وابستہ لوگوں نے اپنے ہاتھ میں شفا پانے کی جدوجہد ہی چھوڑ دی ہے۔
 

عمر سیف

محفلین
عمر سیف بھائی والد صاحب کی بیماری شائد اس سٹیج پر نہ ہو کہ ہومیو پیتھک دوائیں اپنا اثر دکھا سکتیں کیونکہ ان کو بھی ایک مخصوص وقت درکار ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں ایلوپیتھک ہی بہتر رہتی ہی۔
والد شروع میں ہومیو اور پھر حکیمی دوا آزماتے رہے ۔۔ پھر ایلوپیتھی کی طرف آئے ۔
 

عمر سیف

محفلین
بات سے بات نکلتی ہے، مجھے احساس ہے کہ شاید میں موضوع سے دور ہورہا ہوں لیکن چونکہ ڈاکٹروں کی بات چھڑ گئی ہے اس لئے عرض ہے کہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں دیسی اور ولائٹی دواؤں کو ملا کر دینے کی افادیت تو چلو ہوگی ہی لیکن تجربے میں آیا ہے کہ یہ لوگ کسی مرض کے لئے ایک ہی قسم کی (مثلاً اینٹی بائیوٹیکس ) ایک سے زائد ایلو پیتھک دوائیں بیک وقت تجویز کر دیتے ہیں۔ جن مین سے کسی ایک کے (یاسب کے) مؤثر ہو نے پر فوری افاقے کی صورت میں داکٹر کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔ مزا تو تب ہے کہ تشخیص درست ہو اور نسخہ کم دواؤں پر مشتمل اور تیر بہدف ہو۔ اورتشخیص کے بھی کیا کہنے۔ سینکڑوں روپے مالیت کے لیبارٹری ٹیسٹوں کے بغیر یہ ایک قدم آگے نہیں بڑھتے۔ اگلے وقتوں کی طرح خود سے تشخیص کرنے والے طبیب توبہت کمیاب ہو گئے ہیں۔ موجودہ ڈاکٹر برادری کی دولت کی ہوس کے بارے میں داستانیں لکھی جا سکتی ہیں۔
جی ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔ ایک دوا کا سائیڈ افیکٹ ختم کرنے کے لیے دوسری دوا تجویز کر دی جاتی ہے ۔۔ میرے والد آخر ٹائم تک 10 گولیاں کھایا کرتے تھے اور ڈائلاسس الگ سے ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
عنوان کے مطابق میرے پاس کچھ زیادہ نہیں ہے کہنے کو
مگر اتنا کہ جانتی ہوں کہ ایک عام انسان (شوگر، بلڈ پریشر اور ایسی باقی بیماریوں سے بچا ہوا شخص) اگر روزانہ صبح کھانے کے بعد اور رات کو سونے سے پہلے دانت صاف کرے اور پانی پیئے تو منہ سے بدبو نہیں آئے گی۔ صبح نہار منہ اگر کم از کم بھی ایک گلاس پانی پینا عادت بنا لی جائے تو یہ بہت مفید ہے۔ اگر ٹوتھ برش کی جگہ مسواک استعمال کی جائے (جو کہ سنت بھی ہے) تو اس سے نہ صرف منہ کی بدبو ختم ہوتی ہے بلکہ ہاضمہ بھی ٹھیک رہتا ہے۔ دن میں زیادہ سے زیادہ پانی پینا بھی ایک حل ہے :)
بہت اعلٰی
 

ماہی احمد

لائبریرین
جی ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔ ایک دوا کا سائیڈ افیکٹ ختم کرنے کے لیے دوسری دوا تجویز کر دی جاتی ہے ۔۔ میرے والد آخر ٹائم تک 10 گولیاں کھایا کرتے تھے اور ڈائلاسس الگ سے ۔۔۔
عمر بھائی کچھ ڈوریاں صرف اللہ کے ہاتھ میں بھی ہوتی ہیں
اگر نوبت ڈائلاسس تک آگئی تھی پھر تو ڈاکٹرز کو موردِ الزام ٹہرانا غلط ہے نا۔
 

عمر سیف

محفلین
عمر بھائی کچھ ڈوریاں صرف اللہ کے ہاتھ میں بھی ہوتی ہیں
اگر نوبت ڈائلاسس تک آگئی تھی پھر تو ڈاکٹرز کو موردِ الزام ٹہرانا غلط ہے نا۔
میں نے ڈاکٹرز پر کبھی الزام نہیں لگایا ۔۔ نہ ایسا کہیں لکھا ۔۔ طریقہ علاج پر بات ضرور کی ۔۔
اور میرا اس پہ کامل ایمان ہے کہ میری اور ہم سب کی جان اس وحدہ لا شریک کے ہاتھ میں ہے۔
میری صرف اتنی دعا ہے کہ اللہ کسی کو محتاجی کی زندگی نہ دے ۔۔ جو اذیت میرے والد نے دیکھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :( بیان نہیں کر سکتا ۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
میں نے ڈاکٹرز پر کبھی الزام نہیں لگایا ۔۔ نہ ایسا کہیں لکھا ۔۔ طریقہ علاج پر بات ضرور کی ۔۔
اور میرا اس پہ کامل ایمان ہے کہ میری اور ہم سب کی جان اس وحدہ لا شریک کے ہاتھ میں ہے۔
میری صرف اتنی دعا ہے کہ اللہ کسی کو محتاجی کی زندگی نہ دے ۔۔ جو اذیت میرے والد نے دیکھی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ :( بیان نہیں کر سکتا ۔۔
متفق۔
 
بات سے بات نکلتی ہے، مجھے احساس ہے کہ شاید میں موضوع سے دور ہورہا ہوں لیکن چونکہ ڈاکٹروں کی بات چھڑ گئی ہے اس لئے عرض ہے کہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں دیسی اور ولائٹی دواؤں کو ملا کر دینے کی افادیت تو چلو ہوگی ہی لیکن تجربے میں آیا ہے کہ یہ لوگ کسی مرض کے لئے ایک ہی قسم کی (مثلاً اینٹی بائیوٹیکس ) ایک سے زائد ایلو پیتھک دوائیں بیک وقت تجویز کر دیتے ہیں۔ جن مین سے کسی ایک کے (یاسب کے) مؤثر ہو نے پر فوری افاقے کی صورت میں داکٹر کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔ مزا تو تب ہے کہ تشخیص درست ہو اور نسخہ کم دواؤں پر مشتمل اور تیر بہدف ہو۔ اورتشخیص کے بھی کیا کہنے۔ سینکڑوں روپے مالیت کے لیبارٹری ٹیسٹوں کے بغیر یہ ایک قدم آگے نہیں بڑھتے۔ اگلے وقتوں کی طرح خود سے تشخیص کرنے والے طبیب توبہت کمیاب ہو گئے ہیں۔ موجودہ ڈاکٹر برادری کی دولت کی ہوس کے بارے میں داستانیں لکھی جا سکتی ہیں۔

ع: اک ذرا چھیڑیئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے
 
جناب تلمیذ نے بات چھیڑی۔ داستان تو میں خیر یہاں نہیں سنانے جا رہا، اگرچہ ہیں بہت اور مجھ پر بھی بیت چکی ہیں۔

پطرس بخاری کے لاہور میں چار طرح کے طلبا ہوتے ہیں یا ہوتے تھے، ہمارے ہاں نوعیت کے اعتبار سے تین طرح کے ڈاکٹر میدان میں ہیں۔

ایک تو وہی جنہیں عرفِ عام میں ڈاکٹر کہتے ہیں؛ انگریزی طریقہ علاج والے۔ میرا اندازہ یہ ہے اس طریقہ میں مریض کے مزاج، عادات، خوراک، طرزِ زندگی سب کچھ کو چھوڑ چھاڑ کر ایک بات سامنے رکھ لی جاتی ہے کہ علامات یہ ہیں تو اس کی دوا فلاں ہے۔ اس کے ضمنی اثرات فلاں فلاں ہیں سو اس کو روکنے کے لئے فلاں فلاں دوائی شامل کر دیجئے۔ مریض کا معائنہ اول تو ہوتا ہی نہیں اگر ہوتا ہے تو کچھ مشینوں پر اور وہ بھی مشینی انداز میں: فشارِ خون اتنا، نبض اتنی، جسم کا درجہ حرارت اتنا، عمر اتنی؛ قد، وزن وغیرہ بھی کبھی کبھار ریکارڈ پر لےآتے ہیں۔ مریض سے پوچھا: ہاں جی، کیا ہے؟ گلا خراب ہے؟ کھانسی ہے؟ بخار ہے؟ درد کہاں ہے، کب سے ہے؟ اوکے۔ دوائیاں لکھ دیں اللہ اللہ خیر سلا۔ ایک بات لازماً لکھی جاتی ہے: اتنے دن بعد پھر دکھائیں۔ خوراک اور پرہیز یا ورزش وغیرہ کا تذکرہ بس چند ایک امراض میں ہوتا ہے ذیابیطس، امراضَ قلب، وغیرہ ۔ باقی کے معاملے میں نہ کچھ پوچھا جاتا ہے نہ بتایا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں ڈاکٹر کے تین سے پانچ منٹ لگتے ہیں؛ اب فیس بھی بتانی ہو گی کیا؟ وہ جو تھیلا بھر دوائیاں لکھی ہیں ان پر بھی کچھ نہ کچھ تو خرچہ اٹھتا ہی ہے نا! ۔۔۔ خیر! کہہ لیجئے کہ میاں بیمار پڑنا ہے تو خرچہ تو ہوگا۔
آگے چلئے، دوائی لی پرہیز کیا ہفتہ عشرہ گزر گیا، پھر ڈاکٹر صاحب کے حضور حاضری دی: جی، آرام نہیں آیا؟ یہ تین یا چار دوائیاں اور شامل کر لیجئے۔سائیڈ ایفیکٹ میں بھی اضافہ، اور جیب کا تو خیر مذکور ہی کیا۔ پورے ہسپتال والوں کے لئے تیل کا کنواں نکل آیا، مریض کا تیل ویسے بھی بہت کشش رکھتا ہے۔ ہوتے ہوتے اگر کیس بگڑ گیا تو اپنے سے بڑے ڈاکٹر کو بھیج دیا۔ وہ بڑے صاحب، انہوں نے پوری فائل کی ورق گردانی ضرور کی، پڑھا یا نہیں پڑھا یہ وہی جانیں۔ مریض سے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ سب کچھ تو فائل میں موجود ہے! مزاج کی بات ہے، یا تو کہہ دیا کہ یہی دوائیاں جاری رکھیں یا پھر کچھ ادل بدل کر دیا اور اپنے پیڈ کا ایک ورق مریض کو تھما دیا کہ جائیے صاحب، عیش کیجئے۔ آپ نہیں عیش کرتے نہ کیجئے، ہم تو کریں گے! فیس؟ وہ پہلے والے ڈاکٹر کی فیس کو دو سے، پانچ سے یا دس سے ضرب دی دیتے ہیں کہ زمانہ بائنری، پینٹل اور ڈیسیمل سسٹم ہے۔ الحذر! کہ اب تو ہیکساڈیسیمل سے بھی بات آگے نکل چکی۔
مریض کی اپنی صحت تو جو رہی سو رہی وہ بےچارہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہتا ہے کہ دوائیاں خریدنے کے بعد اس ماہ کا پانی بجلی گیس کا بل کیسے ادا ہو گا؟ بچوں کے سکول کالج کی فیس کیسے دی جا سکے گی؟ اور کچھ نہ سہی کچن تو چلانا ہی ہے، کہ کھانا مجبوری ہے؛ اکیلا دودھ والا ہی کیا کم ہےجو سو روپے لیٹر کے حساب سے سیونٹی تھرٹی دودھ فراہم کرتا ہے۔

مزید جسارتیں پھر سہی۔

محمد خلیل الرحمٰن صاحب
 
آخری تدوین:
بارے کچھ ذکر جنابِ طبیب کا بھی ہو جائے۔
موصوف سے مل کر ایک بار تو طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے کہ قبلہ گاہی مریض پر توجہ بہت فرماتے ہیں۔ مریض کی نبض پر عملاً بھی اور محاروتاً بھی ایسے انگلی رکھتےہیں کہ اٹھنے کا نام نہیں لیتی۔مریض کی نبض اور قبلہ گاہی جناب طبیب کی لسان المرطوب باہم یکساں رفتار سے رواں دواں رہتی ہیں۔ تغیر دونوں میں مسلسل واقع ہوتا رہتا ہے، احوال اس تغیر کا فی الحال موقوف کہ پہلے تو قبلہ گاہی کو اپنے اجداد اطبا کو معروفِ زمانہ بنانے میں اپنا حقِ فرزندی ادافرمانا ہے اور پھر سلسلہ سوالات کا شروع ہونا ہے۔

قارئین کرام!سوالوں کے اس سلسلے کے لئے تیاری فرما لیجئے، ہم پھر حاضر ہوں گے۔
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
بہت دلچسپ اور دور حاضر کا ایک سلگتا ہوا موضوع چھڑ گیا ہے۔ جس سے ایک یا دوسری صورت میں غالباً سبھی متاثر ہیں۔ جناب آسی صاحب کے مزید فرمودات کا انتظار ہے۔
 
آخری تدوین:
بارے کچھ ذکر جنابِ طبیب کا بھی ہو جائے۔
۔۔
۔۔
قارئین کرام!سوالوں کے اس سلسلے کے لئے تیاری فرما لیجئے، ہم پھر حاضر ہوں گے۔

ہم ٹھہرے سدا کے ناشکرے، ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کچھ نہیں تو گلا، حکیم صاحب کے سوالات کا سوچ کر ہی ہول اٹھنے لگتے ہیں۔ آپس کی بات ہے یہ ہول کچھ ایسے بے جا بھی تو نہیں۔ مرض کے حوالے سے کم از کم ایک اچھی بات ضرور اِن سوالوں میں ہوتی ہے کہ مریض کا مزاج بلغمی ہے یا گرم ہے یا سرد ہے یا خشک ہے یا سوداوی ہے (سودائی نہیں، تاہم کہنے میں ہرج بھی نہیں) تا کہ اس کے مطابق دوائی منتخب کی جا سکے۔ نبض کے بعد زبان کی باری آتی ہے: میاں زبان دکھاؤ (کہیں کالی تو نہیں!)۔ اور! اور! اور! اب حکیم صاحب کو کون بتائے کہ حضرت یہ زبان چند انچ کا ایک غدود ہی تو ہے، وہ اور ہوتی ہیں ’’گز بھر کی زبان والیاں‘‘ اور ہوتی وہ بھی محاوروں میں ہیں۔ اب ’’غاں‘‘ کی آواز نکالئے! ’’غااااں‘‘۔ لمبی آواز نکالئے میاں صاحب زادے! جیسے میاں گاؤ زادے کہا جا رہا ہو۔ ۔۔ یہ مراحل طے ہوئے تو پیٹ کو دبا دبا کے دیکھنے لگے کہ اس زنبیل میں کیا کچھ پنہاں ہو سکتا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اگر حکیم صاحب مستند ہیں اور خود بھی اپنے تیار کردہ نسخوں سے استفادہ کرتے ہیں تو موصوف کا مریض کے پیٹ کو دبانا کسی مستند مشٹنڈے کے گھونسوں سے کم کیا ہو گا! چہ عجب کہ حکیم صاحب کے ہاں دو چار حاضریوں کے بعد مریض خود کو باکسنگ رنگ میں اتارنے پر بھی تیار ہو جائے!
یاد رہے کہ سوالات کا متوازی سلسلہ جاری ہے۔ کب سوتے ہیں، کب اٹھتے ہیں، کھاتے کیا ہیں رفع حاجت کے لئے کے بار جاتے ہیں (اس کے ضمنی سوالوں کا تذکرہ ہمیں محفل سے نکلوا سکتا ہے)،بچپن میں کیا کرتے رہے ہیں، اور جوانی میں؟ اور ۔۔ بیویاں کتنی ہیں، کیا کرتی ہیں، اپنے یا بیویوں کے اب و جد میں یہ عارضہ کس کس کو لاحق رہا ہے، کب رہا ہے اور اس کا انجام کیا رہا ہے یعنی یہ مرض موروثی ہے یا صحروی ہے (سسرالی رشتوں سے) یا، رضاعی ہے (دودھ کے رشتوں سے)۔ نستعلیق حکما کی لغت کو سمجھنا اپنے جیسوں کے بس میں ہوتا تو خود حکیم نہ بنے بیٹھے ہوتے! مولی کا نام بادنجان رکھ دیا،اور دھنیا کا قشنیز ۔ آپ بغلیں جھانکنا چاہیں تو بصد شوق جھانکئے۔ کہ حکیم صاحب اپنے سوالوں کی عینک سے مریض کی پشتوں تک کی تاریخ، جغرافیہ، شہریت، مدنیات بلکہ بد نیات (نون پر شد اختیاری ہے) تک میں جھانک لیتے ہیں۔ یہ بہر طور ماننا پڑے گا کہ اس تانک جھانک کے بعد موصوف اگر واقعی حکیم ہیں تو مرض کی جڑوں تک رسائی پا لیتے ہیں۔

سلامت باشد، یہ سلسلہ تکمیل کو تو خیر نہیں پہنچا تاہم کچھ سوالات حکیم صاحب کے مطب پر آئندہ حاضری تک ملتوی۔
 
آخری تدوین:

قیصر اقبال

محفلین
السلام علیکم !
چہرے پہ چھائی بن جائے تو اس کا آسان اور موثر علاج کیا ہوسکتا ھے ۔پچھلے سال گرمیوں میں اچانک میرے چہرے پہ چھائیاں بن گئی ہیں میں سکن اسپیشلسٹ سے بھی چیک اپ کرایا مگر ان کریموں سے الٹا چھائیاں اور واضح ہوگئی ہیں۔ کیا اس حوالے سے کوئی بھائی مشورہ دے سکتے ہیں کیا؟؟
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ
بہترین نسخہ ہے اس قبل میں نے کئی لوگوں سے سنا پر عمل نہیں کیا،،،
لیکن سونے سے پہلے دانت برش کرکے ماؤت واش الکحل فری سے
غرارے کرلیتا ہو،، اگر صبح اٹھنے پر عجب لگے تو پھر سے وہی عمل
دھراتا ہوں،،
کیونکہ ببواء ماڈرن دور کے باسی ہیں:)
 
Top