عمر سیف
محفلین
ہاہاہا ۔۔ ہن پابی نے ڈر جانا ۔۔
ہاہاہا ۔۔ ہن پابی نے ڈر جانا ۔۔
گھروں گھر ایہوں ای کہانی اے۔۔۔۔۔وچلیاں گلاں بار نئیں کری دیاں ۔۔
نیرنگ بھائی یہ آنیندرے کیا ہوتا ہے ؟؟؟ ہنیرے تو سنا تھاجے کوئی بلورنی ہوندی ہرنی ورگی۔۔۔ تے اسی کہیندے۔۔۔ ۔
نی اک میری اکھ کاشنی
دوجا رات دے آنیندرے نے ماریا
نی شیشے چ تریڑپے گئی
وال واہندی نے دھیان جد ماریا
پر ہن تہانوں چھیڑن دا مل کون پاوے۔۔۔ ۔ ساڈے ولوں تے ناں ای سمجھو۔۔۔
عمر سیف بھائی کو ایسے کہنا مناسب نہیں۔۔۔۔۔تسی بڑے ای مخولیئے او.
یہ بھی پنجابی ہی کے الفاظ ہیں۔۔۔نیرنگ بھائی یہ آنیندرے کیا ہوتا ہے ؟؟؟ ہنیرے تو سنا تھا
میرے کون سے کوئی کام پھنسے ہوئے ہیں، ویلا بیٹھا ہوں۔ آپ شروع ہو جائیں، میں ہمہ تن گوش ہوں۔کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناوں.
میں تو یونیورسٹی میں ہوں نا اور تهوڑی تهوڑی مصروف بهی.میرے کون سے کوئی کام پھنسے ہوئے ہیں، ویلا بیٹھا ہوں۔ آپ شروع ہو جائیں، میں ہمہ تن گوش ہوں۔
چلیں جب یونی سے واپس آئیں تب سہی۔ یہاں کون سی کوئی گاڑی نکلی جا رہی ہے۔میں تو یونیورسٹی میں ہوں نا اور تهوڑی تهوڑی مصروف بهی.
بہت ہی کوئی عاشقانہ دور میں واپس جانے کی خواہش ہے تیری۔۔۔ حالانکہ کرتوت تیرے اب بھی وہی ہیں۔۔۔میں اس وقت میں لوٹنا چاہتا ہوں جہاں اپنی ہم عمر ہم جماعت سے ایک سوال پوچھنے کے لیے گھنٹوں سوچ سوچ کر ہمت بندھانی پڑھتی تھی، جہاں خاندان کی کسی شادی میں شرکت کے دوران اگر پرشوخ لڑکیاں آپ پرکوئی جملہ کسے تو آپ تیز دھڑکنوں کے ساتھ وہاں سے بھاگ لیتے تھے اور ان کی شوخی پر خوشی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ گھنٹوں حیرت زدہ رہتے تھے۔ جہاں بازار میں چلتے چلتے کسی کے ساتھ نگاہیں مل جانے پر آپ ہڑبڑا کر خود ہی آنکھیں جھکا لیتے تھے اور جہاں پہلی محبت کے خمار میں کھوئے کھوئے پورے شہر کی گلیاں گھوم لیتے تھے اور قریب سے گزرتی ہوئی حسینئہ عالم تک کو نظر اٹھا کر نہ دیکھتے تھے۔ جہاں پہلی پہلی محبت میں آپ کے دل و دماغ میں آپ کی محبوب کا سراپا اس کے گھنے بالوں سے شروع ہوکر اس کے چہرے پر ختم ہو جاتا تھا اور آپ کی محبوب آپ کے پسندیدہ لباس میں آپ کے خیالات میں آ کر گھنٹوں آپ سےبس باتیں کیا کرتی تھی۔ جہا ں ہر رات سونے سے پہلے کا بہت سارا وقت آپ نے اس کے لیے وقف کیا ہوتا تھا جس میں آپ ماورائی قوتوں کے مالک بنے کبھی اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے دس دس غنڈوں کو پیٹ رہے ہوتے تھے
میرا خیال ہے ہم سوچ کی پاکیزگی گم کر چکے ہیں جو کہ شائد ہی دوبارہ کبھی ہمارے نصیب میں ہو۔
اب سمجھ آئی کہ شاعری کا انتخاب کیوں کیا گیامیں اس وقت میں لوٹنا چاہتا ہوں جہاں اپنی ہم عمر ہم جماعت سے ایک سوال پوچھنے کے لیے گھنٹوں سوچ سوچ کر ہمت بندھانی پڑھتی تھی، جہاں خاندان کی کسی شادی میں شرکت کے دوران اگر پرشوخ لڑکیاں آپ پرکوئی جملہ کسے تو آپ تیز دھڑکنوں کے ساتھ وہاں سے بھاگ لیتے تھے اور ان کی شوخی پر خوشی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ گھنٹوں حیرت زدہ رہتے تھے۔ جہاں بازار میں چلتے چلتے کسی کے ساتھ نگاہیں مل جانے پر آپ ہڑبڑا کر خود ہی آنکھیں جھکا لیتے تھے اور جہاں پہلی محبت کے خمار میں کھوئے کھوئے پورے شہر کی گلیاں گھوم لیتے تھے اور قریب سے گزرتی ہوئی حسینئہ عالم تک کو نظر اٹھا کر نہ دیکھتے تھے۔ جہاں پہلی پہلی محبت میں آپ کے دل و دماغ میں آپ کی محبوب کا سراپا اس کے گھنے بالوں سے شروع ہوکر اس کے چہرے پر ختم ہو جاتا تھا اور آپ کی محبوب آپ کے پسندیدہ لباس میں آپ کے خیالات میں آ کر گھنٹوں آپ سےبس باتیں کیا کرتی تھی۔ جہا ں ہر رات سونے سے پہلے کا بہت سارا وقت آپ نے اس کے لیے وقف کیا ہوتا تھا جس میں آپ ماورائی قوتوں کے مالک بنے کبھی اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے دس دس غنڈوں کو پیٹ رہے ہوتے تھے
میرا خیال ہے ہم سوچ کی پاکیزگی گم کر چکے ہیں جو کہ شائد ہی دوبارہ کبھی ہمارے نصیب میں ہو۔
شاعری کا انتخاب کیا نہیں، ہو گیااب سمجھ آئی کہ شاعری کا انتخاب کیوں کیا گیا
بالکل جی۔۔۔ اچھا کرتے ہیں۔۔۔ خرافات میں پڑھنا نہ پڑھنے والی بات ہی ہوتی ہے۔۔۔شاعری کا انتخاب کیا نہیں، ہو گیا
ہمارے لڑکپن میں نہ صرف محبت جیسی غلطیوں کے لیے وقت ہوتا تھا بلکہ شعر پڑھنے اور لکھنے کے لیے بھی دل میں کسک گاہے بگاہے جاگتی رہتی تھی۔ آج کل کے لڑکے تو ان خرافات میں پڑھتے ہی نہیں