بہت اچھے ے ے ے۔۔۔۔جب دوسرے یہاں کسی اور کی چھیڑ چھاڑ کا ذکر کررہے ہیں تو ہم بھی کریں گے۔۔۔
ایک دن کا ذکر ہے ہم دفتر میں تھے۔ اس روز ٹیلی فون آپریٹر چھٹی پر تھا۔ باس نے بلایا اور کہا آج آپ نے ٹیلی فون والی ٹیبل پر بیٹھ کر اپنا کام بھی نمٹانا ہے اور فون کالز بھی ریسیو کرنی ہیں۔ ہماری خوش قسمتی اسی دوران کسی لڑکی نے کال کی۔ ہمیں ہدایت تھی کہ فون اٹھاتے ہی ہیلو کہہ کر کمپنی کا نام دہرائیں۔ خیر ہم نے ہیلو کہہ کر کہا ایم سی ایل۔ وہ بولی جی؟ ہم سمجھ گئے غیر متعلقہ کال ہے۔ پھر بھی پوچھ لیا آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟
جواب ملا: ’’آپ سے!‘‘
ہم نے کہا: ’’رانگ نمبر۔‘‘
پھر گھنٹی بجی۔ پھر کہا:
’’آپ بات کیوں نہیں کرتے؟‘‘
ہم نے کہا؛’’ مس ہم اس وقت آفس کے ہال میں بیٹھے ہیں۔ ہزارہا نظریں ہم پر مرکوز ہیں۔ بات کریں تو کیا اور منجھی ڈھائیں تو کہاں؟‘‘
ہنسنے لگی۔ ہم نے فون بند کردیا۔ پھر کال کی:
’’آپ کی آواز بہت اچھی ہے۔‘‘
جواب میں ہم نے کہنا چاہا ہم اس سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔ مگر ہائے ری مجبوریاں۔ دل کے ارماں دل میں رہ گئے، ہم مجمع میں بیٹھے تڑپتے رہ گئے۔ موجودہ ماحول میں مزید گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں تھا لہٰذا فون بند کردیا۔ پھر کال کی۔ ابھی بات شروع ہی ہوئی تھی کہ باس کا ڈرائیور تیزی سے اٹھا اور باس کے کمرہ کی جانب بڑھ گیا۔
ہم دیکھ رہے تھے کہ ہر کال پر اس کی آنکھیں بارہ نمبر کے چشمے کے پیچھے سے چمک چمک اٹھتی تھیں۔ ہمیں شک تو کیا پورا یقین تھا کہ باس سے ہماری شکایت لگانے گیا ہے۔ لیکن ہمارا خیال غلط ثابت ہوا۔ وہ بے چارہ اپنے تئیں ہماری ہمدردی میں گیا تھا۔ ابھی ہم کال سے جان چھڑانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ڈرائیور باس سمیت سامنے موجود تھا۔ باس سے کہنے لگا:
’’سر دیکھیں کوئی لڑکی ان بے چارے، معصوم سے، سیدھے سادے، شریف آدمی کو کال کرکے تنگ کررہی۔‘‘
اس کی جانب سے ملنے والے اس بے وقت کے کیریکٹر سرٹیفکیٹ پر ہم غصہ سے کھول کر رہ گئے۔ باس نے جھٹ ہمارے ہاتھ سے ریسیور چھینا اور بولے:
’’آپ کون بات کر رہی ہیں؟ میں اپنے کمرے میں کال ٹرانسفر کرتا ہوں۔ وہاں اطمینان سے بات کرتے ہیں۔‘‘
ہمیں کمرے سے باس کی آواز آرہی تھی:
’’میں ستّر سال کی عمر کا آدمی ہوں۔ بتاؤ مجھ سے شادی کروگی؟‘‘
وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اس کی کال کا انتظار کررہے ہیں مگر نہ صبح آئی نہ شام آئی!!!
لگتا ہے کچھ بیچ کی بات چھپا گئے ۔ ۔ یعنی دھلائی والی ۔ ۔میں نے بھی ایک دفعہ ایک لڑکی کو چھیڑا تھا۔ اس کے بعد توبہ کر لی۔ اور وہ بھی اصلی اور پکی والی۔
یہ تو مذاق رات ہوگئیبہت شاندارجب دوسرے یہاں کسی اور کی چھیڑ چھاڑ کا ذکر کررہے ہیں تو ہم بھی کریں گے۔۔۔
ایک دن کا ذکر ہے ہم دفتر میں تھے۔ اس روز ٹیلی فون آپریٹر چھٹی پر تھا۔ باس نے بلایا اور کہا آج آپ نے ٹیلی فون والی ٹیبل پر بیٹھ کر اپنا کام بھی نمٹانا ہے اور فون کالز بھی ریسیو کرنی ہیں۔ ہماری خوش قسمتی اسی دوران کسی لڑکی نے کال کی۔ ہمیں ہدایت تھی کہ فون اٹھاتے ہی ہیلو کہہ کر کمپنی کا نام دہرائیں۔ خیر ہم نے ہیلو کہہ کر کہا ایم سی ایل۔ وہ بولی جی؟ ہم سمجھ گئے غیر متعلقہ کال ہے۔ پھر بھی پوچھ لیا آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟
جواب ملا: ’’آپ سے!‘‘
ہم نے کہا: ’’رانگ نمبر۔‘‘
پھر گھنٹی بجی۔ پھر کہا:
’’آپ بات کیوں نہیں کرتے؟‘‘
ہم نے کہا؛’’ مس ہم اس وقت آفس کے ہال میں بیٹھے ہیں۔ ہزارہا نظریں ہم پر مرکوز ہیں۔ بات کریں تو کیا اور منجھی ڈھائیں تو کہاں؟‘‘
ہنسنے لگی۔ ہم نے فون بند کردیا۔ پھر کال کی:
’’آپ کی آواز بہت اچھی ہے۔‘‘
جواب میں ہم نے کہنا چاہا ہم اس سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔ مگر ہائے ری مجبوریاں۔ دل کے ارماں دل میں رہ گئے، ہم مجمع میں بیٹھے تڑپتے رہ گئے۔ موجودہ ماحول میں مزید گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں تھا لہٰذا فون بند کردیا۔ پھر کال کی۔ ابھی بات شروع ہی ہوئی تھی کہ باس کا ڈرائیور تیزی سے اٹھا اور باس کے کمرہ کی جانب بڑھ گیا۔
ہم دیکھ رہے تھے کہ ہر کال پر اس کی آنکھیں بارہ نمبر کے چشمے کے پیچھے سے چمک چمک اٹھتی تھیں۔ ہمیں شک تو کیا پورا یقین تھا کہ باس سے ہماری شکایت لگانے گیا ہے۔ لیکن ہمارا خیال غلط ثابت ہوا۔ وہ بے چارہ اپنے تئیں ہماری ہمدردی میں گیا تھا۔ ابھی ہم کال سے جان چھڑانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ڈرائیور باس سمیت سامنے موجود تھا۔ باس سے کہنے لگا:
’’سر دیکھیں کوئی لڑکی ان بے چارے، معصوم سے، سیدھے سادے، شریف آدمی کو کال کرکے تنگ کررہی۔‘‘
اس کی جانب سے ملنے والے اس بے وقت کے کیریکٹر سرٹیفکیٹ پر ہم غصہ سے کھول کر رہ گئے۔ باس نے جھٹ ہمارے ہاتھ سے ریسیور چھینا اور بولے:
’’آپ کون بات کر رہی ہیں؟ میں اپنے کمرے میں کال ٹرانسفر کرتا ہوں۔ وہاں اطمینان سے بات کرتے ہیں۔‘‘
ہمیں کمرے سے باس کی آواز آرہی تھی:
’’میں ستّر سال کی عمر کا آدمی ہوں۔ بتاؤ مجھ سے شادی کروگی؟‘‘
وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اس کی کال کا انتظار کررہے ہیں مگر نہ صبح آئی نہ شام آئی!!!
چھپانے والی بات نہیں، اور نہ ہی دھلائی والی بات ہے۔ اصل میں موبائل فون کی ننھی سی سکرین پر لمبا مراسلہ لکھنا بہت مشکل لگتا ہے۔لگتا ہے کچھ بیچ کی بات چھپا گئے ۔ ۔ یعنی دھلائی والی ۔ ۔
ارر ر ے ے ے ہم نے تو ایسے ہی کہا تھا ۔ ۔ پر چلیں اس بہانے یہ آپ کی یہ مزیدار کہانی پتہ چلی ۔ ۔ ۔چھپانے والی بات نہیں، اور نہ ہی دھلائی والی بات ہے۔ اصل میں موبائل فون کی ننھی سی سکرین پر لمبا مراسلہ لکھنا بہت مشکل لگتا ہے۔
وہ آپ نے ایک غریب مگر ایماندار لکڑہارے کا قصہ پڑھا یا سُنا تو ضرور ہو گا، جس کا کلہاڑا دریا میں گر گیا تھا۔ اور وہ دریا کے کنارے بیٹھا رو رہا تھا۔ کہ اتنے میں ایک فرشتہ اس کی مدد کو نمودار ہوا اور رونے کی وجہ پوچھی۔ اس نے کہا میرا کلہاڑا دریا میں گر گیا ہے۔ اس سے میں جنگل سے لکڑیاں کاٹتا تھا اور بیچ کر اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالتا تھا۔ فرشتے کو اس پر بڑا ترس آیا، اس نے دریا میں غوطہ لگایا اور ایک سونے کا کلہاڑا نکال کر لکڑہارے کو دیا۔ لکڑہارے نے لینے سے انکار کر دیا کہ یہ میرا کلہاڑا نہیں ہے۔ فرشتے نے پھر غوطہ لگایا، اس دفعہ وہ ایک چاندی کا کلہاڑا نکال کر لایا اور لکڑہارے کو دیا، اس ایماندار لکڑہارے نے وہ بھی لینےسے انکار کر دیا کہ یہ بھی میرا کلہاڑا نہیں ہے۔ فرشتے نے ایک بار پھر دریا میں غوطہ لگایا اور لکڑہارے کا اصلی والا کلہاڑا نکال لایا اور اُس کو دیا۔ لکڑہارے نے کہا، ہاں یہی میرا کلہاڑا ہے۔ فرشتہ اس کی ایمانداری سے بہت خوش ہوا اور باقی دو کلہاڑے بھی اسے دے دیئے۔ لکڑہارا تینوں کلہاڑے لیکر خوش خوش گھر چلا گیا۔
چند دن گزرے، لکڑ ہارا اپنی بیوی کے ساتھ دریا پار کر رہا تھا کہ بدقسمتی سے اس کی بیوی دریا میں گر گئی۔ لکڑہارے نے دریا کے کنارے پر پہنچ کر رونا چلانا شروع کر دیا، کہ پھر وہی فرشتہ نمودار ہوا اور اس سے رونے اور چلانے کی وجہ پوچھی۔ لکڑہارے نے بتایا کہ اس کی بیوی دریا میں گر گئی ہے۔ فرشتے نے دریا میں غوطہ لگایا اور ایک خوبصورت اور جوان عورت کو دریا سے نکال کر لکڑہارے کے حوالے کیا کہ یہ لو یہ تمہاری بیوی ہے۔ لکڑہارا بہت خوش ہوا اور اس نے کہا کہ ہاں یہی میری بیوی ہے۔ فرشتے کو اس کی غلط بیانی پر بہت غصہ آیا اور اس نے کہا، تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ تمہاری بیوی نہیں ہے۔ تمہیں اس کی سزا ملے گی۔
لکڑہارے نے منت ترلہ کیا اور کہا کہ پہلے میری بات سُن لو پھر جو چاہے سزا دینا۔ فرشتے نے کہا کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ لکڑہارا بولا، میں غریب آدمی ہوں، مشکل سے اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالتا ہوں۔ محنت مشقت کے بعد مجھے اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ ہم دونوں کا گزر گزارہ ہو جائے۔ اب اگر میں یہ کہتا کہ یہ میری بیوی نہیں ہے، پھر تم ایک اور عورت کو لاتے اور کہتے کہ یہ تمہاری بیوی ہے، میں پھر انکار کر دیتا، پھر تیسری دفعہ تم میری اصلی بیوی کو نکال کر لاتے اور میں کہتا کہ ہاں یہی میری بیوی ہے تو تم ایمانداری اور سچ بولنے کی وجہ سے پہلی والی دونوں بھی مجھے دے دیتے۔ فرشتہ صاحب مجھے تو ایک بیوی کو پالنے میں مشکل پیش آتی ہے، تین تین کو کہاں سے پالتا۔ اسی لیے میں نے پہلی والی کو ہی اپنی بیوی بتایا کہ تین کی بجائے ایک ہی کافی ہے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف، تو ہوا یہ تھا خاندان میں ایک شادی کا موقع تھا۔ اس دن تیل مہندی کی رسم تھی۔ کوئی دو سو کے قریب افراد جمع تھے۔ الحمد للہ میرا خاندان بھی خاصا بڑا ہے، باہر کا کوئی مہمان نہ بھی بلاؤ تب بھی شادی یا ولیمے والے دن چار پانچ سو تو آرام سے ہو ہی جاتے ہیں۔ تو اس شادی کے موقع پر شور شرابا اور شرارتیں بھی ہو رہی تھیں۔ میں نے بھی موقع پا کر اپنی ایک خالہ زاد کو چھیڑ دیا۔ اس نے جا کر میری والدہ کو شکایت لگا دی اور اپنی والدہ کو بھی بتا دیا۔ میری والدہ نے اس کی والدہ سے بات کی اور اگلے ہی دن مجھے اس سے منسوب کر دیا گیا اور جس شادی پر ہم سب مدعو تھے، ان کی رسم نکاح کے موقع پر میرا بھی نکاح اس خالہ زاد سے پڑھا دیا گیا۔ اس سے پہلے تو کبھی کسی کو چھیڑنے کا اتفاق ہی نہیں ہوا تھا، لیکن اس کے بعد تو کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کر لی کہ آیندہ کسی لڑکی کو نہیں چھیڑنا، ایسا نہ ہو وہ بھی میری والدہ کو شکایت لگا دے اور اپنے ماما کو بھی بتا دے، اور تاریخ پھر سے اپنے آپ کو دہرائے۔
تو یہ تھی بیچ کی بات صابرہ بہنا
پتا نہیں خالی جگہ کیا سوچ کر چھوڑ دی!!!ان کی تو چاروں گھی میں اور ۔۔۔ کڑاہی میں ہوتا۔
بہت مزے دار اگر مفتی صاحب ہوتے تو کہتے فرشتے یہ بھی میری ،وہ بھی میری اور جتنی سب میری بس فرشتے تو نیک کام کرتا رہے اور یہ روز دریا میں گراتے جائیںچھپانے والی بات نہیں، اور نہ ہی دھلائی والی بات ہے۔ اصل میں موبائل فون کی ننھی سی سکرین پر لمبا مراسلہ لکھنا بہت مشکل لگتا ہے۔
وہ آپ نے ایک غریب مگر ایماندار لکڑہارے کا قصہ پڑھا یا سُنا تو ضرور ہو گا، جس کا کلہاڑا دریا میں گر گیا تھا۔ اور وہ دریا کے کنارے بیٹھا رو رہا تھا۔ کہ اتنے میں ایک فرشتہ اس کی مدد کو نمودار ہوا اور رونے کی وجہ پوچھی۔ اس نے کہا میرا کلہاڑا دریا میں گر گیا ہے۔ اس سے میں جنگل سے لکڑیاں کاٹتا تھا اور بیچ کر اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالتا تھا۔ فرشتے کو اس پر بڑا ترس آیا، اس نے دریا میں غوطہ لگایا اور ایک سونے کا کلہاڑا نکال کر لکڑہارے کو دیا۔ لکڑہارے نے لینے سے انکار کر دیا کہ یہ میرا کلہاڑا نہیں ہے۔ فرشتے نے پھر غوطہ لگایا، اس دفعہ وہ ایک چاندی کا کلہاڑا نکال کر لایا اور لکڑہارے کو دیا، اس ایماندار لکڑہارے نے وہ بھی لینےسے انکار کر دیا کہ یہ بھی میرا کلہاڑا نہیں ہے۔ فرشتے نے ایک بار پھر دریا میں غوطہ لگایا اور لکڑہارے کا اصلی والا کلہاڑا نکال لایا اور اُس کو دیا۔ لکڑہارے نے کہا، ہاں یہی میرا کلہاڑا ہے۔ فرشتہ اس کی ایمانداری سے بہت خوش ہوا اور باقی دو کلہاڑے بھی اسے دے دیئے۔ لکڑہارا تینوں کلہاڑے لیکر خوش خوش گھر چلا گیا۔
چند دن گزرے، لکڑ ہارا اپنی بیوی کے ساتھ دریا پار کر رہا تھا کہ بدقسمتی سے اس کی بیوی دریا میں گر گئی۔ لکڑہارے نے دریا کے کنارے پر پہنچ کر رونا چلانا شروع کر دیا، کہ پھر وہی فرشتہ نمودار ہوا اور اس سے رونے اور چلانے کی وجہ پوچھی۔ لکڑہارے نے بتایا کہ اس کی بیوی دریا میں گر گئی ہے۔ فرشتے نے دریا میں غوطہ لگایا اور ایک خوبصورت اور جوان عورت کو دریا سے نکال کر لکڑہارے کے حوالے کیا کہ یہ لو یہ تمہاری بیوی ہے۔ لکڑہارا بہت خوش ہوا اور اس نے کہا کہ ہاں یہی میری بیوی ہے۔ فرشتے کو اس کی غلط بیانی پر بہت غصہ آیا اور اس نے کہا، تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ تمہاری بیوی نہیں ہے۔ تمہیں اس کی سزا ملے گی۔
لکڑہارے نے منت ترلہ کیا اور کہا کہ پہلے میری بات سُن لو پھر جو چاہے سزا دینا۔ فرشتے نے کہا کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ لکڑہارا بولا، میں غریب آدمی ہوں، مشکل سے اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالتا ہوں۔ محنت مشقت کے بعد مجھے اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ ہم دونوں کا گزر گزارہ ہو جائے۔ اب اگر میں یہ کہتا کہ یہ میری بیوی نہیں ہے، پھر تم ایک اور عورت کو لاتے اور کہتے کہ یہ تمہاری بیوی ہے، میں پھر انکار کر دیتا، پھر تیسری دفعہ تم میری اصلی بیوی کو نکال کر لاتے اور میں کہتا کہ ہاں یہی میری بیوی ہے تو تم ایمانداری اور سچ بولنے کی وجہ سے پہلی والی دونوں بھی مجھے دے دیتے۔ فرشتہ صاحب مجھے تو ایک بیوی کو پالنے میں مشکل پیش آتی ہے، تین تین کو کہاں سے پالتا۔ اسی لیے میں نے پہلی والی کو ہی اپنی بیوی بتایا کہ تین کی بجائے ایک ہی کافی ہے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف، تو ہوا یہ تھا خاندان میں ایک شادی کا موقع تھا۔ اس دن تیل مہندی کی رسم تھی۔ کوئی دو سو کے قریب افراد جمع تھے۔ الحمد للہ میرا خاندان بھی خاصا بڑا ہے، باہر کا کوئی مہمان نہ بھی بلاؤ تب بھی شادی یا ولیمے والے دن چار پانچ سو تو آرام سے ہو ہی جاتے ہیں۔ تو اس شادی کے موقع پر شور شرابا اور شرارتیں بھی ہو رہی تھیں۔ میں نے بھی موقع پا کر اپنی ایک خالہ زاد کو چھیڑ دیا۔ اس نے جا کر میری والدہ کو شکایت لگا دی اور اپنی والدہ کو بھی بتا دیا۔ میری والدہ نے اس کی والدہ سے بات کی اور اگلے ہی دن مجھے اس سے منسوب کر دیا گیا اور جس شادی پر ہم سب مدعو تھے، ان کی رسم نکاح کے موقع پر میرا بھی نکاح اس خالہ زاد سے پڑھا دیا گیا۔ اس سے پہلے تو کبھی کسی کو چھیڑنے کا اتفاق ہی نہیں ہوا تھا، لیکن اس کے بعد تو کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کر لی کہ آیندہ کسی لڑکی کو نہیں چھیڑنا، ایسا نہ ہو وہ بھی میری والدہ کو شکایت لگا دے اور اپنے ماما کو بھی بتا دے، اور تاریخ پھر سے اپنے آپ کو دہرائے۔
تو یہ تھی بیچ کی بات صابرہ بہنا
اور نہیں تو کیا۔۔۔بہت مزے دار اگر مفتی صاحب ہوتے تو کہتے فرشتے یہ بھی میری ،وہ بھی میری اور جتنی سب میری بس فرشتے تو نیک کام کرتا رہے اور یہ روز دریا میں گراتے جائیں
بجا فرمایا ۔ ۔ان کی تو چاروں گھی میں اور ۔۔۔ کڑاہی میں ہوتا۔
آپ رجسٹریشن تو مکمل کریں ۔ ۔ شمشاد بھیا نے آپ کے واسطے تو آفس کھولا ہے ۔ ۔سب ماضی کے صیغے استعمال کرکے خوش ہورہے ہیں۔۔۔
ارے کوئی حال پر بھی تو توجہ دے!!!
آپ کی اس بات پہ مجھے یہ شعر یا د آگیااور نہیں تو کیا۔۔۔
ایسے فرشتے آج کل دریاؤں سے نہیں نکلتے کیا؟؟؟
جھوٹ بولیں یا سچ ہمیں مال کھرا دیں بس!!!آپ کی اس بات پہ مجھے یہ شعر یا د آگیا
آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں
وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں
کاغذات فراہم کیے جائیں!!!آپ رجسٹریشن تو مکمل کریں ۔ ۔ شمشاد بھیا نے آپ کے واسطے تو آفس کھولا ہے ۔ ۔
یہ دیکھو سنجیدہ بات کر رہی ہے بندی اِن کو اپنے مال کی پڑی ہےجھوٹ بولیں یا سچ ہمیں مال کھرا دیں بس!!!