سید عمران
محفلین
بیس برس قبل کا سچا واقعہ جب فقیر بھی نسبتاً شریف ہوتے تھے۔۔۔
چھوٹا بھائی دوست کے آفس میں تھا کہ ایک پرمنینٹ فقیر آگیا جو آفس کا مستقل گراہک تھا۔۔۔
بھائی نے ایسے ہی گفتگو چھیڑ دی۔۔۔
درمیان میں فقیر بولا: ’’بھائی صاحب مجھے ہلکا مت لینا۔ میرے اکاؤنٹ میں پچیس ہزار ابھی بھی پڑے ہیں۔‘‘
بتائیے بیس سال قبل پچیس ہزار کی کیا حیثیت ہوگی۔۔۔
اب تو فقیر ایسے ڈھیٹ اور بدتمیز ہوگئے ہیں کہ آپ کے پیچھے آتے رہتے ہیں، آتے رہتے ہیں۔ جب تک سختی سے منع نہ کرو پیچھا نہیں چھوڑتے۔۔۔
اللہ تعالیٰ ان لپٹنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰىہُمْ لَا یَسْ۔َٔ۔لُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ (البقرہ :۲۷۳)
(مال خرچ کرنے کا بہترین مصرف )ان نادار لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے راستے میں روک دئیے گئے (یعنی دین کی نشر و اشاعت یا جہاد اور خدمت میں مشغولی کی وجہ سے ان کے پاس مال کمانے کا وقت نہیں ہے جس کے لیے) وہ زمین میں چل پھر سکتے۔ ناواقف انہیں سوال کرنے سے بچنے کی وجہ سے مالدار سمجھتے ہیں۔ تم انہیں ان کی علامت سے پہچان لو گے (یعنی پرانا لباس، صحت کی کمی، خشک اور پژمردہ جلد وغیرہ سے)۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے ۔
ان سڑک چھاپ لوگوں کو ایک بھی پیسہ نہیں دینا چاہیے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ یہ لوگ اپنی جھونپڑیوں میں شراب، چرس، گانجا، تاش جوا، زنا، دنگا فساد حتیٰ کہ قتل و غارت گری تک کرتے ہیں۔۔۔
اپنی جائز آمدنی ان ناپاک حرکتوں میں اڑانے کے لیے نہ دیں۔ آس پاس ضرورت مند دیکھیں۔ اپنے پڑوس میں، رشتہ داروں میں یا گھر اور دفتر کے ملازمین کی ٹوہ لیں جیسا ان میں عیب اور خامی نکالنے کے لیے ٹوہ لیتے ہیں۔ وہ ٹوہ لینا حرام اور یہ عین جائز بلکہ ضروری ہے۔۔۔
باتوں ہی باتوں میں پوچھنے پر آپ دیکھیں گے کہ ان میں ہی کتنے ضرورت مند نکل آئیں گے جن کے پاس سردیوں کے لیے گرم کپڑے اور رضائی، گرمیوں کے لیے ٹھنڈے پانی کا کولر، پنکھا اور عید جیسے خوشی کے تہوار کے لیے نئے یا اچھے کپڑے نہیں ہیں۔۔۔
اور کچھ سمجھ میں نہ آئے تو مسجد یا مدرسہ کے خادمین، اساتذہ یا طلبہ بہترین مصرف ہیں جیسا کہ آیت بالا سے ظاہر ہے!!!
چھوٹا بھائی دوست کے آفس میں تھا کہ ایک پرمنینٹ فقیر آگیا جو آفس کا مستقل گراہک تھا۔۔۔
بھائی نے ایسے ہی گفتگو چھیڑ دی۔۔۔
درمیان میں فقیر بولا: ’’بھائی صاحب مجھے ہلکا مت لینا۔ میرے اکاؤنٹ میں پچیس ہزار ابھی بھی پڑے ہیں۔‘‘
بتائیے بیس سال قبل پچیس ہزار کی کیا حیثیت ہوگی۔۔۔
اب تو فقیر ایسے ڈھیٹ اور بدتمیز ہوگئے ہیں کہ آپ کے پیچھے آتے رہتے ہیں، آتے رہتے ہیں۔ جب تک سختی سے منع نہ کرو پیچھا نہیں چھوڑتے۔۔۔
اللہ تعالیٰ ان لپٹنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰىہُمْ لَا یَسْ۔َٔ۔لُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ (البقرہ :۲۷۳)
(مال خرچ کرنے کا بہترین مصرف )ان نادار لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے راستے میں روک دئیے گئے (یعنی دین کی نشر و اشاعت یا جہاد اور خدمت میں مشغولی کی وجہ سے ان کے پاس مال کمانے کا وقت نہیں ہے جس کے لیے) وہ زمین میں چل پھر سکتے۔ ناواقف انہیں سوال کرنے سے بچنے کی وجہ سے مالدار سمجھتے ہیں۔ تم انہیں ان کی علامت سے پہچان لو گے (یعنی پرانا لباس، صحت کی کمی، خشک اور پژمردہ جلد وغیرہ سے)۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے ۔
ان سڑک چھاپ لوگوں کو ایک بھی پیسہ نہیں دینا چاہیے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ یہ لوگ اپنی جھونپڑیوں میں شراب، چرس، گانجا، تاش جوا، زنا، دنگا فساد حتیٰ کہ قتل و غارت گری تک کرتے ہیں۔۔۔
اپنی جائز آمدنی ان ناپاک حرکتوں میں اڑانے کے لیے نہ دیں۔ آس پاس ضرورت مند دیکھیں۔ اپنے پڑوس میں، رشتہ داروں میں یا گھر اور دفتر کے ملازمین کی ٹوہ لیں جیسا ان میں عیب اور خامی نکالنے کے لیے ٹوہ لیتے ہیں۔ وہ ٹوہ لینا حرام اور یہ عین جائز بلکہ ضروری ہے۔۔۔
باتوں ہی باتوں میں پوچھنے پر آپ دیکھیں گے کہ ان میں ہی کتنے ضرورت مند نکل آئیں گے جن کے پاس سردیوں کے لیے گرم کپڑے اور رضائی، گرمیوں کے لیے ٹھنڈے پانی کا کولر، پنکھا اور عید جیسے خوشی کے تہوار کے لیے نئے یا اچھے کپڑے نہیں ہیں۔۔۔
اور کچھ سمجھ میں نہ آئے تو مسجد یا مدرسہ کے خادمین، اساتذہ یا طلبہ بہترین مصرف ہیں جیسا کہ آیت بالا سے ظاہر ہے!!!