کیا آپ پیشہ ور گداگروں کو بھیک دیتے ہیں؟

کیا آپ پیشہ ور گداگروں کو بھیک دیتے ہیں؟

  • ہاں

    Votes: 2 9.1%
  • نہیں

    Votes: 8 36.4%
  • کبھی کبھی

    Votes: 12 54.5%

  • Total voters
    22

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آج کل کراچی میں پیشہ ور گداگروں کی بہتات ہے۔ کل گداگروں کے خلاف کاروائی کے لئے ایک پوسٹ وٹس ایپ پر نظر آئی۔

سوال یہ ہے کہ کیا آپ پیشہ ور گداگروں کو بھیک دیتے ہیں یا نہیں؟

ہوتا کچھ یوں ہے کہ انہیں بھیک دینے سے حقدار کا حق مارا جاتا ہے، لیکن انہیں بھیک نہ دینے سے دل میں ایک احساسِ جرم پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ بندہ ضرورت مند ہی نہ ہو۔

آپ اس معاملے کو کیسے دیکھتے ہیں۔ اور کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں؟
کبھی کبھی دے دیتے ہیں اور کبھی نہیں بھی دیتے جان بوجھ کر۔ ذہن میں ہمیشہ ہی یہ بات آتی ہے کہ کسی حقدار کا تو حق نہیں مار رہے نا۔ نہ دینے پہ ڈر بھی لگتا ہے کہ کیا معلوم کہ ہم جسے کچھ دینے سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں وہ واقعی حقدار ہو اور ہم اس سے زیادتی نہ کر جائیں۔ ایسے میں اپنے ذاتی خرچ سے اسے تحفتاً کچھ دے دیتے ہیں ۔ البتہ ذہن بہت دن تک کشمکش ہی میں رہتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج کل کراچی میں پیشہ ور گداگروں کی بہتات ہے۔ کل گداگروں کے خلاف کاروائی کے لئے ایک پوسٹ وٹس ایپ پر نظر آئی۔

سوال یہ ہے کہ کیا آپ پیشہ ور گداگروں کو بھیک دیتے ہیں یا نہیں؟

ہوتا کچھ یوں ہے کہ انہیں بھیک دینے سے حقدار کا حق مارا جاتا ہے، لیکن انہیں بھیک نہ دینے سے دل میں ایک احساسِ جرم پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ بندہ ضرورت مند ہی نہ ہو۔

آپ اس معاملے کو کیسے دیکھتے ہیں۔ اور کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں؟
نہ آپ سب کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کو احساس جرم ہونا چاہیے۔۔۔۔ قرآن کا سادہ سا حکم ہے کہ ان کو جھڑکو مت۔۔۔ تو بس دینا نہ دینا ایک طرف اس پر عمل کیا جائے۔ مزید یہ کہ میں پیشہ ور بھکاریوں کو دینے میں بھی عار نہیں سمجھتا۔ میں نے ایک بار کہیں ایک واقعہ پڑھا تھا(اللہ کمی بیشی معاف فرمائے۔ ) جو حضرت عمر سے منسوب تھا کہ ان کے سامنے جو غلام خشوع و خضوع سے ادا کرتا۔ آپ اس کو آزاد فرما دیتے۔ کسی نے کہا کہ غلام آپ کو دکھانے کے لیے بھی ایسی نماز ادا کرتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا۔ جو مجھے اللہ کے لیے دھوکا دیتا ہے۔ میں اس کے دھوکے میں آجاتا ہوں۔ اس واقعے کا میرے ذہن پر گہرا اثر ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو اس روش کو اپنانا چاہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نہ آپ سب کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کو احساس جرم ہونا چاہیے۔۔۔۔ قرآن کا سادہ سا حکم ہے کہ ان کو جھڑکو مت۔۔۔ تو بس دینا نہ دینا ایک طرف اس پر عمل کیا جائے۔ مزید یہ کہ میں پیشہ ور بھکاریوں کو دینے میں بھی عار نہیں سمجھتا۔ میں نے ایک بار کہیں ایک واقعہ پڑھا تھا(اللہ کمی بیشی معاف فرمائے۔ ) جو حضرت عمر سے منسوب تھا کہ ان کے سامنے جو غلام خشوع و خضوع سے ادا کرتا۔ آپ اس کو آزاد فرما دیتے۔ کسی نے کہا کہ غلام آپ کو دکھانے کے لیے بھی ایسی نماز ادا کرتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا۔ جو مجھے اللہ کے لیے دھوکا دیتا ہے۔ میں اس کے دھوکے میں آجاتا ہوں۔ اس واقعے کا میرے ذہن پر گہرا اثر ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو اس روش کو اپنانا چاہیے۔

اچھی بات ہے۔

لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس عمل سے پیشہ ورانہ گداگری کو بہت فروغ مل رہا ہے۔

جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ضرورت کے علاوہ ہاتھ پھیلانے کو سخت ناپسند کیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں:

پہلا یہ کہ پیشہ ور گداگری ایک معاشرتی برائی ہے جس میں ہم سب جانے انجانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ مافیا کے طور پر کام کرتے ہیں، ان کے باقاعدہ گروپ ہوتے ہیں، بچے اغوا کر کے اور معذور بنا کر بھیک مانگنے پر لگا دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر جرائم پیشہ اور منشیات کے عادی ہوتے ہیں۔ مصروف جگہوں کے باقاعدہ ٹھیکے نکلتے اور نیلام ہوتے ہیں۔ زندگئ اجیرن کر رکھی ہے ان پیشہ ور گدا گروں نے۔ سڑک کے کنارے، اشارے پر، ہسپتال کے باہر، میڈیکل اسٹور کے باہر، پارک کے اندر، مارکیٹوں میں۔ اپنے گھر اور دفتر کے باہر میرے ذہن میں تو کوئی ایسی جگہ نہیں آتی جہاں پر بھکاریوں سے سامنا نہ ہو۔اور ہر کسی کے لیے یہ ایک مستقل سر درد بنے ہوئے ہیں۔

دوسرا پہلو معروف ہے یعنی دردِ دل والا، کسی کی حق تلفی نہ ہو جائے، کسی سوالی کو رد نہ کرنا، صدقہ خیرات وغیرہ۔ یہ سب درست ہے لیکن اس صدقے خیرات کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ روزانہ کسی کو پانچ دس بیس روپے دینے کی بجائے، مہینے میں ایک ہی بار چند سو یا حسبِ استطاعت، ڈھونڈ ڈھانڈ کر، تھوڑا تردد کر کے، کسی مستحق، کسی بیوہ، کسی یتیم کی چپ کر کے مدد کر دیں، اللہ بھی خوش اور بندہ بھی۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
پیشہ ور فقیر ہر جگہ ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نشانی بتا دی کہ وہ پکڑ پکڑ کر نہیں مانگتے اور ہم ان کو ان کے حلیے سے پہچان لیں گے۔ میں پیشہ ور فقیروں کو بھیک نہیں دیتی۔ کبھی مشورہ دوں کہ کوئی کام کیوں نہیں کرتے تو وہ بے نیازی سے آگے چل دیتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کہ کام نہیں ملتا تو میں انھیں آفر کرتی ہوں تو پھر بھی آگے چل پڑتے ہیں۔:) اب میں نے کہنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ بس معاف کریں کہہ دیتی ہوں لیکن دیتی کبھی نہیں۔
پیشہ ور فقیر اکثر تو چوک پہ ہوتے ہیں۔ اکثر جوان خواتین و حضرات ہوتے ہیں۔ کسی کسی خاتون کے پاس بچہ بھی ہوتا ہے۔ کوئی کوئی مرد زخمی ہونے کا ڈھونگ رچائے ہوتا ہے اور ؎اتنے بڑے زخم؎ کے باوجود اسے ذرا درد نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ نشہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ فرید گیٹ پہ ایک معزور فقیر کو اکثر دیکھا۔ ایک دن ایک اور فقیر کے ساتھ بیٹھا عین فرید گیٹ کے ساتھ نشہ کر رہا تھا۔ آج کل وہاں نہیں ہے۔
کچھ فقیروں نے وہیل چئیر کو چلانے کے لیے کوئی بندہ/بندی کرائے پہ رکھا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اکثر پہچانے جاتے ہیں کہ پہشہ ور فقیر ہیں۔
اور جو حقیقتاََ حق دار ہیں، ان تک اکثر مدد نہیں پہنچتی۔ اس رمضان میں بھی اللہ نے ہم سے مدد کے بہت سے کام لیے۔ ان میں سے ایک واقعہ سناتی ہوں۔ عید سے پہلے جس دن چھٹیاں ہوئیں۔۔۔ میری ایک منہ بولی بہن نے مجھے بتایا کہ ان کے سکول میں دو بہن بھائی پڑھتے ہیں۔ ان کی امی آتی ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو جمے نظر آتے ۃیں۔ بیوہ خاتون ہیں۔ پہلے کوئی شخص مہینہ کا راشن ڈلواتا تھا۔ لیکن پھر وہ لاہور چلا گیا۔ آج کل کوئی پُرسانِ حال نہیں اُن کا۔ اور آج بچے کے تھیلے میں، میں نے چائے کی پتی کا چھوٹا سا ساشے اور تھوڑی سی چینی شاپر میں دیکھی تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ امی نے کہا تھا کہ سکول سے آتے ہوئے لیتے آنا۔ میں نے صبح ہی لے کے بستے میں رکھ لیں۔
ان کا گھر بستی میں ہے۔
میں نے بہن سے کہا کہ اس کے گھر راشن ڈلواتے ہیں تو وہ کہنے لگی کہ اسے گھر کا نہیں پتہ۔ اب تو جب سکول کھلیں گے تب ہی پتہ کر کے مدد کیجیے گا۔ مجھے بے چینی لگی ہوئی تھی ۔ میں نے گاڑی کا انتظام کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں ہو سکا۔ پھر رکشہ پہ امی جی کے ساتھ چلی۔ انھیں رشتہ داروں کے ہاں اتارا اور بہن کو لے کے پوچھتے پچھاتے ، کچے راستوں پہ ڈولتے ، اچھلتے ۔۔۔ اللہ کے حکم سے پہنچے اس خاتون کی ساس کے پاس۔ انھیں لے کے خاتون کے گھر۔
وہ موجود نہیں تھیں لیکن گھر کھلا تھا۔ بس ۔۔۔۔ پھر وہ آئیں۔ بڑی بیٹی نانی کے ساتھ گھاس کاٹنے گئی ہوئی تھی اور باقی دونوں چھوٹے بچے ساتھ تھے۔ ایک ننگے پاؤں اور ایک نے ٹوٹے چپل۔ خاتون خوبصورت اور کم عمر تھیں لیکن غربت نے حال بے حال کیا ہوا تھا۔ ایک راشن انھیں اور ایک ساس کو دیا۔ ان کے کسی انداز سے نہیں لگتا تھا کہ یہ لینا چاہتی ہیں۔ نہ چہرے پہ لالچ۔ بس راشن دیکھ کے ایک اطمینان کی تھوڑی سی کیفیت تھی۔
سکول کھلنے پہ بہن نے لڑکے کی ویڈیو بھیجی جس میں اس نے صاف ستھرے کپڑے پہنے تھے اور لگتا تھا کہ کھانا کھایا ہوا ہے۔
کیسے اللہ مدد کرتا ہے۔ میرے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، جیسے ہی اس واقعہ کا تصور کر کے اللہ کی عظمت و کبریائی کا احساس ہوتا ہے۔ کسیے وہ کسی کے دل میں ڈالتا ہے، اٹھا کے لے جاتا ہے۔
ایسے لوگ حق دار ہوتے ہیں۔ اس خاتون کے میاں مجاور تھے اور دل کے دورے سے وفات پا گئے۔ ان کی بستی میں باقی لوگ بھی بس اسی طرح کے تھے۔ دل تو چاہتا ہے کہ ایسے سب لوگوں کی مدد کی جائے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اس خاتون کو کام کرنا چاہیے تو بھلا وہ کیا کام کر سکتی ہیں؟ نہ کوئی کارخانہ ہے وہاں، شہر دور، اور ان کے پاس کے علاقوں میں گھروں میں کام کرنے پہ بہت تھوڑا معاوضہ ملتا ہے۔ خود خاتون کی صحت کمزور۔ چھوٹے بچے۔
 

سید عمران

محفلین
محمد وارث بھائی، جاسمن صاحبہ اور فاخر بھائی نے صحیح رائے دی ہے۔۔۔
یہ بھکاری منظم مافیا ہے۔ ان کے اڈے باقاعدہ ڈسٹری بیوٹ ہوتے ہیں۔ پولیس اور اوپر تک تمام سرکاری انتظامی مشینری اس دھندے میں ملوث ہے۔۔۔
شہر بھر سے بھیک میں ملنے والی رقم شام کو بھکاریوں سے لے کر اوپر اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران میں تقسیم ہوتی ہے۔۔۔
اس رقم سے یہ راشی اور جرائم پیشہ لوگ مفت کی عیاشی کرتے ہیں۔۔۔
دینے والا خدا ترسی یا ثواب کی نیت سے صدقہ کرتا ہے جبکہ نادانستگی میں یہ مجرموں کی اعانت ہورہی ہے۔۔۔
اس مافیا کو اُن سائلین پر قیاس نہیں کرنا چاہیے جن کا حکم قرآن و حدیث میں آتا ہے۔۔۔
جو ضرورت کی وجہ سے مجبوری میں مانگ بیٹھتے ہیں۔۔۔
ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے حد بندی بیان فرمادی ہے کہ جب حرام کھانے کی اضطراری ضرورت پوری ہوجائے یعنی پیٹ بھرنے اور تن ڈھکنے یا علاج معالجہ کی رقم حاصل ہوجائے تو مزید حرام طلب کرنے سے ہاتھ اٹھا لیا جائے۔۔۔
جبکہ یہ مافیا والے آپ سے بھی مانگیں گے، پھر دوسرے کے پاس جائیں گے، اس کے بعد تیسرے کے پاس حتی کہ سارا دن یہی کرتے رہیں گے۔۔۔
اگلے دن پھر اسی دھندے پر آجائیں گے۔ یہ ضرورت مند نہیں ہیں، ان کا سارا دن دھندا ہی یہی ہے۔۔۔
ان لوگوں کو ضرورجھڑکنا چاہیے کیوں کہ یہ لوگ اصلی سائل نہیں ہیں خالصتاً مجرم ہیں، بلکہ وارث بھائی کے بقول معاشرہ کا ناسور ہیں۔۔۔
ان کا قلع قمع کرنا چاہیے نہ کہ اعانت!!!
 

سید عمران

محفلین
ایک بات لوگوں کے ذہن میں بیٹھ گئی ہے کہ تمام غریب لوگوں کو کام دلوادیا جائے۔۔۔
اگرچہ خیال اچھا اور نیک ہے مگر عملاً ناممکن۔۔۔
آج کل تو کوشش کرنے کے باوجود پڑھے لکھے تجربہ کار لوگوں کو ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں۔۔۔
اسی لیے اللہ اور اس کے رسول نے حسب استطاعت غریبوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے ان کو کام دلانے کی نہیں، کیوں کہ یہ ناممکن کام ہے۔۔۔
اگرچہ اکا دکا واقعات ایسے ملتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت مندوں کی اس طرح مدد کی کہ وہ خود کمانے لگیں۔۔۔
اس لیے اگر کوئی اپنے طور پر کسی کو ملازمت یا کوئی تجارت کرواسکتا ہے تو ایسا ضرور کرے لیکن شخص واحد کتنے لوگوں کو ذریعہ معاش فراہم کرسکتا ہے؟؟؟
جبکہ ایک عام آدمی بھی زندگی بھر تھوڑا تھوڑا کرکے بے شمار لوگوں کی مدد کرسکتا ہے۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اصل کام یہی کیا کہ دونوں ہاتھ بھر بھر کے سونے چاندی کے سکے ضرورت مندوں میں تقسیم کیے۔۔۔
حساب لگایا جائے تو سکہ رائج الوقت کے لحاظ سے سونے چاندی کے ان سکوں کی مالیت کروڑوں تک جاپہنچتی ہے۔۔۔
آپ کے بعد صحابہ کرام کے واقعات بھی بے تحاشہ صدقہ خیرات کرنے ہی کے ہیں!!!
 
ہم لوگ مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اللہ کا دیا ہے- ہم چاہے اللہ کا حکم مانیں یا نہ مانیں اللہ پھر بھی ہمیں دیے جارہا ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ دینے والے کا حکم مانا جائے ۔ اب اگرچہ ہم اس کی حکم عدولی کرتے ہیں یعنی لینے کے اہل نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ہمیں دیتا ہے۔ اس اصول کو مانا جائے تو مانگنے والے کی نیت کی پروا کیے بغیر استطاعت کے مطابق دے دیا جائے۔ آخرت میں آپ کو آپکی نیت کے مطابق اور مانگنے والے کو اس کی نیت کے مطابق صلہ ملے گا۔
باقی رہی پیشہ ور گداگروں کی بات تو بطور قوم ہم کیا ہیں کہاں سے کیا کیا اور کیسے کیسے مانگتے ہیں اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جب آپ کو (یقین) پتہ ہے کہ مانگنے والا پیشہ ور ہے تو دینابھی یقینا فساد کی معاونت ہے ۔جو غلط ہے۔
البتہ اگر مانگنے والے کی حالت کچھ پتہ ہی نہیں تو الگ بات ہے۔

اور اگر مانگنے والے کی نیت کا اندازہ نہیں ہے اور آپ کو گمان ہوتا ہے کہ یہ پیشہ ور ہے تب بھی اسے فہرست میں سب سے آخر میں رکھا جائے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پہلا یہ کہ پیشہ ور گداگری ایک معاشرتی برائی ہے جس میں ہم سب جانے انجانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ مافیا کے طور پر کام کرتے ہیں، ان کے باقاعدہ گروپ ہوتے ہیں، بچے اغوا کر کے اور معذور بنا کر بھیک مانگنے پر لگا دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر جرائم پیشہ اور منشیات کے عادی ہوتے ہیں۔ مصروف جگہوں کے باقاعدہ ٹھیکے نکلتے اور نیلام ہوتے ہیں۔ زندگئ اجیرن کر رکھی ہے ان پیشہ ور گدا گروں نے۔ سڑک کے کنارے، اشارے پر، ہسپتال کے باہر، میڈیکل اسٹور کے باہر، پارک کے اندر، مارکیٹوں میں۔ اپنے گھر اور دفتر کے باہر میرے ذہن میں تو کوئی ایسی جگہ نہیں آتی جہاں پر بھکاریوں سے سامنا نہ ہو۔اور ہر کسی کے لیے یہ ایک مستقل سر درد بنے ہوئے ہیں۔
ان پیشہ ور بھکاریوں اور مافیاز کی روک تھام کے لئے صوبائی یا بلدیاتی سرکار کو ضروری اقدامات کرنا چاہیے۔

تاکہ معاشرے میں ہمہ وقت "جھوٹے تاسف" کے ماحول کے بجائے ایک خوشگوار فضا دیکھنے کو ملے۔

اور عوام کی خیراتی رقوم بھی اصل حقداروں تک پہنچ سکیں۔


دوسرا پہلو معروف ہے یعنی دردِ دل والا، کسی کی حق تلفی نہ ہو جائے، کسی سوالی کو رد نہ کرنا، صدقہ خیرات وغیرہ۔ یہ سب درست ہے لیکن اس صدقے خیرات کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ روزانہ کسی کو پانچ دس بیس روپے دینے کی بجائے، مہینے میں ایک ہی بار چند سو یا حسبِ استطاعت، ڈھونڈ ڈھانڈ کر، تھوڑا تردد کر کے، کسی مستحق، کسی بیوہ، کسی یتیم کی چپ کر کے مدد کر دیں، اللہ بھی خوش اور بندہ بھی۔

باقی اس میں تو دو رائے نہیں ہیں کہ مستحق افراد کی ہر ممکن مدد کی جانی چاہیے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ کو گمان ہوتا ہے کہ
یعنی شک کا فائدہ !
خیر اس میں اصل اور بنیادی کام شہری انتظامیہ کا ہی ہے جو مافیا کا حصہ ہوتی ہے ۔ بڑے شہروں میں یہ انفرادی کوششیں محدود بلکہ ناقابل ذکر اثر ڈال سکتی ہیں جس سے مافیا پر کوئی فرق پڑنے کا امکان نہیں ۔ ۔ ۔ مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بڑے شہروں میں یہ انفرادی کوششیں محدود بلکہ ناقابل ذکر اثر ڈال سکتی ہیں جس سے مافیا پر کوئی فرق پڑنے کا امکان نہیں ۔ ۔ ۔ مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے ۔

اگر لوگوں کی اکثریت سستی نیکیاں کمانے میں احتیاط کرے تو کچھ نہ کچھ فرق تو پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے بھی آگہی مہم سرکاری سطح پر ہونا ضروری ہے۔
 

علی وقار

محفلین
میری دانست میں ٹریفک سگنلز سے ہی پیشہ ور بھکاریوں کو ہٹا دیا جائے تو سمجھیں نصف کام ہو گیا۔
 

جاسمن

لائبریرین
جب آپ کو (یقین) پتہ ہے کہ مانگنے والا پیشہ ور ہے تو دینابھی یقینا فساد کی معاونت ہے ۔جو غلط ہے۔
البتہ اگر مانگنے والے کی حالت کچھ پتہ ہی نہیں تو الگ بات ہے۔
بالکل ٹھیک۔ اگر شک ہے تو دے دیں۔ اگر یقین کہ پیشہ ور ہے تو نہ دیں۔
آپ نے خیرات پانچ سو ماہوار نکالنی ہی نکالنی ہے تو تھوڑی سی تگ و دو کر لیں۔ کسی سخت ضرورت مند کو تلاش کر لیں۔
وہ بوڑھا شکر قندی والا جس کا ایک بیٹا معزور اور دوسرا نشئی ہے
وہ بیوہ عورت جس کے ننھے بچے اور کوئی مدد گار نہیں
وہ موچی جس کے پانچ بچے اور محدود روزی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
 
Top