پیشہ ور فقیر ہر جگہ ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نشانی بتا دی کہ وہ پکڑ پکڑ کر نہیں مانگتے اور ہم ان کو ان کے حلیے سے پہچان لیں گے۔ میں پیشہ ور فقیروں کو بھیک نہیں دیتی۔ کبھی مشورہ دوں کہ کوئی کام کیوں نہیں کرتے تو وہ بے نیازی سے آگے چل دیتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کہ کام نہیں ملتا تو میں انھیں آفر کرتی ہوں تو پھر بھی آگے چل پڑتے ہیں۔
اب میں نے کہنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ بس معاف کریں کہہ دیتی ہوں لیکن دیتی کبھی نہیں۔
پیشہ ور فقیر اکثر تو چوک پہ ہوتے ہیں۔ اکثر جوان خواتین و حضرات ہوتے ہیں۔ کسی کسی خاتون کے پاس بچہ بھی ہوتا ہے۔ کوئی کوئی مرد زخمی ہونے کا ڈھونگ رچائے ہوتا ہے اور ؎اتنے بڑے زخم؎ کے باوجود اسے ذرا درد نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ نشہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ فرید گیٹ پہ ایک معزور فقیر کو اکثر دیکھا۔ ایک دن ایک اور فقیر کے ساتھ بیٹھا عین فرید گیٹ کے ساتھ نشہ کر رہا تھا۔ آج کل وہاں نہیں ہے۔
کچھ فقیروں نے وہیل چئیر کو چلانے کے لیے کوئی بندہ/بندی کرائے پہ رکھا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اکثر پہچانے جاتے ہیں کہ پہشہ ور فقیر ہیں۔
اور جو حقیقتاََ حق دار ہیں، ان تک اکثر مدد نہیں پہنچتی۔ اس رمضان میں بھی اللہ نے ہم سے مدد کے بہت سے کام لیے۔ ان میں سے ایک واقعہ سناتی ہوں۔ عید سے پہلے جس دن چھٹیاں ہوئیں۔۔۔ میری ایک منہ بولی بہن نے مجھے بتایا کہ ان کے سکول میں دو بہن بھائی پڑھتے ہیں۔ ان کی امی آتی ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو جمے نظر آتے ۃیں۔ بیوہ خاتون ہیں۔ پہلے کوئی شخص مہینہ کا راشن ڈلواتا تھا۔ لیکن پھر وہ لاہور چلا گیا۔ آج کل کوئی پُرسانِ حال نہیں اُن کا۔ اور آج بچے کے تھیلے میں، میں نے چائے کی پتی کا چھوٹا سا ساشے اور تھوڑی سی چینی شاپر میں دیکھی تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ امی نے کہا تھا کہ سکول سے آتے ہوئے لیتے آنا۔ میں نے صبح ہی لے کے بستے میں رکھ لیں۔
ان کا گھر بستی میں ہے۔
میں نے بہن سے کہا کہ اس کے گھر راشن ڈلواتے ہیں تو وہ کہنے لگی کہ اسے گھر کا نہیں پتہ۔ اب تو جب سکول کھلیں گے تب ہی پتہ کر کے مدد کیجیے گا۔ مجھے بے چینی لگی ہوئی تھی ۔ میں نے گاڑی کا انتظام کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں ہو سکا۔ پھر رکشہ پہ امی جی کے ساتھ چلی۔ انھیں رشتہ داروں کے ہاں اتارا اور بہن کو لے کے پوچھتے پچھاتے ، کچے راستوں پہ ڈولتے ، اچھلتے ۔۔۔ اللہ کے حکم سے پہنچے اس خاتون کی ساس کے پاس۔ انھیں لے کے خاتون کے گھر۔
وہ موجود نہیں تھیں لیکن گھر کھلا تھا۔ بس ۔۔۔۔ پھر وہ آئیں۔ بڑی بیٹی نانی کے ساتھ گھاس کاٹنے گئی ہوئی تھی اور باقی دونوں چھوٹے بچے ساتھ تھے۔ ایک ننگے پاؤں اور ایک نے ٹوٹے چپل۔ خاتون خوبصورت اور کم عمر تھیں لیکن غربت نے حال بے حال کیا ہوا تھا۔ ایک راشن انھیں اور ایک ساس کو دیا۔ ان کے کسی انداز سے نہیں لگتا تھا کہ یہ لینا چاہتی ہیں۔ نہ چہرے پہ لالچ۔ بس راشن دیکھ کے ایک اطمینان کی تھوڑی سی کیفیت تھی۔
سکول کھلنے پہ بہن نے لڑکے کی ویڈیو بھیجی جس میں اس نے صاف ستھرے کپڑے پہنے تھے اور لگتا تھا کہ کھانا کھایا ہوا ہے۔
کیسے اللہ مدد کرتا ہے۔ میرے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، جیسے ہی اس واقعہ کا تصور کر کے اللہ کی عظمت و کبریائی کا احساس ہوتا ہے۔ کسیے وہ کسی کے دل میں ڈالتا ہے، اٹھا کے لے جاتا ہے۔
ایسے لوگ حق دار ہوتے ہیں۔ اس خاتون کے میاں مجاور تھے اور دل کے دورے سے وفات پا گئے۔ ان کی بستی میں باقی لوگ بھی بس اسی طرح کے تھے۔ دل تو چاہتا ہے کہ ایسے سب لوگوں کی مدد کی جائے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اس خاتون کو کام کرنا چاہیے تو بھلا وہ کیا کام کر سکتی ہیں؟ نہ کوئی کارخانہ ہے وہاں، شہر دور، اور ان کے پاس کے علاقوں میں گھروں میں کام کرنے پہ بہت تھوڑا معاوضہ ملتا ہے۔ خود خاتون کی صحت کمزور۔ چھوٹے بچے۔