جاسمن
لائبریرین
بے عزتی نمبر 2۔لاہورجانا تھا،باس نے کہا کہ ادارے کے لئے کتابیں لیتی آنا۔ایک مشہور پبلشر کا نام بھی بتایا۔ وہاں گئی تو وہ ہماری فہرستوں کے مطابق کتابیں نہیں دے رہا تھا۔
اپنی چھاپی ہوئی ایسی کتابیں دے رہا تھا جو عموماََ بکتی نہیں ہیں،اور اِس طرح کی کتابوں کے ہماری لائبریری میں ڈھیر پڑے تھے۔میرے پاس کافی دن تھے۔ میں نے باس کو خط میں ساری تفصیل لکھ بھیجی اور اپنے لئے ہدایت مانگی۔ باس نےکہا کہ وہ خود منگوا لیں گی۔
میں واپس آ گئی۔ خط لکھنا میرا مشغلہ رہا ہے۔ میں ہر خط ایک حدیث سے شروع کرتی تھی۔باس کو لکھا گیا خط بھی ایک حدیث سے شروع کیا گیا تھا۔جس کا مفہوم ہے کہ باس کا ہر حکم مانو، ما سوائے خلافِ شریعت حکم کے۔
میں سمجھ رہی تھی کہ میری باس میرے خط میں یہ حدیث پڑھ کر بہت خوش ہوں گی۔ لیکن۔۔۔۔خوش فہمیوں کے سارے محل اُس وقت دھڑام دھڑام گرنے لگے جب چھُٹیوں کے بعد پہلے دِن دفتر میں داخل ہوئی۔۔۔۔ہماری باس اِتنی مسجع و مقفع بے عزتی کرتی تھیں کہ ہم عش عش کرتے تھے۔ اُنھیں فارسی،انگریزی اور اردو پہ عبور تھا۔ بس پھر آپ سوچ لیں کہ کیسی بے عزتی ہو گی۔ وہ اگلے بندے کی ایک نہیں سُنتی تھیں۔ بس اپنی سُناتی تھیں اور اپنی رائے پہ قائم رہتی تھیں۔ایسی ایسی گالیاں جو بظاہر گالیاں نہیں ہوتی تھیں لیکن ہائے وہ گالیاں ہی تھیں۔ ایک مرتبہ طالبات کی ماؤں کو کہنے لگیں "ایڈیٹ ڈومیسٹک وومن"۔ ہم سب کے سب سوائے چند بڑوں کے اُن کے دفتر سے دھؤاں دھؤاں چہرے لئے آتے تھے۔
ہمارے دو بڑوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اپنی باس کو سوٹ تحفہ میں دیں۔ ہم نئے نئے تھے لیکن دُنیا میں تو کچھ پُرانے ہو گئے تھے اِس لئے کچھ غورو فکر سے سمجھ گئے کہ ہمیں رشوت کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اللہ کی طرف سے ہونے والی بے عزتی کا زیادہ ڈر تھا سو باز رہے۔اور مزید ذوق و شوق سے روزانہ کی بنیادوں پر چار بار فی دن کی خوراک ہوتی کہ جس سے کبھی توطبیعت میں جوش و خروش پیدا ہوتا اور کبھی ہم زیبا صاحبہ (پاکستانی اداکارہ )کی نقل کرتے نظر آتے۔
اپنی چھاپی ہوئی ایسی کتابیں دے رہا تھا جو عموماََ بکتی نہیں ہیں،اور اِس طرح کی کتابوں کے ہماری لائبریری میں ڈھیر پڑے تھے۔میرے پاس کافی دن تھے۔ میں نے باس کو خط میں ساری تفصیل لکھ بھیجی اور اپنے لئے ہدایت مانگی۔ باس نےکہا کہ وہ خود منگوا لیں گی۔
میں واپس آ گئی۔ خط لکھنا میرا مشغلہ رہا ہے۔ میں ہر خط ایک حدیث سے شروع کرتی تھی۔باس کو لکھا گیا خط بھی ایک حدیث سے شروع کیا گیا تھا۔جس کا مفہوم ہے کہ باس کا ہر حکم مانو، ما سوائے خلافِ شریعت حکم کے۔
میں سمجھ رہی تھی کہ میری باس میرے خط میں یہ حدیث پڑھ کر بہت خوش ہوں گی۔ لیکن۔۔۔۔خوش فہمیوں کے سارے محل اُس وقت دھڑام دھڑام گرنے لگے جب چھُٹیوں کے بعد پہلے دِن دفتر میں داخل ہوئی۔۔۔۔ہماری باس اِتنی مسجع و مقفع بے عزتی کرتی تھیں کہ ہم عش عش کرتے تھے۔ اُنھیں فارسی،انگریزی اور اردو پہ عبور تھا۔ بس پھر آپ سوچ لیں کہ کیسی بے عزتی ہو گی۔ وہ اگلے بندے کی ایک نہیں سُنتی تھیں۔ بس اپنی سُناتی تھیں اور اپنی رائے پہ قائم رہتی تھیں۔ایسی ایسی گالیاں جو بظاہر گالیاں نہیں ہوتی تھیں لیکن ہائے وہ گالیاں ہی تھیں۔ ایک مرتبہ طالبات کی ماؤں کو کہنے لگیں "ایڈیٹ ڈومیسٹک وومن"۔ ہم سب کے سب سوائے چند بڑوں کے اُن کے دفتر سے دھؤاں دھؤاں چہرے لئے آتے تھے۔
ہمارے دو بڑوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اپنی باس کو سوٹ تحفہ میں دیں۔ ہم نئے نئے تھے لیکن دُنیا میں تو کچھ پُرانے ہو گئے تھے اِس لئے کچھ غورو فکر سے سمجھ گئے کہ ہمیں رشوت کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اللہ کی طرف سے ہونے والی بے عزتی کا زیادہ ڈر تھا سو باز رہے۔اور مزید ذوق و شوق سے روزانہ کی بنیادوں پر چار بار فی دن کی خوراک ہوتی کہ جس سے کبھی توطبیعت میں جوش و خروش پیدا ہوتا اور کبھی ہم زیبا صاحبہ (پاکستانی اداکارہ )کی نقل کرتے نظر آتے۔
آخری تدوین: