گو یہ دھاگا اس موضوع کے لیے مناسب نہیں ہے لیکن عارف کریم زبردستی اپنی جس جہالت پر اڑے ہوئے ہیں اس کے بارے میں ایک مختصر سی بات میں ضرور کرنا چاہوں گا اولا تو یہ عارف کریم یہ سمجھ لیں کہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر موضوع اور خصوصاعقائد و تعلیمات اسلامی کے ہر موضوع میں کودنے کو فرض سمجھ لیں چاہے اس بارے میں کوئی واقفیت اور ٹکا برابر معلومات ان کو حاصل نہ ہوں دوسری بات یہ کہ وہ اپنہ جہالت کی بنا پر پہلے ایک بات غلط کرتے ہیں اور بعد میں شرمندہ ہونے کے بجائے اس کی مزید تاویلات پیش کرتے ہیں شروع میں انہوں نے کہا کہ
بیاء کرام غلطیوں سے پاک نہیں ہیں۔ ہماری طرح کے انسان ہیں لیکن باقی انسانوں سے عموما کم نوعیت کی غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ انکا خدا سے ایک خاص رشتہ ہوتا ہے-----------
اور بعد میں جب ان پر گرفت کی گئی تو جھٹ انہوں نے پینترا بدلا اور کہنے لگے کہ
ب آئے نہ لائن پہ، میں نے اوپر والی پوسٹ میں "غلطی اور خطا" ہی لکھا تھا کہ انبیاء کرام سے بھی سرزد ہو سکتی ہیں۔ گناہ کا میں نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ لیکن چونکہ میں جانتا ہوں کہ مسلمان جذباتیات سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ اسلئے پوسٹ کا متن پڑھے بغیر ہی جھٹ ذاتیات پر اتر آتے ہیں
۔
حالانکہ ان کی پہلی پوسٹ پر غور کریں موصوف فرما رہے ہیں کہ انبیا
عموما کم نوعیت کی غلطیاں کرتے ہیں فی الحال قطع نظر دیگر باتوں کہ ذرا عموما پر ہی غور کر لیں عموما کا مطلب ہوتا ہے عام طور پر یعنی اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ انبیا عا م طور پر کم نوعیت کی غلطیاں کر تے ہیں ہمیشہ نہیں یعنی کبھی کبھی وہ عام انسانوںکی طرح بھی غلطیاں کرتے ہیں تو بتائے اب عصمت انبیا کا عقیدہ کہاں گیا۔
پھر انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی ایک سہو اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس زمانہ کا واقعہ بیان کیا جب وہ نبوت سے سرفراز ہی نہ کیے گئے تھے گویا نبی ہی نہ تھے؟ ایک بات ذہن میں رکھئے تفصیل کسی جدا خاص اس موضوع سے متعلق دھاگے میں عرض کی جاسکتی ہے کہ انبیا کی طرف غلطی کی نسبت بھی گناہ ہے رب العزت نے انبیا کرام کو طبعا قبائح اور معاصی سے متنفر کیا ہوتا ہے طاعات کی طرٍ ان کی رغبت عقلی ہی نہیں بلکہ طبعی بھی ہوتی ہے اسی طرح معاصی سے ان کا تنفر عقلی ہی نہیں بلکہ طبعا ہوتا ہے ان کا ہر ارداہ ، عمل اور قول ہر حرکت و سکون کائنات کے لیے اسوہ اور نمونہ ہوتی ہےہاں تقاضہ بشریت کی بنا پر سہو و نسیان کا امکان باقی رہتا ہے تاہم فورا ہی اس پر متنبہ کردیا جاتا ہے اور یہ سہو ہر گز کوئی گناہ یا کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔یہی بات سیدنا آدم علیہ السلام کے باب میں بھی ہے خود قران میں اس بارے میں ہے
[arabic]. وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًاo[/arabic]
. اور درحقیقت ہم نے اس سے (بہت) پہلے آدم (علیہ السلام) کو تاکیدی حکم فرمایا تھا سو وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں بالکل (نافرمانی کا کوئی) ارادہ نہیں پایا (یہ محض ایک بھول تھی)
تو گذارش یہ ہے کہ اس باب میں بہت محطاط رہنے کی ضرورت ہے اپنی ذات کا تو ان کو بڑا خیال ہے اور فورا ممبران کے اس جائز ردعمل کو وہ ذاتیات سے تعبیر فرماتے ہیں لیکن انبیا کرام کے معاملے میں وہ اتنے بے دحڑک ہیںکہ جو ذہین میںآرہا ہے وہ بکتے چلے جارہے ہیں ۔