قرآن میں لفظ رب کے استعمالات
قرآن مجید میں یہ لفظ ان سب معانی میں آیا ہے۔ کہیں ان میں سے کوئی ایک یا دو معنی مراد ہیں، کہیں اس سے زائد اور کہیں پانچوں معنی۔ اس بات کو ہم آیات قرآنی قرآنی سے مختلف مثالیں دے کر واضح کریں گے۔
پہلے معنی میں :
قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّہ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ
اس نے کہا کہ پناہ بخدا! وہ تو میرا رب
[7] ہے جس نے مجھے اچھی طرح رکھا۔ (یوسف:۲۳)
دوسرے معنی میں جس کے ساتھ پہلے معنی کا تصور بھی کم و بیش شامل ہے :
فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ وَالَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ
تمہارے یہ معبود تو میرے دشمن ہیں، بجز رب کائنات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، جو میری رہنمائی کرتا ہے، جو مجھے جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے۔ (الشعراء:۷۷ تا ۸۰)
وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجَْٔرُوْنَ ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُوْنَ
تمہیں جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی سے حاصل ہوئی ہے، پھر جب تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اسی کی طرف تم گھبرا کر رجوع کرتے ہو مگر جب وہ تم پر سے مصیبت ٹال دیتا ہے تو کچھ لوگ تم میں سے ایسے ہیں جو اپنے رب کے ساتھ (اس نعمت کی بخشش اور اس مشکل کشائی میں )دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔ (النحل:۵۳۔ ۵۴)
قُلْ اَغَیْرَاللہِ اَبْغِیْ رَبًّاوَّ ھُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ
کہو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کرو۔ حالانکہ ہر چیز کا رب وہی ہے
رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا
وہ مغرب و مشرق کا رب ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ (المزمل۔ ۹)
لہذا اسی کو اپنا وکیل (اپنے سارے معاملات کا کفیل و ذمہ دار)بنا لے۔
تیسرے معنی میں:۔
هُوَ رَبُّكُمْ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ
وہ تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم پلٹا کر لے جائے جاؤ گے۔ (ہود۔ ۳۴)
ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ
پھر تمہارے رب کی طرف تمہاری واپسی ہے۔ (الزمر۔ ۷)
قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنا رَبُّنَا
کہو کہ ہم دونوں فریقوں کو ہمارا رب جمع کرے گا۔ (سبا۔ ۲۶)
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار اور ہوا میں اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں ہے جو تمہاری ہی طرح ایک امت نہ ہو۔ اور ہم نے اپنے دفتر میں کسی کے اندراج سے کوتاہی نہیں کی ہے۔ پھر وہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جائیں گے۔ (الانعام۔ ۳۸)
وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ يَنْسِلُوْنَ
اور جونہی کہ صور پھونکا جائے گا وہ سب اپنے ٹھکانوں کی طرف نکل پڑیں گے۔ (یٰس۔ ۵۱)
چوتھے معنی جس کے ساتھ کم و بیش تیسرے معنی کا تصور بھی موجود ہے :۔
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ
انہوں نے اللہ کے بجائے اپنے علما اور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا۔ (التوبہ۔ ۳۱)
وَّ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١
اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ (اٰل عمران۔ ۶۴)
دونوں آیتوں میں ارباب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو قوموں اور گروہوں نے مطلقاً اپنا رہنما و پیشوا مان لیا ہو۔ جن کے امرو نہی، ضابط و قانون اور تحلیل و تحریم کو بلا کسی سند کے تسلیم کیا جاتا ہو۔ جنہیں بجائے خود حکم دینے اور منع کرنے کا حق دار سمجھا جاتا ہو۔
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا١۔۔وَ قَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ
یوسف (علیہ السلام)نے کہا کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب کو شراب پلائے گا۔اور ان دونوں میں سے جس کے متعلق یوسفؑ کا خیام تھا کہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسفؑ نے کہا کہ اپنے رب سے میرا ذکر کرنا، مگر شیطان نے اسے بھلاوے میں ڈال دیا اور اس کو اپنے رب سے یوسفؑ کا ذکر کرنے کا خیال نہ رہا۔ (یوسف۔ ۴۲)
وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ فَلَمَّا جَآءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰى رَبِّكَ فَسَْٔلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ
جب پیغام لانے والا یوسفؑ کے پاس آیا تو یوسفؑ نے اس سے کہا کہ اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ میرا رب تو ان کی چال سے با خبر ہے ہی۔ (یوسف۔ ۵۰)
ان آیات میں حضرت یوسفؑ نے مصریوں سے خطاب کرتے ہوئے بار بار فرعون مصر کو ان کا رب قرار دیا ہے، اس لیے کہ جب وہ اس کی مرکزیت اور اس کا اقتدار اعلیٰ اور اس کو امرو نہی کا مالک تسلیم کرتے تھے، تو وہی ان کا رب تھا۔ برعکس اس کے خود حضرت یوسفؑ اپنا رب اللہ کو قرار دیتے ہیں، کیونکہ وہ فرعون کو نہیں، صرف اللہ کو مقتدر اعلیٰ اور صاحب امر و نہی مانتے تھے۔
پانچویں معنی میں:۔
فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ۔ الَّذِيْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ١ۙ۬ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ
لہذا انہیں اس گھر کے مالک کی عبادت کرنی چاہیے جس نے ان کی رزق رسانی کا انتظام کیا ہے اور انہیں بد امنی سے محفوظ رکھا ہے۔ (قریش:۳، ۴)
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ العِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ
تیرا رب جو عزّت و اقتدار کا مالک ہے ان تمام صفات عیب سے پاک ہے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ (صفت۔ ۱۸۰)
فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ
اللہ جو عرش کا مالک ہے ان تمام صفاتِ عیب سے پاک ہے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ (الانبیاء۔ ۲۲)
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ
پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش بزرگ کا مالک کون ہے ؟(المومنون۔ ۸۶)
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ
وہ جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان سب چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں اور سب چیزوں کا جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ (الصفٰت۔ ۵)
وَاَنَّه هُوَ رَبُّ الشِّعْرٰى
اور یہ کہ شعریٰ کا مالک بھی وہی ہے (النجم۔ ۴۹)
ربوبیت کے باب میں گمراہ قوموں کے تخیلات
ان شواہد سے لفظ رب کے معانی بالکل غیر مشتبہ طور پر متعین ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ربوبیت کے متعلق گمراہ قوموں کے وہ کیا تخیلات تھے جن کی تردید کرنے کے لیے قرآن آیا، اور کیا چیز ہے جس کی طرف قرآن بلاتا ہے۔ اس سلسلہ میں زیادہ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن گمراہ قوموں کا ذکر قرآن نے کیا ہے ان کو الگ الگ لے کر ان کے خیالات سے بحث کی جائے تاکہ بات بالکل منقح ہو جائے۔
(۱) قوم نوح:سب سے پہلے جس قوم کا ذکر قرآن کرتا ہے، حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہے۔ قرآن کے بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کے جواب میں ان کا یہ قول خود قرآن نے نقل کیا ہے :
مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَا ءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰ ىِٕكَةً
یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر تم جیسا ایک انسان۔ یہ دراصل تم پر اپنی فضیلت جمانا چاہتا ہے۔ ورنہ اگر اللہ کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔ (المؤمنون۔ ۲۴)
انہیں اللہ کے خالق ہونے اور پہلے اور دوسرے معنی میں اس کے رب ہونے سے بھی انکار نہ تھا۔ چنانچہ حضرت نوح جب ان سے کہتے ہیں کہ
هُوَ رَبُّكُمْ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ[8] (ہود۔ ۳۴)
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا[9] (نوح۔ ۱۰)
اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا وَاللّٰهُ اَنْ بَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا[10] (نوح۔ ۱۵ ۔۔۱۷)
تو ان میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ اللہ ہمارا رب نہیں ہے، یا پھر زمین و آسمان کو اور ہمیں اس نے پیدا نہیں کیا ہے، یا زمین و آسمان کا یہ سارا انتظام وہ نہیں کر رہا ہے۔ پھر ان کو اس بات سے بھی انکار نہ تھا کہ اللہ ان کا الٰہ ہے۔ اسی لیے تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی دعوت ان کے سمانے ان الفاظ میں پیش کی کہ
مالکم من الٰہ غیرہ (اس کے سوا تمہارے لیے کوئی دوسرالٰہ نہیں ہے )ورنہ وہ اگر اللہ کے الٰہ ہونے سے منکر ہوتے تو دعوت کے الفاظ یہ ہوتے
اِتَخذوا اللہ الٰھا ( اللہ کو اپنا الٰہ بنا لو)۔
اب سوال یہ ہے کہ ان کے اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان نزاع کس بات پر تھی؟ آیات قرانی کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ بنائے نزاع دو باتیں تھیں۔
ایک یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کی تعلیم یہ تھی کہ جو رب العالمین ہے، جسے تم بھی مانتے ہو کہ تمہیں اور تمام کائنات کو اسی نے وجود بخشا ہے اور وہی تمہاری ضروریات کا کفیل ہے، دراصل وہی اکیلا تمہارا الٰہ ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔ کوئی اور ہستی نہیں ہے جو تمہاری حاجتیں پوری کرنے والی، مشکلیں آسان کرنے والی، دعائیں سننے والی اور مدد کو پہنچنے والی ہو۔ لہٰذا تم اسی کے آگے سرِنیاز جھکاؤ۔
يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُہ۔وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ
اے برادران قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔مگر میں رب العالمین کی طرف سے پیغامبر ہوں۔ تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔ (اعراف۔ ۵۹، ۶۲)
اس کے برعکس وہ لوگ اس بات پر مصر تھے کہ رب العالمین تو اللہ ہی ہے مگر دوسرے بھی خدائی کے انتظام میں تھوڑا بہت دخل رکھتے ہیں، اور ان سے بھی ہماری حاجتیں وابستہ ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ ہم دوسروں کو الٰہ مانیں گے :
وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا
ان کے سرداروں اور پیشواؤں نے کہا کہ لوگو! اپنے الٰہوں کو نہ چھوڑو، ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو نہ چھوڑو۔ (نوح۔ ۲۳)
دوسرے یہ کہ وہ لوگ صرف اس معنی میں اللہ کو رب مانتے تھے کہ وہ ان کا خالق، زمین و آسمان کا مالک اور کائنات کا مدبر اعلیٰ ہے۔ لیکن اس بات کے قائل نہ تھے کہ اخلاق، معاشرت، تمدن، سیاست اور تمام معاملات زندگی میں بھی حاکمیت و اقتدار اعلیٰ اسی کا حق ہے، وہی رہنما ہے، وہی قانون ساز، وہی صاحب امر و نہی بھی ہے اور اسی کی اطاعت بھی ہونی چاہیے۔ ان سب معاملات میں انہوں نے اپنے سرداروں اور مذہبی پیشواؤں کو اپنا رب بنا رکھا تھا۔ برعکس اس کے حضرت نوح کا مطالبہ یہ تھا کہ ربوبیت کے ٹکڑے نہ کرو۔ تمام مفہومات کے اعتبار سے صرف اللہ ہی کو رب تسلیم کرو، اور اس کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے جو قوانین اور احکام میں تمہیں پہنچاتا ہوں ان کی پیروی کرو۔
اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ
میں تمہارے لیے خدا کا معتبر رسول ہوں۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (الشعراء۔ ۱۰۷۔ ۱۰۸)
(۲)قوم عاد: قوم نوح کے بعد قرآن عاد کا ذکر کرتا ہے۔ یہ قوم بھی اللہ کی ہستی سے منکر نہ تھی۔ اس کے الٰہ ہونے سے بھی اس کو انکار نہ تھا۔ جس معنی میں نوح علیہ السلام کی قوم اللہ کو رب تسلیم کرتی تھی اس معنی میں یہ قوم بھی اللہ کو رب مان رہی تھی۔ البتہ بنائے نزاع وہی دو امور تھے جو اوپر قوم نوح کے سلسلہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ چنانچہ قران کی حسب ذیل تصریحات اس پر صاف دلالت کرتی ہیں:
وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ۭقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗقَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَوَحْدَہ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَا ؤُنَا
عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے کہا، اے برادران قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں۔انہوں نے جواب دیا کیا تو اس لیے آیا ہے کہ بس ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کے وقتوں سے ہوتی آ رہی ہے۔ (اعراف۔ ۶۵۔ ۷۰)
قَالُوْا لَوْ شَا ءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰ ىِٕكَةً
انہوں نے کہا اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیج سکتا تھا۔ (حٰم السجدہ۔ ۱۴)
وَتِلْكَ عَادٌ جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ
اور یہ عاد ہیں جنہوں نے اپنے رب کے احکام ماننے سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی اطاعت قبول نہ کی، اور ہر جبار دشمن حق کی پیروی اختیار کی۔ (ہود۔ ۵۹)
(۳)قوم ثمود: اب ثمود کو لیجئے جو عاد کے بعد سب سے بڑی سرکش قوم تھی۔ اصولا اس کی گمراہی بھی اسی قسم کی تھی جو قوم نوح اور قوم عاد کی بیان ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو اللہ کے وجود اور اس کے الٰہ اور رب ہونے سے انکار نہ تھا، اس کی عبادت سے بھی انکار نہ تھا۔ بلکہ انکار اس بات سے تھا کہ اللہ ہی الٰہ واحد ہے، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، اور ربوبیت اپنے تمام معانی کے ساتھ اکیلے اللہ ہی کے لیے خاص ہے، وہ اللہ کے سوا دوسروں کو بھی فریاد رس، حاجت روا، اور مشکل کشا ماننے پر اصرار کرتے تھے۔ اور اپنی اخلاقی و تمدنی زندگی میں اللہ کی بجائے اپنے سرداروں اور پیشواؤں کی اطاعت کرنے اور ان سے اپنی زندگی کا قانون لینے پر مصر تھے۔ یہی چیز ان کے بالآخر ان کے ا یک فسادی قوم بن جانے اور مبتلائے عذاب ہونے کا موجب ہوئی۔ اس کی توضیح حسب ذیل آیات سے ہوتی ہے :
فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ اِذْ جَائَتْھُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ قَالُوْا لَوْ شَا ءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰ ىِٕكَةً فَاِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہ كٰفِرُوْنَ
اے محمد! اگر یہ لوگ تمہاری پیروی سے منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ عاد اور ثمود کو جو سزا ملی تھی ویسی ہی ایک ہولناک سزا سے میں تم کو ڈراتا ہوں۔ جب ان قوموں کے پاس ان کے پیمبر آگے اور پیچھے سے آئے اور کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو انہوں نے کہا ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیجتا، لہٰذا تم جو کچھ لے کر آئے ہو اسے ہم نہیں مانتے۔
(حٰم السجدہ۔ ۱۳۔ ۱۴)
وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُہ۔قَالُوْا يٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْهٰىنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ اٰبَا ؤُنَا
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ اس نے کہا اے برادران قوم! اللہ کی پرستش و بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔۔ ۔ انہوں نے کہا صالح! اس سے پہلے تو ہماری بڑی امیدیں تم سے تھیں، کیا تم ہمیں ان کی عبادت سے روکتے ہو جن کی عبادت باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔ (ہود۔ ۶۱۔ ۶۲)
اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ
جب ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا کہ کیا تمہیں اپنے بچاؤ کی کوئی فکر نہیں؟ دیکھو میں تمہارے اللہ کا معتبر رسول ہوں لہٰذا اللہ کی ناراضگی سے بچو اور میری اطاعت قبول کرو۔اور ان حد سے گزر جانے والوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔ (الشعراء۔۱۴۲۔ ۱۵۲)
(۴)قوم ابراہیم و نمرود: اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کی قوم کا نمبر آتا ہے۔ اس قوم کا معاملہ خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ اس کے بادشاہ نمرود کے متعلق یہ عام غلط فہمی ہے کہ وہ اللہ کا منکر اور خود خدا ہونے کا مدعی تھا۔ حالانکہ وہ اللہ کی ہستی کا قائل تھا، اس کے خالق و تدبرِ کائنات ہونے کا معتقد تھا، اور صرف تیسرے، چوتھے اور پانچویں معنی کے اعتبار سے اپنی ربوبیت کا دعویٰ کرتا تھا۔ نیز یہ بھی عام غلط فہمی ہے کہ یہ قوم اللہ سے بالکل ناواقف تھی اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کی سرے سے قائل ہی نہ تھی۔ حالانکہ فی الواقع اس قوم کا معاملہ قومِ نوح اور عاد اور ثمود سے کچھ بھی مختلف نہ تھا۔ وہ اللہ کے وجود کو بھی مانتی تھی، اس کا رب ہونا اور خالقِ ارض و سما اور تدبر کائنات ہونا بھی اسے معلوم تھا۔ اس کی عبادت سے بھی وہ منکر نہ تھی۔ البتہ اس کی گمراہی یہ تھی کہ ربوبیت بمعنی اول و دوم میں اجرام فلکی کو حصہ دار سمجھتی تھی۔ اور اس بناء پر اللہ کے ساتھ ان کو بھی معبود قرار دیتی تھی۔ اور ربوبیت بمعنی سوم و چہارم و پنجم کے اعتبار سے اس نے اپنے بادشاہوں کو رب بنا رکھا تھا۔ قرآن کی تصریحات اس بارے میں اتنی واضح ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کس طرح لوگ اصل معاملہ کو سمجھنے سے قاصر رہ گئے۔
سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ کے آغازِ ہوش کا وہ واقعہ لیجیے جس میں نبوت سے پہلے ان کی تلاشِ حق کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
فلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ۔ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ۔ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ۔ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔
جب اس پر رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا۔ کہنے لگا یہ میرا رب ہے۔ مگر جب وہ تارا ڈوب گیا تو اس نے کہا ڈوبنے والوں کو تو میں پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند چمکتا ہوا دیکھا تو کہا، یہ میرا رب ہے مگر وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا، اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو یہ خطرہ ہے کہ کہیں میں بھی ان گمراہ لوگوں میں شامل نہ ہو جاؤں۔ پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی چھپ گیا تو وہ پکار اٹھا کہ اے برادران قوم جو شرک تم کرتے ہو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں میں نے تو سب طرف سے منہ موڑ کر اپنا رخ اس کی طرف پھیر دیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ (انعام:۷۶تا۷۹ )
خط کشیدہ فقروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس سوسائٹی میں حضرت ابراہیمؑ نے آنکھ کھولی تھی اس میں آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے کا تصور، اور اس ذات کے رب ہونے کا تصور، ان سیاروں کی ربوبیت کے تصور سے الگ موجود تھا۔ اور آخر کیوں نہ موجود ہوتا جبکہ یہ لوگ ان مسلمانوں کی نسل سے تھے جو حضرت نوحؑ پر ایمان لائے تھے، اور ان کی قریبی رشتہ دار ہمسایہ اقوام(عاد و ثمود) میں پے در پے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ سے دینِ اسلام کی تجدید بھی ہوتی چلی آ رہی تھی(
جَاءَتْھُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ) پس حضرت ابراہیمؑ کو اللہ کے
فَاطِرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور رب ہونے کا تصور تو اپنے ماحول سے مل چکا تھا، البتہ جو سوالات ان کے دل میں کھٹکتے تھے وہ یہ تھے کہ نظام ربوبیت میں اللہ کے ساتھ چاند، سورج اور سیاروں کے شریک ہونے کا جو تخیل ان کی قوم میں پایا جاتا ہے، اور جس کی بنا پر یہ لوگ عبادت میں بھی اللہ کے ساتھ ان کو شریک ٹھہرا رہے ہیں، یہ کہاں تک مبنی بر حقیقت ہے
[11]۔ چنانچہ نبوت سے پہلے اسی کی جستجو انہوں نے کی اور طلوع و غروب کا انتظام ان کے لیے اس امر واقعی تک پہنچنے میں دلیل راہ بن گیا کہ
فاطر السماوات والارض کے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ اسی بنا پر چاند کو غروب ہوتے دیکھ کر وہ فرماتے ہیں کہ اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ کی ہوتی تو خوف ہے کہ کہیں میں بھی حقیقت تک رسائی پانے سے نہ رہ جاؤں، اور ان مظاہر سے دھوکا نہ کھا جاؤں جن سے میرے گرد و پیش لاکھوں انسان دھوکا کھا رہے ہیں۔
پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام منصب نبوت پر سرفراز ہوئے اور انہوں نے دعوت الیٰ اللہ کا کام شروع کیا تو جن الفاظ میں وہ اپنی دعوت پیش فرماتے تھے ان پر غور کرنے سے سے وہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں:
وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اور آخر میں ان سے کس طرح ڈر سکتا ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو، جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان کو شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے الٰہیت و ربوبیت میں شریک ہونے پر اللہ نے تماھرے پاس کوئی سند نہیں بھیجی ہے۔ (انعام۔ ۸۲)
وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ
تم اللہ کے سوا اور جن جن سے دعائیں مانگتے ہو ان سے میں دست کش ہوتا ہوں۔ (مریم۔ ۴۸)
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِيْ فَطَرَهُنَّ قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَئًْا وَّلَا يَضُرُّكُمْ
کہا تمہارا رب تو صرف آسمانوں اور زمین کا رب ہی ہے جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے۔کہا پھر کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان پہنچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ؟ (انبیاء۔ ۵۶۔ ۶۶)
اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ اَىِٕفْكًا اٰلِهَةً دُوْنَ اللّٰهِ تُرِيْدُوْنَ فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا، یہ تم کن کی عبادت کر رہے ہو؟ کیا اللہ کے سوا اپنے خود ساختہ الٰہوں کی بندگی کا ارادہ ہے ؟ پھر رب العالمین کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ (صٰفٰت۔ ۸۵تا۸۷)
إِنَّا بُرَآؤ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ
"ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھی مسلمانوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے صاف کہہ دیا) کہ ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا جن جن کی عبادت تم کرتے ہو ان سب سے کوئی تعلق نہیں، ہم تمہارے طریقے کو ماننے سے انکار کر چکے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ سے بغض و عداوت کی بنا پڑ گئی ہے جب تک کہ تم اکیلے اللہ پر ایمان نہ لاؤ”۔ (الممتحنہ:۴)
حضرت ابراہیم کے ان تمام ارشادات کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مخاطب وہ لوگ نہ تھے جو اللہ سے بالکل ناواقف اور اس کے رب العٰلمین اور معبود ہونے سے منکر یا خالی الذہن ہوتے۔ بلکہ وہ لوگ تھے جو اللہ کے ساتھ ربوبیّت(بمعنی اول و دوم)اور الٰہیّت میں دوسروں کو شریک قرار دیتے تھے۔ اسی لیے تمام قرآن میں کسی ایک جگہ بھی حضرت ابراہیمؑ کا کوئی ایسا قول موجود نہیں ہے جس میں انہوں نے اپنی قوم کو اللہ کی ہستی اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کا قائل کرنے کی کوشش کی ہو گی، بلکہ ہر جگہ وہ دعوت اس چیز کی دیتے ہیں کہ اللہ ہی رب اور الٰہ ہے۔
(جاری ہے)