کیا آپ نے کبھی سوچا؟؟؟؟

القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفر جہنمَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تو مر جائے گا تجھے قبر میں ڈال دیا جائے گا۔ تیرے عزیز اور اقرباء ابھی واپس مڑے نہ ہوں گے تیرے پاس دو فرشتے آئیں گے ۔۔۔۔ ایک کا نام منکر ہو گا دوسرے کا نام نکیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دونوں کی صورتیں انتہائی ڈراؤنی اور خوفناک ہوں گی اور اس قبر کے گھڑے میں اندھیرا بھی گھپ ہو گا۔ تیری مدد کو بھائی پینچ پائے گا نہ تیرا والد ۔۔۔ تیری والدہ کچھ مدد کر سکے گی نہ تیری بہن۔۔۔۔ تیری اولاد کام آئے گی نہ تیری بیوی تیرا بوجھ ہلکا کر سکے گی۔۔۔۔ ایسے میں تیرے کام جو چیز آئے گی وہ تیرا ایمان اور اچھا عمل ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ وہ فرشتے تجھ سے تین سوال کریں گے 1۔ من ربک؟ تیرا رب کون ہے؟ 2۔ ما دینک؟ تیرا دین کیا ہے؟ 3۔ من نبیک؟ تیرا نبی کون ہے؟ بعض روایات میں آیا ہے کہ ایک صورت دکھائی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ صورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر پوچھا جائے گا بتا تو اس صورت کو پہچانتا ہے ؟ یہ کس کی صورت ہے؟ اے عزیز ذرا سوچ جب تجھے آس پاس سے کوئی اشارہ کنایہ (ہینٹ) بھی نہ ملے گا گھپ اندھیرا بھی۔۔۔ سوال کرنے والے بھی انتہائی خوفناک صورت کے حامل تو تو کیسے جواب دے پائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تو اپنے ایمان اور اچھے اعمال جو تو نے اس دنیا میں کیے ہوں گے ان کے نور سے اس قابل ہو گا کہ جواب دے پائے۔۔۔۔۔۔ اگر تیرا جواب درست ہوا تو جنت کی ایک کھڑکی کا ربط تیری قبر کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا جہاں سے دل و دماغ معطر کرنے والی خوشبوئیں اور ٹھنڈی ہوائیں آتی رہیں گی۔۔ اور تیری قبر کو نگاہ پڑنے کی حد تک کھلا کر دیا جائے گا۔۔۔۔ قبر تجھے مبارک دے گی اور کہے گی زمین پر چلنے والوں میں سب سے زیادہ عزیز تو تھا مجھے۔۔۔ اب تجھے یہاں کوئی خوف نہیں۔۔۔ تازہ ہوائیں کھا اور مزے کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تو ان سوالوں کا جواب نہیں دے پایا تو دوزخ یعنی بھڑکتی ہوئی آگ کی کھڑکی کا ربط تیری قبر کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔۔۔ جہاں سے انتہائی گرم لو اور اعلی درجے کی تپش والی دہکتی ہوئی آگ تجھے پہنچے گی۔۔ صرف اسی پہ بس نہیں بلکہ بڑے بڑے اژدہے، سانپ اور بچھو تیرے اوپر چھوڑ دیے جائیں گے جو تجھے ڈھنک ماریں گے پھر تو چیخے گا۔۔۔۔ اور قبر تیرے اوپر لعنت کرے گی اور تجھے کہے گی۔۔۔۔۔۔۔ اے فلاں ! جتنے لوگ زمین کی پشت پر چلتے تھے ان سب میں تو مجھے سب سے برا لگتا تھا ۔۔۔ تو سب سے زیادہ مبغوض تھا۔۔ اب دیکھ میں تیرا کیا حشر کرتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تیری قبر اس قدر تنگ ہو جائے گی کہ تیری تیری پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سانپ بچھو تجھے کاٹتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تو اسی حالت میں پڑٓا رہے گا سسکتا رہے گا۔۔ تیری مدد کو کوئی نہ آئے گا۔۔۔ اے غفلت میں پڑے ہوئے انسان!!!!! اب تو خود فیصلہ کر لے تجھے کونسی صورت زیادہ عزیز ہے۔۔۔ لازمی بات ہے کہ تو جنت کے مزے اڑانا چاہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر پکی سچی توبہ کر لے ابھی وقت ہے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہر کام کو چھوڑنے کا پکا ارادہ کر لے۔۔ گناہوں کو بالکل ترک کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے اللہ!! تو گواہ بن جا، میں سچے دل سے توبہ کرتا ہوں ہر گناہ اور ہر خلاف شرع کام سے۔۔۔ آج سے ہی میں تمام فرائض کو پورا کروں گا،گی۔ اور ہر ہر حرام سے بچوں گا۔ گی۔ یا الہی تو توفیق بخش اور میری مدد فرما۔۔۔۔ آمین ثم آمین
 
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان اللہ لا ینظر الی اجسامکم ولا الی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ حدیث ریاض الصالحین میں ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقین جانو کہ اللہ تمہارے جسم اور شکل و صورت کو نہیں دیکھتا ، بلکہ اللہ تو تمہارے دل کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔۔ انسان کی ظاہری وضع قطع جتنی بوسیدہ کیوں نہ ہو اگر وہ اچھے اعمال کر رہا ہے اور نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ کر رہا ہے اللہ کے ہاں بڑے رتبے والا ہے۔ دوسرا انسان انتہائی خوبصورت لباس زیب تن کرتا ہے بڑے ٹھاٹھ باٹھ میں رہتا ہے لیکن اچھے اعمال یعنی احکام شرع کی پاسداری نہیں کرتا یا اگر کرتا بھی ہے تو دکھلاوے اور دوسروں پر اپنا رعب قائم کرنے کے لیے کرتا ہے ایسے شخص کی اللہ کے ہاں کوئی وقعت نہیں۔۔ اس حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ کسی انسان کو اس کے ظاہری کمزور بود و باش کی وجہ سے گھٹیا اور معاشرے کا گرا ہوا فرد نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے دل میں اخلاص اور للہیت سے بھرا ہوا ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ وہ کتنا پرہیزگار اور متقی ہے اور اللہ کے ہاں اس کا بڑا مقام ہو۔ مجھے اور اآپ کو اپنی آخرت سنوارنے کی فکر کرنی چاہیے۔ دوسروں کی نگرانی کر کے اور ان کے عیوب تلاش کر کے اپنی آخرت تباہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس میں کوئی عیب ہے وہ جانے اور اس کا خدا جانے۔۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
 

سید عمران

محفلین
السلام علیکم ۔۔۔۔
سوال ہے کہ قبر میں من ربک کیوں پوچھا جایئے گا؟؟؟
وعلیکم السلام۔۔۔
آج کے دور کے لحاظ سے بہت اچھا سوال ہے۔۔۔
کیوں کہ دہریت کا ابلاغ عام ہورہا ہے۔۔۔
باقی کو بھی اسی پر قیاس کرلیں مگر دہریہ اس سوال کے جواب میں جو الفاظ کہے گا اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعینہ نقل فرمادیا۔۔۔
ہاہ ہاہ لا ادری۔۔۔
ہائے ہائے میں نہیں جانتا میرا پالنے والا کون ہے !!!
 

عرفان سعید

محفلین

آپ کی تحقیق کیا کہتی ہے ؟

میں جانتا تو پوچھتا کیوں؟؟؟

میرے انتہائی محدود مطالعے کے مطابق، رب کی اعلی ترین تحقیق، محترمی جناب مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے اپنی کتاب "قرآن مجید کی چار بنیادی اصلاحات" میں فرمائی ہے۔ یہ کتاب محترم مولانا کے فکرِ دین کا نچوڑ تو ہے ہی، لیکن ایک بلند پایہ تحقیق کا نادر شاہکار بھی ہے۔ تحقیق کیا ہوتی ہے؟ اس کے اسرار و رموز جاننے ہوں تو اس کتاب کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ میں اس مختصر کتاب سے سیدی کی "رب" کے بارے میں تحقیق پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

(یہ واضح کر دوں کہ مولانا کا انتہائی عقیدت مند ہونے کے باوجود میرا ان کے فکرِ دین سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔

رب

لغوی تحقیق

اس لفظ کا مادّہ ر ب ب ہے جس کا ابتدائی و اساسی مفہوم پرورش ہے۔ پھر اسی سے تصرف، خبر گیری، اصلاح حال اور اتمام و تکمیل کا مفہوم پیدا ہوا۔ پھر اسی بنیاد پر فوقیت، سیادت، مالکیت اور آقائی کے مفہومات اس میں پیدا ہو گئے۔ لغت میں اس کے استعمالات کی چند مثالیں یہ ہیں:

۱:پرورش کرنا، نشوونما دینا، بڑھانا۔ مثلاً ربیب اور ربیبہ پروردہ لڑکے اور لڑکی کو کہتے ہیں۔ نیز اس بچے کو بھی ربیب کہتے ہیں جو سوتیلے باپ کے گھر پرورش پائے۔ نیز اس بچے کو بھی ربیب کہتے ہیں جو سوتیلے باپ کے گھر پرورش پائے۔ پالنے والی دائی کو بھی ربیبہ کہتے ہیں۔ راتبہ سوتیلی ماں کو کہتے ہیں، کیونکہ وہ ماں تو نہیں ہوتی مگر بچے کو پرورش کرتی ہے۔ اسی مناسبت سے رآبّ سوتیلے باپ کو کہتے ہیں۔ مربَّب یا مربّی اسی دوا کو کہتے ہیں جو محفوظ کر کے رکھی جائے۔ رَبَّ۔ یُرَبُّ۔ ربًّا کے معنی اضافہ کرنے بڑھانے اور تکمیل کو پہنچانے کے ہیں۔ جیسے رَبَّ النِّعْمَۃَ، یعنی احسان میں اضافہ کیا یا احسان کی حد کر دی۔

۲:سمیٹنا، جمع کرنا، فراہم کرنا۔ مثلاً کہیں گے فَلَانٌ یَرُبُّ النَّاسَ یعنی فلاں شخص لوگوں کو جمع کرتا ہے، یا سب لوگ اس شخص پر مجتمع ہوتے ہیں۔ جمع ہونے کی جگہ کو مَربّ کہیں گے۔ سمٹنے اور فراہم ہو جانے کو تَرَبُّبْ کہیں گے۔

۳: خبر گیری کرنا، اصلاح حال کرنا، دیکھ بھال کرنا اور کفالت کرنا۔ مثلاً

رَبَّ ضَیْعَتَہ کے معنی ہوں گے فلاں شخص نے اپنی جائیداد کی دیکھ بھال اور نگرانی کی۔ ابوسفیان سے صفوان نے کہا تھا

لِاَنْ یَرُبَّنِیْ رَجُلٌ مِنْ قریشٍ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ یَرُبَّنِیْ رَجُلٌ مِنْ ھَوَازِن یعنی قریش میں سے کوئی شخص مجھے اپنی ربوبیت میں لے لے یہ مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ ہوازن کا کوئی آدمی ایسا کرے۔

علقمہ بن عبیدہ کا شعر ہے :

وَکُنْتَ امُئِرًا اَفْضَتُ اِلَیْکَ رَبَابَتِیْ وَقَبُلَکَ رَبَتَّنِیْ فَضِعْتُ رُبُوْبی

یعنی تجھ سے پہلے جو رئیس میرے مربی تھے انہیں میں نے کھو دیا، آخر کار اب میری کفالت و ربابت تیرے ہاتھ آئی ہے۔

فرزدق کہتا ہے :

کانوا کَسَائِلۃٍ حَمْقَا ءَ اِزْ حَقَنَتْ سَلَاءَھَا فِیْ اَدِیْم غَیْرِ مَرْبُو بِ

اس شعر میں ادیم غیر مربوب سے مراد وہ چمڑا ہے جو کمایا نہ گیا ہو، جسے دباغت دے کر درست نہ کیا گیا ہو۔ کَسَائِلۃٍ حَمْقَا ءَ اِزْ حَقَنَتْ کے معنی ہوں گے فلاں شخص فلاں کے پاس اپنے پیشہ کا کام کرتا ہے یا اس سے کاریگری کی تربیت حاصل کرتا ہے۔

۴۔ فوقیت، بالادستی، سرداری، حکم چلانا، تصرف کرنا۔ مثلاً قد ربّ فلان قومِہ یعنی فلاں شخص نے قوم کو اپنا تابع کر لیا۔ ربیت القوم یعنی میں نے قوم پر حکم چلایا اور بالادست ہو گیا۔

لبید بن ربیعہ کہتا ہے :

وَاَھُلَکْنَ یَوْمًا رَبَّ کِنْدَۃَ وَابْنَہُ وَرَبَّ مَعَدٍّ بَیْنَ خَبْتٍ وَعَرْ عَرٍ

یہاں رب کندہ سے مراد کندہ کا سردار ہے جس کا حکم اس قبیلہ میں چلتا تھا۔ اس معنی میں نابغہ ذیبانی کا شعر ہے :

تَخِبُّ اِلٰی النُّعْمَانِ حتّٰی تَنَالٰہُ فِدًی لَکْ مِنْ رَّبٍّ تَلِیْدِی وَطَارِ فِیْ

۵۔ مالک ہونا، مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اَرَبُّ غَنَم اَمْ رَبُّ ابل؟ تو بکریاں کا مالک ہے یا اونٹوں کا؟ اس معنی میں گھر کے مالک کو رَبُّ الدَّارِ اونٹی کے مالک کو رَبُّ النَاقَہ جائداد کے مالک کو رب الضیعہ کہتے ہیں۔ آقا کے معنی میں بھی رب کا لفظ آتا ہے اور عبد، یعنی غلام کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے۔

غلطی سے رب کے لفظ کو محض پروردگار کے مفہوم تک محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے اور ربوبیّت کی تعریف میں یہ فقرہ چل پڑا ہے کہ ھوَ اَنْشَاَ الشَّئْ حَالًا فَحَالًا اِلیٰ حَدِّ التَّمَامِ(یعنی ایک چیز کو درجہ بدرجہ ترقی دے کر پایہ کمال کو پہنچانا)۔ حالانکہ یہ اس لفظ کے وسیع معانی میں سے صرف ایک معنی ہے۔ اس کی پوری وسعتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ حسبِ ذیل مفہومات پر حاوی ہے :

۱:پرورش کرنے والا، ضروریات بہم پہنچانے والا۔ تربیت اور نشو و نما دینے والا۔

۲:کفیل، خبر گیراں، دیکھ بھال اور اصلاح حال کا ذمہ دار۔

۳:وہ جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو، جس میں متفرق اشخاص مجتمع ہوتے ہوں۔

۴:سید مطاع، سردار ذی اقتدار، جس کا حکم چلے، جس کی فوقیت و بالا دستی تسلیم کی جائے، کجس کو تصرف کے اختیارات ہوں۔

۵:مالک، آقا۔

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
قرآن میں لفظ رب کے استعمالات

قرآن مجید میں یہ لفظ ان سب معانی میں آیا ہے۔ کہیں ان میں سے کوئی ایک یا دو معنی مراد ہیں، کہیں اس سے زائد اور کہیں پانچوں معنی۔ اس بات کو ہم آیات قرآنی قرآنی سے مختلف مثالیں دے کر واضح کریں گے۔

پہلے معنی میں :

قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّہ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ

اس نے کہا کہ پناہ بخدا! وہ تو میرا رب[7] ہے جس نے مجھے اچھی طرح رکھا۔ (یوسف:۲۳)

دوسرے معنی میں جس کے ساتھ پہلے معنی کا تصور بھی کم و بیش شامل ہے :

فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ وَالَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ

تمہارے یہ معبود تو میرے دشمن ہیں، بجز رب کائنات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، جو میری رہنمائی کرتا ہے، جو مجھے جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے۔ (الشعراء:۷۷ تا ۸۰)

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجَْٔرُوْنَ ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُوْنَ

تمہیں جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی سے حاصل ہوئی ہے، پھر جب تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اسی کی طرف تم گھبرا کر رجوع کرتے ہو مگر جب وہ تم پر سے مصیبت ٹال دیتا ہے تو کچھ لوگ تم میں سے ایسے ہیں جو اپنے رب کے ساتھ (اس نعمت کی بخشش اور اس مشکل کشائی میں )دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔ (النحل:۵۳۔ ۵۴)

قُلْ اَغَیْرَاللہِ اَبْغِیْ رَبًّاوَّ ھُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ

کہو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کرو۔ حالانکہ ہر چیز کا رب وہی ہے

رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا

وہ مغرب و مشرق کا رب ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ (المزمل۔ ۹)

لہذا اسی کو اپنا وکیل (اپنے سارے معاملات کا کفیل و ذمہ دار)بنا لے۔

تیسرے معنی میں:۔

هُوَ رَبُّكُمْ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ

وہ تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم پلٹا کر لے جائے جاؤ گے۔ (ہود۔ ۳۴)

ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ

پھر تمہارے رب کی طرف تمہاری واپسی ہے۔ (الزمر۔ ۷)

قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنا رَبُّنَا

کہو کہ ہم دونوں فریقوں کو ہمارا رب جمع کرے گا۔ (سبا۔ ۲۶)

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ

زمین میں چلنے والا کوئی جاندار اور ہوا میں اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں ہے جو تمہاری ہی طرح ایک امت نہ ہو۔ اور ہم نے اپنے دفتر میں کسی کے اندراج سے کوتاہی نہیں کی ہے۔ پھر وہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جائیں گے۔ (الانعام۔ ۳۸)

وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ يَنْسِلُوْنَ

اور جونہی کہ صور پھونکا جائے گا وہ سب اپنے ٹھکانوں کی طرف نکل پڑیں گے۔ (یٰس۔ ۵۱)

چوتھے معنی جس کے ساتھ کم و بیش تیسرے معنی کا تصور بھی موجود ہے :۔

اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ

انہوں نے اللہ کے بجائے اپنے علما اور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا۔ (التوبہ۔ ۳۱)

وَّ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١

اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ (اٰل عمران۔ ۶۴)

دونوں آیتوں میں ارباب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو قوموں اور گروہوں نے مطلقاً اپنا رہنما و پیشوا مان لیا ہو۔ جن کے امرو نہی، ضابط و قانون اور تحلیل و تحریم کو بلا کسی سند کے تسلیم کیا جاتا ہو۔ جنہیں بجائے خود حکم دینے اور منع کرنے کا حق دار سمجھا جاتا ہو۔

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا١۔۔وَ قَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ

یوسف (علیہ السلام)نے کہا کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب کو شراب پلائے گا۔اور ان دونوں میں سے جس کے متعلق یوسفؑ کا خیام تھا کہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسفؑ نے کہا کہ اپنے رب سے میرا ذکر کرنا، مگر شیطان نے اسے بھلاوے میں ڈال دیا اور اس کو اپنے رب سے یوسفؑ کا ذکر کرنے کا خیال نہ رہا۔ (یوسف۔ ۴۲)

وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ فَلَمَّا جَآءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰى رَبِّكَ فَسَْٔلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ

جب پیغام لانے والا یوسفؑ کے پاس آیا تو یوسفؑ نے اس سے کہا کہ اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ میرا رب تو ان کی چال سے با خبر ہے ہی۔ (یوسف۔ ۵۰)

ان آیات میں حضرت یوسفؑ نے مصریوں سے خطاب کرتے ہوئے بار بار فرعون مصر کو ان کا رب قرار دیا ہے، اس لیے کہ جب وہ اس کی مرکزیت اور اس کا اقتدار اعلیٰ اور اس کو امرو نہی کا مالک تسلیم کرتے تھے، تو وہی ان کا رب تھا۔ برعکس اس کے خود حضرت یوسفؑ اپنا رب اللہ کو قرار دیتے ہیں، کیونکہ وہ فرعون کو نہیں، صرف اللہ کو مقتدر اعلیٰ اور صاحب امر و نہی مانتے تھے۔

پانچویں معنی میں:۔

فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ۔ الَّذِيْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ١ۙ۬ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ

لہذا انہیں اس گھر کے مالک کی عبادت کرنی چاہیے جس نے ان کی رزق رسانی کا انتظام کیا ہے اور انہیں بد امنی سے محفوظ رکھا ہے۔ (قریش:۳، ۴)

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ العِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ

تیرا رب جو عزّت و اقتدار کا مالک ہے ان تمام صفات عیب سے پاک ہے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ (صفت۔ ۱۸۰)

فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ

اللہ جو عرش کا مالک ہے ان تمام صفاتِ عیب سے پاک ہے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ (الانبیاء۔ ۲۲)

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ

پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش بزرگ کا مالک کون ہے ؟(المومنون۔ ۸۶)

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ

وہ جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان سب چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں اور سب چیزوں کا جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ (الصفٰت۔ ۵)

وَاَنَّه هُوَ رَبُّ الشِّعْرٰى

اور یہ کہ شعریٰ کا مالک بھی وہی ہے (النجم۔ ۴۹)

ربوبیت کے باب میں گمراہ قوموں کے تخیلات

ان شواہد سے لفظ رب کے معانی بالکل غیر مشتبہ طور پر متعین ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ربوبیت کے متعلق گمراہ قوموں کے وہ کیا تخیلات تھے جن کی تردید کرنے کے لیے قرآن آیا، اور کیا چیز ہے جس کی طرف قرآن بلاتا ہے۔ اس سلسلہ میں زیادہ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن گمراہ قوموں کا ذکر قرآن نے کیا ہے ان کو الگ الگ لے کر ان کے خیالات سے بحث کی جائے تاکہ بات بالکل منقح ہو جائے۔

(۱) قوم نوح:سب سے پہلے جس قوم کا ذکر قرآن کرتا ہے، حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہے۔ قرآن کے بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کے جواب میں ان کا یہ قول خود قرآن نے نقل کیا ہے :

مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَا ءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰ ىِٕكَةً

یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر تم جیسا ایک انسان۔ یہ دراصل تم پر اپنی فضیلت جمانا چاہتا ہے۔ ورنہ اگر اللہ کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔ (المؤمنون۔ ۲۴)

انہیں اللہ کے خالق ہونے اور پہلے اور دوسرے معنی میں اس کے رب ہونے سے بھی انکار نہ تھا۔ چنانچہ حضرت نوح جب ان سے کہتے ہیں کہ

هُوَ رَبُّكُمْ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ[8] (ہود۔ ۳۴)

اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا[9] (نوح۔ ۱۰)

اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا وَاللّٰهُ اَنْ بَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا[10] (نوح۔ ۱۵ ۔۔۱۷)

تو ان میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ اللہ ہمارا رب نہیں ہے، یا پھر زمین و آسمان کو اور ہمیں اس نے پیدا نہیں کیا ہے، یا زمین و آسمان کا یہ سارا انتظام وہ نہیں کر رہا ہے۔ پھر ان کو اس بات سے بھی انکار نہ تھا کہ اللہ ان کا الٰہ ہے۔ اسی لیے تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی دعوت ان کے سمانے ان الفاظ میں پیش کی کہ مالکم من الٰہ غیرہ (اس کے سوا تمہارے لیے کوئی دوسرالٰہ نہیں ہے )ورنہ وہ اگر اللہ کے الٰہ ہونے سے منکر ہوتے تو دعوت کے الفاظ یہ ہوتے اِتَخذوا اللہ الٰھا ( اللہ کو اپنا الٰہ بنا لو)۔

اب سوال یہ ہے کہ ان کے اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان نزاع کس بات پر تھی؟ آیات قرانی کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ بنائے نزاع دو باتیں تھیں۔

ایک یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کی تعلیم یہ تھی کہ جو رب العالمین ہے، جسے تم بھی مانتے ہو کہ تمہیں اور تمام کائنات کو اسی نے وجود بخشا ہے اور وہی تمہاری ضروریات کا کفیل ہے، دراصل وہی اکیلا تمہارا الٰہ ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔ کوئی اور ہستی نہیں ہے جو تمہاری حاجتیں پوری کرنے والی، مشکلیں آسان کرنے والی، دعائیں سننے والی اور مدد کو پہنچنے والی ہو۔ لہٰذا تم اسی کے آگے سرِنیاز جھکاؤ۔

يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُہ۔وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ

اے برادران قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔مگر میں رب العالمین کی طرف سے پیغامبر ہوں۔ تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔ (اعراف۔ ۵۹، ۶۲)

اس کے برعکس وہ لوگ اس بات پر مصر تھے کہ رب العالمین تو اللہ ہی ہے مگر دوسرے بھی خدائی کے انتظام میں تھوڑا بہت دخل رکھتے ہیں، اور ان سے بھی ہماری حاجتیں وابستہ ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ ہم دوسروں کو الٰہ مانیں گے :

وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا

ان کے سرداروں اور پیشواؤں نے کہا کہ لوگو! اپنے الٰہوں کو نہ چھوڑو، ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو نہ چھوڑو۔ (نوح۔ ۲۳)

دوسرے یہ کہ وہ لوگ صرف اس معنی میں اللہ کو رب مانتے تھے کہ وہ ان کا خالق، زمین و آسمان کا مالک اور کائنات کا مدبر اعلیٰ ہے۔ لیکن اس بات کے قائل نہ تھے کہ اخلاق، معاشرت، تمدن، سیاست اور تمام معاملات زندگی میں بھی حاکمیت و اقتدار اعلیٰ اسی کا حق ہے، وہی رہنما ہے، وہی قانون ساز، وہی صاحب امر و نہی بھی ہے اور اسی کی اطاعت بھی ہونی چاہیے۔ ان سب معاملات میں انہوں نے اپنے سرداروں اور مذہبی پیشواؤں کو اپنا رب بنا رکھا تھا۔ برعکس اس کے حضرت نوح کا مطالبہ یہ تھا کہ ربوبیت کے ٹکڑے نہ کرو۔ تمام مفہومات کے اعتبار سے صرف اللہ ہی کو رب تسلیم کرو، اور اس کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے جو قوانین اور احکام میں تمہیں پہنچاتا ہوں ان کی پیروی کرو۔

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ

میں تمہارے لیے خدا کا معتبر رسول ہوں۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (الشعراء۔ ۱۰۷۔ ۱۰۸)

(۲)قوم عاد: قوم نوح کے بعد قرآن عاد کا ذکر کرتا ہے۔ یہ قوم بھی اللہ کی ہستی سے منکر نہ تھی۔ اس کے الٰہ ہونے سے بھی اس کو انکار نہ تھا۔ جس معنی میں نوح علیہ السلام کی قوم اللہ کو رب تسلیم کرتی تھی اس معنی میں یہ قوم بھی اللہ کو رب مان رہی تھی۔ البتہ بنائے نزاع وہی دو امور تھے جو اوپر قوم نوح کے سلسلہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ چنانچہ قران کی حسب ذیل تصریحات اس پر صاف دلالت کرتی ہیں:

وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ۭقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗقَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَوَحْدَہ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَا ؤُنَا

عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے کہا، اے برادران قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں۔انہوں نے جواب دیا کیا تو اس لیے آیا ہے کہ بس ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کے وقتوں سے ہوتی آ رہی ہے۔ (اعراف۔ ۶۵۔ ۷۰)

قَالُوْا لَوْ شَا ءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰ ىِٕكَةً

انہوں نے کہا اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیج سکتا تھا۔ (حٰم السجدہ۔ ۱۴)

وَتِلْكَ عَادٌ جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ

اور یہ عاد ہیں جنہوں نے اپنے رب کے احکام ماننے سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی اطاعت قبول نہ کی، اور ہر جبار دشمن حق کی پیروی اختیار کی۔ (ہود۔ ۵۹)

(۳)قوم ثمود: اب ثمود کو لیجئے جو عاد کے بعد سب سے بڑی سرکش قوم تھی۔ اصولا اس کی گمراہی بھی اسی قسم کی تھی جو قوم نوح اور قوم عاد کی بیان ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو اللہ کے وجود اور اس کے الٰہ اور رب ہونے سے انکار نہ تھا، اس کی عبادت سے بھی انکار نہ تھا۔ بلکہ انکار اس بات سے تھا کہ اللہ ہی الٰہ واحد ہے، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، اور ربوبیت اپنے تمام معانی کے ساتھ اکیلے اللہ ہی کے لیے خاص ہے، وہ اللہ کے سوا دوسروں کو بھی فریاد رس، حاجت روا، اور مشکل کشا ماننے پر اصرار کرتے تھے۔ اور اپنی اخلاقی و تمدنی زندگی میں اللہ کی بجائے اپنے سرداروں اور پیشواؤں کی اطاعت کرنے اور ان سے اپنی زندگی کا قانون لینے پر مصر تھے۔ یہی چیز ان کے بالآخر ان کے ا یک فسادی قوم بن جانے اور مبتلائے عذاب ہونے کا موجب ہوئی۔ اس کی توضیح حسب ذیل آیات سے ہوتی ہے :

فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ اِذْ جَائَتْھُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ قَالُوْا لَوْ شَا ءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰ ىِٕكَةً فَاِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہ كٰفِرُوْنَ

اے محمد! اگر یہ لوگ تمہاری پیروی سے منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ عاد اور ثمود کو جو سزا ملی تھی ویسی ہی ایک ہولناک سزا سے میں تم کو ڈراتا ہوں۔ جب ان قوموں کے پاس ان کے پیمبر آگے اور پیچھے سے آئے اور کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو انہوں نے کہا ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیجتا، لہٰذا تم جو کچھ لے کر آئے ہو اسے ہم نہیں مانتے۔

(حٰم السجدہ۔ ۱۳۔ ۱۴)

وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُہ۔قَالُوْا يٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْهٰىنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ اٰبَا ؤُنَا

اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ اس نے کہا اے برادران قوم! اللہ کی پرستش و بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔۔ ۔ انہوں نے کہا صالح! اس سے پہلے تو ہماری بڑی امیدیں تم سے تھیں، کیا تم ہمیں ان کی عبادت سے روکتے ہو جن کی عبادت باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔ (ہود۔ ۶۱۔ ۶۲)

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ

جب ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا کہ کیا تمہیں اپنے بچاؤ کی کوئی فکر نہیں؟ دیکھو میں تمہارے اللہ کا معتبر رسول ہوں لہٰذا اللہ کی ناراضگی سے بچو اور میری اطاعت قبول کرو۔اور ان حد سے گزر جانے والوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔ (الشعراء۔۱۴۲۔ ۱۵۲)

(۴)قوم ابراہیم و نمرود: اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کی قوم کا نمبر آتا ہے۔ اس قوم کا معاملہ خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ اس کے بادشاہ نمرود کے متعلق یہ عام غلط فہمی ہے کہ وہ اللہ کا منکر اور خود خدا ہونے کا مدعی تھا۔ حالانکہ وہ اللہ کی ہستی کا قائل تھا، اس کے خالق و تدبرِ کائنات ہونے کا معتقد تھا، اور صرف تیسرے، چوتھے اور پانچویں معنی کے اعتبار سے اپنی ربوبیت کا دعویٰ کرتا تھا۔ نیز یہ بھی عام غلط فہمی ہے کہ یہ قوم اللہ سے بالکل ناواقف تھی اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کی سرے سے قائل ہی نہ تھی۔ حالانکہ فی الواقع اس قوم کا معاملہ قومِ نوح اور عاد اور ثمود سے کچھ بھی مختلف نہ تھا۔ وہ اللہ کے وجود کو بھی مانتی تھی، اس کا رب ہونا اور خالقِ ارض و سما اور تدبر کائنات ہونا بھی اسے معلوم تھا۔ اس کی عبادت سے بھی وہ منکر نہ تھی۔ البتہ اس کی گمراہی یہ تھی کہ ربوبیت بمعنی اول و دوم میں اجرام فلکی کو حصہ دار سمجھتی تھی۔ اور اس بناء پر اللہ کے ساتھ ان کو بھی معبود قرار دیتی تھی۔ اور ربوبیت بمعنی سوم و چہارم و پنجم کے اعتبار سے اس نے اپنے بادشاہوں کو رب بنا رکھا تھا۔ قرآن کی تصریحات اس بارے میں اتنی واضح ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کس طرح لوگ اصل معاملہ کو سمجھنے سے قاصر رہ گئے۔

سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ کے آغازِ ہوش کا وہ واقعہ لیجیے جس میں نبوت سے پہلے ان کی تلاشِ حق کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

فلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَ‌أَىٰ كَوْكَبًا قَالَ هَٰذَا رَ‌بِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ۔ فَلَمَّا رَ‌أَى الْقَمَرَ‌ بَازِغًا قَالَ هَٰذَا رَ‌بِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَ‌بِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ۔ فَلَمَّا رَ‌أَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَ‌بِّي هَٰذَا أَكْبَرُ‌ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِ‌يءٌ مِّمَّا تُشْرِ‌كُونَ۔ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ۔

جب اس پر رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا۔ کہنے لگا یہ میرا رب ہے۔ مگر جب وہ تارا ڈوب گیا تو اس نے کہا ڈوبنے والوں کو تو میں پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند چمکتا ہوا دیکھا تو کہا، یہ میرا رب ہے مگر وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا، اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو یہ خطرہ ہے کہ کہیں میں بھی ان گمراہ لوگوں میں شامل نہ ہو جاؤں۔ پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی چھپ گیا تو وہ پکار اٹھا کہ اے برادران قوم جو شرک تم کرتے ہو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں میں نے تو سب طرف سے منہ موڑ کر اپنا رخ اس کی طرف پھیر دیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ (انعام:۷۶تا۷۹ )

خط کشیدہ فقروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس سوسائٹی میں حضرت ابراہیمؑ نے آنکھ کھولی تھی اس میں آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے کا تصور، اور اس ذات کے رب ہونے کا تصور، ان سیاروں کی ربوبیت کے تصور سے الگ موجود تھا۔ اور آخر کیوں نہ موجود ہوتا جبکہ یہ لوگ ان مسلمانوں کی نسل سے تھے جو حضرت نوحؑ پر ایمان لائے تھے، اور ان کی قریبی رشتہ دار ہمسایہ اقوام(عاد و ثمود) میں پے در پے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ سے دینِ اسلام کی تجدید بھی ہوتی چلی آ رہی تھی(جَاءَتْھُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ) پس حضرت ابراہیمؑ کو اللہ کےفَاطِرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور رب ہونے کا تصور تو اپنے ماحول سے مل چکا تھا، البتہ جو سوالات ان کے دل میں کھٹکتے تھے وہ یہ تھے کہ نظام ربوبیت میں اللہ کے ساتھ چاند، سورج اور سیاروں کے شریک ہونے کا جو تخیل ان کی قوم میں پایا جاتا ہے، اور جس کی بنا پر یہ لوگ عبادت میں بھی اللہ کے ساتھ ان کو شریک ٹھہرا رہے ہیں، یہ کہاں تک مبنی بر حقیقت ہے[11]۔ چنانچہ نبوت سے پہلے اسی کی جستجو انہوں نے کی اور طلوع و غروب کا انتظام ان کے لیے اس امر واقعی تک پہنچنے میں دلیل راہ بن گیا کہ فاطر السماوات والارض کے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ اسی بنا پر چاند کو غروب ہوتے دیکھ کر وہ فرماتے ہیں کہ اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ کی ہوتی تو خوف ہے کہ کہیں میں بھی حقیقت تک رسائی پانے سے نہ رہ جاؤں، اور ان مظاہر سے دھوکا نہ کھا جاؤں جن سے میرے گرد و پیش لاکھوں انسان دھوکا کھا رہے ہیں۔

پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام منصب نبوت پر سرفراز ہوئے اور انہوں نے دعوت الیٰ اللہ کا کام شروع کیا تو جن الفاظ میں وہ اپنی دعوت پیش فرماتے تھے ان پر غور کرنے سے سے وہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں:

وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

اور آخر میں ان سے کس طرح ڈر سکتا ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو، جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان کو شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے الٰہیت و ربوبیت میں شریک ہونے پر اللہ نے تماھرے پاس کوئی سند نہیں بھیجی ہے۔ (انعام۔ ۸۲)

وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ

تم اللہ کے سوا اور جن جن سے دعائیں مانگتے ہو ان سے میں دست کش ہوتا ہوں۔ (مریم۔ ۴۸)

قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِيْ فَطَرَهُنَّ قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَئًْا وَّلَا يَضُرُّكُمْ

کہا تمہارا رب تو صرف آسمانوں اور زمین کا رب ہی ہے جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے۔کہا پھر کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان پہنچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ؟ (انبیاء۔ ۵۶۔ ۶۶)

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ اَىِٕفْكًا اٰلِهَةً دُوْنَ اللّٰهِ تُرِيْدُوْنَ فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا، یہ تم کن کی عبادت کر رہے ہو؟ کیا اللہ کے سوا اپنے خود ساختہ الٰہوں کی بندگی کا ارادہ ہے ؟ پھر رب العالمین کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ (صٰفٰت۔ ۸۵تا۸۷)

إِنَّا بُرَ‌آؤ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْ‌نَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ

"ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھی مسلمانوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے صاف کہہ دیا) کہ ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا جن جن کی عبادت تم کرتے ہو ان سب سے کوئی تعلق نہیں، ہم تمہارے طریقے کو ماننے سے انکار کر چکے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ سے بغض و عداوت کی بنا پڑ گئی ہے جب تک کہ تم اکیلے اللہ پر ایمان نہ لاؤ”۔ (الممتحنہ:۴)

حضرت ابراہیم کے ان تمام ارشادات کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مخاطب وہ لوگ نہ تھے جو اللہ سے بالکل ناواقف اور اس کے رب العٰلمین اور معبود ہونے سے منکر یا خالی الذہن ہوتے۔ بلکہ وہ لوگ تھے جو اللہ کے ساتھ ربوبیّت(بمعنی اول و دوم)اور الٰہیّت میں دوسروں کو شریک قرار دیتے تھے۔ اسی لیے تمام قرآن میں کسی ایک جگہ بھی حضرت ابراہیمؑ کا کوئی ایسا قول موجود نہیں ہے جس میں انہوں نے اپنی قوم کو اللہ کی ہستی اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کا قائل کرنے کی کوشش کی ہو گی، بلکہ ہر جگہ وہ دعوت اس چیز کی دیتے ہیں کہ اللہ ہی رب اور الٰہ ہے۔

(جاری ہے)
 

عرفان سعید

محفلین
اب نمرود کے معاملہ کو لیجیے۔ اس سے حضرت ابراہیمؑ کی جو گفتگو ہوئی اسے قرآن اس طرح نقل کرتا ہے :۔

أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَ‌اهِيمَ فِي رَ‌بِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ رَ‌بِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِ‌قِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِ‌بِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ‌

تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے ابراہیمؑ سے اس کے رب کے بارے میں بحث کی، اس بنا پر کہ اللہ نے اسے حکومت دے رکھی تھی- جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے، تو اس نے کہا زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے – ابراہیم ؑ نے کہا، اچھا تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اب تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا- یہ سن کر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا-(البقرۃ:۲۸۵)

اس گفتگو سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ جھگڑا اللہ کے ہونے یا نہ ہونے پر نہ تھا بلکہ اس بات پر تھا کہ ابراہیم ؑ "رب” کسے تسلیم کرتے ہیں- نمرود اول تو اس قوم سے تعلق رکھتا تھا جو اللہ کی ہستی کو مانتی تھی- دوسرے جب تک وہ بالکل ہی پاگل نہ ہو جاتا وہ ایسی صریح احمقانہ بات کبھی نہ کہ سکتا تھا زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو گردش دینے والا وہ خود ہے – پس دراصل اس کا دعوی یہ نہ تھا کہ میں اللہ ہوں- یا رب السموت و الارض ہوں، بلکہ اس کا دعوی صرف یہ تھا کہ میں اس مملکت کا رب ہوں جس کی رعیت کا ایک فرد ابراہیم ؑ ہے – اور یہ رب ہونے کا دعوی بھی اسے ربوبیت کے پہلے اور دوسرے مفہوم کے اعتبار سے نہ تھا، کیونکہ اس اعتبار سے تو وہ خود چاند اور سورج اور سیاروں کی ربوبیت کا قائل تھا- البتہ وہ تیسرے، چوتھے اور پانچویں مفہوم کے اعتبار سے اپنی مملکت کا رب بنتا تھا- یعنی اس کا دعویٰ یہ تھا کہ میں اس ملک کا مالک ہوں، اس کے سارے باشندے میرے بندے، میرا مرکزی اقتدار ان کے اجتماع کی بنیاد ہے، اور میرا فرمان ان کے لیے قانون ہے – ان اٰتا ہ اللہ الملک کے الفاظ صریحاً اس بات کی طرف اشارہ کر رہے کہ اس دعوی ربوبیت کی بنیاد بادشاہی کے زعم پر تھی- جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی رعیت میں ابراہیم ؑ نامی ایک نوجوان اٹھا ہے جو نہ چاند اور سورج اور سیاروں کی فوق الفطری ربوبیت کا قائل ہے نہ بادشاہ وقت کی سیاسی و تمدنی ربوبیت تسلیم کرتا ہے، تو اس کو تعجب ہوا اور اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو بلا کر دریافت کیا آخر تم کسے رب مانتے ہو؟ حریت ابراہیم ؑ نے پہلے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جس کے قبضہ قدرت میں زندگی اور موت کے اختیارات ہیں- مگر اس جواب سے وہ بات کی تہ کو نہ پہنچ سکا اور یہ کہ کر اس نے اپنی ربوبیت ثابت کرنی چاہی کہ زندگی اور موت کے اختیارات تو مجھے حاصل ہیں جسے چاہوں قتل کرا دوں اور جس کی چاہوں جان بخشی کر دوں- تب حضرت ابراہیم ؑ نے اسے بتایا کہ میں صرف اللہ کو رب مانتا ہوں، ربوبیت کے جملہ مفہومات کے اعتبار سے میرے نزدیک تنہا اللہ ہی رب ہے، اس نظام کائنات میں کسی دوسرے کی ربوبیت کے لیے گنجائش ہی کہاں ہو سکتی ہے جبکہ سورج کہ طلوع و غروب پر وہ ذرہ برابر اثرانداز نہیں ہو سکتا- نمرود آدمی ذی ہوش تھا- اس دلیل کو سن کر اس پر یہ حقیقت کھل گئی کہ فی الواقع اللہ کی سلطنت میں اس کا دعویٰ ربوبیت بجز ایک زعم باطل کے اور کچھ نہیں ہے، اسی لیے وہ دم بخود ہو کر رہ گیا- مگر نفس پرستی اور شخصی و خاندانی اغراض کی بندگی ایسی دامنگیر ہوئی حق کے ظہور کے باوجود وہ خود مختارانہ حکمرانی کے منصب سے اتر کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر آمادہ نہ ہوا- یہی وجہ ہے کہ اس گفتگو کو نقل کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے : واللہ لا یھدی القوم الظالمین (مگر اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا) یعنی اس ظہور حق کے بعد جو رویہ اسے اختیار کرنا چاہیے تھا اسے اختیار کرنے کے لیے جب وہ تیار نہ ہوا اور اس نے غاصبانہ فرماں روائی کر کے دنیا پر اور خود اپنے نفس پر ظلم کرنا ہی پسند کیا تو اللہ نے بھی اسے ہدایت کی روشنی عطا نہ کی، کیونکہ اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو خود ہدایت کا طالب نہ ہو اس پر زبردستی اپنی ہدایت مسلط کر دے۔

(۵)قوم لوط علیہ السلام:قوم ابراہیم ؑ کے بعد ہمارے سامنے وہ قوم آتی ہے جس کی اصلاح پر حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط ؑ مامور کیے گئے تھے – اس قوم کے متعلق بھی قرآن سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ تو اللہ کے وجود کی منکر تھی نہ اس بات کی منکر تھی اللہ خالق اور رب بمعنی اول و دوم ہے – البتہ اسے انکار اس سے تھا کہ اللہ ہی کو تیسرے، چوتھے اور پانچویں معنی میں بھی رب مانے اور اس کے معتمد علیہ نمائندے کی حیثیت سے رسول کے اقتدار کو تسلیم کرے وہ چاہتی تھی کہ اپنی خواہش نفس کے مطابق خود جس طرح چاہے کام کرے۔ یہی اس کا اصلی جرم تھا اور اسی بنا پر وہ عذاب میں مبتلا ہوئی- قرآن کی حسب ذیل تصریحات اس پر شاہد ہیں:-

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ وَمَآ اَسَْٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ

جب ان کے بھائی لوط علیہ السلام نے ان سے کہا کہ تم تقوی اختیار کرو، دیکھو میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں- لہذا اللہ کے غضب سے بچو اور میری اطاعت کرو- اس کام پر میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، مرا معاوضہ تو صرف رب العالمین کے ذمہ ہے – کیا دنیا کے لوگوں میں سے تم لڑکوں کی طرف جاتے ہو اور تمہارے رب نے تمہارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو؟تم بڑے ہی حس سے گزرنے والے لوگ ہو۔ (الشعراء:۱۶۱تا۱۶۵)

ظاہر ہے کہ یہ خطاب ایسے ہی لوگوں سے ہو سکتا تھا جو اللہ کے وجود اور اس کے خالق خالق اور پروردگار ہونے کے منکر نہ ہوں- چنانچہ جواب میں وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ اللہ کیا چیز ہے ؟ یا وہ پیدا کرنے والا کون ہوتا ہے ؟ یا وہ کہاں سے ہمارا رب ہو گیا؟ بلکہ کہتے یہ ہیں کہ :-

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ

اے لوط! اگر تم اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو ملک سے نکال باہر کیے جاؤ گے۔ (الشعرا :۱۶۷)

دوسری جگہ اس واقعہ کو یوں فرمایا گیا ہے :-

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ ۡ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ — اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَۭفَمَاكَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۔

"اور ہم نے لوط کو بھیجا جب اس نے قوم سے کہا کہ تم لوگ وہ فعل شنیع کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ کیا تھا، کیا تم مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو، راستوں پر ڈاکے مارتے ہو، اور اپنی مجلسوں میں علانیہ ایک دوسرے کے سامنے بد کاریاں کرتے ہو؟ تو اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لے آؤ ہم پر اللہ کا عذاب اگر تم سچے ہو”

کیا یہ جواب کسی منکر خدا قوم کا ہو سکتا تھا؟پس معلوم ہوا کہ ان کا اصلی جرم انکار الوہیت و ربوبیت نہ تھا، بلکہ یہ تھا کہ وہ فوق الفطری میں اللہ کو الٰہ اور رب مانتے تھے۔ لیکن اپنے اخلاق اور تمدن، معاشرت میں اللہ کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرنے سے انکار کرتے تھے اوراس کے رسول کی ہدایت پر چلنے کے لیے تیار نہ تھے۔ (عنکبوت:۲۸-۲۹)

(۶)قوم شعیب علیہ السلام: اس کے بعد اہل مدین اور اصحاب الایکہ کو لیجیے جن میں حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھے، اس لیے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے وجود اوراس کے الٰہ اور رب ہونے کے قائل تھے یا نہ تھے۔ ان کی حیثیت دراصل ایک ایسی قوم کی تھی جس کی ابتداء اسلام سے ہوئی اور بعد میں وہ عقائد و اعمال کی خرابیوں میں مبتلا ہو کر بگڑتی چلی گئی بلکہ قرآن سے تو کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مومن ہونے کے بھی مدعی تھے، چنانچہ بار بار حضرت شعیب علیہ السلام ان سے فرماتے تھے کہ”اگر تم مومن ہو”تو تمہیں یہ کرنا چاہیے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی ساری تقریروں اور ان کے جوابات کو دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی قوم تھی جو اللہ کو مانتی تھی، اسے معبود اور پروردگار بھی تسلیم کرتی تھی، مگر وہ دو طرح کی گمراہیوں میں مبتلا ہو گئی تھی۔ ایک یہ کہ وہ فوق الفطری معنی میں اللہ کے سوا دوسروں کو بھی الٰہ اور رب سمجھنے لگی تھی۔ اس لیے ان کی عبادت صرف اللہ کے لیے مختص نہ رہی تھی، دوسرے یہ کہ اس کے نزدیک اللہ کی ربوبیت کو انسان کے اخلاق، معاشرت، معیشت، تمدن وسیاست سے کوئی سروکار نہ تھا، اس بنا پر وہ کہتی تھی کہ اپنی تمدنی زندگی میں ہم مختار ہیں، اپنے معاملات کو جس طرح چاہیں چلائیں۔

قرآن کی حسب ذیل آیات ہمارے اس بیان کی تصدیق کرتی ہیں:

وَ اِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَ الْمِيْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔ ۔ وَ اِنْ كَانَ طَآىِٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِيْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىِٕفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى يَحْكُمَ اللّٰهُ بَيْنَنَا وَ هُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ (الاعراف:۸۵، ۸۷)

اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا” اے برادرانِ قوم ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس روشن ہدایت آ چکی ہے، پس ناپ تول ٹھیک کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح کی جا چکی تھی۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم مومن ہو۔اگر تم میں سے ایک گروہ اس ہدایت پر، جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، ایمان لاتا ہے اور دوسرا ایمان نہیں لاتا، تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ "

وَ يٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَ الْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ(۸۵) بَقِيَّتُ اللّٰهِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ١ ۬ وَ مَاۤ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ(۸۶ )قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ۸۷(ھود:۸۵۔ ۔ ۸۷)

"اور اے برادرانِ قوم، پیمانے اور ترازو انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو۔ اور زمین میں فساد نہ برپا کرتے پھرو۔ اللہ کی عنایت سے کاروبار میں جو بچت ہو وہی تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو۔ اور میں تمہارے اوپر کوئی نگہبان نہیں ہوں، انہوں نے جواب دیا اے شعیب!کیا تمہاری نمازیں تمہیں یہ حکم دیتی ہیں کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے، یا یہ کہ ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنا ترک کر دیں؟تم ہی ایک راست بردبار اور راست باز رہ گئے ہو۔ "

آخری الفاظ خصوصیات کے ساتھ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ ربوبیت و الوہیت کے بارے میں ان کی اصل گمراہی کیا تھی۔

(۷)فرعون اور آل فرعون: اب ہمیں فرعون اور اس کی قوم کو دیکھنا چاہیے جس کے باب میں نمرود اوراس کی قوم سے بھی زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ فرعون نہ صرف خدا کی ہستی کا منکر تھا بلکہ خود خدا ہونے کا مدعی تھا یعنی اس کا دماغ اتنا خراب ہو گیا تھا کہ دنیا کے سامنے کھلم کھلا یہ دعوی کرتا تھا کہ میں خالق ارض وسما ہوں اور اس کی قوم اتنی پاگل تھی کہ اس کے دعوے پر ایمان لاتی تھی، حالانکہ قرآن اور تاریخ کی شہادت سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ الوہیت و ربوبیت کے باب میں اس کی گمراہی نمرود کی گمراہی سے، اوراس کی قوم کی گمراہی قومِ نمرود کی گمراہی سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ فرق جو کچھ تھا وہ صرف اس بنا پر تھا کہ یہاں سیاسی اسباب سے بنی اسرائیل کے ساتھ ایک قوم پرستانہ ضد اور متعصبانہ ہٹ دھرمی پیدا ہو گئی تھی اس لیے محض عناد کی بنا پر اللہ کو الٰہ اور رب ماننے سے انکار کیا جاتا تھا اگرچہ دلوں میں اس کا اعتراف چھپا ہوا تھا جیسا کہ آج کل بھی اکثر دہریوں کا حال ہے۔

اصل واقعات یہ ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب مصر میں اقتدار حاصل ہوا تو انہوں نے پوری قوت اسلام کی تعلیم پھیلانے میں صرف کر دی اور سر زمین پر اتنا گہرا نقش مرتسم کیا کہ صدیوں تک کسی کے مٹائے نہ مٹ سکا۔ اس وقت چاہے تمام اہل مصر نے اسلام دین حق قبول نہ کر لیا ہو مگر یہ ناممکن تھا کہ اہل مصر میں کوئی شخص اللہ سے ناواقف رہ گیا ہو اور یہ نہ جان گیا ہو کہ وہی خالق ارض وسماء ہے یہی نہیں بلکہ ان کی تعلیمات کا کم از کم اتنا اثر ہر مصر ی پر ضرور ہو گیا تھا کہ وہ فوق الفطری معنی میں اللہ کو الٰہ اللہ اور رب الارباب تسلیم کرتا تھا اور کوئی مصری اللہ کی الوہیت کا منکر نہ رہا تھا البتہ جو ان میں کفر پر قائم رہ گئے تھے وہ الوہیت اور ربوبیت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے یہ اثرات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے وقت تک باقی تھے[12]۔ چنانچہ اس کا صریح ثبوت وہ تقریر ہے جو فرعون کے دربار میں ایک قبطی سردار نے کی تھی جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ ظاہر کیا تھا تو اس کے دربار کا امیر جو مسلمان ہو چکا تھا مگر اپنا اسلام چھپائے تھا، بے قرار ہو کر بول اٹھا:

وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ اِيْمَانَهٗۤ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَ قَدْ جَآءَكُمْبِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ اِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ وَ اِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ اِنَّاللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ۔يٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظٰهِرِيْنَ فِي الْاَرْضِ فَمَنْ يَّنْصُرُنَا مِن ْبَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَا۔يٰقَوْمِ اِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ مِّثْلَ يَوْمِ الْاَحْزَابِۙ۔ ۔ مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ الَّذِيْنَ مِن ْ بَعْدِهِمْ وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ مِن ْ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا۔وَ يٰقَوْمِ مَا لِيْۤ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوةِ وَ تَدْعُوْنَنِيْۤ اِلَى النَّارِتَدْعُوْنَنِيْ لِاَكْفُرَ بِاللّٰهِ وَ اُشْرِكَ بِهٖ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ وَّ اَنَا اَدْعُوْكُمْ اِلَى الْعَزِيْزِ الْغَفَّارِ۔ ۔ (المومن۔ ۲۸۔ ۴۲)

"کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے سامنے کھلی کھلی نشانیاں لایا ہے اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ضرور پڑے گا لیکن اگر وہ سچا ہے تو جس انجام سے وہ تمہیں ڈرا رہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تم پر نازل ہو کر رہے گا یقین جانو کہ اللہ کسی حد سے بڑھے ہوئے جھوٹے آدمی کو فلاح کا راستہ نہیں دکھاتا۔ اے برادران قوم!آج تمہارے ہاتھ میں حکومت ہے، زمین میں تم غالب ہو مگر کل اللہ کا عذاب ہم پر آ جائے تو کون ہماری مدد کرے گا۔اے برادران قوم میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر وہ دن نہ آ جائے جو بڑی بڑی قوموں پرآ چکا ہے، اور وہی انجام تمہارا نہ ہو جو قوم نوح اور عاد اور ثمود اور بعد کی قوموں کا ہوا۔اس سے پہلے یوسف (علیہ السلام) تمہارے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے تو تم اس چیز کے متعلق شک میں پڑے رہے جسے وہ لائے تھے۔ پھر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم نے کہا کہ اللہ ان کے بعد کوئی رسول نہ بھیجے گا۔اور اے برادران قوم! یہ عجیب معاملہ ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو تم مجھے اس طرف بلاتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ ان کو شریک ٹھہراؤں جن کے شریک ہونے پر میرے پاس کوئی علمی ثبوت نہیں ہے، اور میں تمہیں اس کی طرف بلاتا ہوں جو سب سے زبردست ہے اور بخشنے والا ہے۔ (المومن:۲۸تا۳۱، ۳۴، ۴۱تا۴۲)

یہ پوری تقریر اس بات پر شاید ہے کہ یوسف علیہ السلام کی عظیم شخصیت کا اثر کئی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس وقت تک باقی تھا اور اس جلیل القدر نبی کی تعلیم سے متاثر ہونے کے باعث یہ قوم جہالت کے اس مرتبے پر نہ تھی کہ اللہ کی ہستی سے بالکل ہی ناواقف ہوتی یا یہ نہ جانتی کہ اللہ رب اور الٰہ ہے اور قوائے فطرت پر اس کا غلبہ و قہر قائم ہے اور اس کا غضب کوئی ڈرنے والی چیز ہے۔ اس کے آخری فقرے سے یہ بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اللہ کی الوہیت اور ربوبیت کی قطعی منکر نہ تھی بلکہ اس کی گمراہی وہی تھی جو دوسری قوموں کی بیان ہو چکی ہے۔ یعنی ان دونوں حیثیتوں میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا۔

شبہ جس وجہ سے واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ فرعون حضرت موسٰی علیہ السلام کی زبان سے اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (ہم رب العالمین کے رسول ہیں ) سن کر پوچھتا ہےوَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ( رب العالمین کیا چیز ہے ؟) اپنے وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ میرے لیے ایک اونچی عمارت بنا کہ میں موسٰی کے الٰہ کو دیکھوں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کو دھمکی دیتا ہے کہ میرے سوا کسی اور کو تم نے الٰہ بنایا تو میں تمہیں قید کر دوں گا۔ ملک بھر میں اعلان کرتا ہے کہ میں تمہارا رب اعلیٰ ہوں۔ اپنے درباریوں سے کہتا ہے کہ میں اپنے سوا تمہارے کسی الٰہ کو نہیں جانتا۔ اس قسم کے فقرات دیکھ کر لوگوں کو گمان ہوا کہ شاید وہ اللہ کی ہستی ہی کا منکر تھا، رب العالمین کے تصور سے بالکل خالی الذہن تھا اور اپنے آپ کو ہی واحد معبود سمجھتا تھا۔ مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ یہ تمام باتیں قوم پرستانہ ضد کی وجہ سے تھیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں صرف یہی نہیں ہوا تھا کہ آنجناب کی زبردست شخصیت کے اثر سے اسلام کی تعلیمات مصر میں پھیل گئی تھیں، بلکہ حکومت میں جو اقتدار ان کو حاصل ہوا تھا ان کی بدولت بنی اسرائیل مصر میں بہت با اثر ہو گئے تھے۔ تین چار سو سال تک یہ بنی اسرائیلی اقتدار مصر پر چھایا رہا۔ پھر وہاں اسرائیلیوں کے خلاف قوم پرستانہ جذبات پیدا ہونے شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے اقتدار کو الٹ پھینکا گیا اور ایک مصری قوم پرست خاندان فرمانروا ہو گیا۔ ان نئے فرمانرواؤں نے محض اسرائیلیوں کو دبانے اور کچلنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ دور یوسفی کے ایک ایک اثر کو مٹانے اور اپنے قدیم جاہلی مذہب کی روایات کو تازہ کرنے کی کوشش کی۔ اسی حالت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو ان لوگوں کو خطرہ ہوا کہ کہیں اقتدار پھر ہمارے ہاتھوں سے نکل کر اسرائیلیوں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے۔ یہی عناد اور ہٹ دھرمی کا جذبہ تھا جس کی بنا پر فرعون چندرا چندرا کر حضرت موسٰی علیہ السلام سے پوچھتا ہے کہ رب العالمین کیا ہوتا ہے ؟ میرے سوا اور الٰہ کون ہو سکتا ہے ؟ ورنہ دراصل وہ رب العالمین سے بے خبر نہ تھا۔ اس کی اور اس کے اہل دربار کی جو گفتگوئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جو تقریریں قرآن میں آئی ہیں، ان سب سے یہ حقیقت بین طور پر ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک موقع پر فرعون اپنی قوم کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ موسیٰ خدا کے پیغمبر نہیں ہیں، کہتا ہے :

فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَا ءَ مَعَهُ الْمَلٰ ىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ

تو کیوں نہ اس کے لے سونے کے کنگن اتارے گئے ؟ یا فرشتے صف بستہ ہو کر اس کے ساتھ کیوں نہ آئے ؟ (الزخرف:۵۳)

کیا یہ بات ایک ایسا شخص کہہ سکتا تھا جو اللہ اور ملائکہ کے تصور سے خالی الذہن ہوتا؟ ایک اور موقع پر فرعون اور حضرت موسٰی کے درمیان یہ گفتگو ہوتی ہے :

فَقَالَ لَہ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَا ءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِوَالْاَرْضِ بَصَا ىِٕرَ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا

۔پس فرعون نے اس سے کہا کہ اے موسیٰ میں تو سمجھتا کہ تیری عقل خبط ہو گئی ہے۔ موسیٰ نے جواب دیا تو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں رب زمین و آسمان کے سوا کسی اور کی نازل کی ہوئی نہیں ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ اے فرعون تیری شامت ہی آ گئی ہے۔ (بنی اسرائیل:۱۰۱۔ ۱۰۲)

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرعونیوں کی قلبی حالت اس طرح بیان فرماتا ہے :

فَلَمَّا جَا ءَتْهُمْ اٰيٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا ھٰذَاسِحْرٌ مُّبِيْنٌ وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا

جب ہماری نشانیاں ان کے سامنے علانیہ نمایاں ہو گئیں تو انہوں نے کہا کہ صریح جادو ہے – ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے مگر انہوں نے مضس شرارت اور تکبر و سرکشی کی بنا پر ماننے سے انکار کیا۔ (النمل:۱۴، ۱۳)

ایک اور مجلس کا نقشہ قرآن یوں کھینچتا ہے :-

قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰى قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى

موسیٰ نے ان سے کہا تم پر افسوس ہے – اللہ پر جھوٹ افتراء نہ باندھو ورنہ وہ سخت عذاب سے تمہیں تباہ کر دے گا- اور افتراء جس نے بھی باندھا وہ نامراد ہو کر ہی رہا ہے – یہ سن کر لوگ آپس میں رد و کد کرنے لگے اور خفیہ مشورہ ہوا جس میں کہنے والوں نے کہا یہ دونوں (موسیٰ و ہارون) تو جادوگر ہیں- چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی(آئیڈیل) طریق زندگی کو مٹا دیں۔ (طہٰ:ٰ ۶۲، ۶۱)

ظاہر ہے کہ اللہ کے عذاب سے ڈرانے اور افترا کے انجام سے خبردار کرنے پر ان کے درمیان رد و کد اسی لیے شروع ہو گئی تھی کہ ان لوگوں کے دلوں میں کہیں تھوڑا بہت اثر خدا کی عظمت اور اس کے خوف کا موجود تھا- لیکن جب ان کے

قوم پرست حکمران طبقہ نے سیاسی انقلاب کا خطرہ پیش کیا، اور کہا کہ موسیٰ اور ہارون کی بات ماننے کا انجام یہ ہو گا کہ مصریت پھر اسرائیلیت سے مغلوب ہو جائے گی تو ان کے دل پھر سخت ہو گئے اور سب نے بالاتفاق رسولوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔

(جاری ہے)
 

عرفان سعید

محفلین
اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد ہم بآسانی یہ تحقیق کر سکتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان اصل جھگڑا کس بات پر تھا۔ فرعون اس کی قوم کی حقیقی گمراہی کس نوعیت کی تھی، اور فرعون کس معنی میں الوہیت و ربوبیت کا مدعی تھا- اس غرض کے لیے قرآن کی حسب ذیل آیات ترتیب وار ملاحظہ کیجیے۔

۱: فرعون کے درباریوں میں سے جو لوگ حضرت موسیٰ کی دعوت کا استحصال کرنے پر زور دیتے تھے وہ ایک موقع پر فرعون کو خطاب کر کے کہتے ہیں:-

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ

کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلائے اور آپ کے الٰہوں کو چھوڑ دے -دوسری طرف انہی درباریوں میں سے جو شخص حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا تھا وہ ان لوگوں کو خطاب کر کے کہتا ہے (اعراف:۱۲۷)

تَدْعُوْنَنِيْ لِاَكْفُرَ بِاللّٰهِ وَاُشْرِكَ بِهٖ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ

تم مجھے اس طرف بلاتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ ان کو شریک کروں جن کے شریک ہونے کے لیے میرے پاس کوئی علمی ثبوت نہیں۔ (المومن :۴۲)

ان دونوں آیتوں کو جب ہم ان معلومات کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں جو تاریخ و آثار قدیمہ کے ذریعے سے ہمیں اس زمانہ کے اہل مصر کے متعلق حاصل ہوئی ہیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ فرعون خود بھی اور اس کی قوم کے لوگ بھی ربوبیت کے پہلے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے بعض دیوتاؤں کو خدائی میں شریک ٹھہرداتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے – ظاہر ہے کہ اگر فرعون فوق الفطری معنوں میں خدا ہونے کا مدعی ہوتا، یعنی اگر اس کا دعوی یہی ہوتا کہ سلسلہِ اسباب پر وہ خود حکمران ہے اور اس کے سوا زمین و آسمان کا الٰہ و رب کوئی نہیں ہے، تو وہ دوسرے الٰہوں کی پرستش نہ کرتا-[13]

۲: فرعون کے یہ الفاظ جو قرآن میں نقل کیے گئے ہیں کہ :-

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ

لوگو! میں تو اپنے سوا کسی الٰہ کو جانتا نہیں ہوں-۔ (القصص :۳۸)

قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ

اے موسیٰ! اگر میرے سوا تو نے کسی کو الٰہ بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔ (الشعرا :۲۹)

ان الفاظ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرعون اپنے سوا دوسرے تمام الٰہوں کی نفی کرتا تھا، بلکہ اس کی اصل غرض حضرت موسیٰ کی دعوت کو رد کرنا تھا- چونکہ حضرت موسیٰ ایک ایسے الٰہ کی طرف بلا رہے تھے جو صرف فوق الفطری معنی ہی میں معبود نہیں ہے بلکہ سیاسی و تمدنی معنی میں امر و نہی کا مالک اور اقتدار اعلیٰ کا حامل بھی ہے، اس لیے اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تمہارا ایسا الٰہ تو میرے سوا کوئی نہیں ہے، اور حضرت موسیٰ کو دھمکی دی کہ اس معنی میں میرے سوا کسی کو الٰہ بناؤ گے تو جیل کی ہوا کھاؤ گے –

نیز قرآن کی ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے، اور تاریخ و آثار قدیمہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ فراعنہِ مصر محض حاکمیت مطلقہ (Absolute Sovereignty) ہی کے مدعی نہ تھے بلکہ دیوتاؤں سے اپنا رشتہ جوڑ کر ایک طرح کی قدوسیت کا بھی دعویٰ رکھتے تھے تا کہ رعایا کے قلب و روح پر ان کی گرفت خوب مضبوط ہو جائے – اس معاملے میں تنہا فراعنہ ہی منفرد نہیں ہیں، دنیا کے اکثر ملکوں میں شاہی خاندانوں نے سیاسی حاکمیت کے علاوہ فوق الفطری الوہیت و کا دعویٰ محض ایک تدبیر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے – اسی لیے مصر میں اور دوسرے جاہلیت پرست ملکوں میں بھی ہمیشہ سیاسی زوال کے ساتھ ہی شاہی خاندانوں کی الوہیت بھی ختم ہوتی رہی ہے – اور تتس جس کے پاس گیا ہے الوہیت بھی اسی کی طرف منتقل ہوتی چلی گئی ہے۔

۳: فرعون کا اصلی دعویٰ فوق الفطری خدائی کا نہیں بلکہ سیاسی خدائی کا تھا- وہ ربوبیت کے تیسرے چوتھے اور پانچویں معنی کے لحاظ سے کہتا تھا کہ میں سر زمین مصر اور اس کے باشندوں کا رب اعلیٰ (Over Lord) ہوں- اس ملک اور اس کے تمام وسائل و ذرائع کا مالک میں ہوں، یہاں کی حاکمیت مطلقہ کا حق مجھ ہی کو پہنچتا ہے یہاں کے تمدن و اجتماع کیاساس میری ہی مرکزی شخصیت ہے – یہاں قانون میرے سوا کسی اور کا نہ چلے گا- قرآن کے الفاظ میں اس کے دعویٰ کی بنیاد یہ تھی :-

وَنَادٰى فِرْعَوْنُ فِيْ قَوْمِهٖ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ وَهٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ

اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کی کہ اے قوم! کیا میں ملک مصر کا مالک نہیں ہوں؟ اور یہ نہریں میرے ماتحت نہیں چل رہی ہیں؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟۔ (زخرف :۵۱)

یہ وہی بنیاد تھی جس پر نمرود کا دعوائے ربوبیت مبنی تھا (حَآجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رِبِّہِ أَنْ آتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ) اور اسی بنیاد پر حضرت یوسف ؑ کا ہم عصر بادشاہ بھی اپنے اہل ملک کا رب بنا ہوا تھا-

۴: حضرت موسیٰ کی دعوت جس پر فرعون اور آل فرعون سے ان کا جھگڑا تھا، دراصل یہ تھی کہ رب العالمین کے سوا کسی معنی میں بھی کوئی دوسرا الٰہ اور رب نہیں ہے – وہی تنہا فوق الفطری معنی میں بھی الٰہ اور رب ہے، اور سیاسی و اجتماعی معنی میں بھی- پرستش بھی اسی کی ہو، بندگی و اطاعت بھی اسی کی ہو، اور پیروی و قانون بھی اسی کی- نیز یہ کہ صریح نشانیوں کے ساتھ اس نے مجھے اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے، میرے ذریعہ سے وہ اپنے امر و نہی کے احکام دے گا، لہٰذا اس کے بندوں کی عنان اقتدار تمہارے ہاتھ میں نہیں، میرے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اسی بنا پر فرعون اور اس کے اعیان حکومت بار بار کہتے تھے کہ یہ دونوں بھائی ہمیں زمین سے بے دخل کر کے خود قابض ہونا چاہتے ہیں اور ہمارے ملک کے نظام مذہب و تمدن کو مٹا کر اپنا نظام قائم کرنے کے درپے ہیں۔

َولَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ اِلٰي فِرْعَوْنَ وَمَلَا ىِٕهٖ فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيْدٍ (ہود: ۹۷، -۹۶)

ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور صریح نشان ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداران قوم کی طرف بھیجا تھا، مگر

ان لوگوں نے فرعون کے امر کی پیروی کی، حالانکہ فرعون کا امر راستی پر نہ تھا۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَا ءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌ اَنْ اَدُّوْٓا اِلَيَّ عِبَادَ اللّٰهِ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ وَّاَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِنِّىْٓ اٰتِيْكُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ(دخان: ۱۹-۱۷)

اور ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ ایک معزز رسول ان کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو۔ میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں- اور اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو، میں تمہارے سامنے صریح نشان ماموریت پیش کرتا ہوں-

اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًاعَلَيْكُمْ كَمَآاَرْسَلْنَآاِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰهُ اَخْذًا وَّبِيْلًا (المزمل: ۱۶، -۱۵)

(اے اہل مکہ!) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر گواہی دینے والا ہے، اسی طرح جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا- پھر فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سختی کے ساتھ پکڑا-

قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى(طٰهٰ: ۵۰-، ۴۹)

فرعون نے کہا اے موسیٰ (اگر تم نہ دیوتاؤں کو رب مانتے ہو نہ شاہی خاندان کو) تو آخر تمہارا رب کون ہے ؟ موسیٰ نے جواب دیا، ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر چیز کو اس کی مخصوص ساخت عطا کی پھر اسے اس کے کام کرنے کا طریقہ بتایا۔

قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗٓ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَا ىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ (الشعراء: ۲۳تا۲۹)

فرعون نے کہا اور یہ رب العالمین کیا ہے ؟موسیٰ نے جواب دیا زمین و آسمان اور ہر اس چیز کا رب جو ان کے درمیان ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ فرعون اپنے گرد و پیش کے لوگوں سے بولا، سنتے ہو؟ موسیٰ نے کہا تمہارا رب بھی اور تمہارے آباء و اجداد کا رب بھی۔ فرعون بولا تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں، بالکل ہی پاگل ہیں۔ موسٰی نے کہا مشرق اور مغرب اور ہر اس چیز کا رب جو ان کے درمیان ہے اگر تم کچھ عقل رکھتے ہو۔ اس پر فرعون بول اٹھا کہ اگر میرے سوا تو نے کسی اور کو الٰہ بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔

قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى(طٰہ:۵۷)

فرعون نے کہا اے موسٰی کیا تو اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہماری زمین سے بے دخل کر دے ؟

وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْۤ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَ لْيَدْعُ رَبَّهٗ اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْهِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ (المومن:۲۶)

"فرعون نہ کہا چھوڑو مجھ کو میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو مدد کے لیے پکار کر دیکھے، مجھے خطرہ ہے وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کرے گا”

قَالُوْۤا اِنْ هٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَ يَذْهَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى (طہ:۶۳)

"انہوں نے کہا کہ یہ دونوں تو جادوگر ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کریں اور تمہارے مثالی طریق زندگی کو مٹا دیں”

ان تمام آیات کو ترتیب وار دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ربوبیت کے باب میں وہی ایک گمراہی جو ابتداء سے دنیا کی مختلف قوموں میں چلی آ رہی تھی ارضِ نیل میں بھی ساری ظلمت اسی کی تھی اور وہی ایک دعوت جو ابتداء سے تمام انبیاء دیتے چلے آرہے تھے، موسیٰ و ہارون علیہما السلام بھی اسی کی طرف بلاتے تھے۔

(۸)یہود و نصاریٰ: قوم فرعون کے بعد ہمارے سامنے بنی اسرائیل اور وہ دوسری قومیں آتی ہیں جنہوں نے یہودیت اور عیسائیت اختیار کی، ان کے متعلق یہ تو گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ لوگ اللہ کی ہستی کے منکر ہوں گے یا اس کو الٰہ اور رب نہ مانتے ہوں گے اس لیے کہ خود قرآن نے ان کے اہل کتاب ہونے کی تصدیق کی ہے پھر سوال یہ ہے کہ ربوبیت کے باب میں ان کے عقیدے اور طرز عمل کی وہ کونسی خاص غلطی ہے جس کی بنا پر قرآن نے ان لوگوں کو گمراہ قرار دیا ہے، اس کا مجمل جواب خود قرآن ہی سے ملتا ہے :

قُلْ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِيْلِ (المائدہ:۷۷)

"کہو اے اہل کتاب!اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان قوموں کے فاسد خیالات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے گمراہ ہو چکی ہیں، جنہوں نے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کیا اور خود بھی راہ راست سے بھٹک گئیں”

اس سے معلوم ہوا کہ یہود یوں اور عیسائیوں کی گمراہی بھی اصلاً اسی نوعیت کی ہے جس میں ان سے پہلے کی قومیں ابتداء سے مبتلا ہوتی چلی آئی ہیں، نیز اس سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ یہ گمراہی ان کے اندر غلو فی الدین کے راستے سے آئی ہے، اب دیکھیے اس اجمال کی تفصیل قرآن کس طرح کرتا ہے :

وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ (التوبہ:۳۰)

"یہودیوں نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے "

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَ قَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ (المائدہ:۷۲)

"کفر کیا ان عیسائیوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی”

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ١ۘ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ (المائدہ:۷۳)

"کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے۔ حالانکہ ایک الٰہ کے سواکوئی دوسرا الٰہ ہے ہی نہیں”

وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ١ بِحَق (المائدہ:۱۱۶)

"اور جب اللہ پوچھے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ!کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی الٰہ بنا لو، تو وہ جواب میں عرض کریں گے کہ سبحان اللہ میری کیا مجال تھی کہ میں وہ بات کہتا کہ جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہ تھا۔

مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ ۔ وَ لَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓىِٕكَةَ وَ النَّبِيّٖنَ اَرْبَابًا اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(المائدہ:۷۹۔ ۸۰)

"کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اسے کتاب اور نبوت اور حکم سے سرفرازکرے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ ربانی(خدا پرست)بنو۔ جس طرح تم خدا کی کتاب میں پڑھتے پڑھاتے ہو اور جس کے درس دیا کرتے ہو اور نبی کا یہ کام ہے کہ وہ تم کو یہ حکم دے کہ ملائکہ اور پیغمبروں کو رب بنا لو کیا وہ تمہیں کفر کی تعلیم دے گا جبکہ تم مسلمان ہو چکے ہو”

ان آیات کی رو سے اہل کتاب کی پہلی گمراہی یہ تھی کہ جو بزرگ ہستیاں۔۔ انبیاء، اولیاء، ملائکہ وغیرہ۔۔ دینی حیثیت سے قدر و منزلت کی مستحق تھیں، ان کو انہوں نے حقیقی مرتبہ سے بڑھا کر خدائی کے مرتبہ میں پہنچا دیا، کاروبار خداوندی میں انہیں دخیل و شریک ٹھہرایا، ان کی پرستش کی، ان سے دعائیں مانگیں۔ انہیں فوق الفطری ربوبیت و الوہیت میں حصہ دار سمجھا، اور یہ گمان کیا کہ وہ بخشش اور مددگاری اور نگہبانی کے اختیارات رکھتی ہیں۔

(جاری ہے)
 

عرفان سعید

محفلین
اس کے بعد دوسری گمراہی یہ تھی کہ:

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ

انہوں نے اللہ کے سوا اپنے علماء اور مشائخ کو بھی اپنا رب بنا لیا۔ (التوبہ: ۳۱)

یعنی نظام دینی میں جن لوگوں کی حیثیت صرف یہ تھی کہ خدا کی شریعت کے احکام بتائیں اور خدا کی مرضی کے مطابق اخلاق کی اصلاح کریں، انہیں رفتہ رفتہ یہ حیثیت دے دی کہ خود جس چیز کو چاہیں حرام اور جسے چاہیں حلال ٹھہرا دیں اور کتاب الٰہی کی سند کے بغیر جو حکم چاہیں دے دیں، جس چیز سے چاہیں منع کر دیں اور جو سنت چاہیں جاری کر دیں۔ اس طرح یہ لوگ انہیں دو عظیم الشان گمراہیوں میں مبتلا ہو گئے جن میں قوم نوح، قوم ابراہیم، عاد، ثمود، اہل مدین اور دوسری قومیں مبتلا ہوئی تھیں۔ ان کی طرح انہوں نے بھی فوق الطبیعی ربوبیت میں فرشتوں اور بزرگوں کو اللہ کا شریک بنایا۔ اور انہی کی طرح انہوں نے تمدنی و سیاسی ربوبیت اللہ کی بجائے انسانوں کو دی اور اپنے تمدن، معاشرت، اخلاق اور سیاست کے اصول و احکام اللہ کی سند سے بے نیاز ہو کر انسانوں سے لینے شروع کر دیے حتیٰ کہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ

کیا تم نے دیکھا ان لوگوں کو جنہیں کتاب اللہ کا ایک حصہ ملا ہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مان رہے ہیں۔ (النساء:۵۱)

قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ اُولٰ ىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ عَنْ سَوَا ءِ السَّبِيْلِ

کہو! میں تمہیں بتاؤں اللہ کے نزدیک فاسقین سے بھی زیادہ بدتر انجام کس کاہے ؟ وہ جن پر اللہ نے لعنت کی، جن پر اس کا غضب ٹوٹا، جن میں بہت سے لوگ اس کے حکم سے بندر اور خنزیر تک بنائے گئے اور انہوں نے طاغوت کی بندگی کی، و ہ سب سے بدتر درجہ کے لوگ ہیں اور راہ راست سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ (المائدہ:۶۰)

"جبت” کا لفظ تمام اوہام و خرافات کے لیے جامع لفظ ہے جس میں جادو، ٹونے، ٹوٹکے، کہانت، فال گیری، سعدو نحس کے تصورات، غیر فطری تاثیرات، غرض جملہ اقسام کے توہمات شامل ہیں۔ اور ” طاغوت” سے مراد ہر وہ شخص یا گروہ یا ادارہ ہے جس نے خدا کے مقابلہ میں سرکشی اختیار کی ہو، اور بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خداوندی کا علم بلند کیا ہو۔ پس یہود و نصاریٰ جب مذکورہ بالا دو گمراہیوں میں پڑ گئے تو پہلی قسم کی گمراہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ ہر قسم کے توہمات نے ان کے دلوں اور دماغوں پر قبضہ کر لیا، اور دوسری گمراہی نے ان کو علماء و مشائخ اور زہاد و صوفیہ کی بندگی سے بڑھا کر ان جباروں اور ظالموں کی بندگی و اطاعت تک پہنچا کر جو کھلم کھلا خدا سے باغی تھے۔

(۹)مشرکین عرب: اب دیکھنا چاہیے کہ وہ عرب کے مشرکین جن کی طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے، اور جو قرآن کے اولین مخاطبین تھے، اس باب میں ان کی گمراہی کس نوعیت کی تھی۔ کیا وہ اللہ سے ناواقف تھے یا اس کی ہستی کے منکر تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے بھیجے گئے تھے کہ انہیں وجود باری تعالٰی کا معترف بنائیں؟ کیا وہ اللہ کو الٰہ اور رب نہیں مانتے تھے اور قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کہ انہیں حق تعالٰی شانہ کی الٰہیت اور ربوبیت کا قائل کرے ؟ کیا انہیں اللہ کی عبادت و پرستش سے انکار تھا؟ یا وہ اللہ کو دعائیں سننے والا اور حاجتیں پوری کرنے والا نہیں سمجھتے تھے ؟ کیا ان کا خیال تھا یہ تھا کہ لات اور منات اور عزٰی اور ہبل اور دوسرے معبود ہی اصل میں کائنات کے خالق، مالک، رازق اور مدبر و منتظم ہیں؟ یا وہ اپنے ان معبودوں کو قانون کا منبع اور اخلاق و تمدن کے مسائل میں ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ مانتے تھے ؟ان میں سے ایک ایک سوال کا جواب ہم کو قرآن سے نفی کی صورت میں ملتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ عرب کے مشرکین نہ صرف یہ کہ اللہ کی ہستی کے قائل تھے، بلکہ اسے تمام کائنات کا اور اپنے معبودوں تک کا خالق، مالک اور خداوند اعلیٰ مانتے تھے اس کو رب اور الٰہ تسلیم کرتے تھے۔ مشکلات اور مصائب میں آخری اپیل وہ جس سرکار میں کرتے تھے وہ اللہ ہی کی سرکار تھی۔ انہیں اللہ کی عبادت و پرستش سے انکار نہ تھا۔ ان کا عقیدہ اپنے دیوتاؤں اور معبودوں کے بارے میں نہ تو یہ تھا کہ وہ ان کے اور کائنات کے خالق و رازق ہیں اور نہ یہ کہ یہ معبود زندگی کے تمدنی مسائل میں ہدایت و رہنمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ ذیل کی آیات اس پر شاہد ہیں:

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ قُلْ مَنْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِالْحَقِّ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ

اے نبی! ان سے کہو، زمین اور جو کچھ زمین میں ہے وہ کس کی ملک ہے ؟بتاؤ اگر تم جانتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ اللہ کی ملک ہے۔ کہو پھر بھی تم نصیحت قبول نہیں کرتے۔ کہو، ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ وہ کہیں گے اللہ۔ کہو پھر بھی تم نہیں ڈرتے ؟ کہو ہر چیز کے شاہانہ اختیارات کس کے ہاتھ میں ہیں اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابلے میں پناہ دینے کی طاقت کسی میں نہیں بتاؤ اگر تم جانتے ہو؟ وہ کہیں گے یہ صفت اللہ ہی کی ہے۔ کہو پھر کہاں سے تم کو دھوکا لگتا ہے ؟ حق یہ ہے کہ ہم نے صداقت ان کے سامنے پیش کر دی ہے اور یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔ ( المومنون:۸۴تا۹۰)

ھُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِهَا جَا ءَتْهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّجَا ءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِيْطَ بِهِمْ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڬ لَىِٕنْ اَنْجَيْتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ

وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے حتٰی کہ جس وقت تم کشتی میں سوار ہو کر باد موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ طوفان میں گھر گئے اس وقت سب اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کر کے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے اس بلا سے ہم کو بچا لیا تو ہم تیرے شکر گزار بندے بنیں گے، مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ (یونس:۲۲، ۲۳)

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا

جب سمندر میں تم پر کوئی آفت آتی ہے تو اس ایک رب کے سوا اور جن جن کو تم پکارتے ہو وہ سب گم ہو جاتے ہیں مگر جب وہ تمہیں بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے پھر جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا نا شکرا ہے۔ (بنی اسرائیل:۶۷)

اپنے معبودوں کے متعلق جو ان کے الفاظ تھے وہ خود انہی کے الفاظ میں قرآن اس طرح نقل کرتا ہے :

وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَا ءَ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى

جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے ولی اور کارساز ٹھہرا رکھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ

یہ ہم کو اللہ سے قریب کر دیں۔ (الزمر:۳)

وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَا ءِ شُفَعَا ؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ

اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے حضور میں ہمارے سفارشی ہیں۔ (یونس:۱۸)

پھر وہ اپنے معبودوں کے بارے میں اس قسم کا بھی کوئی گمان نہ رکھتے تھے کہ وہ مسائل زندگی میں ہدایت بخشنے والے ہیں۔

چنانچہ سورہ یونس میں اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ:

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَا ىِٕكُمْ مَّنْ يَّهْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ

ان سے پوچھو، تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی حق کی طرف راہنمائی کرنے والا بھی ہے۔ (یونس:۳۵)لیکن یہ سوال سن کر ان پر سکوت چھا جاتا ہے ان میں سے کوئی یہ جواب نہیں دیتا کہ ہاں لات منات یا عزیٰ یا دوسرے معبود ہمیں فکر و عمل کی صحیح راہیں بتاتے ہیں اور وہ دنیا کی زندگی میں عدل اور سلامتی اور امن کے اصول ہمیں سکھاتے ہیں اور ان کے سرچشمہ علم سے ہم کو کائنات کے بنیادی حقائق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ تب اللہ

اپنے نبی سے فرماتا ہے :

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَا ىِٕكُمْ مَّنْ يَّهْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ قُلِ اللّٰهُ يَهْدِيْ لِلْحَقِّ اَفَمَنْ يَّهْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا يَهِدِّيْٓ اِلَّآ اَنْ يُّهْدٰى فَمَا لَكُمْ ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ

کہو، مگر اللہ حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے، پھر بتاؤ کون اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے ؟ وہ جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے، یا وہ جو خود ہدایت نہیں پایا جاتا الا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے، کیسے فیصلے کر رہے ہو؟ (یونس:۳۵)

ان تصریحات کے بعد اب یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ ربوبیت کے باب میں ان کی وہ اصل گمراہی کیا تھی جس کی اصلاح کرنے کے لیے اللہ نے اپنے نبی کو بھیجا اور کتاب نازل کی؟ اس سوال کی تحقیق کے لیے جب ہم قرآن میں نظر کرتے ہیں تو ان کے عقائد و اعمال میں بھی ہم کو انہی دو بنیادوں کا سراغ ملتا ہے جو قدیم سے تمام گمراہ قوموں میں پائی جاتی ہیں، یعنی:

ایک طرف فوق الطبیعی ربوبیت و الٰہیت میں وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہوں اور ارباب کو شریک ٹھہراتے تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ سلسلہِ اسباب پر جو حکومت کارفرما ہے اس کے اختیارات و اقتدارات میں کسی نہ کسی طور پر ملائکہ اور بزرگ انسان اور اجرام فلکی وغیرہ بھی دخل رکھتے ہیں اسی بنا پر دعا اور استعانت اور مراسم عبودیت میں وہ صرف اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے بلکہ ان بناوٹی خداؤں کی طرف بھی رجوع کیا کرتے تھے۔

(جاری ہے)
 

عرفان سعید

محفلین
دوسری طرف تمدنی وسیاسی ربوبیت کے باب میں ان کا ذہن اس تصور سے بالکل خالی تھا کہ اللہ اس معنی میں بھی رب ہے، اس معنی میں وہ اپنے مذہبی پیشواؤں، اپنے سرداروں اور اپنے خاندان کے بزرگوں کو رب بنائے ہوئے تھے اور انہی سے اپنی زندگی کے قوانین لیتے تھے۔

چنانچہ پہلی گمراہی کے متعلق قرآن یہ شہادت دیتا ہے :

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُ ا طْمَاَنَّ بِهٖ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ ا۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ ۫ خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةَ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۔ ۔ يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهٗ وَ مَا لَا يَنْفَعُهٗ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ۔ يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗۤ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَ لَبِئْسَ الْعَشِيْرُ۔

انسانوں میں کوئی تو ایسا بھی ہے جو خدا پرستی کی سرحد پر کھڑا ہو کر خدا کی عبادت کرتا ہے۔ فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو الٹا پھر گیا۔ یہ شخص دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ اٹھانے والا ہے۔ وہ اللہ سے پھر کر ان کو پکارنے لگتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچانے کی۔ یہی بڑی گمراہی ہے۔ وہ مدد کے لیے انہیں پکارتا ہے، جنہیں پکارنے کا نقصان بہ نسبت نفع کے زیادہ قریب ہے کیسا برا مولیٰ ہے اور کیسا برا ساتھی ہے۔ (الحج:۱۱تا۱۳)

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَا ءِ شُفَعَا ؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ قُلْ اَتُنَبُِّٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ (یونس -۱۸)

یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں، کہو (اے پیغمبر!ﷺ) کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین میں[14]؟ اللہ پاک ہے ا س شرک سے جو یہ کرتے ہیں-

قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ اَنْدَادًا (حٰم السجدہ -:۹)

اے نبی! ان سے کہو، کیا واقعی تم اس خدا سے جس نے دو دن میں زمین کو پیدا کر دیا کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہو-

قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا ۭوَاللّٰهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ(المائدہ:-۷۶)

کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا کچھ اختیار رکھتے ہیں نہ فائدے کا؟ حالانکہ سننے اور جاننے والا تو اللہ ہی ہے –

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِيْبًا اِلَيْهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُوْٓا اِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ (الزمر:- ۸ )

اور جب انسان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو یکسو ہو کر اپنے رب ہی کو پکارتا ہے، مگر جب وہ اپنی نعمت سے اسے سرفراز کرتا ہے تو یہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس میں مدد کے لیے اس سے پہلے اللہ کو پکار رہا تھا اور اللہ کے ہمسر ٹھہرانے لگتا ہے[15] تا کہ یہ حرکت اسے اللہ کے راستہ سے بھٹکا دے۔

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجَْٔرُوْنَ –ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُوْنَ –لِيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰهُمْ فَتَمَتَّعُوْا ۣ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ–وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ تَاللّٰهِ لَتُسَْٔلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ (النحل:۵۶تا۵۳)

تمہیں جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ کی بخشش سے حاصل ہے۔

جب تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ ہی کی طرف فریاد لے کر تم جاتے ہو، مگر جب وہ اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو (اس مشکل کشائی میں) دوسروں کو شریک ٹھہر انے لگتے ہیں تا کہ ہمارے احسان کا جواب احسان فراموشی سے دیں۔ اچھا مزے کر لو۔ عنقریب تمہیں اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔ یہ لوگ جن کو نہیں جانتے ان کے لیے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے حصے مقرر کرتے ہیں[16]۔ خدا کی قسم جو افتراء پردازیاں تم کرتے ہو ان کی باز پرس تم سے ہو کر رہے گی۔ رہی دوسری گمراہی تو اس کے متعلق قرآن کی شہادت یہ ہے :

وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍمِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَا ؤُهُمْ لِيُرْدُوْهُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْهِمْ دِيْنَهُمْ

اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے بنائے ہوئے شریکوں نے اپنی اولاد کا قتل پسندیدہ بنا دیا تا کہ انہیں ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان کے دین کو ان کے لیے مشتبہ بنا دیں۔ (الانعام:۱۳۷)

ظاہر کہ یہاں "شریکوں” سے مراد بت اور دیوتا نہیں ہیں بلکہ وہ پیشوا اور رہنما ہیں جنہوں نے قتل اولاد کو اہل عرب کی نگاہ میں ایک بھلائی اور خوبی کا کام بنا دیا اور حضرت ابراہیم ؑ و اسمٰعیلؑ کے دین میں اس رسم قبیح کی آمیزش کر دی۔

اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ خدا کے "شریک”اس معنی میں قرار نہیں دیے گئے تھے کہ اہل عرب ان کوسلسلہ اسباب پر حکمران سمجھتے تھے یا ان کی پرستش کرتے اور ان سے دعائیں مانگتے تھے، بلکہ ان کو ربوبیت و الٰہیت میں شریک اس لحاظ سے ٹھہرایا گیا تھا کہ اہل عرب ان کے اس حق کو تسلیم کرتے تھے کہ تمدنی و معاشرتی مسائل اور اخلاقی و مذہبی امور میں وہ جیسے چاہیں قوانین مقرر کر دیں۔

اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَن ْ بِهِ اللّٰهُ

کیا یہ ایسے شریک بنائے بیٹھے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی قسم سے وہ قانون بنا دیا ہے جس کا اللہ نے کوئی اذن نہیں دیا ہے "(الشوریٰ:۲۱)

لفظ "دین” کی تشریح آگے چل کر بیان ہو گی اور وہیں اس آیت کے مفہوم کی وسعت بھی پوری طرح واضح ہو سکے گی، سکے گی، لیکن یہاں کم از کم یہ بات تو صاف معلوم ہو جاتی ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر ان کے پیشواؤں اور سرداروں کا ایسے ضابطے اور قاعدے مقرر کرنا جو "دین”کی نوعیت رکھتے ہوں اور اہل عرب کا ان ضابطوں اور قاعدوں کو واجب التقلید مان لینا یہی ربوبیت والٰہیت میں ان کا خدا کے ساتھ شریک بننا اور یہی اہل عرب کا ان کی شرکت کو تسلیم کر لینا تھا۔

(جاری ہے)
 

عرفان سعید

محفلین
قرآن کی دعوت

گمراہ قوموں کے تخیلات کی یہ تحقیق جو پچھلے صفحات میں کی گئی ہے، اس حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دیتی ہے کہ قدیم ترین ترین زمانہ سے لے کر زمانہ نزول قرآن تک جتنی قوموں کا ذکر قرآن نے ظالم، فاسد العقیدہ اور بد راہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہے، ان میں سے کوئی بھی خدا کی ہستی کی منکر نہ تھی نہ کسی کو اللہ کے مطلقاً رب اور الٰہ ہونے سے انکار تھا، البتہ ان سب کی اصل گمراہی اور مشترک گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے ربوبیت کے ان پانچ مفہومات کو جو ہم ابتداء میں لغت اور قرآن کی شہادتوں سے متعین کر چکے ہیں، دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

رب کا یہ مفہوم کہ وہ فوق الفطری طور پر مخلوقات کی پرورش، خبر گیری، حاجت روائی اور نگہبانی کا کفیل ہوتا ہے، ان کی نگاہ میں ایک الگ نوعیت رکھتا تھا اور اس مفہوم کے اعتبار سے وہ اگرچہ رب اعلی ٰ تو اللہ ہی کو مانتے تھے مگر اس کے ساتھ فرشتوں اور دیوتاؤں کو، جنوں کو، غیر مرئی قوتوں کو، ستاروں اور سیاروں کو، انبیاء اور اولیاء اور روحانی پیشواؤں کو بھی ربوبیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔

اور رب کا یہ مفہوم کہ وہ امر و نہی کا مختار، اقتدار اعلی کا مالک، ہدایت و رہنمائی کا منبع، قانون کا ماخذ، مملکت کا رئیس اور اجتماع کا مرکز ہوتا ہے، ان کے نزدیک بالکل ہی ایک دوسری حیثیت رکھتا تھا اور اس مفہوم کے اعتبار سے وہ یا تو اللہ کی بجائے صرف انسانوں کو ہی رب مانتے تھے یا نظریے کی حد تک اللہ کو رب ماننے کے بعد عملاً انسانوں کی اخلاقی و تمدنی اور سیاسی ربوبیت کے آگے سرِاطاعت خم کیے دیتے تھے۔

اسی گمراہی کو دور کرنے کے لیے ابتداء سے انبیاء علیہ السلام آتے رہے ہیں اور اسی کے لیے آخرکار محمدﷺ کی بعثت ہوئی، ان سب کی دعوت یہی تھی کہ ان تمام مفہومات کے اعتبار سے رب ایک ہی ہے اور وہ اللہ جل شانہ ہے، ربوبیت ناقابل تقسیم ہے۔ اس کا کوئی جز کسی معنی میں بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے، کائنات کا نظام ایک کامل مرکزی نظام ہے جس کو ایک ہی خدا نے پیدا کیا جس پر ایک خدا فرماں روائی کر رہا ہے جس کے سارے اختیارات و اقتدار کا مالک ہی خدا ہے نہ اس نظام کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کچھ دخل ہے نہ اس کی تدبیر و انتظام میں کوئی شریک ہے اور نہ اس کی فرماں روائی میں کوئی حصہ دار ہے مرکزی اقتدار کا مالک ہونے کی حیثیت سے وہی اکیلا خدا تمہارا فوق الفطری رب بھی ہے اور اخلاقی و تمدنی اور سیاسی رب بھی۔

وہی تمہارا معبود ہے، وہی تمہارے سجدوں اور رکوعوں کا مرجع ہے، وہی تمہاری دعاؤں کا ملجا و ماویٰ ہے، وہی تمہارے توکل و اعتماد کا سہارا ہے، وہی تمہاری ضرورتوں کا کفیل ہے اوراسی طرح وہی بادشاہ ہے، وہی مالک الملک ہے، وہی شارع و قانون اور امر و نہی کا مختار بھی ہے۔

ربوبیت کی یہ دونوں حیثیتیں جن کو جاہلیت کی وجہ سے تم نے ایک دوسرے سے الگ ٹھہرا لیا ہے، حقیقت میں خدائی لازمہ اور خدا کے خدا ہونے کا خاصہ ہیں، انہیں نہ ایک دوسرے سے منفک کیا جا سکتا ہے اور نہ ان میں سے کسی حیثیت میں مخلوقات کو خدا کا شریک ٹھہرانا درست ہے، اس دعوت کو قرآن جس طریقہ سے پیش کرتا ہے وہ خود اس کی زبانی سنیے :

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا١ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِهٖ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (الاعراف:۵۴)

"حقیقت میں تمہارا رب تو اللہ ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہو گیا، جو دن کو رات کا لباس اڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑ آتا ہے، سورج اور چاند اور تارے سب کے سب جس کے تابع فرمان ہیں۔ سنو!خلق اسی کی ہے اور فرماں روائی بھی اسی کی۔ بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رب”

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ اللّٰهُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۔ ۔ فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ١ۖ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ(یونس:۳۱۔ ۳۲)

"اِن سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کس کے قبضہ و اختیار میں ہے ؟ کون ہے جو بے جان کو جاندار میں سے اور جان دار کو بے جان میں سے نکالتا ہے ؟اور کون اس کارگاہِ عالم کا انتظام چلا رہا ہے ؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو، پھر تم ڈرتے نہیں ہو؟جب یہ سارے کام اسی کے ہیں تو تمہارا حقیقی رب اللہ ہی ہے، حقیقت کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا رہ جا تا ہے ؟آخر کہاں سے تم کو یہ ٹھوکر لگتی ہے کہ حقیقت سے پھرے جاتے ہو”

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۔ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ(الزمر:۵۔ ۶)

"اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ رات کو دن پر اور دن کو رات پر وہی لپیٹتا ہے۔ چاند اور سورج کو اسی نے ایسے ضابطہ کا پابند بنایا ہے کہ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک چلا جا رہا ہے۔یہی اللہ تمہارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، آخر یہ تم کہاں سے ٹھوکر کھا کر پھرے جاتے ہو؟”

اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۭ۔ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۔ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ۔ ۔ اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۔ —هُوَالْحَيُّ لَآاِلٰهَاِلَّاهُوَفَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ– (المومن:۶۱تا۶۵)

اللہ جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں تم سکون حاصل کرو۔ اور دن کو روشن کیا—–وہی تمہارا اللہ تمہارا رب ہے، ہر چیز کا خالق، کوئی اور معبود اس کے سوا نہیں، پھر یہ کہاں سے دھوکا کھا کر تم بھٹک جاتے ہو؟—–اللہ جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا، آسمان کی چھت تم پر چھائی، تمہاری صورتیں بنائیں اور خوب ہی صورتیں بنائیں، اور تمہاری غذا کے لیے پاکیزہ چیزیں مہیا کیں، وہی اللہ تمہارا رب ہے – بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رب- وہی زندہ ہے۔ کوئی اور معبود اس کے سوا نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے۔

وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ۔يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَڮ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَا ءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ (فاطر:۱۳، ۱۴)

اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا——وہ رات کو دن میں پرو دیتا ہے اور دن کو رات میں، اس نے چاند اور سورج کو ایسے ضابطہ کا پابند بنایا ہے کہ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک چلے جا رہا ہے – یہی اللہ تمہارا رب ہے۔ پادشاہی اسی کی ہے۔ اس کے سوا جن دوری ہستیوں کو تم پکارتے ہو ان کے ہاتھ میں ایک ذرہ کا بھی اختیار نہیں ہے۔ تم پکارو تو وہ تمہاری پکاریں سن نہیں سکتے، اور سن بھی لیں تو تمہاری درخواست کا جواب دینا ان کے بس میں نہیں- تم جو انہیں شریک خدا بناتے ہو اس کی تردید وہ خود قیامت کے دن کر دیں گے۔

وَ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ۔ —-ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَآءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْهِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَهُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۔ — بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ١ —–فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ١ۙ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ۙ۔ (الروم ۳۰-۲۶)

آسمانوں کے رہنے والے ہوں یا زمین کے، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔اللہ خود تمہاری اپنی ذات سے ایک مثال تمہارے سامنے بیان کرتا ہے۔ کیا تمہارے غلاموں میں سے کوئی ان چیزوں کی ملکیت میں تمہارا شریک ہوتا ہے جو ہم نے تمہیں بخشی ہیں؟ کیا ان چیزوں کے اختیارات و تصرفات میں تم اور تمہارے غلام مساوی ہوتے ہیں؟ کیا تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ جو لوگ عقل سے کام لینے والے ہیں ان کے لیے تو ہم حقیقت تک پہنچا دینے والی دلیلیں اس طرح کھول کر بیان کر دیتے ہیں مگر ظالم لوگ علم کے بغیر اپنے بے بنیاد خیالات کے پیچھے چلے جا رہے ہیں——لہٰذا تم بالکل یکسو ہو کر حقیقی دین کے راستہ پر اپنے آپ کو ثابت قدم کر دو اللہ کی فطرت پر قائم ہو جاؤ، جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ اللہ کی خلقت کو بدلا نہ جائے – یہی ٹھیک سیدھا طریقہ ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔

(جاری ہے)
 

عرفان سعید

محفلین
وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌ بِيَمِيْنِهٖ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ (الزمر:- ۶۷)

ان لوگوں نے اللہ کی عظمت و کبریائی کا اندازہ جیسا کہ کرنا چاہیے تھا، نہیں کیا۔ قیامت کے روز یہ دیکھیں گے کہ زمین پوری کی پوری اس کی مٹھی میں ہے اور آسمان اس کے ہاتھ میں سمٹے ہوئے ہیں- اس کی ذات منزہ اور بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اس کا شریک ہو، جیا کہ یہ لوگ قرار دے رہے ہیں۔

فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَرَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ —–وَلَهُ الْكِبْرِيَا ءُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۠ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (جاثیہ: ۳۷، ۳۶)

پس ساری تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو زمین و آسمان اور تمام کائنات کا رب ہے – کبریائی اسی کی ہے۔ آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی-۔ اور وہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا (مریم : ۶۵)

وہ زمین اور آسمانوں کا مالک اور ان ساری چیزوں کا مالک ہے جو زمین وآسمان میں ہیں۔ لہذا تو اس کی بندگی کراوراس کی بندگی پر ثابت قدم رہ۔ کیا اس جیسا کوئی اور تیرے علم میں ہے ؟

وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَإِلَيْهِ يُرْ‌جَعُ الْأَمْرُ‌ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ

"زمین وآسمان کی ساری پوشیدہ حقیقتیں اللہ کے علم میں ہے اور سارے معاملات اس کی سرکار میں پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا تو اسی کی بندگی کر اوراسی پر بھروسہ کر”(سورہ ھود:۱۲۳)

رَّ‌بُّ الْمَشْرِ‌قِ وَالْمَغْرِ‌بِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا

"مشرق و مغرب سب کا وہی مالک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ لہٰذا تو اسی کو اپنا مختارِ کار بنا لے "(المزمل:۹)

إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُونِ۔ ۔ وَتَقَطَّعُوا أَمْرَ‌هُم بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَ‌اجِعُونَ

"حقیقت میں تمہاری یہ امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں۔ لہٰذا تم میری بندگی کرو۔ لوگوں نے اس کارِ ربوبیت اوراس معاملۂ بندگی کوآپس میں خود ہی تقسیم کر لیا ہے مگر ان سب کو بہرحال ہماری طرف ہی پلٹ کر آنا ہے "(الانبیاء:۹۲، ۹۳)

اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ

"پیروی کرو اس کتاب کی جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور اسے چھوڑ کر دوسروے کارسازوں کی پیروی نہ کر”(الاعراف:۳)

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِ‌كَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْ‌بَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ

"کہو اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم نہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی کریں، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیں اور نہ ہم میں سے کوئی انسان کسی دوسری انسان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے "(آل عمران:۶۴)

قُلْ أَعُوذُ بِرَ‌بِّ النَّاسِ۔ ۔ مَلِكِ النَّاسِ۔ ۔ إِلَٰهِ النَّاسِ

"کہو میں پناہ ڈھونڈتا ہوں اس کی جو انسانوں کا رب، انسانوں کا بادشاہ، اور انسانوں کا معبود ہے "(الناس)

"پس جو اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی اور کی بندگی شریک نہ کرے "

ان آیات کو سلسلہ وار پڑھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن ربوبیت کو بالکل حاکمیت اورسلطانی (sovereignty) کا ہم معنی قرار دیتا ہے اور”رب”کا یہ تصور ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ وہ کائنات کا سلطان مطلق اور لا شریک مالک اور حاکم ہے۔

اسی حیثیت سے وہ ہمارا اور تمام جہاں کا پروردگار، مربی اور حاجت روا ہے۔

اسی حیثیت سے اس کی وفاداری وہ قدرتی بنیاد ہے جس پر ہماری اجتماعی عمارت کی بنیاد صحیح طور پر قائم ہوتی ہے اوراس کی مرکزی شخصیت سے وابستگی تمام متفرق افراد اور گروہوں کے درمیان ایک امت کا رشتہ پیدا کرتی ہے۔

اسی حیثیت سے وہ ہماری اور تمام مخلوقات کی بندگی، اطاعت اور پرستش کا مستحق ہے۔

اسی حیثیت سے وہ ہمارا ا اور ہر چیز کا مالک، آقا اور فرماں روا ہے۔

اہل عرب اور دنیا کی تمام جاہل لوگ ہر زمانہ میں اس غلطی میں مبتلا تھے اور اب تک ہیں کہ ربوبیت کے اس جامع تصور کو انہوں نے پانچ مختلف النوع ربوبیتوں میں تقسیم کر دیا۔ اور اپنے قیاس و گمان سے یہ رائے قائم کی کہ مختلف قسم کی ربوبیتیں مختلف ہستیوں سے متعلق ہو سکتی ہیں اور متعلق ہیں۔ قرآن اپنے طاقتور استدلال سے ثابت کرتا ہے کہ کائنات کے اس مکمل مرکزی نظام میں اس بات کی مطلق گنجائش نہیں ہے کہ اقتدار اعلیٰ جس کے ہاتھ میں ہے اس کے سوا ربوبیت کا کوئی کام کسی دوسری ہستی سے کسی درجہ میں بھی متعلق ہو۔ اس نظام کی مرکزیت خود گواہ ہے کہ ہر طرح کی ربوبیت اسی خدا کے لیے مختص ہو جو اس نظام کو وجود میں لایا۔ لہٰذا جو شخص اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ربوبیت کا کوئی جز کسی معنی میں بھی خدا کے سوا کسی اور سے متعلق سمجھتا ہے یا متعلق کرتا ہے، وہ دراصل حقیقت سے لڑتا ہے، صداقت سے منہ موڑتا ہے، حق کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور امر واقعی کے خلاف کام کر کے اپنے آپ کو خود نقصان اور ہلاکت میں مبتلا کرتا ہے۔

(ختم شد)
 

م حمزہ

محفلین
(یہ واضح کر دوں کہ مولانا کا انتہائی عقیدت مند ہونے کے باوجود میرا ان کے فکرِ دین سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔

اگر آپ مولانا کی فکرِ دین سے متفق نہیں تو عقیدت کیسی؟ انسان کے اندر سب سے اہم شیَ تو فکرِ دین ہی ہے۔ فکر دین کو میں دوسرا نام ایمان دیتا ہوں۔ اگر آپ فرماتے کہ آپ کو ان کے کسی فعل یا کسی تحریر یا جز تحریر سے یا کسی خاص تشریح سے اتفاق نہیں تو الگ بات ہے۔ لیکن فکر دین سے اتفاق نہ ہونے کا مطلب ہے کہ جس طرح انہوں نے خود دین کو سمجھا یا سمجھایا اسی سے آپ متفق نہیں۔

دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مجھے ہی آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔
 
اگر آپ مولانا کی فکرِ دین سے متفق نہیں تو عقیدت کیسی؟ انسان کے اندر سب سے اہم شیَ تو فکرِ دین ہی ہے۔ فکر دین کو میں دوسرا نام ایمان دیتا ہوں۔ اگر آپ فرماتے کہ آپ کو ان کے کسی فعل یا کسی تحریر یا جز تحریر سے یا کسی خاص تشریح سے اتفاق نہیں تو الگ بات ہے۔ لیکن فکر دین سے اتفاق نہ ہونے کا مطلب ہے کہ جس طرح انہوں نے خود دین کو سمجھا یا سمجھایا اسی سے آپ متفق نہیں۔

دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مجھے ہی آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔
شاید ان کی بات کا تعلق مولانا مودودی صاحب کے تفردات سے ہو۔
 
Top