جاسم محمد
محفلین
کیا اپوزیشن ناکام ہو گئی؟
سہیل وڑائچ
05 جنوری ، 2021
فائل:فوٹو
تحریک انصاف کے ترجمان بغلیں بجا رہے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک ناکام ہو گئی، ڈیڈ لائن کے مطابق نہ تو لانگ مارچ ہوا اور نہ ہی اجتماعی استعفوں پر کوئی فیصلہ ہو سکا۔ گویا اپوزیشن حکومت کو کوئی بڑا چیلنج دینے میں ناکام رہی۔ دوسری طرف اپوزیشن اپنی صفوں میں موجود اختلافِ رائے کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بہاولپور کا جلسہ بھرپور تھا لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے تحریک کو سرگرم حمایت کی بجائے سرد کندھا دینے سے جوش و خروش میں نمایاں کمی نظر آ رہی ہے۔ استعفوں کی ڈیڈ لائن کا مطلب موجودہ نظام کا ممکنہ خاتمہ تھا، استعفوں کے معاملے میں لیت و لعل کے بعد اِس نظام کے فوری گرنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں، اب اپوزیشن کو نئے سرے سے ماحول بنانا ہوگا، ایک نئی تحریک پھر سے اُٹھانا ہوگی۔
اپوزیشن کا خطرہ کم ہوا ہے تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے چھپے ہوئے اختلافات باہر نکلنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جب بیرونی خطرات کم ہوں تو اندرونی اختلافات کا ابلنا ایک قدرتی عمل ہے، جب کوئی حملہ ہو رہا ہو تو اندرونی لڑائیاں دبی رہتی ہیں۔
حکومت کا اصل امتحان اب شروع ہے، اسٹیبلشمنٹ کافی دیر سے وفاقی اور پنجاب حکومت کی خامیوں کی نشاندہی کر رہی ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ اصلاحِ احوال کے لئے حکمت عملی کا حوالہ بھی دے رہی ہے لیکن حکومت نے چند چھوٹے چھوٹے مشوروں کے علاوہ باقی اہم پالیسی ایشوز کے بارے میں ایک کان سے سننے اور دوسرے کان سے نکال دینے کا رویہ اختیار کر رکھا ہے، یوں لگتا ہے کہ حکومت کو یا تو یہ پالیسی بدلنی پڑے گی یا پھر اِس کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔
اپوزیشن کی تحریک کی اٹھان زبردست تھی، لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے ٹرمپ کارڈ تھے۔ اگر فدائی حملے کی طرح یہ آپشن استعمال ہو جاتے تو سارا سیاسی نظام معطل ہو کر رہ جانا تھا لیکن پیپلز پارٹی سے سندھ حکومت قربان کرنے کا مطالبہ منطقی نہیں تھا۔
پیپلز پارٹی کو اِس فدائی حملے کے بدلے میں کیا ملے گا؟ یہ سوال بہت اہم ہے، ایک طرف تو ان کی سندھ میں حکومت جاتی رہے گی اور ان کی حکومت کی جگہ ان کے مخالفین آ کر بیٹھ جائیں گے جو انہیں اگلا الیکشن بھی جیتنے نہیں دیں گے۔
اس لئے پیپلز پارٹی استعفوں کا آپشن اُس وقت تک استعمال نہیں کرے گی جب تک اُسے یقین نہ ہو کہ اُن کے استعفوں سے سارا سیاسی ڈھانچہ مفلوج ہو جائے گا اور اُس کے بعد ضمنی انتخابات نہیں، عام انتخابات ہی ہوں گے۔ لانگ مارچ کی حکمت عملی میں اہم ترین وہ فضا ہوتی ہے جس میں لانگ مارچ کیا جاتا ہے۔ باوجود کوشش کے تحریک کے پہلے مرحلے میں وہ فضا نہیں بنی کہ ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑوں والے سر پر کفن باندھ کر نکلیں اور اسلام آباد یا راولپنڈی میں جا کر آر یا پار کر کے آئیں۔
ایسی صورتحال بنانے کے لئے جس طرح کی گرما گرمی کی ضرورت ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہو سکی۔ اپوزیشن کو اپنی حکمت عملی از سر نو ترتیب دیتے ہوئے سیاسی ماحول کے اندر ایسا تحرک لانا پڑے گا جس سے عام آدمی گھر سے باہر نکلے اور اسے یہ یقین بھی ہو کہ اس کے لانگ مارچ سے حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
لانگ مارچ کے لئے اصل فورس تو پارٹی کارکن ہوتے ہیں، وہ ہی سردی گرمی اور بھوک پیاس برداشت کر کے کھلے میدان میں بیٹھ سکتے ہیں، اس لئے ان کارکنوں کو وہ جذبہ اور مستقبل کا خواب دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ تبدیلی کے لئے متحرک ہو سکیں۔
حالات کے تیور پڑھتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت کے فوراً گرنے یا عدم استحکام کا شکار ہونے کا خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے لیکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کی خلیج گہری ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت ڈیلیوری میں مکمل طور پر ناکام ہے، چینی کی رسد کا معاملہ ٹھیک ہوا ہے تو آٹا کم یاب ہو گیا ہے، آلو کا ریٹ کم ہوتا ہے تو پیاز کا دام بڑھ جاتا ہے، ملک کے حالات سنوارنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی تخلیقی آئیڈیاز یا ویژنری پروگرام نہیں ہیں، اسی لئے موجودہ حکومت کی گورننس پر سنجیدہ سوال اٹھتے رہتے ہیں۔
پختونخوا اور پنجاب کے معاملات پر راولپنڈی میں اطمینان نہیں پایا جاتا اور وہاں سے گاہے گاہے دونوں صوبوں میں طرز حکمرانی پر اعتراض اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی آدھی میعاد گزر چکی گویا عروج سے زوال کا سفر شروع ہو چکا۔ عام طور پر حکومتیں پہلے اڑھائی سال پروجیکٹ لگاتی ہیں اور آخری اڑھائی سال فیتے کاٹ کر اُن کا افتتاح کرتی ہیں۔ ن لیگ نے یہی کیا تھا، بجلی کے کارخانے لگائے اور موٹر ویز بنائیں اور پھر آخری برسوں میں ان کے افتتاح کرکے ان کے تمغے اپنے سینوں پر سجائے۔
موجودہ حکومت نے پہلے اڑھائی برسوں میں نہ تو کوئی بڑے پروجیکٹ لگائے ہیں اور نہ ہی اُس کی منصوبہ بندی کی ہے، اس لئے یہ حکومت صرف ڈے ٹو ڈے معاملات میں ہی الجھی رہے گی۔
دوسری طرف حکومت کی آدھی میعاد پوری ہونے کے آس پاس ریاستی ادارے مستقبل کے سیٹ اپ بارے پلاننگ بھی شروع کر دیں گے۔ ظاہر ہے کوئی بھی ریاست اپنے مستقبل سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ مستقبل کے منظر نامے میں پنجاب کے حوالے سے ن لیگ کو نظرانداز کر کے پھر سے تحریک انصاف کو ترجیح دینا مشکل ہو گا، اس لئے کم از کم پنجاب کی حد تک ن لیگ کے مصالحتی گروپ سے مذاکرات کا امکان ہے۔
یہ بھی ہو گا کہ ن لیگ کے مزاحمتی گروپ سے بھی اگلے الیکشن سے پہلے کوئی نہ کوئی انڈر اسٹینڈنگ ہو گی تبھی جا کر مستقبل کا نظام چل سکے گا۔ فرض کریں کہ تحریک انصاف آنے والے دنوں میں ایسے کارنامے دکھاتی ہے کہ لوگ اس کو اگلے الیکشن میں وفاقی سطح پر پھر سے لے آتے ہیں یا پھر موجودہ حکومت موجودہ رفتار سے چلتی ہے اور آئے روز صرف جلتے ہوئے مسائل کی آگ بجھانے تک محدود رہتی ہے تو پھر اس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان کم سے کم ہوتا جائے گا۔ فی الحال تحریک انصاف کسی معاملے میں کامیاب و کامران ہے تو وہ اس کا کرپشن کا بیانیہ ہے گو حکومت کی کارکردگی صفر ہے مگر اس کے بیانیے کے نمبر سو فیصد ہیں۔
ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ساری اپوزیشن مل کر بھی اپنے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات اور عدالتی فیصلوں کے داغوں کو دھونے میں کامیاب نہیں ہو سکے، نہ ہی اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی ایسا نیا بیانیہ کھڑا کر سکی ہے جو موجودہ حکومت کو لرزا دے۔
اپوزیشن کو سمجھ لینا چاہئے کہ سب سے پہلے انہیں ایسا بیانیہ ترتیب دینا ہو گا جو حکومت کو بیک فٹ پر ڈال دے وہ چاہے نااہلی کا بیانیہ ہو یا معاشی ابتری کا۔ یہ طے کرنا تو ظاہر ہے کہ اپوزیشن کے شہ دماغوں کا کام ہے۔ اپوزیشن اور پی ڈی ایم کی جانب سے اپنی حکمت عملی بارے ہچکچاہٹ نے 2021کی پہلی سہ ماہی کا سیاسی نقشہ واضح کر دیا ہے۔
اب یوں لگتا ہے سینیٹ کے الیکشن ہوں گے، سیاسی کھینچا تانی بھی رہے گی اور نظام بھی چلتا رہے گا البتہ اب تبدیلی کی ساری امیدیں اس کروٹ پر ہیں جو ممکنہ طور پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں آئے گی۔
حکومت نے سمجھ داری سے کام لیا، لچک دکھائی تو شاید وہ مرحلہ نہ آئے لیکن اگر اکڑے رہے تو ٹوٹنے کا امکان بڑھ جائے گا۔
سہیل وڑائچ
05 جنوری ، 2021
فائل:فوٹو
تحریک انصاف کے ترجمان بغلیں بجا رہے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک ناکام ہو گئی، ڈیڈ لائن کے مطابق نہ تو لانگ مارچ ہوا اور نہ ہی اجتماعی استعفوں پر کوئی فیصلہ ہو سکا۔ گویا اپوزیشن حکومت کو کوئی بڑا چیلنج دینے میں ناکام رہی۔ دوسری طرف اپوزیشن اپنی صفوں میں موجود اختلافِ رائے کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بہاولپور کا جلسہ بھرپور تھا لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے تحریک کو سرگرم حمایت کی بجائے سرد کندھا دینے سے جوش و خروش میں نمایاں کمی نظر آ رہی ہے۔ استعفوں کی ڈیڈ لائن کا مطلب موجودہ نظام کا ممکنہ خاتمہ تھا، استعفوں کے معاملے میں لیت و لعل کے بعد اِس نظام کے فوری گرنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں، اب اپوزیشن کو نئے سرے سے ماحول بنانا ہوگا، ایک نئی تحریک پھر سے اُٹھانا ہوگی۔
اپوزیشن کا خطرہ کم ہوا ہے تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے چھپے ہوئے اختلافات باہر نکلنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جب بیرونی خطرات کم ہوں تو اندرونی اختلافات کا ابلنا ایک قدرتی عمل ہے، جب کوئی حملہ ہو رہا ہو تو اندرونی لڑائیاں دبی رہتی ہیں۔
حکومت کا اصل امتحان اب شروع ہے، اسٹیبلشمنٹ کافی دیر سے وفاقی اور پنجاب حکومت کی خامیوں کی نشاندہی کر رہی ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ اصلاحِ احوال کے لئے حکمت عملی کا حوالہ بھی دے رہی ہے لیکن حکومت نے چند چھوٹے چھوٹے مشوروں کے علاوہ باقی اہم پالیسی ایشوز کے بارے میں ایک کان سے سننے اور دوسرے کان سے نکال دینے کا رویہ اختیار کر رکھا ہے، یوں لگتا ہے کہ حکومت کو یا تو یہ پالیسی بدلنی پڑے گی یا پھر اِس کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔
اپوزیشن کی تحریک کی اٹھان زبردست تھی، لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے ٹرمپ کارڈ تھے۔ اگر فدائی حملے کی طرح یہ آپشن استعمال ہو جاتے تو سارا سیاسی نظام معطل ہو کر رہ جانا تھا لیکن پیپلز پارٹی سے سندھ حکومت قربان کرنے کا مطالبہ منطقی نہیں تھا۔
پیپلز پارٹی کو اِس فدائی حملے کے بدلے میں کیا ملے گا؟ یہ سوال بہت اہم ہے، ایک طرف تو ان کی سندھ میں حکومت جاتی رہے گی اور ان کی حکومت کی جگہ ان کے مخالفین آ کر بیٹھ جائیں گے جو انہیں اگلا الیکشن بھی جیتنے نہیں دیں گے۔
اس لئے پیپلز پارٹی استعفوں کا آپشن اُس وقت تک استعمال نہیں کرے گی جب تک اُسے یقین نہ ہو کہ اُن کے استعفوں سے سارا سیاسی ڈھانچہ مفلوج ہو جائے گا اور اُس کے بعد ضمنی انتخابات نہیں، عام انتخابات ہی ہوں گے۔ لانگ مارچ کی حکمت عملی میں اہم ترین وہ فضا ہوتی ہے جس میں لانگ مارچ کیا جاتا ہے۔ باوجود کوشش کے تحریک کے پہلے مرحلے میں وہ فضا نہیں بنی کہ ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑوں والے سر پر کفن باندھ کر نکلیں اور اسلام آباد یا راولپنڈی میں جا کر آر یا پار کر کے آئیں۔
ایسی صورتحال بنانے کے لئے جس طرح کی گرما گرمی کی ضرورت ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہو سکی۔ اپوزیشن کو اپنی حکمت عملی از سر نو ترتیب دیتے ہوئے سیاسی ماحول کے اندر ایسا تحرک لانا پڑے گا جس سے عام آدمی گھر سے باہر نکلے اور اسے یہ یقین بھی ہو کہ اس کے لانگ مارچ سے حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
لانگ مارچ کے لئے اصل فورس تو پارٹی کارکن ہوتے ہیں، وہ ہی سردی گرمی اور بھوک پیاس برداشت کر کے کھلے میدان میں بیٹھ سکتے ہیں، اس لئے ان کارکنوں کو وہ جذبہ اور مستقبل کا خواب دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ تبدیلی کے لئے متحرک ہو سکیں۔
حالات کے تیور پڑھتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت کے فوراً گرنے یا عدم استحکام کا شکار ہونے کا خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے لیکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کی خلیج گہری ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت ڈیلیوری میں مکمل طور پر ناکام ہے، چینی کی رسد کا معاملہ ٹھیک ہوا ہے تو آٹا کم یاب ہو گیا ہے، آلو کا ریٹ کم ہوتا ہے تو پیاز کا دام بڑھ جاتا ہے، ملک کے حالات سنوارنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی تخلیقی آئیڈیاز یا ویژنری پروگرام نہیں ہیں، اسی لئے موجودہ حکومت کی گورننس پر سنجیدہ سوال اٹھتے رہتے ہیں۔
پختونخوا اور پنجاب کے معاملات پر راولپنڈی میں اطمینان نہیں پایا جاتا اور وہاں سے گاہے گاہے دونوں صوبوں میں طرز حکمرانی پر اعتراض اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی آدھی میعاد گزر چکی گویا عروج سے زوال کا سفر شروع ہو چکا۔ عام طور پر حکومتیں پہلے اڑھائی سال پروجیکٹ لگاتی ہیں اور آخری اڑھائی سال فیتے کاٹ کر اُن کا افتتاح کرتی ہیں۔ ن لیگ نے یہی کیا تھا، بجلی کے کارخانے لگائے اور موٹر ویز بنائیں اور پھر آخری برسوں میں ان کے افتتاح کرکے ان کے تمغے اپنے سینوں پر سجائے۔
موجودہ حکومت نے پہلے اڑھائی برسوں میں نہ تو کوئی بڑے پروجیکٹ لگائے ہیں اور نہ ہی اُس کی منصوبہ بندی کی ہے، اس لئے یہ حکومت صرف ڈے ٹو ڈے معاملات میں ہی الجھی رہے گی۔
دوسری طرف حکومت کی آدھی میعاد پوری ہونے کے آس پاس ریاستی ادارے مستقبل کے سیٹ اپ بارے پلاننگ بھی شروع کر دیں گے۔ ظاہر ہے کوئی بھی ریاست اپنے مستقبل سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ مستقبل کے منظر نامے میں پنجاب کے حوالے سے ن لیگ کو نظرانداز کر کے پھر سے تحریک انصاف کو ترجیح دینا مشکل ہو گا، اس لئے کم از کم پنجاب کی حد تک ن لیگ کے مصالحتی گروپ سے مذاکرات کا امکان ہے۔
یہ بھی ہو گا کہ ن لیگ کے مزاحمتی گروپ سے بھی اگلے الیکشن سے پہلے کوئی نہ کوئی انڈر اسٹینڈنگ ہو گی تبھی جا کر مستقبل کا نظام چل سکے گا۔ فرض کریں کہ تحریک انصاف آنے والے دنوں میں ایسے کارنامے دکھاتی ہے کہ لوگ اس کو اگلے الیکشن میں وفاقی سطح پر پھر سے لے آتے ہیں یا پھر موجودہ حکومت موجودہ رفتار سے چلتی ہے اور آئے روز صرف جلتے ہوئے مسائل کی آگ بجھانے تک محدود رہتی ہے تو پھر اس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان کم سے کم ہوتا جائے گا۔ فی الحال تحریک انصاف کسی معاملے میں کامیاب و کامران ہے تو وہ اس کا کرپشن کا بیانیہ ہے گو حکومت کی کارکردگی صفر ہے مگر اس کے بیانیے کے نمبر سو فیصد ہیں۔
ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ساری اپوزیشن مل کر بھی اپنے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات اور عدالتی فیصلوں کے داغوں کو دھونے میں کامیاب نہیں ہو سکے، نہ ہی اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی ایسا نیا بیانیہ کھڑا کر سکی ہے جو موجودہ حکومت کو لرزا دے۔
اپوزیشن کو سمجھ لینا چاہئے کہ سب سے پہلے انہیں ایسا بیانیہ ترتیب دینا ہو گا جو حکومت کو بیک فٹ پر ڈال دے وہ چاہے نااہلی کا بیانیہ ہو یا معاشی ابتری کا۔ یہ طے کرنا تو ظاہر ہے کہ اپوزیشن کے شہ دماغوں کا کام ہے۔ اپوزیشن اور پی ڈی ایم کی جانب سے اپنی حکمت عملی بارے ہچکچاہٹ نے 2021کی پہلی سہ ماہی کا سیاسی نقشہ واضح کر دیا ہے۔
اب یوں لگتا ہے سینیٹ کے الیکشن ہوں گے، سیاسی کھینچا تانی بھی رہے گی اور نظام بھی چلتا رہے گا البتہ اب تبدیلی کی ساری امیدیں اس کروٹ پر ہیں جو ممکنہ طور پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں آئے گی۔
حکومت نے سمجھ داری سے کام لیا، لچک دکھائی تو شاید وہ مرحلہ نہ آئے لیکن اگر اکڑے رہے تو ٹوٹنے کا امکان بڑھ جائے گا۔