حالات جہاں تک اجازت دیں، بچوں کو ہوسٹل سے دور ہی رکھنا چاہیے لیکن بعض حالات میں ناگزیر ہو جاتا ہے کہ بچوں کو ہاسٹل میں داخل کروانا ہی پڑتا ہے۔
موجودہ دور میں بہت سوچ سمجھ کر اور بہت دیکھ بھال کے بعد بچوں کو ہاسٹل میں بھیجنا چاہیے۔
شمشاد بھائی کبھی ایسے بچوں سے بات بھی کر کے دیکھئے سکہ کے دو رخ ہوتے ہیں اور ہمیشہ دونوں ہی رخوں کو دیکھا جانا چاہئے ۔نادانستہ طور چہروں کے درمیان کھوتے جا رہے ان بچوں سے جب بات کریں گے، تو تمام اپنے گھر سے ہاسٹل آنے کی کہانی بتائیں گے۔ اس برے وقت کے بارے میں بولتے وقت رندھ جاتا ہے معصوموں کا گلا، نم ہو جاتی ہیں آنکھیں۔ ذرا ان سے کبھی بات کر کے دیکھئے پھر اندازہ ہوگا کہ ماں باپ کی محبت کیا ہوتی ،بھائی بہنوں ،نا نا ،نانی ،دا دا ،دادی کی یاد کیا ہوتی ہے ، گھر چھوڑتے وقت ان کی ذہنی حالت کیسی تھی۔
وہ کتنا روئے۔ایک طرف سے والد صاحب اور چچا انہیں کھینچ کر گاڑی میں بٹھانا چاہ رہے تھے اور دوسری طرف ماں کا ہاتھ انہوں نے کس کر تھام رکھا تھا۔ چیخ رہے تھے، چلا رہے تھے .. کہہ رہے تھے، مجھے کہیں نہیں جانا ہے .. چھوڑ دو. ممی، آپ تو کچھ کہو .. پلیز پاپا کوبتاو .. لیکن آخر ان کے ننھے ہاتھوں میں کہاں اتنی طاقت تھی کہ والد صاحب اور چچا کا سامنا کرتے۔ بڑے جیت گئے اور چھوٹے ہار گئے۔دیکھتے ہی دیکھتے پہلے ماں کا ہاتھ چھوٹا اور پھر ماں کی انگلیوں کا لمس بھی کھو گیا۔
ساتھ رہ گئی تو بس، رونے سے سوج چکی ،بڑی بڑی لال آنکھیں، گالوں پر آنسوووں کی وجہ سے پڑ چکے نشانات، اور نڈھال جسم گویا سب کچھ ختم ہو گیا۔ دکھ یہیں ختم نہیں ہوئے۔ہاسٹل پہنچ کر وہ زندگی کی اس سڑک پر ننھے ننھے قدموں سے چلنے پر مجبور ہو گئے، جس پر تھے ڈھیر سارے کانٹے، پتھر، جس سے ٹھوکر بھی لگے اور خون بھی چلے، کبھی گر ے تو خوب روئے اور خود کے ساتھ پورے خاندان کو کو سا کہ آخر پیدا ہی کیوں کیا، گر ہمیں خود سے دور رکھنا تھا۔
میں خود اس ظلم کا شکار رہ چکا ہوں ۔اس لئے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کیا ہوتی ہے ہاسٹل ۔میں نے کیسے گزاری ہے گھٹ گھٹ کر زندگی میں جانتا ہوں ۔کتنا استحصال ہوا س کے سبب لکھنے لگوں تو پڑھتے پڑھتے آپ تھک جائیں ۔ابھی انتظار ہے لوگوں کی آرا کا پھر انشا ئ اللہ اس کے اوپر لکھوں گا تفصیل سے ۔