کیا بچوں ہاسٹل بھیجا جانا چاہیے؟

بورڈنگ اسکولوں کا تصور بر صغیر میں قدیم عہد سے پایا جاتا ہے۔والدین اپنے بچوں کو خاندان فراہم کرسکنے کے باوجود ،ان کے بقول وسیع تر مفادات کی خاطر بچوں کو بورڈنگ اسکولوں میں بھیجتے ہیں ۔آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں ۔ایسا کر کے کیا والدین اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار نہیں کرتے ؟اس سلسلہ میں بچوں کے اوپر پڑنے والے سماجی اور نفسیاتی پہلو پر گفتگو کی گذارش کرتا ہوں ۔
 

شمشاد

لائبریرین
حالات جہاں تک اجازت دیں، بچوں کو ہوسٹل سے دور ہی رکھنا چاہیے لیکن بعض حالات میں ناگزیر ہو جاتا ہے کہ بچوں کو ہاسٹل میں داخل کروانا ہی پڑتا ہے۔

موجودہ دور میں بہت سوچ سمجھ کر اور بہت دیکھ بھال کے بعد بچوں کو ہاسٹل میں بھیجنا چاہیے۔
 
میں بھی آجکل یہی سوچ رہا ہوں۔۔۔لارنس کالج گھوڑا گلی یا کیڈٹ کالج حسن ابدال جیسے ادارے ہوں تو ضرور بھیجنا چاہئیے۔۔۔لیکن اول الذکر کی فیس بہت ہے۔۔۔:-(
 
بھائی جان میں
ہاسٹل اچھا ہو تو بھیجا جانا چاہیے ۔ ہر صورت میں فرار نہیں کہہ سکتے ۔ بعض اوقات یہ بہتر فیصلہ ہوتا ہے ۔


اپیاآپ کو ان بچوں کا احساس نہیں جو بغیر ماں باپ کے ہاسٹل میں یتیموں کی سی زندگی گذارتے ہیں ۔والدین کی محبت سے محروم ایسے بچے نہ صرف احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔بلکہ بڑے ہو کر خاندان یا سماج سے وہ رشتہ نہیں منسلک کر پاتے جو گھر میں رہکر پڑھنے والے بچوں کے یہاں پایا جاتا ہے ۔
 
عندلیباپیا
جنابپردیسیصاحب
نایاببھائی جان
فارقلیط رحمانیبھائی جان
استاذ محترم جنابمحمد یعقوب آسیصاحب
چاچوالف عینصاحب
امجد میاندادبھیا
پیاری مہ جبینآنٹی
بابائےٹیگمحسن وقار علیبھائی
ہردلعزیزابن سعیدبھائی
ساجدبھائی جان
اچھوتے خیال والےنیرنگ خیالبھائی
تیر وتفنگ والےعسکریبھائی
اسرار احمد دانشبھائی
زبیر مرزابھائی
پیاری بہناعینی شاہ
اپیاعائشہ عزیز
گڑیاmano
آپ لوگ بھی توکچھ بولئے
 
میں بھی آجکل یہی سوچ رہا ہوں۔۔۔ لارنس کالج گھوڑا گلی یا کیڈٹ کالج حسن ابدال جیسے ادارے ہوں تو ضرور بھیجنا چاہئیے۔۔۔ لیکن اول الذکر کی فیس بہت ہے۔۔۔ :-(

بھائی جان میں کالج لبیول کی بات ہی نہیں کر رہا ۔چلئے یہاں تک تو کم از کم بچے میچیور ہو جاتے ہیں ۔لیکن اسکول لیول خاص کر اسٹنڈر سکس ،سیون یا ایٹتھ نائن ۔بہت سارے والدین اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھی بھیج دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان کی ذمہ داری اب ختم اس بارے میں کیا کہیں گے۔
 
میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ ہاسٹل سے بچوں میں "اپنی ذات پر بھروسا"اور "خود فیصلے کی صلاحیت" بہت بڑھ جاتی ہے
لیکن یہ کوئی فارمولا نہیں ہے کیونکہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ہاسٹل بھیجنے سے پہلے ان کے رجھانات اور برداشت کو ضرور دیکھ لیں۔
 
بورڈنگ اسکولوں کا تصور بر صغیر میں قدیم عہد سے پایا جاتا ہے۔والدین اپنے بچوں کو خاندان فراہم کرسکنے کے باوجود ،ان کے بقول وسیع تر مفادات کی خاطر بچوں کو بورڈنگ اسکولوں میں بھیجتے ہیں ۔آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں ۔ایسا کر کے کیا والدین اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار نہیں کرتے ؟اس سلسلہ میں بچوں کے اوپر پڑنے والے سماجی اور نفسیاتی پہلو پر گفتگو کی گذارش کرتا ہوں ۔

آپ نے بہت اہم مسئلہ چھیڑا ہے، جناب محمدعلم اللہ اصلاحی صاحب۔ اور مجھے بھی اس گفتگو میں شامل کر لیا ہے۔
مقدور بھر گزارش کرنے کی کوشش کروں گا۔
 
حالات جہاں تک اجازت دیں، بچوں کو ہوسٹل سے دور ہی رکھنا چاہیے لیکن بعض حالات میں ناگزیر ہو جاتا ہے کہ بچوں کو ہاسٹل میں داخل کروانا ہی پڑتا ہے۔

موجودہ دور میں بہت سوچ سمجھ کر اور بہت دیکھ بھال کے بعد بچوں کو ہاسٹل میں بھیجنا چاہیے۔


شمشاد بھائی کبھی ایسے بچوں سے بات بھی کر کے دیکھئے سکہ کے دو رخ ہوتے ہیں اور ہمیشہ دونوں ہی رخوں کو دیکھا جانا چاہئے ۔نادانستہ طور چہروں کے درمیان کھوتے جا رہے ان بچوں سے جب بات کریں گے، تو تمام اپنے گھر سے ہاسٹل آنے کی کہانی بتائیں گے۔ اس برے وقت کے بارے میں بولتے وقت رندھ جاتا ہے معصوموں کا گلا، نم ہو جاتی ہیں آنکھیں۔ ذرا ان سے کبھی بات کر کے دیکھئے پھر اندازہ ہوگا کہ ماں باپ کی محبت کیا ہوتی ،بھائی بہنوں ،نا نا ،نانی ،دا دا ،دادی کی یاد کیا ہوتی ہے ، گھر چھوڑتے وقت ان کی ذہنی حالت کیسی تھی۔

وہ کتنا روئے۔ایک طرف سے والد صاحب اور چچا انہیں کھینچ کر گاڑی میں بٹھانا چاہ رہے تھے اور دوسری طرف ماں کا ہاتھ انہوں نے کس کر تھام رکھا تھا۔ چیخ رہے تھے، چلا رہے تھے .. کہہ رہے تھے، مجھے کہیں نہیں جانا ہے .. چھوڑ دو. ممی، آپ تو کچھ کہو .. پلیز پاپا کوبتاو .. لیکن آخر ان کے ننھے ہاتھوں میں کہاں اتنی طاقت تھی کہ والد صاحب اور چچا کا سامنا کرتے۔ بڑے جیت گئے اور چھوٹے ہار گئے۔دیکھتے ہی دیکھتے پہلے ماں کا ہاتھ چھوٹا اور پھر ماں کی انگلیوں کا لمس بھی کھو گیا۔

ساتھ رہ گئی تو بس، رونے سے سوج چکی ،بڑی بڑی لال آنکھیں، گالوں پر آنسوووں کی وجہ سے پڑ چکے نشانات، اور نڈھال جسم گویا سب کچھ ختم ہو گیا۔ دکھ یہیں ختم نہیں ہوئے۔ہاسٹل پہنچ کر وہ زندگی کی اس سڑک پر ننھے ننھے قدموں سے چلنے پر مجبور ہو گئے، جس پر تھے ڈھیر سارے کانٹے، پتھر، جس سے ٹھوکر بھی لگے اور خون بھی چلے، کبھی گر ے تو خوب روئے اور خود کے ساتھ پورے خاندان کو کو سا کہ آخر پیدا ہی کیوں کیا، گر ہمیں خود سے دور رکھنا تھا۔

میں خود اس ظلم کا شکار رہ چکا ہوں ۔اس لئے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کیا ہوتی ہے ہاسٹل ۔میں نے کیسے گزاری ہے گھٹ گھٹ کر زندگی میں جانتا ہوں ۔کتنا استحصال ہوا س کے سبب لکھنے لگوں تو پڑھتے پڑھتے آپ تھک جائیں ۔ابھی انتظار ہے لوگوں کی آرا کا پھر انشا ئ اللہ اس کے اوپر لکھوں گا تفصیل سے ۔
 

ساجد

محفلین
آپ میں سے بہتوں نے عامر خاں کی "تارے زمیں پہ" دیکھ رکھی ہو گی۔ نہیں دیکھی تو ایک بار ضرور دیکھ لیں رائے قائم کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔
 
آپ میں سے بہتوں نے عامر خاں کی "تارے زمیں پہ" دیکھ رکھی ہو گی۔ نہیں دیکھی تو ایک بار ضرور دیکھ لیں رائے قائم کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔

میں نے دیکھی ہے ایک مرتبہ نہیں دسیوں مرتبہ یہ میرے فیورٹ فلموں میں سے ایک ہے ۔فلم ’’اڑان‘‘ بھی مجھے کافی پسند ہے اور مجھے تو لگتا ہے جیسے یہ میری ہی کہانی ہے آپ نے نہ دیکھی ہوتو دیکھئے گا ضرور۔ممکن ہے آپ کہ دیں ریل لائف میں ایسا نہیں ہوتا کہ فلم پر تنقید کرنے والوں میں سے بہتوں نے ایسا کہا ہے لیکن میں کہتا ہوں ایسا ہوتا ہے ۔
 

پردیسی

محفلین
تفصیلاً بعد میں بات کروں گا
فی الحال یہی کہ اسکول لیول کے بچوں کو ہاسٹل بالکل بھی نہیں بھیجنا چاہئے ۔۔۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔۔۔۔۔
جہاں تک مدرسوں کی بات ہے تو وہاں بھی صبح بچے کو مدرسے بھیج کر شام کو لے آنا چاہئے
 
میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ ہاسٹل سے بچوں میں "اپنی ذات پر بھروسا"اور "خود فیصلے کی صلاحیت" بہت بڑھ جاتی ہے
آپ کے اس بات سے اتفاق ممکن نہیں کیوں کہ ماہر نفسیات نے بالکل اس کے بر عکس بات بتائی ہے ۔
 
تفصیلاً بعد میں بات کروں گا
فی الحال یہی کہ اسکول لیول کے بچوں کو ہاسٹل بالکل بھی نہیں بھیجنا چاہئے ۔۔۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔۔۔ ۔۔
جہاں تک مدرسوں کی بات ہے تو وہاں بھی صبح بچے کو مدرسے بھیج کر شام کو لے آنا چاہئے

تفصیل کا انتظار رہے گا سر جی ۔
 

پردیسی

محفلین
میں محفل میں اپنے تمام محترم دوستوں کو عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کوئی تحریر '' معاشرے'' کے زمرے میں پوسٹ کرتے ہیں تو خصوصاً مجھے ٹیگ نہ کیا جائے۔۔کیونکہ اس سیکشن میں پوسٹ موڈریٹ کی جاتی ہے جس سے مجھ الجھن محسوس ہوتی ہے
 
میں محفل میں اپنے تمام محترم دوستوں کو عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کوئی تحریر '' معاشرے'' کے زمرے میں پوسٹ کرتے ہیں تو خصوصاً مجھے ٹیگ نہ کیا جائے۔۔کیونکہ اس سیکشن میں پوسٹ موڈریٹ کی جاتی ہے جس سے مجھ الجھن محسوس ہوتی ہے

اچھا ابھی تک یہی ہو رہا تھا ۔تبھی اتنا انتطار کرنا پر رہا ہے ۔مجھے معلوم نہیں تھا پہلے سو سوری۔
 
بھائی جان میں کالج لبیول کی بات ہی نہیں کر رہا ۔چلئے یہاں تک تو کم از کم بچے میچیور ہو جاتے ہیں ۔لیکن اسکول لیول خاص کر اسٹنڈر سکس ،سیون یا ایٹتھ نائن ۔بہت سارے والدین اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھی بھیج دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان کی ذمہ داری اب ختم اس بارے میں کیا کہیں گے۔
لارنس کالج گھوڑا گلی میں کے جی ون کے بچے بھی داخل ہوسکتے ہیں جبکہ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں آٹھویں جماعت سے داخلہ شروع ہوتا ہے۔۔۔۔
ہوسکتا ہے کہ ان اداروں میں بچوں کو بھیجنے کے کچھ منفی اثرات بچوں پر مرتب ہوتے ہوں، لیکن ایک بات ہے کہ بچوں کی زندگی میں نظم و ضبط اجاتا ہے اور یہ بات ساری زندگی اسکے کام آتی ہے
 

ساجد

محفلین
میں محفل میں اپنے تمام محترم دوستوں کو عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کوئی تحریر '' معاشرے'' کے زمرے میں پوسٹ کرتے ہیں تو خصوصاً مجھے ٹیگ نہ کیا جائے۔۔کیونکہ اس سیکشن میں پوسٹ موڈریٹ کی جاتی ہے جس سے مجھ الجھن محسوس ہوتی ہے
تفصیلاً بعد میں بات کروں گا
فی الحال یہی کہ اسکول لیول کے بچوں کو ہاسٹل بالکل بھی نہیں بھیجنا چاہئے ۔۔۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔۔۔ ۔۔
جہاں تک مدرسوں کی بات ہے تو وہاں بھی صبح بچے کو مدرسے بھیج کر شام کو لے آنا چاہئے
باس جی ، اب یہ دھاگہ ماڈریشن سے نکال دیا گیا اس لئے کھُل ڈُل کے روشنی ڈالیں ؛ لوڈ شیڈنگ کے دور میں :)
 
Top