ہاہاہاہاہا
اتنا عرصہ لبرل کو گالی کے طور پر استعمال کرنے کے بعد!
ویسے آپس کی بات ہے آپ شاید لبرل بھی ہوں لیکن آپ کے تبصروں سے جمہوریت مخالف ہی نظر آتے ہیں۔ شاید یہ ہماری نظروں کا قصور ہو؟
اب تو جمہوریت پسند لبرل لفافے خود اقرار کر رہے ہیں کہ انقلاب کیلئے ان کا طرز عمل درست نہیں۔ یہ کم و بیش وہی بات ہے جو میں اوپر تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔ فوج کے خلاف جمہوری انقلاب گھروں میں بیٹھ کر نہیں آیا کرتے:
انقلاب آیا انقلاب
جسٹس فائز عیسی کے کیس کے حوالے سے جو ملک بھر میں انقلاب زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں انہیں ذرا تھام لیں۔ اس لیے کہ ہم نے اس ملک میں ہمیشہ انقلاب، بغاوت کی تہمت پر منتج ہوتے دیکھا ہے۔
عمار مسعود تجزیہ کار، صحافی
ہفتہ 20 جون 2020 11:45
انقلاب ناکام ہو جائے تو بغاوت کہلاتا ہے اور بغاوت کامیاب ہو جائے تو انقلاب بن جاتی ہے۔
پوری قوم جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے انتظار میں ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ میری طرح بےشمار لوگ اس مقدمے کے مشکل قانونی پہلووں سے آگاہ نہیں تھے لیکن کئی کو یقین تھا کہ جس کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے وہ بےگناہ ہے۔ وہ جس خانوادے سے تعلق رکھتا ہے اس کا حصہ تعمیر و تخلیق پاکستان میں ہے۔ یہ شخص حق کی بات کرتا ہے۔ شاید اس لیے باعث عتاب ہے۔
چار بجے فیصلہ آیا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا۔ ہر طرف مبارک سلامت کا شور پڑا۔ جمہوریت پسند سب خوشیاں منانے لگے۔ کچھ کہنے لگے کہ ’اب پاکستان میں انقلاب آ گیا ہے۔ اب ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ اب سب کچھ اچھا ہونے والا ہے۔‘ اس موقع پر مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ نے ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل کی پخ لگا کر کچھ دلوں کو سہما بھی دیا۔ خوف صرف اس بات کا تھا کہ پاکستانی اس سے پہلے بھی کئی بار ایک دوجے کو انقلاب کا مژدہ سنا چکے ہیں مگر ہر بار وہ متوقع انقلاب وطن عزیز میں بغاوت کہلایا گیا۔
پانامہ کیس تو یاد ہو گا آپ کو۔ اس میں بھی یہی ہوا تھا۔ لوگوں کو توقع تھی یہ کیس بدنیتی پر مبنی ہے۔ فاضل جج صاحبان اس کیس کی دھجیاں بکھیر دیں گے۔ نہ اس کیس میں کوئی ثبوت ہے نہ کوئی سچائی۔ اس قسم کے کیس کا کوئی موقع ہے نہ محل۔ اس لیے کہ پاکستان کی معیشت درست طور پر چل رہی تھی۔ گروتھ ریٹ اوپر جا رہا تھا۔ کرپشن کا کوئی سکینڈل نہیں تھا۔ ایک اقامے کی بنیاد پر کسی کو نااہل کیا نہیں جا سکتا تو یقننا حق کی فتح ہو گی۔
لوگ توقع کر رہے تھے کہ اس کیس کا فیصلہ درست آگیا تو ملک کو درست سمت ملے گی۔ ادارے اپنی حدود میں رہیں گے۔ جمہوریت اور انصاف کا بول بالا ہو گا۔ خیر اس کیس کے فیصلے میں ایسا نہیں ہوا۔ جمہوریت پسند اور انقلاب کے خواہش مند ایک دوجے کا منہ ہی تکتے رہے اور اس کے بعد اس ملک کے اسی وزیر اعظم کے بیانیئے کو بغاوت کہا گیا۔
چیئرمین سینٹ کا الیکشن بھی یاد ہوگا آپ کو۔ اس دن بھی یہی کیفیت تھی۔ لگتا تھا کہ اپوزیشن کے اس وار کے بعد یہ حکومت چند دن کی مہمان ہوگی۔ اپوزیشن کو سینٹ میں واضح برتری حاصل تھی۔ سب لوگ اسی طرح ٹی وی پر نظریں جمائے جمہوریت کی فتح کا جشن منانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ووٹوں کی گنتی جاری تھی۔ دبی دبی آوازوں میں انقلاب زندہ باد کا ورد شروع ہو گیا تھا کہ اچانک پتہ چلا کہ انقلاب ایک دفعہ پھر بغاوت بن گیا۔ اپنوں نے ہی نشیمن پر بجلیاں گرا دیں۔ حکومتی بنچوں کو فتح نصیب ہوئی اورانقلاب کے خواہش نمد ایک دفعہ پھر اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئے۔
آپ کو یاد ہی ہو گا کہ ’بڑے صاحب‘ کی ملازمت میں توسیع کا بل اسمبلی میں پیش ہوا تھا۔ اس دن بھی سب لوگ بڑے پر امید تھے کہ اب تمام فیصلے ایوانوں میں ہوں گے۔ اب عوام کے نمائندے فیصلہ کریں گے اپنے مستقبل کا۔ اب راج کرے گی خلق خدا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہوا کیا کہ جن سیاسی جماعتوں نے ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگایا تھا ان سب نے اس بل کی منظوری میں پہل کی۔
یوں لگتا تھا کہ ایک لمحے کی تاخیر بھی جان لیوا ثابت ہو گی۔ ووٹ کو عزت دینے والا بیانیہ اس دن دفن ہو گیا۔ عوام کی حکومت کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ لوگوں نے اس بل کو منظور کرنے والوں کو انقلاب کی مبارک باد دی اور اس بل کی مخالفت کرنے والے ہر شخص پر باغی کی تہمت لگی۔
ایک فیصلہ جنرل مشرف سنگین غداری کیس کا بھی تھا۔ جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے فیصلے میں واضح لکھا کہ آئین سے غداری کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دینا چاہیے بلکہ ان کی نعش کو کئی دن تک چوک میں لٹکانا چاہیے۔ اس دن انقلاب کے خواہش مند بڑے خوش تھے کہ اب کوئی آئین کو پامال کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ اب کوئی مارشل لا لگانے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اب اس فیصلے بعد سول سپریمسی کا دور دورہ ہو گا۔ ایوان مقدس کہلائیں گے۔ اب تخت گرائے جائیں گے اور تاج وغیرہ اچھالے جائیں گے۔
یہ فیصلہ جب لاہور ہائی کورٹ میں گیا تو فیصلہ کرنے والی عدالت کو ہی غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دے دیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ اس فیصلے پر بات بھی کرنے والے کو باغی کہا جاتا ہے اوراس پر ترنت سے بغاوت کا فتوی لگا دیا جاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا دھرنا بھی آپ کو یاد ہو گا۔ انہوں نے کراچی سے اپنے احتجاجی سفر کا آغاز کیا۔ ملک بھر کا سفر کر کے اسلام آباد میں براجمان ہو گئے۔ سب باتیں آئین کے مطابق کیں۔ سب نعرے جمہوریت کی بنیادی روح کے مطابق تھے۔ پورے ملک کے عوام بڑی دلچسپی سے انقلاب کو آتے دیکھ رہے تھے۔ مولانا سول سپریمسی سے کم کوئی بات سننے کے روادار نہیں تھے۔
دھرنے کے عروج میں مولانا نے نعرہ لگایا کہ اگر ہمارے جمہوری مطالبات نہ مانے گئے تو ہم ڈی چوک کی جانب پیش قدمی کریں گے۔ لوگ ایک دوسرے کو پھر انقلاب کی مبارک باد دینے لگے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ مولانا اس سےاگلے دن دھرنا سمیٹ کر چلے گئے۔ مولانا رخصت ہوئے تو انقلاب کے چاہنے والوں پر ایک دفعہ پھر بغاوت کی تہمت لگ گئی۔
یہی حال جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے ساتھ ہوا۔ لگتا تھا کہ اس ایک فیصلے سے ملک کی تاریخ بدل گئی ہے لیکن ہوا یوں کہ التوا میں جا کر یہ فیصلہ ہی بدل گیا۔ اب جو اس فیصلے کا ذکر کرے وہ باغی کہلاتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرتے ہوئے ججوں پر کیچڑ اچھالتا ہے وہی سچا انقلابی کہلاتا ہے۔
بات صرف اتنی کہنی تھی کہ جسٹس فائز عیسی کے کیس کے حوالے سے جو ملک بھر میں انقلاب زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں انہیں ذرا تھام لیں۔ اس لیے کہ ہم نے اس ملک میں ہمیشہ انقلاب، بغاوت کی تہمت پر منتج ہوتے دیکھا ہے۔ یہاں بدقسمتی سے انقلاب ناکام ہوتے ہیں اور آئین سے بغاوت ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔
ہم بحثیت قوم کم از کم تین دفعہ تو ایسی بغاوتوں کے ماتھے پر انقلاب کا سہرا سجا چکے ہیں۔ سمجھ سکیں تو بس اتنا سمجھ لیں کہ انقلاب ناکام ہو جائے تو بغاوت کہلاتا ہے اور بغاوت کامیاب ہو جائے تو انقلاب بن جاتی ہے۔