میری کل کی پوسٹ میں لکھا تھا کہ جسٹس فائز عیسی کی پوری کوشش ہے کہ ٹیکس معاملات ایف بی آر کے پاس نہ جانے پائیں۔ اس چیز کو روکنے کیلئے تین دن قبل فائز عیسی خود سماعت کے دوران عدالت پہنچ گیا اور استدعا کی کہ اس کی بیوی کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے سنا جائے۔ فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک کا پورا مقدمہ اس بنیاد پر تھا کہ عدالت ایف بی آر کو ریفر کرنے کی بجائے اس ریفرینس کو منسوخ کردے۔
سپریم کورٹ نے آج کے فیصلے میں دو کام کئے ہیں:
ایک یہ کہ فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرینس منسوخ کرکے جوڈیشل کمیشن کو کارروائی سے روک دیا۔ یہ اکثریتی فیصلہ تھا۔
دوسرا یہ کہ دس میں سے سات ججوں نے ایف بی آر کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر فائز عیسی اور اس کی بیگم کو نوٹس بھجوا کر ان سے تمام ریکارڈ حاصل کرے اور اپنی تحقیقات شروع کردے۔ یہ نوٹس سات دن کے اندر اندر پہنچ جانا چاہیئے۔
عدالت جانتی تھی کہ فائز عیسی کی بیگم اور بچے بیرون ملک جا کر یہ تفتیش التوا میں ڈال سکتے تھے، چنانچہ حکم نامے میں یہ بھی لکھ دیا گیا کہ چاہے کوئی فریق بیرون ملک بھی ہو، اسے متعلقہ مدت میں جواب دینا لازم ہوگا۔
ایک اور امکان یہ بھی تھا کہ برطانیہ میں جائیداد کی خرید کے حوالے سے تمام قانونی دستاویزات ایف بی آر کیلئے حاصل کرنا مشکل تھا، چنانچہ عدالت نے حکم نامے میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ بیرون ملک سے درکار کسی بھی قانونی دستاویز کیلئے فریق کو (یعنی فائز عیسی اور اس کے اہل خانہ) ایف بی آر سے مکمل تعاون کرنا ہوگا اور ان دستاویزات کی فراہمی کی ذمے دار ان پر عائد ہوگی۔
اپوزیشن، لبرل، لفافے جتنی مرضی مٹھائیاں کھائیں، عدالت کے اس فیصلے کے بعد فائز عیسی کو مشکل لاحق ہوچکی ہوگی، کیونکہ ایف بی آر کے پاس معاملہ جانے کا مطلب ہے کہ ٹیکس قوانین کے مطابق اس معاملے کو ڈیل کیا جائے گا۔ ٹیکس کے حوالے سے قائم عدالت اس کا جائزہ لے کر فیصلہ جاری کرے گی۔
ایک لمحے کیلئے تصور کریں کہ جب ٹیکس ریٹرن کھلیں گے اور ان میں فائز عیسی کی اہلیہ کے ٹیکس ریٹرن میں بیرون ملک پراپرٹیز نظر نہ آئیں، یا پھر لندن لینڈ ڈیپارٹمنٹ سے ٹرانزیکشن کی رقم جج کی اہلیہ کی انکم سے مطابقت نہ پائی تو وہ ٹیکس چوری اور ناجائز آمدن کے ذرائع کی مرتکب قرا پائے گی۔
یہ ناجائز آمدن کے ذرائع یا تو اس کے اپنے ہوں گے، یا پھر شوہر کے۔ جب بات بڑھے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔
عدالت نے اپنے آج کے حکم میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایف بی آر معاملےکی تحقیقات کرکے رپورٹ سپریم جوڈیشل کمیشن کو جمع کروائے۔ قواعد کے مطابق اس رپورٹ میں اگر بے ضابطگی ثابت ہوگئی تو سپریم جوڈیشل کمیشن کیلئے ایکشن کرنا لازمی ہوجائے گا۔
المختصر یہ کہ اپوزیشن، لبرل، لفافے ایک مرتبہ پھر مٹھائی کھا کر بدہضمی کا شکار ہوسکتے ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا