میرا خیال ہے کہ مرد تاحال اپنی حاکمیت کے غلط تصور سے نجات حاصل نہیں کرسکا ۔ اگر کہیں ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو ایسے کالم وجود میں آتے ہیں ۔میرا سوال یہ ہے کہ ایسا سوال ہی کیوں پیدا ہوتا ہے
گُل نوخیز اختر ایک مزاح نگار ہے ۔ اس نے جس پیرائے میں اس موضوع کو تختہِ مشق بنایا ہے ۔ اس کے برعکس کچھ صاحبان نے اس کو اپنی مذہبی اصطلاح کی آڑ میں لے لیا ہے ۔
یہ بات بلکل واضع ہے کہ اللہ نے اس دنیا میں جو بھی مخلوقات پیدا کی ہے ۔ ان کے درمیان مزاج ، عادت ، صلاحیت ، جبلت اور جسمانی ساخت کے لحاظ سے فرق رکھا ہے ۔ انسان کی حیثیت سے عورت اور مرد بلکل برابر ہیں ۔ ( یا کسی کو شک ہے ) ۔
قرآن نے صاف لفظوں میں مرد و عورت کو آدم و حوا کی اولاد قرار دیا ہے ۔ نیز یہ بھی بتایا کہ " ہم نے تم کو نفسِ واحدیہ سے پیدا کیا اور اُسی سے تمہارا جوڑا بنایا ۔ لہذا اس بنیاد پر کوئی فرق مرد و عورت کے مابین نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن یہ بات بھی واضع ہے کہ اپنی عادت ، طبعیت ، مزاج اور جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورت مرد سے " مختلف " ہے ۔ ۔ یہاں کوئی کمتر اور کمزور ہونا زیرِ بحث نہیں ہے ۔ بلکہ مختلف ہونا زیرِ بحث ہے ۔ جب وہ مختلف ہے تو بعض احکام میں بھی اختلاف ( فرق ) رہے گا ۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ جبلتی کیفیتوں میں بھی بہت فرق ہے ۔ جنسی اور نفسیاتی بنیاد پر بھی یہ فرق پایا جاتا ہے ۔ سو یہ ایک اختلاف ( فرق) ہے ۔ اور اس فرق کے بارے میں بھی قرآن مجید نے یہ بات واضع کی ہے کہ ان میں سے ہر چیز پر ہر صنف کو فخر کرنا چاہیئے ۔ یعنی اللہ نے جس میں اسے بنایا ہے اُسی میں اس کے لیئے فضلیت کے بہت سے مواقع ہیں ۔ یہاں کمتری اور برتری کسی بھی طور پر زیرِ بحث ہی نہیں ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عورت و مرد پیدا ہو رہے ہیں ۔ ان کے درمیان بھی یہ فرق یا اختلاف اپنی اپنی فضلیت کی بنیاد پر بہت واضع ہے ۔ مردوں میں کوئی شاعر ہے ، کوئی ادیب ہے تو کوئی سائنٹیس ہے ، کسی کو قیادت کی صلاحیت بخشی ہے ، کسی کو چیزوں کو سمجھنے کی بے انتہا صلاحیت بخشی ہے ۔۔ کوئی مہیز محنت کش ہے ۔ سو یہ فرق مردوں میں بھی بہت واضع ہے ۔ اسی طرح عورتوں کو دیکھ لیں تو ہمیں بھی یہ اختلاف وہاں بھی صاف نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کائنات میں جو حسن پیدا کیا ہے وہ اختلاف اور تنوع سے کیا ہے ۔ اگر کوئی اس بات کا انکار کرتا ہے تو ایک واضع اور حقیقی بات کا انکار کررہا ہے ۔
اب اگلا مرحلہ وہ ہے جہاں سے حسبِ معمول غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہے ۔
یعنی شریعت ۔۔۔ کہ اللہ تعالی نے وہاں کیا فرق رکھا ہے ۔ ہمیں اللہ نے جو شریعت دی ہے ۔ وہ فرقِ مراتب پر مبنی ہے ۔ یعنی خاندان کی بنیاد پر اللہ نے جو نظم قائم کیا ہے اس میں فرقِ مراتب کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔ مثال کے طور پر انہی انسانوںمیں سے جب ہم کسی کو اپنا حکمران بنا لیتے ہیں تو یہ یہاں ایک مرتبہ کا فرق واقع ہوجاتا ہے ۔ انہی انسانوں میں سے کسی کو جب ہم اپنا استاد قرار دیکر اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو اس کی اور ہماری خلقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا مگر مرتبہ کا فرق نمایاں ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح والدین اور اولاد میں بھی یہ فرق فضلیت کے اعتبار سے واضع ہے ۔ جن قرآنی آیتیوں کا ذکر عورت و مرد کے درمیان فرق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ وہاں یہی فرقِ مراتب بیان کیا گیا ہے ۔ عورت اور مرد کے درمیان قوام اور غیر قوام کا کوئی رشتہ نہیں قائم کیا گیا ۔ جب ایک مرد اور عورت یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اب ان کو بیوی اور شوہر بن کر رہنا ہے ۔ تو بیوی اور شوہر کے درمیان یہ فرقِ مراتب قائم کیا گیا ہے ۔ جس کو عموما لوگ مرد کی فضلیت سے گردانتے ہیں ۔ جب یہی بیوی ماں بنتی ہے تو یہاں بھی اللہ نے فرقِ مراتب وضع کیا ہے کہ ماں کو اپنی اولاد پر ایک درجے فضلیت حاصل ہے ۔خواہ اس کی اولاد مرد ہی کیوں نہ ہو ۔
دوسرا معاملہ تادیب کا ہے ۔ یعنی باپ بڑی عمر کو پہنچ جائے اور وہ اپنے بیٹے کو تادیب کرے تو حفظِ مراتب کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے شرافت اسی کو سمجھا جاتا ہے کہ آدمی اس کو قبول کرے ۔ بلکل یہی معاملہ فضلیت کے اعتبار سے " بیوی اور شوہر " کے درمیان بھی ہے ۔ یہ وہ تعلقات ہیں جن کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے احکامات دیئے ہیں ۔ نہ کہ عورت و مرد کے درمیان کوئی فرق روا رکھا ہے ۔ اگر ایسا معاملہ ہوتا تو ماں اور اولاد کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا ۔
شوہر کی حیثیت سے مرد کو بیوی پر ایک درجے فضلیت دی گئی کہ خاندان کا ادارہ مضبوط ہوسکے ۔ پھر وہی شوہر اور بیوی ، ماں باپ بنتے ہیں تو اولاد پر ان کو ایک درجے فضلیت حاصل ہوجاتی ہے کہ ادارے ( خاندان ) کو استحکام میسر آئے ۔ یہی حسن معاشرت ہے ۔ اور انہی اولادوں میں سے جب کوئی حکمران بنتا ہے تو اسے درجے کی فضلیت کے اعتبار سے تادیب کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔کیونکہ اس کے بغیر دنیا کا نظم نہیں چل سکتا ہے ۔
عورت و مرد میں تفریق مراتب کے فرق کی بنیاد پر رکھی گئی ہے ۔ اور یہی ہمارے معاشرے کی اساس ہے ۔ مغربی تہذیب کے بے انتہا غلبے کے باوجود ہمیں اس پر ڈٹ جانا چاہیئے کہ یہ وہ مقام ہے جس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے ۔ جس دن باپ اور بیٹے ، حکمران اور رعایا اور بیوی اور شوہر کے درمیان یہ فرقِ مراتب قائم نہیں رہے گا تو خاندان ختم ہوجائیں گے اور معاشرہ انتشار کا شکار ہوجائے گا ۔