ظاہر ہے میری مادری زبان اردو کہاں ۔۔میں حقیقتا نہیں محاورتا کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔ مگر آپ کو اردو آتی ہی کہاں ہے۔۔۔۔
فارسی یعنی ایران میں
کچھ ٹھیک سے یاد نہیں شاید کسی جگہ پڑھا تھا کہ
اب غالب کہیں بھی مقبول نہیں سوائے اردو کے علاوہ
کیا یہ درست ہے؟
سلسلہ تو عمدہ ہے۔ میری آج ہی اس پر نظر پڑی ہے۔ لیکن مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ غالب کی شاعری سے عشق کو کیوں نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اور ایک مکمل آدمی اگر ایک مکمل شاعر ہے تو اس کے ہاں سب کچھ ہو گا۔عشق، مظاہرِ فطرت، مشاہدہء حق، نفسیاتی و معاشرتی و سماجی مسائل۔ اور دنیا ۔ دنیا میں تو سب سمٹ آتا ہے۔ ہاں اسے ایک الگ موضوع بنایا جا سکتا ہے جیسے غالب کا عشق وغیرہ وغیرہ۔ غالب میرا پسندیدہ شاعر ہے اور میں نے ہمیشہ ایک مکمل شاعر کے ناطے اس سے لطف اٹھایا ہے۔
یقینا آپ سخنور سے مخاطب ہیں۔۔۔ ورنہ ہمرا تو ایمان ہے کہ غالب کی شاعری عاشقانہ "بھی" ہے۔ کچھ شعر تو "فاسقانہ" ہیں
سلسلہ تو عمدہ ہے۔ میری آج ہی اس پر نظر پڑی ہے۔ لیکن مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ غالب کی شاعری سے عشق کو کیوں نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اور ایک مکمل آدمی اگر ایک مکمل شاعر ہے تو اس کے ہاں سب کچھ ہو گا۔عشق، مظاہرِ فطرت، مشاہدہء حق، نفسیاتی و معاشرتی و سماجی مسائل۔ اور دنیا ۔ دنیا میں تو سب سمٹ آتا ہے۔ ہاں اسے ایک الگ موضوع بنایا جا سکتا ہے جیسے غالب کا عشق وغیرہ وغیرہ۔ غالب میرا پسندیدہ شاعر ہے اور میں نے ہمیشہ ایک مکمل شاعر کے ناطے اس سے لطف اٹھایا ہے۔
مجھے تو یہ شعر بہت لطف دیتا ہے
تا کہ میں جانوں کہ اس کی ہے رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے ، پیامِ وعدہء دیدارِ دوست
لیکن یہ شعر اس سے بھی کہیں زیادہ پر لطف و لطیف ہے۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
ویسے کم تو یہ شعر بھی نہیں
غالب وظیفہ خوار ہو، دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
باقی غالب پر بحث کو آگے بڑھاتے ہیں کہ بات تو ہو گی۔
غالب کے کلام میں وجودیت بھی پائی جاتی ہے۔
جی سخنور وحدت الوجود کی بات کر رہا ہوں۔نظامی صاحب آپ وجودیت کی بات کر رہے ہیں یا وحدت الوجود کی کیونکہ غالب کی شاعری کی تشریح نظریہ وحدت الوجود کے حوالے سے کی جا سکتی ہے - وجودیت تو ایک ایسا فلسفہ ہے جسے فرانس کے فلسفی ژاں پال سارتر سے منسوب کیا جاتا ہے -
"جب کوئی شاعر یا مفکر کسی خاص قوم کا نفسِ ناطقہ بن کر اس کی پوری جذباتی زندگی کا ترجمان بن جاتا ہے تو وہ تہذیب کا نمائندہ تو ہوتا ہی ہے، بذاتِ خود ایک تہذیب، ایک اسلوب، ایک سلیقہ بن کر اس کا مثالی پیکر بھی بن جاتا ہے۔ اس حد تک کہ اس کا نام اس تہذیب کی تصویر، اس کا کلام اس تہذیب کی تعبیر، اور اس کا اسلوب اس تہذیب کی تفسیر کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
ان معنوں میں شیکسپیئر کا برطانوی تہذیب کا، حافظ کو عجمی لطافت کا، دانتے فلارینس کا، گوئٹے کو جرمن اندازِ زیست کا اور غالب کو ہندی اسلامی تمدن کا نفسِ ناطقہ کہا جا سکتا ہے۔"
غالب ----ایک تہذیب از ڈاکٹر سید عبداللہ