آصف نے کہا:
مجھے محب کی رائے سے مکمل اتفاق ہے۔ میرے حساب سے اس ساری صورتحال میں چیف جسٹس صاحب کو ذرہ برابر بھی دوش نہیں دیا جا سکتا۔ ان کی ساری جدوجہد سے عام پاکستانی عوام کو ہی فائدہ ہو گا۔
آصف برادر،
یہ وہی چیف جسٹس ہیں جنہوں نے ایل ایف او کے تحت حلف لیا تھا۔
اور جسٹس صاحب نے اس معاملے کو ڈیل کرنے کے لیے سب سے پہلے اسے سیاسی رنگ دینے کے لیے سب سے پہلے اعتزاز احسن صاحب کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ اور اُس وقت سے تمام سیاسی و مذھبی جماعتیں عدلیہ کے نام کے پیچھے حکومت مخالف تحریک چلا رہی ہیں اور جسٹس صاحب اپنے نام کے پیچھے انہیں آڑ مہیا کر رہے ہیں۔
جسٹس صاحب کا ایک رنگ وکلاء بار سے خطاب کرتے ہوئے ہوتا ہے جب وہ بظاہر غیر سیاسی بیان دے رہے ہوتے ہیں، اور دوسرا روپ بار سے باہر ہوتا ہے جب وہ سیاسی قائد کی طرح گاڑی میں بیٹھ کر عوام یاترا کر رہے ہوتے ہیں اور اس آڑ میں اپوزیشن حکومت مخالف تحریک چلا رہی ہوتی ہے۔
کیا یہ ضروری ہے کہ وہ بیس بیس گھنٹے کی سیاسی طرز کی عوام یاترا پر نکلیں؟ کیا کوئی ذی ہوش اس بات سے انکار کر سکے گا کہ اپوزیشن جو ماضی میں ہمیشہ حکومت کے خلاف عوام کو سڑک پر لانے میں ناکام رہی، وہ جسٹس صاحب کی آڑ میں کامیابی سے اپنے مقاصد نہیں پوری کر رہی؟
تو اب جب کہ فل بنچ تشکیل دیا جا چکا ہے تو پھر اس قانونی و آئینی مسئلے کو سڑک پر اچھالنے کا کیا مقصد؟
اور ایم کیو ایم کو صدر صاحب سے زیادہ یقینا اپنے مفاد عزیز ہیں، اور جب انہوں نے دیکھا کہ جسٹس صاحب کی آڑ میں سیاست ہے ، تو انہیں صرف اسی وجہ سے سامنے آنا پڑا۔ اگر اس پس پردہ سیاست کے علاوہ اگر آپکی نظر میں کوئی اور وجہ ہے تو بیان فرمائیے۔
اور ایم کیو ایم نے راستہ روکا تو میری نظر میں غلط کیا، مگر افسوس مجھے غیر جانبدار رویے کا ہوتا ہے کہ اس سے قبل اسی طرح کی طاقت کا استعمال یہ سیاسی وکلاء بھی کر چکے تھے جب بار کے وہ وکلاء جو صدر صاحب کے حامی تھے انہوں نے صدر صاحب کے حُ میں نعرے لگائے تھے تو یہی پڑھے لکھے وکلاء ان مخالف وکلاء پر ٹوٹ پڑے اور طاقت کے زور پر انہیں چپ کرا دیا۔
تو بتائیے کہ ایم کیو ایم اور ان پڑھے لکھے وکلاء کے طرز عمل میں کیا فرق تھا؟
تو جو فرق تھا وہ میں بتاتی ہوں۔
1۔ ان پڑھے لکھے وکلاء نے نہ صرف طاقت سے انہیں خاموش کر دیا بلکہ جھوٹا الزام لگایا کہ کچھ شرپسند کالے کوٹ پہن کر صدر صاحب کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ اور ہمارے میڈیا نے انکا یہ جھوٹا الزام خوب اچھالا۔
اس پر چوہدری صاحب ان صدر کے حمایتی وکلاء کے تمام کاغذات لیکر آ گئے۔
پر ہمارے میڈیا اور دانشوروں کے قلموں کی سیاہی خشک ہو گئی اور ان سیاسی وکلاء کے جھوٹے الزام پر کوئی تنقید نہیں ہوئی اور توپوں کا رخ حکومت کی طرف ہی رہا۔
اور اس میڈیا اور دانشوروں کو طاقت کے بل پر دبانے کا فتنہ صرف اس وقت نظر آیا جب کراچی میں ان کے ساتھ جیسے کو تیسا ہوا۔
آپ مانیں نہپ مانیں، مگر عدلیہ کے نام کے پیچھے یہ سیاسی جماعتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں اور جسٹس صاحب ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔