کیا قومی ، سرکاری اور علاقائی زبانیں علیحدہ ہیں ؟

الف عین

لائبریرین
سرکاری زبان اس کو کہتے ہیں جس زبان میں سرکاری کام چلایا جائے۔ ہندوستان کے سلسلے میں قومی سطح پر یہ انگریزی اور ہندی ہیں، اور صوبوں میں انگریزی اور علاقائی زبانیں (آندھرہ پردیش میں تیلگو اور اردو، جموں و کشمیر میں اردو اور کشمیری وغیرہ) ہیں۔ قومی زبانوں میں تو بائیسوں زبانوں کو یکساں درجہ حاصل ہے۔
اردو کے سلسلے میں یہ ضرور بد قسمتی ہے کہ جہاں بطور سرکاری زبان کا بھی اعلان کیا گیا ہے، وہاں بھی یہ اعلان محض کاغذی کارروائی ہے۔ عملی طور پر محض انگریزی کا ہی راج ہے، یا صوبوں میں علاقائی زبان کا جیسے یہاں تیلگو۔
 

ماما شالا

محفلین
مہربانی فرما کے اب تک کے نکات کو ترتیب سے لکھیں ، اب تک سب ہی کے دلائل درست ہیں ، صرف درجہ بندی کی ضرورت ہے۔
 

کاشفی

محفلین
ساری زبانیں قومی زبانیں ہوتی ہیں جی۔
متفق
اردو، جو ہندوستان کے وسطی صوبوں کی مادری زبان تھی لیکن جسے سیاسی وجوہات کی بناء پر ایک نئے ملک پاکستان کی علاقائی زبانوں پر فوقیت دی گئی۔
ہندوستان کی تقسیم کی وجوہات میں سے ایک وجہ اُردو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی تھی۔۔ اور پلیز نوٹ ڈیٹ کہ اردو کو دیگر قوموں کی زبانوں پر فوقیت دینے والے وسطی صوبوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔۔بلکہ جن لوگوں نےفوقیت دی فوقیت دینا ان کی مجبوری تھی ۔۔ اگر یہ فوقیت نہ دی جاتی اور ایسا نہ کیا جاتا تو یہ ملک کبھی نہیں بنتا۔۔ اور نہ ہی ہندوستان کے وسطی صوبوں کی مادری زبان والے اس ملک کی بنیادوں میں اپنا خون شامل کرتے۔۔۔
لیکن پنجابی اس ملک کی سب سے بڑی زبان ہے، اس کے بعد سندھی، پشتو، بلوچی، ہندکو، سرائیکی وغیرہ وغیرہ ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں۔۔ پنجابی اس ٹوٹے ہوئے ملک کی سب سے بڑی زبان ہے، اس کے بعد سندھی، پشتو، بلوچی، ہندکو، سرائیکی وغیرہ وغیرہ ہیں۔۔اور اردو سمندری مخلوقات کی سب سے بڑی زبان ہے۔۔۔:idontknow:
زبان کسی کی شناخت بناتی ہے۔ سرکاری سطح پر جب کوئی زبان اپنا لی جائے تو اس کو "نیشن اسٹیٹ" کے مغربی تصور کے مطابق "ایک ملک، ایک قوم، ایک زبان" کے سیاسی مقصد کے تحت فروغ دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان کہا جاتا ہے حالانکہ قرائن، حالات اور تاریخ ہر چیز چیخ چیخ کر فریاد کناں ہے کہ اس ملک میں درجنوں قومیں بستی ہیں۔
بالکل زبان کسی کی شناخت ہوتیہے۔
باقی باتیں بہت پیچیدہ ہیں کہ مغربی تصور اور دنیا میں وقوع پزید ہونے والے حالات و واقعات کے پیشِ نظر "ایک ملک، ایک قوم، ایک زبان" کے سیاسی مقصد کو مدِّنظر رکھا جائے جیسا کہ عرب ممالک، ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، چین جرمی، فرانس، جاپان، وغیرہ وغیرہ نے اپنایا ہوا ہے یا پھر یونیورسل تصور مدّنظر رکھا جائے یعنی دنیا میں صرف دو قومیں ہیں مسلم یا پھر غیرمسلم اور مسلم قوم کے نزدیک زبان اور ملک کی اہمیت نہیں۔۔
لیکن چونکہ یونیورسل تصور خود مسلمانوں نے ہی پسِ پشت ڈالا ہوا ہے۔تو مینوں کی، میں کیوں رولا پاؤں۔۔۔لہذا اس کے بارے میں سوچنا ممکن نہیں اور وہ بھی قیامت کے 40 سال پہلے تک۔۔۔:)
پاکستان میں جیسا کہ اوپر کوٹ کیا گیا ہے درجنوں قومیں بستی ہیں۔۔لہذا موجودہ پاکستان ایک قوم کا ملک نہیں۔۔۔۔
محترم اردو کو سیاسی مقاصد کے لیئے ہندوستان کے وسطی صوبوں کی مادری زبان بولنے والوں نے استعمال نہیں کیا بلکہ ان لوگوں نے کیا ہے جو خود کو ہی صرف ہندوستان اور پاکستان کا ٹھیکدار سمجھتے ہیں۔۔اور اُردو کو مُنّی بنا کر بدنام کردیتے ہیں۔۔مُنّی بیچاری "ڈرلنگ پاکستان" کے لیئے بدنام ہوتی رہتی ہے۔۔
نیشن اسٹیٹ والی قومی زبان ایک سیاسی الوژن ہے جس کا مقصد صرف اور صرف سیاسی مفادات کا حصول ہے۔ پاکستان میں صرف ایک زبان، جو رابطے کی زبان ہونا تھی کو "قومی زبان" کا ٹائٹل دے کر اسے مقدس گائے بنا دیا گیا۔ اور جو ڈنڈا دے کر اپنا لسانی حق لے سکا لے گیا ورنہ سرکار سائیڈ پر بیٹھ گئی۔
اَیّو اُردو مقدس گائے نہیں ہے۔۔اُردو نرم و نازک مزاج "مُنّی" ہے۔۔جس کی پرورش پاک اور معطر مَجیّوں نے بھی کی ہے۔۔جنگل میں رہنے کی وجہ کر۔۔اور اس کو اپنا دودھ بھی پلایا ہے۔۔اس لیئے اُردو ان کی عزت کرتی ہے۔۔
یہ سیاست کون کرتا ہے بھائی۔۔۔ذرا اس پر بھی غور و خوص کریں۔۔۔ اسمبلیاں آپ کی۔ لوگ آپ کے۔۔۔ پھر یہ رونا دھونا کس بات کا۔۔۔
آج تک کسی نے کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا کہ یہ ملک کثیر السانی ہے۔ اس ملک میں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جن میں سے کئی موت کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ ایک لسانی پالیسی تشکیل دی جائے۔ جس میں ہر زبان کو اس کے جائز حقوق دئیے جائیں۔ تمام زبانوں کی تدریس کا بندوبست کیا جائے۔ زبان کے فروغ کے نام پر ہر سال چند لاکھ کی گرانٹ، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی (جو مٹھی بھر لوگ ہی کرتے ہیں)، سی ایس ایس میں اچھے نمبروں کے حصول کے لیے پنجابی جیسے پرچے کا انتخاب۔ یہ ہے ہماری لسانی پالیسی۔ اور اگر کوئی لسانی حقوق کی بات کر دے اور وہ پاکستان کا دشمن، اسلام کا دشمن، غدار اور امریکی ایجنٹ بن جاتا ہے۔
یہ ہے اس ملک کا حال۔
جی بالکل آج تک کسی نے کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا کہ یہ ملک کثیر السانی اور کثیرالقومی ملک ہے۔۔ اس لیئے سب کو سب کے حقوق دے دیئے جائیں تو حالات مزید بگڑنے سے بچ سکتے ہیں۔۔۔۔
آبادی کو بنیاد بنا کر دوسری چھوٹی قوموں کے حقوق غضب نہ کیئے جائیں۔۔۔اور خود کے منتخب کردہ نمائندوں کی غلطیوں کو پسِ پشت ڈال کر اُردو کو قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔۔
جی بالکل اگر کوئی حقوق کی بات کرے تو پاکستان کا دشمن، اسلام کا دشمن، غدار اور امریکی یہودی ایجنٹ بن جاتا ہے ان لوگوں کی نظروں میں جو کوٹے کی بنیاد پر سی ایس ایس پاس کرکے اندرون ملک پاکستانی کی پالیسیاں اور بیرونِ ملک پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان کا بیڑا غرق کرتے ہیں۔
ان سب کا ایک ہی واحد حل ہے میرٹ۔۔ میرٹ کی بنیاد پر فیصلے ہوں اور ہر زبان اور ہرقوم کو ان کا جائز حق دے دیا جائے۔۔۔
جہاں تک اُردو اور اُردو اسپیکنگ کی بات ہے تو انہوں نے کبھی بھی نہیں کہا کہ دیگر زبانوں کو ان کا جائز مقام نہ دیا جائے۔۔
رشتہ دل سے رشتہ ہے جان کا
مان ہے یہ تو سارے ہندوستان و پاکستان کا
اور بھی ہیں ہمیں انکی بھی قدر ہے
رتبہ بہت بلند ہے اردو زبان کا
دیگر زبانوں کی ترقی میں رکاوٹ ان زبانوں کے ہی منتخب نمائندوں کی نااہلی کا ثبوت ہے ۔۔اور یہ نمائندے اپنا ذہن صرف اور صرف اس کام میں لگاتے ہیں جس سے یہ ملک اور ان کی زبان اندھیروں میں مزید ڈوب جائے۔۔۔

دل کو خوش کرنے کے لیئے کچھ اشعار سنیں ۔۔اور اگر ہوسکے تو پنجابی میں ترجمہ کردیں۔۔ حشرنشر والا نہیں۔۔​

یکتائے زماں ہے فخرِ لساں
شیریں و شگفتہ اور شایاں

فردوس گوشِ سخن وراں
غزلوں کا فسوں عالم پہ عیاں

نظموں کی عجب ہے موجِ جواں
اور نثر مثالی کاہکشاں

یہ علم و ادب میں زر افشاں
ہر سمت اسی کی تاب و تواں

ہر جانب اِس کا زورِ بیاں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں

ہے اس کی خوشبو چمن چمن
ہر شاخ سے پھوٹے اس کی پھبن

یہ ہندی کی ہے جڑواں بہن
عربی سے سیکھا چال چلن

انگریزی زباں کا تازہ پن
ہے اس میں‌ ہر دل کی دھڑکن

سب رس سے بنا ہے شہ پارہ
سب رنگ سے روشن ہے تارہ

یہ فارسی لئے کی مہ پارہ
اسپینی ادا کا اجیارا

دلّی و دکن میں‌ گہوارا
پنجاب میں اس کا لشکارا

کراچی و لاہور کا اس میں نطارہ
بمبئی کی زباں کا چٹخارا

بنگال کا جادو دل دارا
اور سندھ میں‌اس کو معمورا

یہ شان اودھ کی مدھ ماتی
یہ پشتو اُڑیہ کی ساتھی

کشمیری سرائیکی لہجہ
رکھتا ہے اس سے خلا ملا

گجرات و بہار و راجھستاں
دم بھرنے میں‌ ہیں سب یکساں

ہر روپ میں‌ ہے یہ عالی شاں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تمثیل و صحافت، فلم و ادب
اُردو کی محاذ آرائی عجب

بازاروں سے درباروں تک
اور لشکر، دفتر والوں تک

کمپیوٹر اس کا ہم منصب
اور ہوا کی لہریں ہم مکتب

کھل جائے کوئی بھی راہ طلب
بن جائیگی وہ عظمت کا سبب

کیا غضب کی ہے یہ روح رواں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں

کچھ لکھنے والے آجائیں
چند ایک زباں داں آ جائیں

دو ایک سخن داں مل جائیں
گل شعر و ادب کے کھل جائیں

پھر سنّے والے کشاں کشاں
اور پڑھنے والے یہاں وہاں

آباد کریں گے اک بستی
پایاب کرینگے ہر پستی

اعجاز خلوصِ ہم نفساں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں

یہ عجم و عرب کا گلدستہ
یہ بڑی زبانوں کا تحفہ

یہ مشرق و مغرب کا عنواں
شہکار جنونِ زندہ دلاں

تصویر جمالِ ہندوستاں
تنویرِ فضائے پاکستاں

یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں
 

حسان خان

لائبریرین
میرا تو یہی ماننا ہے کہ اردو کو رابطے کی مشترکہ زبان اور سرکاری زبان رکھتے ہوئے پاکستان کی ساری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دے دینا چاہیے۔ اور جس طرح بھارت میں سنسکرت اور تامل آئینی لحاظ سے وہاں کی کلاسیکی زبانیں ہیں، اسی طرح یہاں بھی عربی اور فارسی، یا کم سے کم فارسی کو پاکستان کی کلاسیکی اور تہذیبی زبان کا آئینی درجہ دے دینا چاہیے۔
 

arifkarim

معطل
میرا تو یہی ماننا ہے کہ اردو کو رابطے کی مشترکہ زبان اور سرکاری زبان رکھتے ہوئے پاکستان کی ساری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دے دینا چاہیے۔ اور جس طرح بھارت میں سنسکرت اور تامل آئینی لحاظ سے وہاں کی کلاسیکی زبانیں ہیں، اسی طرح یہاں بھی عربی اور فارسی، یا کم سے کم فارسی کو پاکستان کی کلاسیکی اور تہذیبی زبان کا آئینی درجہ دے دینا چاہیے۔
قومی ترانہ فارسی میں لکھوا کر ہمنے اس کو بھی شہیدوں میں شامل نہیں کر دیا؟
 

حسان خان

لائبریرین
قومی ترانہ فارسی میں لکھوا کر ہمنے اس کو بھی شہیدوں میں شامل نہیں کر دیا؟
نہیں، ایسی بات نہیں کہ صرف ترانے کے باعث یہ پاکستانی زبان ہے۔ بلکہ اس وقت پاکستان میں دس سے پندرہ لاکھ لوگ فارسی کو بطور مادری زبان استعمال کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر اسے پاکستانی زبان بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
انگریزی۔



کوئی نہیں۔ علاقائی زبانیں بہت سی ہیں۔



جرمن



کوئی نہیں۔ فرانسیسی اور انگریزی سرکاری زبانیں ہیں۔



چینی، بیجنگ والی۔



اسپینش۔ گو کہ علاقائی زبانیں بہت سی ہیں۔

بحوالہ:
http://en.wikipedia.org/wiki/National_language#National_and_official_languages
امریکہ کی سرکاری زبان کا درجہ کسی زبان کو نہیں دیا گیا۔ وکی پیڈیا سے یہ متن لیا ہے
English (American English) is the de facto national language. Although there is no official language at the federal level, some laws—such asU.S. naturalization requirements—standardize English.
 

arifkarim

معطل
نہیں، ایسی بات نہیں کہ صرف ترانے کے باعث یہ پاکستانی زبان ہے۔ بلکہ اس وقت پاکستان میں دس سے پندرہ لاکھ لوگ فارسی کو بطور مادری زبان استعمال کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر اسے پاکستانی زبان بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہے۔
اور یہ فارسی افراد کہاں رہتے ہیں؟ بلوچستان میں؟
 

قیصرانی

لائبریرین

حسان خان

لائبریرین
اور یہ فارسی افراد کہاں رہتے ہیں؟ بلوچستان میں؟
خیبر پختونخواہ میں بھی ہیں۔ جنرل یحییٰ خان خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والا قزلباش اسماعیلی تھا اور اس کی مادری زبان فارسی تھی۔
کراچی میں بھی ہزارہ مقیم ہیں۔
 

جہانزیب

محفلین
سب سے پہلے تو مجھے "علاقائی زبان" سے ہی اختلاف ہے ۔ دُنیا میں کونسی ایسی زبان ہے جو کہ علاقائی نہیں ہے؟ ہر زبان جو کہ اس وقت دنیا میں رائج کسی نہ کسی علاقہ ہی سے منسوب ہے، اس لحاظ سے ہر دنیا کی زبان کسی نہ کسی جگہ کی علاقائی زبان ہے ۔
یہ ہماری بحث کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم "علاقائی"، "سرکاری" یا "قومی" زبانوں کی تعریف کریں اور اس تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں دیگر زبانوں کے سر منڈھ دیں کہ فلاں سرکاری زبان ہے، فلاں محض علاقائی اور فلاں الحمدللہ ہماری "قومی" زبان ہے ۔
بلکہ بحث کا مقصد یہ ہے کہ آیا ایک ایسا ملک جو کہ کثیرالزبان ہو، کیا وہاں ایک زبان کو دیگر زبانوں پر فوقیت دے کر قومی زبان قرار دینا درست اور جائز ہے؟ اس لحاظ سے باقی سب زبانیں جو کہ اس خطہ کی مقامی زبانیں ہیں، جن کی کونپلیں اسی خطہ میں پھوٹی اور اسی خطہ میں پروان چڑھی اور جن کا دنیا میں دیگر کسی بھی علاقہ سے تعلق نہیں انہیں "غیر قومی" یا اچھے الفاظ میں "علاقائی" زبانوں کا درجہ خوامخواہ مل گیا ۔ حالانکہ جیسا میں نے عرض کیا دنیا کی ہر زبان ہی علاقائی زبان ہی ہوتی ہے ۔
اب ایک اور نکتہ نظر یہ ہے کہ ایسے ممالک جو کثیرالزبان ہیں وہاں "بڑی" زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا جانا چاہیے؟ لیکن بڑی زبان کی تعریف کیسے کریں گے کہ جس زبان کے بولنے والے سب سے زیادہ ہوں؟ یا جس زبان کا ذخیرہ الفاظ بڑا ہو؟ اس لحاظ سے بھی پاکستان میں اردو کم از کم قومی زبان نہیں ہو سکتی ۔
اب ہم زبان کی اہمیت کو دیکھتے ہیں کہ ایک زبان صرف ایک بولی یا صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ زبان میں موجود الفاظ ایک مکمل تہذیب اور ثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ جب ہم کسی زبان کا ایک لفظ بولتے ہیں تو اس کے ایک پورا بیک گراونڈ ہوتا ہے جسے اس زبان کے بولنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں، اس کی ایک مثال لفظ "غیرت" کا انگریزی نعم البدل ایک ہی متبادل لفظ نہ ملنے سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ جب ہم ایک زبان کو کمتر قرار دیتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی اس سے منسلک تہذیب اور ثقافت کو بھی کمتر قرار دے دیتے ہیں ۔
اب ایک اور نکتہ نظر کہ ایک کثیر اللسانی ملک میں بولی جانے والی ہر زبان ہی اس ملک کی برابر اہمیت کی زبان ہے، اور اس ملک میں بولی جانے والی تمام زبانیں ہی اس ملک کی قومی زبانیں ہیں ۔ البتہ پوری تاریخ میں ایسے کثیر ممالک میں کوئی ایک زبان ایسی موجود ہوتی ہے جسے ایک زبان بولنے والا دوسری زبان بولنے والے سے رابطہ کے لئے استعمال کرتا ہے اور وہ رابطہ کی زبان ہوتی ہے، اس لئے اسے دیگر زبانوں پر تھوڑی فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ پاکستان کوئی دنیا میں واحد ایسا ملک نہیں جو کثیر اللسان ہے، بہت سے ممالک دنیا میں کثیر اللسان ہیں اور وہاں کسی ایک زبان کو قومی زبان کا درجہ نہیں دیا جاتا اور ایسا ہی پاکستان میں ہونا چاہیے ۔
اب پاکستان میں "علاقائی" زبانوں کے حوالے سے اس طرح کی بات کی جائے تو اسے پاکستان کی سلامتی کے خلاف سمجھ لیا جاتا ہے، اگر ایسا ہوتا تو سنگاپور جہاں چاروں بولے جانی والی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے کا شیرازہ کب کا بکھر چکا ہوتا، کینڈا ایک کی بجائے کم از کم دو ممالک ہوتا ۔ بلجیم کم از کم تین فن لینڈ دو اور سوئٹزر لینڈ کم از کم چار ممالک میں منقسم ہوتا کیونکہ ان ممالک میں تمام بولے جانے والی زبانوں کو ایک جیسا مقام حاصل ہے ۔
اور امریکہ تو ایک قوم بن ہی نہیں سکتا کیونکہ امریکہ کہ نہ ہی کوئی قومی زبان ہے نہ ہی کوئی سرکاری زبان، مختلف جگہ پر ریاستی اور شہری حکومتیں اپنے علاقہ میں بولی جانے والی زبانوں میں دستاویز تیار کرتے ہیں، جیسے کہ نیویارک میں شہر کی جانب سے انگریزی، چینی، ہسپانوی اور ہندی زبانوں میں تمام سہولیات میسر ہیں کیونکہ نیویارک شہر میں ان زبانوں کے بولنے والے بڑی اکثریت میں موجود ہیں ۔

اب بحث اس بات پر ہے کہ میرے نکتہ نطر کے مطابق پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں پاکستان کی قومی زبانیں ہیں اور یہ بات مان جانے سے پاکستان کی سلامتی کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔
جبکہ دوسرے نکتہ نظر کے مطابق ایک زبان کسی قوم کو متحد رکھنے کی ضامن ہے اور سب زبانوں کو ایک جیسی اہمیت دینے سے باہمی اتحاد کی بجائے نفاق پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔ اس کے لئے چاہے ہمیں کسی حد تک ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔
 

حسان خان

لائبریرین
بہت سے ممالک دنیا میں کثیر اللسان ہیں اور وہاں کسی ایک زبان کو قومی زبان کا درجہ نہیں دیا جاتا

یہ بات درست نہیں ہے۔ انڈونیشیا پاکستان سے بھی بڑھ کر کثیر اللسان ملک ہے، لیکن وہاں تین فیصد لوگوں کی مالے زبان چُن کر، اور اُسے معیاری شکل دے کر انڈونیشا کی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ پھر ہمارا پڑوسی ایران ہی ایک واضح مثال ہے، جہاں صرف آذری ترک ہی ۳۵ فیصد ہیں۔ لیکن وہاں قومی و سرکاری زبان فارسی ہے۔
 

عسکری

معطل
اردو ہماری قومی زبان ہے اور اسے ہی رہنا چاہیے ہاں علاقائی پنجابی سندھی بلوچی پشتو سرائیکی ہندکو وغیرہ ہو سکتی ہین ہر اردو ہماری جان ہے چاہے ہم کہیں سے بھی پاکستانی ہوں ۔
 

دوست

محفلین
عسکری پائین چُک کے رکھو. بابا وی مرنے سے پہلے کہہ گیا کہ اردو قومی زبان ہو گی. اس سے اگلے دن فساد پھوٹ پڑے اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ بنگالی بھی قومی زبان بنی. اور پھر تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ بنگالی اپنی قومی زبان کے ساتھ کھلواڑ (جمع اضافی گڈیز) کی وجہ سے اس ملک سے الگ ہو گئے.
یا تو پاکستان کو آمریت تلے لے آؤ. ایران کی مجبوری ہے ہر 'انقلابی' ملک کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو باور کرائے وہ ایک اکائی ہے. سیاسی مقصد یعنی. تو انہوں نے فارسی ٹھوک دی قومی زبان. یا تو ادھر بھی ایسا کچھ کرا لو. ابھی تو یہ صورتحال ہے کہ ادھر پنجابی، پختون، سندھی، بلوچی، مہاجر، کشمیری، بلتی، وغیرہ بستے ہیں اور پاکستانی کبھی کبھی بستے ہیں. مثلاً جب اردو قومی زبان ہے کا نعرہ لگانا ہو تو پاکستانیت یاد آتی ہے.
 
بولی اور زبان کا فرق خود ساختہ اور لسانی مشاہدے کی بجائے عام لوگوں کے خیالات کا عکاس ہے.ہر نام نہاد زبان پہلے بولی ہی تھی. اس کی لکھاوٹ بعد میں وجود میں آئی. ہر بولی کے کئی لہجے ہوتے ہیں.
زبان یا بولی کا ہر لہجہ اپنی گرامر اور لسانی قوانین کا حامل ہوتا ہے. یہ کہنا کہ کوئی لہجہ بنا گرامر ہے غیر لسانیاتی اور غیر تحقیقی نکتہ نظر کو ظاہر کرتا ہے.
بولی اور زبان کا فرق خود ساختہ نہیں اور لسانی مشاہدے کے خلاف بھی نہیں، موافق ہے نیز آپ کی رائے خود اپنی ہی دلیل کے خلاف ہے کہ "ہر نام نہاد زبان پہلے بولی ہی تھی. اس کی لکھاوٹ بعد میں وجود میں آئی" آپ کی اس عبارت کا مستفاد یہ ہے کہ قبل از تحریر ہر زبان نام نہاد تھی، قبل از تحریر اسے بولی کہتے تھے۔ اور بعد تحریر وہ نام نہاد اور بولی نہ رہی اور اس کی حیثیت بطور زبان مسلم ہو گئی اگر آپ سمجھتے تو میں نے بھی یہ فرق بتایا تھا کیونکہ تحریر بلا قواعد و انشاء نہیں ہوتی اس کی کوئی نہ کوئی گرائمر وضع ہوتی ہے
دوم یہ کہ آپ کی بات عام لوگوں کے خیالات کا عکاس ہو سکتی ہے کیوں کہ آپ کے پاس میری مذکرر ذیل دالیل
زبان حیوان ناطق کے ساتھ خاص ہے جبکہ بولی حیوان غیر ناطق (جانور اور چرند و پرند) بھی بولتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانوں کی بولی کو جانوروں سے تشبیہہ دے دی جائے۔ بلکہ انسانوں کی بولی از قسم کلام بری از قواعد و انشاء ہے اور جانور کی بولی از قسم اداء و لہجہ ہے چنانچھ اسی لیے تو اکثر چیخ و پکار اور شور کرنے والے آدمی کو جانور سے تشبیہہ دے دی جاتی ہے
.
کے برعکس کوئی مضبوط دلیل نہیں۔
پرندے چہکتے ہیں مگر ان کے چہکنے پر بولی کا اطلاق قرآن پاک میں موجود ہے غالبا میں نے یوں پڑھا تھا مفہوم "اور ہم نے انہیں پرندوں کی بولی سکھا دی" تو جناب پرندوں کی بولی کس گرائمر کی قیود میں پابند ہے؟؟؟
آپ بات دلیل سے کرتے تو وزن مانا جاتا مگر آپ نے تو لسانی مشاہدے سے بھی کام نہیں لیا۔ جب بچہ بولنا سکھتا ہے تو اس کا بولنا اس لیے بولی کہلاتا ہے کہ اس کا کلام بری از قواعد و انشاء ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اسکے الفاظ کے مطالب ہر کوئی نہیں سمجھتا، اس کے بے ربط و بے ترکیب الفاظ کو اس کی ماں اور قریبی ہی اس کی بولی جانتے ہیں اور جب وہی بچہ آداب کلام کے موافق گفتگوں کرنا سیکھ جاتا ہے تو اب ہر کوئی اس کے دانتوں کے درمیاں گوشت کے ٹکرے سے ملفوظ ہوئے کلام کا دانا ہوتا ہے یہی فرق ہے بولی اور زبان میں۔
ہر بولی کے کئی لہجے ہوتے ہیں.
ہر لہجا اک بولی ہوتا ہے
کوئی زبان کسی سے کمتر برتر نہیں.
فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے زبانوں کو اک دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ ہاں کسی فرد کو کسی فرد پر لسانی اعتبار سے کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ نہ کوئی فرد لسانی بنیاد پر کسے دوسرے فرد سے کمتر ہے۔
سب سے افصح و بلیغ زبان عربی ہے اس پر دالیل اگر مطلوب ہوں تو پیش کر سکتا ہوں
زبانوں کا سرکاری سطح پر انتخاب ہمیشہ سیاسی مقاصد کی وجہ سے ہوتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں فروغ دیا جاتا ہے.
زبانوں کا سرکاری سطح پر انتخاب ہمیشہ انتظامی مقاصد کی وجہ سے ہوتا ہے۔
سیاسی وجوہات کی بناء پر ہی زبانوں کے ساتھ مثبت اور منفی رویے وابستہ ہو جاتے ہیں.
حالات حاضرہ ایسے ہی ہیں۔ ایسا ہونا ہمارے لیے بہت افسوس ناک ہے۔ لسانی بیناد پر تفریق قوم غلط العام ہے

اچھا جب پاکستان کی بقیہ زبانوں کے حقوق کی بات کی جائے اور جواب میں اردو کے رونے شروع ہو جائیں .
زبانوں کے حقوق سے آپ کی کیا مراد؟
اگر زبانوں کےحق سے آپ کی مراد؟ اگر ادبی حقوق ہیں تو سب پاکستانی زبانوں میں فی الواقع اردو ہی وہ زبان ہے جس کی نہ صرف لغت وضع کے لحاظ سے بین الاقوامی زبانوں سے موازینت رکھی ہے بلکہ افصح کلام رکھتی ہے بخلاف دیگر و لہٰذا
رائج الوقت اردو ہی پاکستانی قوم کے باہمی ربط میں پیش ہے حقدار ہے ادبی حق میں ادب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے نہ کہ کثرت و قلت۔
پنجابیت کا ذکر بھی آیا ہے تو میں عرض کرتا ہوں میرے نزدیک پنجابی پاکستان کی سب سے بڑی بولی ہے اور اسے زبان کی حیثیت پانے لے لیے اپنی وضع لغتی مرتب کرناہوگی قواعد و انشاء کو بھی متعین عام کرنا ہوگا تب اسے اردو سے اول قرار دیا جا سکے گا۔ اگرچہ میں پنچابی ہوں مگر پنجابی کو زبان نہیں بولی سمجھتا ہوں علاقئ نسبت سے پنجابیت کے لہجا میں اس قدر اختلاف ہے کہ ایک علاقہ میں کچھ ہے تو دوسرے میں کچھ، جو اسکے ادبی حیثت حاصل کرنے میں بہت بڑی روکاوٹ ہے
وقت مختصر کی وجہ سے اسی پر اکتفاء کرتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
بنگالی اپنی قومی زبان کے ساتھ کھلواڑ (جمع اضافی گڈیز) کی وجہ سے اس ملک سے الگ ہو گئے.
بنگالی کو 1956 کے آئین میں قومی زبان تسلیم کر لیا گیا تھا، اس لیے 71 کے سیاسی بحران اور اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے قیام کی ذمہ داری اردو پر ڈالنا مناسب نہیں۔ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنگالی زبان کی ابتدائی تحریک کے باعث بنگالی قوم پرستی نے جنم لیا تھا۔
 
Top