بولی اور زبان کا فرق خود ساختہ اور لسانی مشاہدے کی بجائے عام لوگوں کے خیالات کا عکاس ہے.ہر نام نہاد زبان پہلے بولی ہی تھی. اس کی لکھاوٹ بعد میں وجود میں آئی. ہر بولی کے کئی لہجے ہوتے ہیں.
زبان یا بولی کا ہر لہجہ اپنی گرامر اور لسانی قوانین کا حامل ہوتا ہے. یہ کہنا کہ کوئی لہجہ بنا گرامر ہے غیر لسانیاتی اور غیر تحقیقی نکتہ نظر کو ظاہر کرتا ہے.
بولی اور زبان کا فرق خود ساختہ نہیں اور لسانی مشاہدے کے خلاف بھی نہیں، موافق ہے نیز آپ کی رائے خود اپنی ہی دلیل کے خلاف ہے کہ "
ہر نام نہاد زبان پہلے بولی ہی تھی. اس کی لکھاوٹ بعد میں وجود میں آئی" آپ کی اس عبارت کا مستفاد یہ ہے کہ قبل از تحریر ہر زبان نام نہاد تھی، قبل از تحریر اسے بولی کہتے تھے۔ اور بعد تحریر وہ نام نہاد اور بولی نہ رہی اور اس کی حیثیت بطور زبان مسلم ہو گئی اگر آپ سمجھتے تو میں نے بھی یہ فرق بتایا تھا کیونکہ تحریر بلا قواعد و انشاء نہیں ہوتی اس کی کوئی نہ کوئی گرائمر وضع ہوتی ہے
دوم یہ کہ آپ کی بات عام لوگوں کے خیالات کا عکاس ہو سکتی ہے کیوں کہ آپ کے پاس میری مذکرر ذیل دالیل
زبان حیوان ناطق کے ساتھ خاص ہے جبکہ بولی حیوان غیر ناطق (جانور اور چرند و پرند) بھی بولتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانوں کی بولی کو جانوروں سے تشبیہہ دے دی جائے۔ بلکہ انسانوں کی بولی از قسم کلام بری از قواعد و انشاء ہے اور جانور کی بولی از قسم اداء و لہجہ ہے چنانچھ اسی لیے تو اکثر چیخ و پکار اور شور کرنے والے آدمی کو جانور سے تشبیہہ دے دی جاتی ہے
.
کے برعکس کوئی مضبوط دلیل نہیں۔
پرندے چہکتے ہیں مگر ان کے چہکنے پر بولی کا اطلاق قرآن پاک میں موجود ہے غالبا میں نے یوں پڑھا تھا مفہوم "اور ہم نے انہیں پرندوں کی بولی سکھا دی" تو جناب پرندوں کی بولی کس گرائمر کی قیود میں پابند ہے؟؟؟
آپ بات دلیل سے کرتے تو وزن مانا جاتا مگر آپ نے تو لسانی مشاہدے سے بھی کام نہیں لیا۔ جب بچہ بولنا سکھتا ہے تو اس کا بولنا اس لیے بولی کہلاتا ہے کہ اس کا کلام بری از قواعد و انشاء ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اسکے الفاظ کے مطالب ہر کوئی نہیں سمجھتا، اس کے بے ربط و بے ترکیب الفاظ کو اس کی ماں اور قریبی ہی اس کی بولی جانتے ہیں اور جب وہی بچہ آداب کلام کے موافق گفتگوں کرنا سیکھ جاتا ہے تو اب ہر کوئی اس کے دانتوں کے درمیاں گوشت کے ٹکرے سے ملفوظ ہوئے کلام کا دانا ہوتا ہے یہی فرق ہے بولی اور زبان میں۔
ہر بولی کے کئی لہجے ہوتے ہیں.
ہر لہجا اک بولی ہوتا ہے
کوئی زبان کسی سے کمتر برتر نہیں.
فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے زبانوں کو اک دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ ہاں کسی فرد کو کسی فرد پر لسانی اعتبار سے کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ نہ کوئی فرد لسانی بنیاد پر کسے دوسرے فرد سے کمتر ہے۔
سب سے افصح و بلیغ زبان عربی ہے اس پر دالیل اگر مطلوب ہوں تو پیش کر سکتا ہوں
زبانوں کا سرکاری سطح پر انتخاب ہمیشہ سیاسی مقاصد کی وجہ سے ہوتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں فروغ دیا جاتا ہے.
زبانوں کا سرکاری سطح پر انتخاب ہمیشہ
انتظامی مقاصد کی وجہ سے ہوتا ہے۔
سیاسی وجوہات کی بناء پر ہی زبانوں کے ساتھ مثبت اور منفی رویے وابستہ ہو جاتے ہیں.
حالات حاضرہ ایسے ہی ہیں۔ ایسا ہونا ہمارے لیے بہت افسوس ناک ہے۔ لسانی بیناد پر تفریق قوم غلط العام ہے
اچھا جب پاکستان کی بقیہ زبانوں کے حقوق کی بات کی جائے اور جواب میں اردو کے رونے شروع ہو جائیں .
زبانوں کے حقوق سے آپ کی کیا مراد؟
اگر زبانوں کےحق سے آپ کی مراد؟ اگر ادبی حقوق ہیں تو سب پاکستانی زبانوں میں فی الواقع اردو ہی وہ زبان ہے جس کی نہ صرف لغت وضع کے لحاظ سے بین الاقوامی زبانوں سے موازینت رکھی ہے بلکہ افصح کلام رکھتی ہے بخلاف دیگر و لہٰذا
رائج الوقت اردو ہی پاکستانی قوم کے باہمی ربط میں پیش ہے حقدار ہے ادبی حق میں ادب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے نہ کہ کثرت و قلت۔
پنجابیت کا ذکر بھی آیا ہے تو میں عرض کرتا ہوں میرے نزدیک پنجابی پاکستان کی سب سے بڑی بولی ہے اور اسے زبان کی حیثیت پانے لے لیے اپنی وضع لغتی مرتب کرناہوگی قواعد و انشاء کو بھی متعین عام کرنا ہوگا تب اسے اردو سے اول قرار دیا جا سکے گا۔ اگرچہ میں پنچابی ہوں مگر پنجابی کو زبان نہیں بولی سمجھتا ہوں علاقئ نسبت سے پنجابیت کے لہجا میں اس قدر اختلاف ہے کہ ایک علاقہ میں کچھ ہے تو دوسرے میں کچھ، جو اسکے ادبی حیثت حاصل کرنے میں بہت بڑی روکاوٹ ہے
وقت مختصر کی وجہ سے اسی پر اکتفاء کرتا ہوں۔