محمد یعقوب آسی
محفلین
ایسا لگا کہ جیسے میرے دل کی باتیں آپ نے میرے کہنے سے پہلے بیان کر دی ہو۔
آداب، جناب محب علوی صاحب۔ یہ آپ کی محبت ہے۔
ایسا لگا کہ جیسے میرے دل کی باتیں آپ نے میرے کہنے سے پہلے بیان کر دی ہو۔
زبان ، بولی یا مادری ، قومی طے کر کے ہم کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟
ماضی پہ لکیر پیٹنے کی بجائے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ زبان کو مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ بنایا جائے۔
کیا آپ کسی ایسے فرانسیسی سے ملے ہیں جسے فرانسیسی لکھنی نہ آئے مگر انگریزی فرفر لکھ لے؟ یا کسی ایسے انگریز سے واسطہ پڑا ہو جسے انگریزی نہ لکھنی آتی ہو مگر عربی زبان میں اسے مہارت ہو؟
اس معیار پر تو شاید فارسی پوری اترتی ہے۔ یہی زبان بارہویں صدی سے انیسویں صدی کے اواخر تک اس خطے کے بلا تخصیص سارے مسلمانوں کی تحریری زبان تھی، اور اسی میں وہ خامہ فرسائی کرتے رہے ہیں۔ اور یہی زبان مسلمانوں کے تشخص کی علامت تھی۔ اسی لیے میں فارسی میں کچھ پڑھتا ہوں تو قومی غرور اور ایک عظیم الشان تاریخی تہذیب کے حامل ہونے کا فخر محسوس کرتا ہوں۔زبان روشن ماضی کی ایک کڑی نظر آنی چاہیے۔
اصل میں یہ لسانی بحث نہیں ہے بلکہ سیاسی معاملہ ہے۔ کسی ریاست میں سرکاری ، قومی یا علاقائی زبانوں کا استعارہ ایک اضافی (Relative) ہے۔ آپ کو زبانوں کی اتنی ساری قسمیں مہذب معاشروں میں نہیں ملیں گی۔
سرکاری زبان کا تصور تو تقریبا دنیا کی ہر ریاست میں پایا جاتا ہے ، یہ اصل میں "سرکار " کی زبان ہوتی ہے۔ اصل میں آپ اسے وہ زبان سمجھ لی جیے جس زبا ن میں دستوری طور پر یا قانونی طور پر "قوانین" بنتے ہیں، بعد میں ان قوانین کا دس اور زبانوں میں بھی ترجمہ کیا جاتا ہے تاکہ اگر کسی کو وہ "سرکاری" زبان نہ آتی ہو تو بھی وہ سمجھ سکے ، تو یہ تو قانونی مجبوری ہوگئی۔ سرکاری زبان کونسی زبان ہونی چاہیے ؟ عام طور ہر کثیر القومی ریاستوں میں سرکاری زبان اس زبان کو بنایا جاتا ہے جو بین الاقوام رابطہ کی زبان ہو ، لیکن جہاں آمریت ہو یا اکثریتی زبان بولنے والے اقتدار پر مکمل قابض ہوں یا اتنی بڑی اکثریت میں ہو ں کہ دوسری زبانوں کی حثیت ثانوی ہوجاے اور اکثریتی زبان ہی رابطہ کی زبان بن جاے تو وہ زبان ہی سرکاری زبان بنا دی جاتی ہے۔ نوآبادیات سے ظاہری آزاد لیکن غلام قوموں میں عام طور پر پرانے آقاوں کی زبان ہی سرکاری زبان قائم رکھی جاتی ہے تاکہ ان کے قائم مقام آقاوں کو اقتدار میں مشکل نہ ہو۔ جیسا کہ پاکستان اور انڈیا میں بھی ہے۔
قومی زبان کا تصور سراسر ایک اضافی تصور ہے ، اور یہ آپ کو نوآبادیات سے ظاہری آزاد لیکن ذہنی غلام قوموں میں ہی ملے گا اور اس کا مقصد اصل میں عوام کو بے وقوف بنانا ہے تاکہ وہ قومی زبان کے لولی پوپ میں مصروف رہیں اور سرکاری زبان کے جھنجٹ میں نہ پڑیں۔ دستور یا قانون میں قومی زبانیں ایک ہوں یا ایک سو کیا فرق پڑتا ہے ؟ قانون تو کسی ایک ہی زبان میں بننے ہیں جو کہ سرکاری زبان ہی ہو گی، کیا سندھ میں جہاں سرکاری طور پر اردو اور سندھی دونوں قومی زبانیں ہیں قانون سازی انگلش ہی میں نہیں ہوتی۔ لہذا کوئی زبان بھی قومی زبان نہیں ہونی چاہیے، یا پھر اگر صرف نام دینے ہی کی بات ہے تو صرف اردو کیوں پاکستان میں بولی جانے والی ہر زبان کو قومی زبان کا درجہ دیں دے کیا فرق پڑتا ہے ، نہ ہینگ لگے نہ پہٹکری اور رنگ بھی چوکھا ۔
علاقائی زبان بھی ایک اضافی استعارہ ہے ورنہ تقریبا ہر زبان کی کسی نہ کسی قوم کی قومی زبان ہی ہوتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے کہ اسے اس کی زبان بولنے اور اس کی ترویج کا حق ہو، تمام قوانین اور ضابطہ اس کی زبان میں اس تک پہنچائے جائیں ، اسے اس کی زبان میں بنیادی تعلیم دی جاے، پاکستان میں بولی جانے والی کسی بھی زبان کو مرنے نہ دیا جاے، اور ان کی ترویج کے لیے متوازن انداز میں وسائل استعمال کئے جائیں یعنی ہر زبان کو اس کا جائیز مقام دیا جاے۔
لہذا زبان یا تو سرکاری ہوتی ہے ، ورنہ ملک میں بولی جانے والی ہر زبان برابر کی حثیت رکھتی ہے اور برابر کی توجہ چاہتی ہے۔ یہ قومی زبان کچھ نہیں ہوتی۔
اب اردو پر اجائیں، اردو یا کسی بھی زبان کو اگر کوئی اضافی حثیت دینی ہے تو وہ سرکاری زبان کی ہو سکتی ہے اور بس ، یعنی آپ قانون سازی اس زبان میں کریں تاکہ قانونی حوالے کے لیے اس زبان میں لکھے قانون کو استعمال کیا جاے ، جبکہ ریاست کی زمہ داری ہونی چاہیے کہ تمام قوانین اور ضابطوں کو کم از کم پاکستان میں بولی جانے والے تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ کرایا جاے اور کسی بھی علاقہ میں اس علاقہ میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں ہی تمام سرکاری فارم اور کاروائی کی جاے جیسے سندھ میں تمام سرکاری فارم "انگلش اور اردو" یا "انگلش اور سندھی" میں چھپے ہوتے ہیں حتاکہ ایف آئی آر اور شناختی کارڈز بھی۔