ذاتی پسند، ناپسند اور ترجیحات سے ہٹ کر، خالص معروضی انداز میں بات کروں گا۔
جناب
محب علوی صاحب کے سوالوں کے جواب میں میری گزارشات۔
سوال۱:
کیا
قومی زبان(
national language) کا وجود آج کے دور میں بھی ہے یا اب کسی ملک میں موجود بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جاتا ہے؟
جواب: یہاں پہلے قوم کے سیاسی تصور کو ڈیفائن کرنا ہو گا۔ کسی ایک سیاسی وحدت میں ایک قوم رہتی ہے یا ایک سے زائد؟ اور کیا ان میں سے ہر قوم کی زبان میں فرق یا واضح امتیاز موجود ہے؟ ایسے میں جتنی قومیں اس سیاسی وحدت میں رہ رہی ہیں، ان سب کی زبانیں اپنے اپنے دائرے میں قومی زبانیں کہلائیں گی۔ پاکستان کے حوالے سے عمومی طور پر تسلیم شدہ قومیں چار ہیں: پختون، پنجابی، سندھی اور بلوچ۔ اس حوالے سے ان چاروں کی بڑی یا معروف بڑی زبانیں اپنی اپنی قومی زبانیں ہوں گی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایسی تمام قوموں کو مشترکہ طور پر ایک قوم تسلیم کیا جائے، مثلاً ہم کہتے ہیں کہ پاکستانی ایک قوم ہیں۔ تب ہمیں کسی ایک زبان کو قومی زبان ماننا پڑے گا۔ رسمی طور پر ’’اردو‘‘ کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جاتا ہے۔
سوال ۲:
جواب: اصولی بات تو یہی ہے کہ جس سیاسی وحدت کے باسیوں کو ایک قوم کہا اور سمجھا جائے، ان کے لئے قومی زبان بھی ایک ہو گی۔ بہترین طرزِ عمل تو یہی ہے کہ اعلان شدہ قومی زبان کو جملہ سرکاری معاملات میں نافذ کیا جائے۔ اس طرح قومی زبان، سرکاری زبان اور دفتری زبان ایک ہی ہو گی۔ پاکستان میں عملاً ایسا ہو نہیں رہا۔ ایک زمانے میں ایک سرکاری حکم نامہ جاری ہوا کہ پاکستان کے تمام سرکاری اداروں میں دفتری زبان اردو ہو گی۔ اسی حکم نامے میں اردو کوفوری طور پر نافذ کر دیا گیا تھا۔ اب اس کو کیا کہئے گا کہ وہ حکم نامہ انگریزی زبان میں تھا۔فائلوں میں کہیں دب دبا کر رہ گیا، اور بس۔ پاکستان کے دفاتر میں انگریزی جیسے آزادی سے پہلے چل رہی تھی، ویسے ہی چلتی رہی۔ سو، اب ہماری سرکاری زبان عملاً انگریزی ہے کہنے کو جو چاہے کہہ لیجئے۔
سوال ۳:
کیا علاقائی زبانوں (regional languages) کو علاقائی زبانیں کہنا چاہیے یا ایک قوم کی زبانیں ہونے کے ناطے قومی زبانیں کہنا چاہیے ؟
جواب: اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں چار قومیں بستی ہیں تو پھر چار زبانوں کو ماننا ہو گا، اور اگر یہ چاروں اور دیگر قومیتیں (اگر کوئی مزید ہیں) مل کر ایک قوم (پاکستانی) کا درجہ پاتی ہیں تو پھر ہمیں قومی سطح پر ایک ایسی زبان کی ضرورت ہو گی جو مذکورہ سب قومیتوں میں رابطے کی زبان بن سکے۔ رسماً ہم اسے اردو کہتے ہیں۔ اور پشتو، بلوچی، سندھی، پنجابی وغیرہ کو علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے۔
اپنے تو گھر کے حالات ایسے ہیں، دوسروں کو ہم کیا کہیں؟