جیہ
لائبریرین
آپ سب نے میرے والد صاحب کا یہ کالم پسند کیا۔ تو سوچا کیوں نہ ان کا اولین کالم جو جولائی 2010 میں شایع ہوا تھا۔ ان دنوں سوات کا امن تازہ تازہ بہ حال ہوا تھا۔ یہ کالم اس تناظر میں پڑھا جائے۔ جویریہ۔
سیاست پر؟ مگرسیاست کی توہم کوسوجھ بوجھ ہی نہیں۔ اتنی بھی نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکوں کہ ووٹ کس امیدوارکودیناقوم کے مفادمیں ہوگا…… ویسے سیاست کے نام پرجوکچھ ہورہاہے ، اگرسچ پوچھیں توایک کاروبارہورہاہے اورکیاخوب کاروبارہورہاہے کہ پانچوں انگلیاں گھی میں اورسرکڑاہی میں، لہٰذایہ موضوع توخارج ہی سمجھیں۔
کاروبارکانام آیاتوکیوں نہ کاروباری مسائل پرلکھاجائے؟ ویسے بھی ہماراتعلق بھی کاروباری طبقے سے ہے تواس طبقے کاہم پرحق زیادہ ہی بنتاہے۔ مگرحقیقت تویہ ہے کہ کاروباری طبقہ بھی الاماشاء اللہ لوٹ کھسوٹ میں سیاست دانوں سے کم نہیں۔ وہ جوپشتومیں کہتے ہیں ناکہ ‘ کفردتوانہ پورے دے ‘ یعنی جس کاجتنابس چلے اس بہتی گنگامیں ہاتھ دھورہاہے اورخوب ڑرگڑکردھورہاہے۔ عوام کاجواستحصال یہ طبقہ کررہاہے وہ سب کومعلوم ہے ۔ سب ہی یہ حقیقت بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بجٹ چاہے جون کےاول میں پیش ہو، وسط میں یاآخری ہفتے میں، اس پرعمل درآمدیکم جولائی سے شروع ہوتاہے مگرنہیں! ہم توبجٹ کے دوسرے ہی دن اس کولاگوکردیتے ہیں۔ ویسے بھی اس محاورے پربھی توعمل کرناواجب ہے کہ ‘ نیکی کے کام میں دیری کیسے ؟ ‘ اور‘جوکل کرے سوآج، جوآج کرے سواب‘۔
ناں ناں ناں،! کاروباری طبقے پرکسی اورموقع پرلکھیں گے ۔ آج کوئی سلگتاہواموضوع منتخب کرناچاہئے ۔ ایساموضوع کہ لوگ پڑھ کرپھڑک اٹھیں اورکہیں کہ واہ! کیاانٹری ماری ہے ۔
مگرایساکونساموضوع ہوسکتاہے ؟ ارے ہاں! عوامی مسائل ایک اچھاموضوع رہے گا۔ آپ کاکیاخیال ہے ؟ ہے نااچھاموضوع ؟ ویسے بھی اوپرکاروباری طبقے کاذکرکچھ اچھے اندازمیں نہیں ہوا۔ وہ بھی توعوام ہی میں سے ہیں، یوں وہ بھی خوش ہوجائیں گے ۔ مگراس میں ایک مشکل ہے، عوامی مسائل تواتنے زیادہ ہیں کہ اس چھوٹے سے مضمون میں ان کااحاطہ ممکن نہیں ۔ ان مسائل کے لئے توایک دفترچاہئے اورجودن رات عوام کے مسائل پراخبارات کے سینکڑوں صفحے سیاہ کررہے ہیں، ان لکھاریوں نے کون ساتیرماراہے جوہم ماریں گے ؟
مگرلکھناتوہوگا…… ہاں، چلیں سوات کے خراب امن وامان کے بارے میں لکھتے ہیں، کیاکہا؟ خراب امن وامان؟ اب توماشاء اللہ سوات کے وہ حالات نہیں رہے جوحالات پچھلے سال اسی مہینے تک تھے ۔ اب تومکمل امن ہے ، امان ہے ۔ سوات کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں۔ مرکزی شہرمنگورہ اوردوسرے اہم قصبوں کبل، مٹہ وغیرہ میں سوات امن میلہ کامیابی سے جاری ہے ۔ ہرروزناچتے گاتے لوگوں کی تصویریں اخباروں میں شائع ہورہی ہیں۔ میڈیاپرسارے پاکستان کے لوگوں کودعوت دی جارہی ہے کہ سوات آئیں اوریہاں کے پرامن اورپرسکون ماحول سے لطف اندوزہوں۔
مگرایک بات سمجھ میں نہیں آرہی، جس دن سوات امن سیاحتی میلہ شروع ہوااسی دن شہرکے چوکوں، بازاروں اورگلیوں میں قدآدم بینرآویزاں کئے گئے جن میں ان 12 خطرناک دہشت گردوں کی تصویریں اورکوائف درج ہیں جوتاحال روپوش ہیں اوران کے گرفتاری پرانعام کاوعدہ کیاگیاہے۔ میں سوچ رہاہوں کہ سیاح ان بینرزکودیکھ کرکیاخیال کریں گے ۔ کیاوہ خوف زدہ نہیں ہوں گے ۔ اللہ کرے کہ میراخیال غلط ہو۔
کیالکھوں؟
بے معنی باتیں/ریاض مسعود
ہمارے مہربان دوست راہی صاحب کافی عرصے سے مُصرتھے کہ میں روزنامہ ’’آزادی‘‘ کے ادارتی صفحہ کے لیے کچھ لکھوں۔ میں نے ان سے بارہاکہاکہ بھئی ہم توپڑھنے والوں میں سے ہیں ، لکھنالکھاناتوآپ لوگوں کاکام ہے ۔مگرآج جب ان کے اصرارسے مجبورہوکرلکھنے بیٹھاہوں توسوچ رہاہوں کہ لکھوں توکیا؟ بقول شاعر: ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیاکہئےبے معنی باتیں/ریاض مسعود
سیاست پر؟ مگرسیاست کی توہم کوسوجھ بوجھ ہی نہیں۔ اتنی بھی نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکوں کہ ووٹ کس امیدوارکودیناقوم کے مفادمیں ہوگا…… ویسے سیاست کے نام پرجوکچھ ہورہاہے ، اگرسچ پوچھیں توایک کاروبارہورہاہے اورکیاخوب کاروبارہورہاہے کہ پانچوں انگلیاں گھی میں اورسرکڑاہی میں، لہٰذایہ موضوع توخارج ہی سمجھیں۔
کاروبارکانام آیاتوکیوں نہ کاروباری مسائل پرلکھاجائے؟ ویسے بھی ہماراتعلق بھی کاروباری طبقے سے ہے تواس طبقے کاہم پرحق زیادہ ہی بنتاہے۔ مگرحقیقت تویہ ہے کہ کاروباری طبقہ بھی الاماشاء اللہ لوٹ کھسوٹ میں سیاست دانوں سے کم نہیں۔ وہ جوپشتومیں کہتے ہیں ناکہ ‘ کفردتوانہ پورے دے ‘ یعنی جس کاجتنابس چلے اس بہتی گنگامیں ہاتھ دھورہاہے اورخوب ڑرگڑکردھورہاہے۔ عوام کاجواستحصال یہ طبقہ کررہاہے وہ سب کومعلوم ہے ۔ سب ہی یہ حقیقت بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بجٹ چاہے جون کےاول میں پیش ہو، وسط میں یاآخری ہفتے میں، اس پرعمل درآمدیکم جولائی سے شروع ہوتاہے مگرنہیں! ہم توبجٹ کے دوسرے ہی دن اس کولاگوکردیتے ہیں۔ ویسے بھی اس محاورے پربھی توعمل کرناواجب ہے کہ ‘ نیکی کے کام میں دیری کیسے ؟ ‘ اور‘جوکل کرے سوآج، جوآج کرے سواب‘۔
ناں ناں ناں،! کاروباری طبقے پرکسی اورموقع پرلکھیں گے ۔ آج کوئی سلگتاہواموضوع منتخب کرناچاہئے ۔ ایساموضوع کہ لوگ پڑھ کرپھڑک اٹھیں اورکہیں کہ واہ! کیاانٹری ماری ہے ۔
مگرایساکونساموضوع ہوسکتاہے ؟ ارے ہاں! عوامی مسائل ایک اچھاموضوع رہے گا۔ آپ کاکیاخیال ہے ؟ ہے نااچھاموضوع ؟ ویسے بھی اوپرکاروباری طبقے کاذکرکچھ اچھے اندازمیں نہیں ہوا۔ وہ بھی توعوام ہی میں سے ہیں، یوں وہ بھی خوش ہوجائیں گے ۔ مگراس میں ایک مشکل ہے، عوامی مسائل تواتنے زیادہ ہیں کہ اس چھوٹے سے مضمون میں ان کااحاطہ ممکن نہیں ۔ ان مسائل کے لئے توایک دفترچاہئے اورجودن رات عوام کے مسائل پراخبارات کے سینکڑوں صفحے سیاہ کررہے ہیں، ان لکھاریوں نے کون ساتیرماراہے جوہم ماریں گے ؟
مگرلکھناتوہوگا…… ہاں، چلیں سوات کے خراب امن وامان کے بارے میں لکھتے ہیں، کیاکہا؟ خراب امن وامان؟ اب توماشاء اللہ سوات کے وہ حالات نہیں رہے جوحالات پچھلے سال اسی مہینے تک تھے ۔ اب تومکمل امن ہے ، امان ہے ۔ سوات کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں۔ مرکزی شہرمنگورہ اوردوسرے اہم قصبوں کبل، مٹہ وغیرہ میں سوات امن میلہ کامیابی سے جاری ہے ۔ ہرروزناچتے گاتے لوگوں کی تصویریں اخباروں میں شائع ہورہی ہیں۔ میڈیاپرسارے پاکستان کے لوگوں کودعوت دی جارہی ہے کہ سوات آئیں اوریہاں کے پرامن اورپرسکون ماحول سے لطف اندوزہوں۔
مگرایک بات سمجھ میں نہیں آرہی، جس دن سوات امن سیاحتی میلہ شروع ہوااسی دن شہرکے چوکوں، بازاروں اورگلیوں میں قدآدم بینرآویزاں کئے گئے جن میں ان 12 خطرناک دہشت گردوں کی تصویریں اورکوائف درج ہیں جوتاحال روپوش ہیں اوران کے گرفتاری پرانعام کاوعدہ کیاگیاہے۔ میں سوچ رہاہوں کہ سیاح ان بینرزکودیکھ کرکیاخیال کریں گے ۔ کیاوہ خوف زدہ نہیں ہوں گے ۔ اللہ کرے کہ میراخیال غلط ہو۔