خاتون آپ سے دو گذارشات ہیں ۔
1- اگر یہ مضمون آپ کا نہیں ہے تو برائے مہربانی اس مضمون کے ماخذ کا حوالہ ضرور دیجیئے ، خواہ کہیں سے بھی یہ نقل کیا گیا ہو ۔ تاکہ اس کی اشاعت کے جملہ حقوق کے بارے میں تصدیق کی جاسکے ۔
2 - اگر یہ مضمون آپ کا ہے تو پھر آپ کو اس سلسلے میں بحث کا خندہ پیشانی کیساتھ سامنا کرنا ہوگا ۔ اور اس سلسلے میں جتنے بھی اعتراضات ، دلائل اور ثبوت سامنے آئیں ۔ ان کے جوابات تحمل اور بردباری کیساتھ اپنے استدلال کے مطابق دینے ہونگے ۔ کیونکہ آپ کے ایک پچھلے دھاگے میں کچھ ایسی ہی بدمزگی دیکھنے میں آئی تھی کہ جب آپ کی پوسٹ پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے ۔ آپ نے ان اعتراضات کو براہ راست اپنے طور پر یکطرفہ لیتے ہوئے جواباً جو استدلال پیش کیئے ( ان قرآن کا بھی حوالہ تھا ) جو کسی بھی طور آپ کی اُس پوسٹ سے مطابقت نہیں رکھتے تھے ۔ مجبوراً مجھے آکر عورت و مرد اور میاں بیوی کے حوالے سے قرآن کو ہی سامنے رکھ کر فرقِ مراتب کے بارے وضاحت کرنی پڑی تھی ۔ یہ الگ بات یہ وہ دھاگہ ری سائیکل بِین کی نذر ہوگیا ) ۔ بہت بعد میں آپ نے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ پوسٹ آپ نے کہیں سے نقل کی تھی ۔
اب یہاں وہ وہی مسئلہ درپیش ہے ۔ پوسٹ کی تسلسل اور استدلال سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پوسٹ کہیں سے استعار لی گئی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو آپ شروع میں اس بات کا حوالہ ضرور دیں ۔ تاکہ اعتراضات کرنے والے اس مضمون کے اصل ماخذ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے دلائل اور استدلال کو صحیح طور پر پیش کرسکیں ۔ کیونکہ عموماً ہوتا یہ ہے کہ اگر کوئی ایک خاص مکتبِ فکر پر یقین رکھتا ہے اور اس فکر کے نتیجے میں آنے والے عقائد اور نظریات جب عوام الناس کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہاں دوسرے مکتبِ فکر کے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں ۔ چنانچہ فطری طور پر وہاں مناظرے کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے آپ کسی کے نظریات سے متاثر ہوں اور اس کی اشاعت اس خیال سے کردیں کہ جیسا میں سوچ رہا یا رہی ہوں ۔ دوسرے لوگ بھی یہی سوچ رکھتے ہونگے ۔ لہذا اس قسم کے موضوعات پر ہمیشہ بحث کا امکان موجود رہتا ہے ۔ کیونکہ نظریہ اور تحقیق بنیادی طور پر آپ کے فہم کی تخلیق نہیں ہوتا ۔ اس لیئے وہاں اعتراضات کے جوابات دینا دردِ سر بن جاتا ہے ۔ اگر آپ سمجھتیں ہیں کہ آپ اعتراضات کو احسن طریقے سے دلائل اور ثبوت کیساتھ سامنا کرسکتیں ہیں ۔ تو کوئی بات نہیں ۔ آپ اس سلسلے میں مذید تحریروں کا سلسلہ بھی جاری رکھیئے ۔
شکریہ