آپ اس بات سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں اگر کرتے ہیں تو کیوں اور اگر نھیں کرتے تو کیوں نہیں؟
کیا ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
جی اگر بقید امکان کہا جائے تو اس بات سے مکمل اتفاق کیا جا سکتا ہے ورنہ ہرمرد کی کامیابی اور عورت کا ہاتھ لازم و ملزوم نہیں
یہ محل، کثیر الامکان ہے کہ کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہو
اور اس کامیابی کا دائرہ کہاں تک ہے؟ بنظر حقیقت دیکھا جائے تو
آدمیت کی تکمیل عورت سے ہوتی ہے، معرفت نفس کا حصول اخروی کامیابی کے لیے ضروری ہے اور جہاں کاملین کے لیے عورت کی تخلیق، معرفت نفس کا ایک سبب ہے تو ضرور وہاں ناقصوں کے لیے زوال عقل کا سبب بھی اور باعث فتنہ بھی
میں نے ایک حکایت پڑھی تھی یہاں بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا
ایک بزرگ مجیب الدعا مشہور تھے ایک شخص کو پتہ چلا تو وہ ان سے دعا کرنے کی غرض سے انہیں تلاش کرنے لگا یہاں تک کہ وہ ایک جنگل کے قریب گھر پر مطلع ہوا کہ وہ بزرگ اس گھر میں رہتے ہیں چنانچہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو بزرگ کی زوجہ بڑے بے ادب لہجے میں بولی وہ بڈھا جنگل گیا ہے لکڑیاں کاٹنے اور ان کی بُرائی کرنے لگی، اس شخص کو شک ہوا کہ آیا یہ وہی بزرگ ہیں جن کے بارے میں سنا ہے کہ ان کی دعا دنیا میں جلد قبول ہوتی ہے اس ترد میں ہی وہ جنگل جا نکلا، دور سے دیکھا کہ ایک بزرگ ہمراہ ایک شیر کے تشریف لا رہے ہیں اور شیر کی پشت پر لکڑیاں لادھی ہوئی ہیں۔ تعجب سے عرض کرنے لگا حضور آپ کی زوجہ کا اس قدر برائیاں کرنا اور آپ کا یہ مقام کیسے ممکن ہوا؟ تو انہوں نے فرمایا بیٹا یہ مقام مجھے تند کلام بیوی کے اخلاق پر صبر کرنے سے ملا ہے
نوٹ: یہ حکایت میں نے اپنی یاداشت سے اپنے الفاظ میں لکھی ہے لہٰذا قابل اصلاح ہے۔ مجھے وہ کتابچہ یاد نہیں آ رہا جس میں یہ پڑھی تھی۔
ضمنًا میں یہاں اپنا ایک مضمون بھی تحریر کر رہا ہوں جو موضوع کے مطابق تو نہیں لیکن مفید ضرور ہے (یہ مضمون میں نے ایک دوسری سائٹ پر بھی پیش کیا تھا)
شادی شدہ زندگی کو ترجیح دینے میں حکمت
میں شادی شدہ زندگی کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ اس سے عفت کا وصف حاصل ہوتا ہے اور مسلمان پاکدامنی پا کر اللہ کے احکامات پرعمل قائم کر لیتا ہے حدیث پاک میں نکاح کو نصف ایمان کہا گیا، دراصل اللہ نے انسان کو تمدنی فطرت میں پیدا کیا یعنی انسانی فطرت کا یہ تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ مل جل کر رہیں اسی لیے اللہ نے انسان کو رشتوں (خاندانوں) میں پیدا کیا اور رشتوں میں حقوق فرض کیئے برخلاف جانوروں کے کہ ان کی فطرت میں صرف خواہشات کا عنصر ہے نہ تو ان کے لیے رشتوں کا لحاظ ضروری نہ حقوق واجب، لہٰذا نکاح کو محض خواہشات نفسانیہ کے نام سے تعبیر دینا درست نہیں
تنہا زندگی یا رہبانیت، درحقیقت خلاف فطرت انسانیہ ہے اس لیے کہ یہ بے راہ روی میں مبتلاء ہونے کا بآسانی ذریعہ بن جاتی ہے
اک حدیث پاک کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ اگر تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جسکا دین اور اخلاق تمہیں پسند آئے تو انکار مت کرنا ورنہ روئے زمیں میں فتنہ اور فساد پھیل جائے گا۔ ذرا اس حدیث پاک کی روشنی میں نظر رکھیے اور دیکھیے کہ تنہا زندگی کس قدر ایمان اور عمل کے لیے پر خطر ثابت ہوسکتی ہے، اس موضوع پرآپکو مذید واضح روایات و اقوال مل جائینگے میرا یہ مختصربیان ان لوگوں کو دعوت فکر دینے کی غرض سے تھا جو تنہا زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ واللہ اعلم