کیا ہم سب قصوروار ہیں؟ دلخراش انکشاف

آپ یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ اس آرٹیکل کے واضح بنیادی نکات کیا ہیں ؟
اور یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ آپ کا اپنا نکتہ نظر کیا ہے؟ آُ کس بات سے متفق اور کس بات سے غیر متفق ہیں؟ تنقید کس بات پر ہے اور تائید کس بات کی ہے؟

لوگوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے اور ان کی کردار کشی کرنا بحث کرنے والے کی ذہنی کم سنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اصولوں پر اپنا نکتہ نظر پیش کیجئے۔
جماعت اسلامی کے بنیادی عقائد پر یہ ایک ضرب ہے کہ خواتین معاشرہ میں مساوی سلوک، عزت و احترام و مساوی درجہ کی حقدار ہیں۔ وہ خواتین کو برقعہ میں پابند، محروم ، اور ،مرد کا محتاج دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ جو کہ قرآن کے بنیادی پیغام کے منافی ہے۔ اس کے لئے یہ کوئی بھی تاویلات پیش کرنے پر تیار ہیں۔ وجہ اس کی کیا ہے؟‌ خواتین کی بلیک مارکیٹنگ، تاکہ ان مدرسوں میں ظلم کی ‌وہ کاروائی جاری رہے جس کا تذکرہ قیصرانی اور شمشاد نے اوپر کیا ہے اور معصوم خواتین اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرسکیں۔

اس آرٹیکل میں 'مال کی روانی ' کو 'ضیاع' سے تعبیر کیا گیا ہے اور نہایت صفائی سے ا س کا تعلق 'خواتین اور ان کی مبینہ بے راہ روی' سے کیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں صرف میں نے ہی نوٹ‌ نہیں کی بلکہ دوسری قارئین نے بھی نوٹ کی۔ اس قسم کی اتہام تراشی اور بہتان تراشی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر آپ کسی خاتون کو یا خواتین کے کسی گروپ پر ایسا الزام دھر رہے ہیں تو اس گناہ میں شریک مرد یا مردوں کے اس گروپ کو بھی سامنے لائیے، مکمل اور حتمی ثبوت کے ساتھ۔ کہ ایسا گناہ دو فریق کے غیر ممکن ہی نہیں۔

کیوں؟
اس لئے کے ایسے غیرذمہ دارانہ آرٹیکلز سے خواتین کی کردار کشی ہوتی ہے اور خواتین کی عزت نفس میں‌کمی آتی ہے اور وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو حقیر تصور کرتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد حضرات ان کاروائیوں میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ہر شخص جو موبائیل لے کر گھوم رہا ہے یا رہی ہے، اس کو ایک خاص سانچے میں فٹ کرکے دیکھنا، نا مناسب ہے۔

فاروق سرور صاحب سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ نہ تو میں نے اس آرٹیکل کے واضح بنیادی نکات بتانے کی کوشش کی اور نہ اس پر اپنا نکتہ نظر کی دلفریب تصویر کھینچی۔ جس بات سے اتفاق ہے مجھے اسے دیکھنے کے لیے غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں اور جب میں نے کسی بات سے نااتفاقی کا اظہار ہی نہیں کیا تو یہ کہاں سے لازم آیا کہ میں کسی حصہ سے غیر متفق بھی ہوں۔ تنقید میں نے آپ کے نتائج پر کی ہے اور تائید میں نے یونس رضا صاحب کے شماریات کی کی ہے ، اب براہ کرم میرے سوالات کا جواب بھی دے دیجیے اور خدارا اپنی پرانی تکنیک استعمال کرتے ہوئے پھر سے سوالوں کی پٹاری نہ کھول لیجیے گا یہ طریقہ خاصہ فرسودہ ہوگیا ہے اور سب جان بھی چکے ہیں۔ اب اپنے ترکش سے کوئی نیا تیر نکالیے تاکہ لوگ بھی جگر آزما سکیں پرانے تیر تو کند ہوچکے ۔

لوگوں کو ڈانٹنا ڈپٹنا اور ان کی کردار کشی جو شخص کر رہا ہے اسی کے منہ سے ایسی باتیں سجتی نہیں ہیں اور خدا کے لیے ایسے جملے لکھ کر اپنے متعلق اشارے مت دیجیے کچھ تو بھرم رہنے دیں کیوں سب کچھ واضح طور پر سننا چاہتے ہیں آپ۔

میں نے اصول پر ہی بات کی ہے اگر آپ اپنے مخصوص خول سے باہر نکل کر دیکھ سکیں۔

جماعت اسلامی کے بنیادی عقائد کی تشریح پر آپ کو جماعت کے امیر نے فائز کیا ہے یا آپ نے ازخود ہی اس مشکل کام کا بیڑہ اٹھا لیا ہے؟
براہ کرم یہ بھی بتا دیں کہ جماعت اسلامی کا ذکر خیر اس موضوع میں کرنے کی وجہ تسمیہ کیا ہے تاکہ پھر جماعت کے کس بندے سے پوچھا جا سکے کہ کیا آپ عورتوں کو مردوں کا محتاج محروم دیکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ آپ کے ازخود قائم مقام نمائندے فاروق صاحب کا کہنا ہے نیز قرآن کے بنیادی پیغام کو سیکھنے کے لیے وہ باجماعت آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں اور سیکھیں کہ قرآن کیا کہتا ہے۔

خواتین کی بلیک مارکیٹنگ جیسا الزام آپ جیسے غیر ذمہ دار لوگ ہی باآسانی لگا سکتے ہیں اور اپنے ہی اصولوں کی ایسی واضح خلاف ورزی ۔ یونس رضا صاحب کے سروے پر اتنی سخت تنقید جبکہ وہ باآسانی معاشرے میں دیکھی بھی جا سکتی ہے موبائل فون کے حوالے سے اور قیصرانی صاحب جو ماشاللہ آپ کے قبیل سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح کی بے سروپا باتیں کرنے کے پرانے ماہر ہیں ان کی بات پر آمنا صدقنا ۔ کچھ اس کی تشریح کیجیے ۔
معصوم خواتین جو لال مسجد میں زندہ جلا دی گئیں وہ آپ کی اور قیصرانی کی نگاہوں میں شاید انسان ہی نہ تھی اور اس پر آپ نے رسما بھی افسوس کا اظہار نہ کیا کجا کہ اس ظلم کی مذمت ہی کرتے۔

مال کی روانی واقعی صرف آپ نے ہی نوٹ کی پتہ نہیں اسی یا سو روپے کے بیلنس کو آپ مال کی روانی کیسے گردانتے ہیں اس کی بھی تشریح کیجیے گا۔ فون کالز کا تعلق دونوں سے جوڑا گیا ہے ظاہر ہے خواتین مردوں کو اور مرد خواتین کو فون کریں گے تو ہی بے راہ روی میں شمار ہوگا مگر آپ کی خود ساختہ تشریح کے کیا کہنے۔ بہتان تراشی کی واقعی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے آئندہ کوشش کیجیے گا کہ ایسا نہ کریں آپ۔

ودہ سال سے اوپر کی تمام لڑکیاں اور لڑکے ۔ موبائل ہولڈرز (تقریبا پچاسی فیصد ۔ تمام طبقات سے تعلق ہے)
فی موبائل ہولڈر کنکشن کی تعداد تقریبا ۔ تین سم کارڈز
فی سم کارڈ حاضر بیلنس اسی روپے (ہر وقت)
صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزانہ پچیس کروڑ روپے کا بیلنس استعمال کرتے ہیں جس میں کارڈز اور ایزی لوڈ دونوں شامل ہیں۔
سنیچر کے دن تک روزانہ پچیس کروڑ اور صرف اتوار کو بائیس کروڑ تک کا بزنس ہوتا ہے۔

اس میں میں یہ ڈھونڈنے سے قاصر ہوں کہ کہاں صرف خواتین پر الزام لگایا گیا ہے اور مردوں کو پاک صاف قرار دیا گیا ہے۔ یہ بلیغ نکتہ آپ کے ذہن رسا میں وارد کیسے ہوا کچھ اس بابت بھی گفتگو کیجیے۔ باقی کے نتائج آپ کے ذہن فطین کے کرشمات ہیں جس سے سب ہی محظوظ ہوئے اس لیے ان کا جواب نہ بھی دیں تو قابل قبول ہوگا۔

امید ہے کہ آپ ٹھنڈے دل سے دوبارہ تمام آرٹیکل کو پڑھیں گے اور پھر تنقید کو اور پھر اپنا محاسبہ کرنے کے بعد کچھ لکھیں گے ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میر؁ے پیا رے دوستو ! اب میری بات سنو !

ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم بحث برائے انا ، جو ہماری جیت کو ظاہر کرے کے قائل ہیں، جس بچی سدرہ کا میں نے ذکر کیا ہے، کاش آپ میں سے کسی نے اسے دیکھا ہوتا، باوجود وہ مجھ سے عمر میں چھوٹی ہے، مگر میرا سر اس محب وطن دختر کی احترام میں جھک جاتی ہیں، اک سوال کا جواب مرحمت فرمائیں !
اگر یہ لڑکی یہ تمام اعداد و شمار لیکر کسی بھی فورم پرلے جاتی ہے اور اسکے خلاف چند کرائے کے غنڈے ، چند بے ضمیر وکیل، اور معمولی قیمت پر بکنے والے جج ، اس بچی کی حرمت کو تار تار کر دینگے، کیا آپ یا میں اسکی مدد کریں گے یا تماش بینوں میں شامل ہونگے۔۔ ۔ ۔ ۔ ہماری مثال ان کوفیوں کی ہے جنہوں نے امام حسین :abt: کو بلا تو لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہوا کیا یہ تاریخ بتاتی ہے،

رہی بات اعداد و شمار کی : بے شک یہ غلط ہیں۔۔۔۔ کیونکہ یہ اصل اعداد و شمار سے اب بھی کافی کم ہیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حجت کرنا بہت آسان ہے، میں کب سے درخواست کر رہا ہوں، خدارا مضمون کو پڑہیں تو سہی کہ وہ کیا کہھ رہا ہے،،،،، مگر نہیں۔۔۔۔ بس حجت کرنی ہے۔۔۔۔۔ ایک بندہ سیدھی سے بات کر رہا ہے کہ میں کوئی نوکری نہیں کرتا ہوں اور روزانہ سینکڑوں روپے میرا خرچہ ہے ۔۔۔ بتائیں کہاں سے آرہا ہے۔۔۔۔ بنیادی بات کو سمجھ نہیں رہے ہیں اور ثانوی بات کو لے دوڑے ہیں۔۔۔۔۔ بس موقع چاہئے قراآن اٹھانا ہے اور پیچھے دوڑنا ہے۔۔۔۔۔۔
شکریہ محب علوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم از کم ایک تو ملا جس نے غور سے پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں تو مایوس ہو کر خاموش ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کی اسی حجت نے ان کو اس منزل پر کھڑا کیا ہے،،،،، شہر کے باہر ھلاکو خان کھڑا ہے اور یہ مناظرہ فرما رہےہیں۔۔۔۔۔۔
 
اور ھاں یہ جو سنت رسول:pbuh: کا مذاق اڑانا پلیز بند کیجیے۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے نا با لغ سوچ کے سامنے سنجیدہ بات رکھ دی۔۔۔۔
یہ میری غلطی ہے کہ میں محفل کے فورم پر یہ بات لایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ لوگ آپس میں نہ لڑیں۔۔۔۔۔ میں اب کافی محتاط رہونگا۔۔۔۔۔۔ آئ ایم ساری ۔۔۔۔۔۔ علوی اب آپ بھی اپنا لہو نا جلاؤ یار۔۔۔۔۔
اپنی قوم کے لئے صرف اتنا ہی کہھ سکتا ہوں
"ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے اب حال گلستاں کیا ہوگا"
 
یونس صاحب آپ فکر نہ کریں میں خون نہیں جلا رہا حقیقت میں فاروق سرور صاحب ہر موضوع پر یہی کام کرتے ہیں اور چونکہ سب لوگ خاموش رہتے تھے اس لیے انہوں نے اب یہ مشغلہ بنا لیا ہے۔ ایک قابل قدر رکن اجمل صاحب انہی کی وجہ سے ناراض ہو کر بھی گئے ہیں اب مزید ان کی وجہ سے قابل لوگوں کو محفل سے دور نہیں کیا جا سکتا اور قوم سے مایوس نہ ہوں قوم پر ابھی اتنا بھی برا وقت نہیں آیا کہ مایوس ہو کر ہی بیٹھ جائیں۔
 
دوستو ناراضگی سے کام نہیں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں کچھ کرنا تو ساتھ چلنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ بہتر کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انشااللہ۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
یونس صاحب جب بھی آپ کوئی مسئلہ پیش کریں گے تو یہ بحث تو ہو گی ہی۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ بحث ہو لیکن تعمیری قسم کی۔ جس کا کوئی نتیجہ بھی نکلے نہ کہ بحث برائے بحث اور ایک دوسرے پر الزام تراشی۔ بہر حال آپ لکھنا جاری رکھیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ویسے اس طرح کے حملے شادی کے بعد سیکھے ہیں یا ہمت اب آئی ہے ۔ ;)
اس بات پر میں اگر کچھ کہوں تو کیا کہوں بھائی میرے

ایک وقت تھا کہ تم میرے ذاتی مشاہدے کے تحت کہی گئی بات پر ثبوت اور حوالے مانگتے تھے۔ اگر میں نے صرف اتنا پوچھ لیا کہ یہ سروے کس نے کیا؟ کس ادارے کے طلباء و طالبات نے کیا، تمہارا جواب اس حد تک آ گیا

اگر ذاتیات پر ہی اترنا ہے تو براہ راست کہہ دو۔ میں تمہاری طرح محض‌گفتار کا غازی نہ سہی، کم از کم کھلی بات منہ پر ضرور کہہ سکتا ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی صاحب جو ماشاللہ آپ کے قبیل سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح کی بے سروپا باتیں کرنے کے پرانے ماہر ہیں ان کی بات پر آمنا صدقنا ۔ کچھ اس کی تشریح کیجیے ۔

محب ذرا اپنی قبیل کے بارے کچھ فرماتے جانا؟ اس اقتباس کا ذرا پس منظر مجھے بتانا؟

مجھے اچھی طرح‌ علم ہے اور فورم کے دیگر ممبران بھی جانتے ہیں کہ تم کب سے میرے خلاف اس طرح کی باتیں‌کرنا شروع ہوئے تھے اور اس کے پس پردہ محرکات کیا تھے :)
 

damsel

معطل
ویسے یہاں کیوں پاکستانی رویوں کا مظاہرہ ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اپنے ملک کے لیے ایسا لکھنا اچھا تو نہیں لگتا لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کچھ چیزیں،غلط چیزیں ہماری قوم کی رگ و پے میں سرایت کرچکی ہیں) زیادہ تو نہیں معلوم لیکن اس فورم کا مقصد مل بیٹھ کے مسائل کی نشاندہی اور حل ہی ہے شاید۔ تو اس میں اگر بات کو ذاتی طور پر نہ لیا جائے اور نہ ذاتیات پر حملہ کیا جائے توکیا بہترنہ ہوگا؟؟؟؟؟
 

damsel

معطل
یونس رضا صاھب اتنی اچھی پوسٹ کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ اور افسوس کی بات ہے کے ایک سیدھے سادھے معاشرتی پہلو کو کس طرح معاشی پہلو اور پھر دین کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔اس پوسٹ میں موضوع ہماری معاشرے کی بڑھتی ہوئی اخلاقی و دینی تنزلی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں فاروق سرور خان صاحب نے اس کو ویلتھ آف اے نیشن سے جوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ان کا یہ کہنا کہ
""یہ کافی عام جواز ہے کہ خواتین و حضرات کے ملنے سے بدکاریاں پھیل جاتی ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ برائی برائی ہے اور اس کا باعث خواتیں و حضرات کا دور و قریب ہونا نہیں ہے۔"" انھوں نے اس سلسلے میں قرآنی حوالے بھی دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
’’اللہ تعالی خواتین و حضرات کو مل کر کام کرنے کی تلقین فرماتے ہیں:
سورۃ التوبۃ:9 , آیت:71 اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

خدا خود گواہی دیتا ہے کہ مومن مرد و عورتیں، معاشرے میں اپنے کام کی بناء پر اور فلاحی مملکت کے نظام کے کام میں اس آپسی مددگاری کے باعث آخرت میں کس صورت ہوں گے۔‘‘
آپ ایسا کہتے ہیں اور مجھے ڈھونڈے سے بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے دور میں ایسا واقعہ نہیں ملتا جس میں مرد و زن نے مل کر کام کیا ہو۔۔۔۔۔۔ہاں دونوں کو دین کی فلاح کے لیے متحرک رہنا ہے لیکن دونوں کا دائرہء کار الگ الگ ہے دونوں کی زمہ داریاں مختلف ہیں۔مردوں کو کچھ اور کام کرنا ہے اور عورتوں کو کچھ اور ۔اگر آپ یہ حوالہ دے رہے ہیں " سورۃ التوبۃ:9 , آیت:71 اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔" تو بلاشبہ وہ رفیق ہیں لیکن اہم پوائنٹ کیا ہے اہلِ ایمان۔۔۔۔۔۔اس پہ ذرا غور کریں۔۔۔۔۔۔۔۔پھر دوسری بات اگر ایک بیوی اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت،مال اور اولاد کی حفاظت و صحیح تربیت کرتی ہے تو کیا وہ اس کی مدد گار نہ ہوئی؟؟اگر وہ اس کو ذہنی سکون دے رہی ہے اس کو بات بات پہ پریشان نہیں کر رہی تو کیا وہ اس کی رفیق نہیں ہے؟؟ آیت کا اگلا حصہ اگر آپ ملاحظہ کریں تو اس میں آپ کو ان اہلِ ایمان مرد و عورت کے کام بھی نظر آئیں گے جو وہ کرتے ہیں " وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے"
ایک اور حوالہ جو آپ نے دیا کہ
’’ سورۃ الحديد:57 , آیت:12 (اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے

سورۃ النسآء:4 , آیت:124 اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے‘‘
کس کے بارے میں بات ہورہی ہے مومنین مرد و عورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان دونوں آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے یہاں مرد و زن کی کچھ تفریق نہ ہوگی ہر ایک کو اس کی کوشیشوں کے مطابق اجر ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ان دونوں کے مل کے کام کرنے کااور کونسا کام کرنے کا ثبوت پھر بھی یہ آیات نہیں ہیں
’’ اللہ کسی کا کام ضائع نہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت، اوپر دیا گیا افسانہ ایک قسم کی افواہ سازی ہے جس میں‌حقائق موجود نہیں۔ اس کا واحد مقصد خواتین کی معاشرے میں شمولیت کی دل شکنی کرنا ہے۔ ایسا کرنا نامناسب عمل ہے۔

سورۃ آل عمران:3 , آیت:195 پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے‘‘
نہ جانے آپ قرآن کے حوالے دے کر خواتین کی کس قسم کی شمولیت چاہتے ہیں معاشرے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کسی محنت ولے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ کوئی دنیاوی محنتوں کا ذکر تو نہیں ہے کیونکہ اس پر تو اللہ نے جنت کا وعدہ نہیں کیا ۔۔۔۔۔اگر دنیا میں محنتیں کر کے ترقی کرنا ہی جنت کی کنجی ہوتی تو صحابہ کرام و لسف صالحین کی زندگیاں ویسی نہ ہوتیں جیسی انھوں نے گزاریں۔
’’ ڈاکٹر صاحب سے التماس ہے کہ وہ قرآن کو اپنے ذاتی مطالعہ کا حصہ بنائیں تاکہ اسلامی اور غیر اسلامی نظریات میں‌بآسانی فرق کرسکیں۔ ہدایت دینے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔‘‘
میری بھی آپ سے یہی التماس ہے کہ برائے مہربانی آپ صحیح سے قرآن کی روح کو سمجھیں۔اور آپ یہ نہ سمجھیں کہ مجھے عالم ہونے کا دعوٰی ہے لیکن میری دینی حمیت نے قرآن کی ایسی تفسیر اور غلط کوٹیشن کو گوارا نہ کیا ۔ آپ کی دل شکنی میرا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی یہ کو ئی ذاتی حملہ تھا ۔میں معذرت خواہ ہوں اگر آپ کو کچھ برا لگے اس پر۔ البتہ اپنے خیالات پر مجھے کچھ افسوس نہیں
 

damsel

معطل
یونس صاحب نے جو لکھا ہے میں اس سے سو فیصدی متفق ہوں ۔۔۔۔۔چلیں ہم مان بھی لیں کے آپ کے اعداد و شمار درست نہیں ہیں تو کیا ہم سب آنکھیں اور کان نہیں رکھتے کہ دیکھیں کے ہمارے معاشرے میں کیا ہورہا ہے؟؟
نہیں بات کرتے کسی غیر مصدقہ ذرائع کی لیکن کیا یہ سچ نہیں کے ہم میں سے اکثریت کے پاس ایک سے زائد سم کارڈز ہیں؟؟ اس کی وجہ جو بھی ہو چاہے سستا نیٹ ورک یا جو بھی لیکن ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کوئی سپر اسٹورز اور مالز نہیں جاتا؟؟؟ کیا ہماری خواتین کے لباس ہماری مذہبی تعلیمات و معاشرتی اقدار سے میچ کرتے ہیں؟؟؟ اور یہ ایک مخصوص طبقہ کا ذکر نہیں۔ کراچی کی مثال دیتی ہوں۔زم زمہ چلیں جائیں رمضان کے آخری عشرے میں بلکہ اتنا دور جانے کی کیا ضرورت ہے 14 فروری کو جا کر دیکھ لیجیئے گا۔ زم زمہ ،فورم اور ایریا 51 وغیرہ ۔ یہ تو ایلیٹ کلاس کی بات ہوئی اب بات کرتے ہیں جامع کلاتھ اور جوبلی مارکیٹ کی جہاں غریب طبقہ اور مڈل کلاس جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جینز عام پہنی جاتی ہے اب وہاں 3-4 لڑکیاں تو آپ کو اس حلیے میں نظر آئیں گی ہی(میں کسی لباس کو برا نہیں کہہ رہی اور نہ ہی صرف شلوار قمیص کو اسلامی لباس سمجھتی ہوں آپ کچھ بھی پہنیں اگر آپ کا لباس اسلام کے دیے گئے معیار پر پورا اترتا ہے تو ٹھیک ہے) اور جو خواتین آپ کو قومی لباس میں نظر آئیں گی تو وہ بھی بہت حد تک نازیبا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسے اشارے کر رہے ہوتے ہیں شاپ کیپرز اگر کوئی بصارت رکھتا ہو تو اس کو سب صاف صاف نظر آجائے۔ کراچی یونیورسٹی جہاں زیادہ تعداد مڈل کلاس کی ہے وہاں کا ایک چکر لگا آئیں وہ لوگ جو ان باتوں کو ہماری ذہنی اختراع سمجھتے ہیں
ہماری معاشرے کی اخلاقی تنزلی تو آپ کو یہاں بیٹھے نظر آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوستی کے نام پہ کھلنے والی یہ لاتعداد سائٹس جہاں پاکستانی لڑکے زیادہ اور لڑکیاں نسبتا کم ۔۔۔۔یہ سب کیا ہے؟ اور ان میں اکثریت نو عمر یا پھر کم پڑھے لکھے افراد کی ہوتی ہے۔ اس کو بھی چھوڑ دیں ہماری ٹی۔وی چینل پر یہ جو پر وقت بجتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹیلی فن، ٹیلی فن ۔۔۔وہ کیا ہے؟؟؟
بے راہ روی بڑھی ہے ، بڑہ رہی ہے
وجہ کیا ہے؟؟؟ چلیں ہم مانتے ہیں موبائل فونز نہیں ہیں لیکن بہرحال کچھ تو وجہ ہے اور ہاں اس میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں
بلکہ ہمارا ٹی ۔وی تو فن کے نام پر مرد و مرد کو بھی کافی آگے آگے دکھا رہا ہے۔
وجوہات فون بھی ہوسکتا ہے، ٹی۔وی بھی، انٹر نیٹ بھی، مرد و زن کا آزادانہ اختلاط بھی،پیسے کی دوڑ بھی اور سب سے بڑی و اہم وجہ ہماری دین سے دوری۔۔۔۔۔۔۔جب ہم کو ہی دین کا نہیں پتا تو ہم اپنی نئی نسل کو کیا دیں گے؟ تو اس چیز کی اہمیت کو سمجھنا چاہیئے
میری ناقص رائے یہ ہے کہ ہم ان وجوہات پر غور کریں اور اپنے اپنے دائرہءکار میں ان کو ممکن حد تک ختم کرنے کی کوشیش کریں
 
جب بات اصول کے بارے میں نہ ہو، ہٹ جائے اور ذاتیات پر اتر آئے تو بے کار و بے معنی ہوتی ہے۔ اگر ایک دوسرے سے ‌کچھ سیکھ سکیں تو بہت اچھا ہے۔ ہماری سوچ صرف جب ہی سنجیدہ اور بالغ ہوسکتی ہے جب خالق کائنات کے سنجیدہ احکامات کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے۔ طنزیہ جملوں سے کوئی ذہنی بلوغت حاصل نہیں ہوتی نہ ہوسکتی ہے۔ میں نے اس آرٹیکل کے پہاؤ‌میں درج ذیل تصاویر دیکھیں۔ آپ بھی تصور کی آنکھ سے دیکھئے۔

1۔ ڈاکٹر صاحب اس مضمون سے مکمل طور پر متفق ہیں‌ورنہ پیش ہی نہیں کرتے، کم از کم میں بنا اتفاق کے پیش نہ کرتا۔
2۔ پہلا پیرا گراف صرف افسانوی ہے۔
3۔ بات کا رخ‌ سیل فون کی طرف مڑتا ہے اور ایک ڈرامائی سوال کیا جاتا ہے کہ ایک بندہ کماتا نہیں تو اتنا پیسہ کہاں سے لاتا ہے۔ اور یہ اتنا مال 'ضائع' ہورہا ہے۔ آپ بتائیں ؟‌کہاں سے لاتا ہے؟ نہیں کماتا تو رشتہ داروں سے لیتا ہے، چوری کرتا ہے، ادھار مانگتا ہے۔ اور اس کے علاوہ کیا امکان ہے؟
4۔ پھر بات بندوں سے بڑھ کر شماریات اور حساب کتاب میں جاتی ہے کہ ہفتے کا اتنے کروڑ اور ویک اینڈ کے اتنے کروڑ۔ یہ ہے اس آرٹیکل کا مائیکرو سکوپک سے میکوسکوپک ٹرن ۔ اس پر کوئی بھی استدلال بے کار ہے۔ اس لئے کہ مال کا بہاؤ ہمارا سب سے بڑا مقصد ہے۔ معاشیات کا بنیادی طالب علم یہ جانتا ہے کہ کنزیومر بی ہیویر جذبات و احساسات پر مبنی ہے۔ مکان خریدو یا کار، فون رکھو یا رستوراں جاؤ، اگر معاشرہ میں مال کا بہاؤ نہ ہوگا تو پیسہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ نہںیں جائے گا۔ پیسہ اہک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ نہیں جائے گا تو لوگ اصل ضرورت جو کھانا، کپڑا اور سر چھپانے کی جگہ اور جنسی و جذباتی ضرورتوں پر مشتمل ہے پورا نہیں کرسکیں گے۔ پیسہ کو منجمد کردیں تو فیکٹریاں بند، کام بند، فوڈ بند، کپڑا بند۔ لہذا اس دولت کے بہاؤ اور روانی کے بارے میں مخالفت کرنے کی توقع ایک ابتدائی طالب علم سے تو کی جاسکتی ہے لیکن ایک سمجھدار بالغ سوچ رکھنے والے انسان سے نہیں۔ دنیا کی معیشیت جن اصولوں‌پر چل رہی ہے وہ دولت کا بہاؤ ہی ہے۔ انجماد نہیں۔ بچت میں اور دولت کے انجماد میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ بچت کرنے کا مطلب ہے کہ پیسہ تکیہ کے نیچے نہیں بنک میں ہے اور معیشیت میں شامل ہے۔ اور جب آپ کے پاس جمع ہوگیا تو اس "بچت " کو "خرچ "‌کرکے ایک مکان لے لیا۔ وغیرپ ، وغیرہ

یہاں سے سیل فون کی کہانی اچانک ایک نیا موڑ‌لیتی ہے۔

گزشتہ پانچ سال میں ڈیڑھ کروڑ موبائل فروخت ہوئے! اوسطا فی موبائل کی قیمت تین ہزار روپے رہی ![/color][/color]

چودہ سال سے اوپر کی تمام لڑکیاں اور لڑکے ۔ موبائل ہولڈرز (تقریبا پچاسی فیصد ۔ تمام طبقات سے تعلق ہے)
فی موبائل ہولڈر کنکشن کی تعداد تقریبا ۔ تین سم کارڈز فی سم کارڈ حاضر بیلنس اسی روپے (ہر وقت)
صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزانہ پچیس کروڑ روپے کا بیلنس استعمال کرتے ہیں جس میں کارڈز اور ایزی لوڈ دونوں شامل ہیں۔
سنیچر کے دن تک روزانہ پچیس کروڑ اور صرف اتوار کو بائیس کروڑ تک کا بزنس ہوتا ہے۔
ان حالات میں تو انسان ایک وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا یہ موبائل کی عیاشی کے لئے ان بچوں کو پیسہ کہاں سے مل رہا ہے،
آیئے آگے بڑہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سو فیصد حقائق پر مبنی ایک اور رپورٹ دیکھیں)

مانع حمل گولیاں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایبٹ کمپنی کے کچھ سیلز ایجنٹس اور مختلف میڈیسن کمپنیز کے کچھ اعلی عہدے داروں نے ایک سروے رپورٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے خریدار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہوں تو اسکا کیا مطلب ہوا ؟ ؟ ؟ ؟
لیباریٹری رپورٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے چار کے رزلٹس پازیٹیو ہوتے ہیں جب کہ ان کی عمر چودہ سے بائیس سال ہوتی ہیں، اور تمام ہی غیر شادی شدہ ظاہر کی جاتی ہیں۔ ۔ ۔
بیوٹی آئٹمز کی فروخت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف کراچی میں ہی نہی
ایک لیڈی ڈاکٹر جو ایک پوش
یہ تو ہوا لڑکیوں کا قصہ۔ ۔
میں اتنا کہونگا کہ زیادہ بے خبری اچھی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ یونس رضا

بہت بالغ‌سوچ کا اظہار نہیں کرسکتا۔ لیکن بھائی اگر یہ سیل فون کے میکرو اکنامک ماڈل سے اچانک فارماسیٹیکل کمپنیوں کی اعلی انتظامیہ کی رپورٹ مانع حمل گولیوں کے بارے میں ، وہاں سے ہر 10 میں سے چار لڑکیاں کے حاملہ ہونے کی لیبارٹری رپورٹ، لڑکیوں کے بیوٹی آئٹم کی خرید وفروخت، ایک لیڈی ڈاکٹر کی گواہی کہ یہاں کتنی غیر شادی شدہ لڑکیاں حاملہ ہوتی ہٰں اور پھر آپ کی کال کہ "زیادہ بے خبری اچھی نہیں ہوتی"

اس کے جواب میں ظفری، شمشاد اور قیصرانی کا اپنے تجربے کے بارے میں‌بتانا، واضح کرتا ہے کہ آپ کے مضمون کاموضوع کیا ہے۔ اگر یہ سب نہیں ہے تو پھر آپ بتائیے کہ کیا ہے جو میں نہیں سمجھا؟
اگر آپ کہتے ہیں کہ نادانستگی میں آپ الگ الگ مسائیل سامنے رکھ رہے تھے اور ایک تسلسل بن گیا تو مان لیتے ہیں۔ آپ کو قصور وار نہیں ٹھیرا رہے۔ لیکن اس مضمون کو ایک 45 یا 50 سال کی بزرگ والدہ محترمہ جیسی ہستی کے سامنے پڑھئے دیکھئے کیا سننے کو ملتا ہے۔

یہ ایک عام روش ہے کہ ہم زور لگا لگا کر ایسی باتیں کرتے ہیں کے جن کو پڑھ کر ہماری اپنی بہنوں ، ماؤں اور محترم خواتین کا سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ اس لئے کہ ہم نے یقین کرلیا ہے کہ معاشرہ میں خواتین کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ کوئی کردار نہیں ہے۔ دیکھئے جہاں معاشرہ ہوگا وہاں خطا بھی ہوگی اور جرم بھی ہوگا۔ اگر آپ یہ جانتے ہیں تو ہمارے رسول صلعم بھی یہ جانتے تھے اور ہمارا خدا بھی یہ جانتا تھا۔ اسی لئے عدل وانصاف پر مبنی پیغام آتے رہے۔

ہمارا کام ہے کہ جہاں ان برائیوں کا احاطہ کریں وہاں ان برائیوں کی بیخ‌کنی کے لئے بھی کچھ کریں۔ آئیے آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ جن برائیوں کی طرف ڈاکٹر یونس رضا نے اشارہ کیا ان کی شناخت کریں اور یہاں یہ تجویز کریں کہ ان برائیوں کا خاتمہ کیونکر ہو؟ زندگی کے ہر شعبہ میں مشکلات ہیں، ان مشکلات کا حل ڈھونڈنے والے ہی بہادر کہلاتے ہیں۔ یونس کی جن باتوں سے اختلاف تھا وہ صرف دو تھیں۔
1۔ مال کی روانی ایک اچھا عمل ہے۔ اس کی موافقت میں لکھنا چاہئے
2۔ خوتین کی من حیث القوم کردار کشی اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

اب ان معاشرتی برائیوں کو دیکھئے،
1۔ بے راہ روی، اور مناسب کنٹرول نہ ہونے کے باعث کمیونیکشنز کے ذرایع کا نا مناسب استعمال۔
2۔ اخلاقی قدروں کی کمی کے باعث، نوجوان بچوں اور بچیوں کا وقت سے پیشتر ماں یا باپ بننے سے معاشی بدحالی ، خاندان کی تباہی، یتیموں کی تعداد میں اضافہ، تعلیم کی کمی اور معاشرتی انحطاط۔ ہم اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

آپ اس میں سے کسی بھی مسئلہ کا کیا حل تجویز کرتے ہیں؟
ایک دوسرے کو لتاڑنا بھی ایک اچھا عمل ہے، اس کے لئے بھی ایک پورا شعبہ ہونا چاہئیے، تاکہ جب چاہیں وہاں جا کر خوب جی بھر کے سیر حاصل کسی کو لتاڑ لیں اور کچھ خود لعنت و ملامت وصول کرلیں۔ فی الحال یہاں‌پر ان مسائیل کا حل تلاش کرتے ہیں جو یونس نے پیش کئے ہیں۔
 
دامسیل صاحب کی قرآن کی انڈرسٹینڈنگ میں زور ہے، 'ایمان لانے والوں' اور 'قرآن کے ماننے والوں' پر، یہی درست زور ہے کہ قرآن پر ایمان رکھتے ہوں۔برے کام سے روکتے ہوں اور اچھے کام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں۔ اچھے کام، جیسے تعلیم، کاروبار، ملازمت، ڈاکٹری، ڈینٹسٹری، انجینئرنگ، سائینس، بینکنگ، سیلز و مارکیٹنگ، حکومتی ادارے، نماز، اچھی تربیت، یہ کام اگر مردوں کے لئے اچھے ہیں تو عورتوں کے لئے بھی اچھے ہیں۔
مردوں کی بے راہ روی، جنسی اختلاط ( مردوں کا مردوں سے) ، عورتوں‌کا استحصال، معاشرہ میں ان کی شمولیت کو روکنا، کسی بھی میدان میں آگے بڑھنے سے خوف کھانا، عورتوں کی خرید وفروخت - مہر اور جہیز - کے نام پر انتہائی گری ہوئی حرکات ہیں اور مرد ان حرکتوں کے مجرم ہیں ۔ اپنے گھر میں دیکھئے اپ کے محترم بزرگ ان جرائم کے عادی رہے ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ حضور کے دور میں مردوں عورتوں کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جب کہ ان مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ جب سے آج تک مسجد نبوی میں خواتین نماز ادا کرتی ہیں اور خطبہ سنتی ہیں - یہی صورت حال مسجد الحرام میں ہے۔ جنگوں میں خواتین کی شرکت سے لے کر کاروبار میں خواتین کی شرکت شامل ہے۔ حضرت خدیجہ کا کاروبار نبی اکرم سے پہلے سے تھا۔ دنیاوی زندگی میں اور معاشرہ میں خواتین کی مساوی شرکت کے لئے قرآن کے واضح‌اصول و احکامات ہیں ان کو تاویلوں کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ مصر ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو توایسی واضح آیات بہت فائیدہ مند ہونگی جو ہم کو معاشرہ میں خواتین کی معاشرہ میں مساوی اور باعزت شمولیت کو روکتی ہوں۔ براہ کرم پیش کیجئے۔

آپ ان آیات سے جو معانی بھی نکالیں اور سمجھیں، آپ پر منحصر ہے۔ پچھلے 270 سالوں کے مترجمین کے تراجم آپ کو اوپن برہان پر مل جائیں گے۔ جس میں رضا شاہ خان صاحب سے لے کر مولانا شبیر احمد تک کے ترجمے شامل ہیں۔ ان سب کے ترجمے دیکھئے کہ یہ سب ہی ان معانی پر متفق ہیں۔ قرآن اپنے معانی خود بیان کرتا ہے، نیک عورتوں کے واقعات قرآن میں عام ہیں۔

چونکہ یہ اور مزید آیات ان عقائد کی مخالفت کرتی ہیں جو ہمارے ذہنوں میں راسخ‌کردئے گئے ہیں لہذا ہم کہتے ہیں کہ صاحب عورتوں کی مزدوری تو جنت کے لئے ہے۔ صاحب، قرآن اس زندگی اور اس زندگی دونوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ یہ زندگی بھی بہتر کرنی ضروری ہے۔ استدعا یہ ہے کہ ان آیات کو ذہن کو آزاد کرکے دوبارہ قرآن سے پڑھئے، سوچئے کہ اللہ تعالی کا مقصد عظیم کیا ہے۔

مطالعہ قرآن جاری رکھئے، اس سے ہم سب کو فائیدہ ہوگا۔
 

damsel

معطل
:)
آپ نے بھی وہی چیز کی ہے ویسے فاروق صاحب یعنی لتاڑنا۔ لیکن بہتری یہ ہے کہ حل کی طرف آئے تو میرے سامنے تو ایک ہی چیز ہے
قرآن اور سنت
جو تھام لے گا اللہ کی رسی کو تو انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اپنی ذات سے شروع کرتے ہیں اور پھر بتدریج گھر والوں کی طرف آتے ہیں۔
لکھ تو مین نے ایک لائن میں دیا ہے لیکن یہ راہ بہت کٹھن ہے اللہ ہم سب کو اس پر چلنے کی توفیق عطا کرے
 
ڈیمسل صاحبہ فاروق سرور صاحب صرف قرآن کے قائل ہیں اور سنت کی جتنی کتابیں ہیں انہیں یہ صرف لوگوں کی روایات اور کتابیں کہتے ہیں۔

باقی ذاتی حملوں کا قیصرانی اور فاروق سرور صاحب کو کافی شوق ہے اور لتاڑنا بھی کافی عرصہ سے جاری رکھا ہوا تھا ان لوگوں نے۔ میں نے ذرا ان کو ان ہی کی ذائقہ دار ڈش چکھوائی ہے جس سے کافی لطف اندوز ہوئے ہیں یہ لوگ۔

ایک موصوف امریکہ رہتے ہیں ، دوسرے فن لینڈ اور اپنے بات کو حرف آخر کی طرح پیش کرتے ہیں اور دعوی ان کا یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ ان لوگوں کو پتہ ہے حالات کا۔

قیصرانی آج سکون کا سانس لے لو کل جواب دوں گا تفصیل سے تمہیں اور ابھی تک تو میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا تھا مگر اب تمہاری خواہش کے مطابق ہی تمہارے ساتھ ڈیل کروں گا آخر اتنا تو تمہارا حق بنتا ہے مجھ پر ;)
 

damsel

معطل
دامسیل صاحب کی قرآن کی انڈرسٹینڈنگ میں زور ہے، 'ایمان لانے والوں' اور 'قرآن کے ماننے والوں' پر، یہی درست زور ہے کہ قرآن پر ایمان رکھتے ہوں۔برے کام سے روکتے ہوں اور اچھے کام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں۔ اچھے کام، جیسے تعلیم، کاروبار، ملازمت، ڈاکٹری، ڈینٹسٹری، انجینئرنگ، سائینس، بینکنگ، سیلز و مارکیٹنگ، حکومتی ادارے، نماز، اچھی تربیت، یہ کام اگر مردوں کے لئے اچھے ہیں تو عورتوں کے لئے بھی اچھے ہیں۔
ہم نے تو کبھی انکار نہیں کیا کے یہ اچھے کام نہیں ، لیکن یہ کس کے کام ہیں اور کس کو کرنا چاہیئے اور کن صورتوں میں ۔اس ضمن میں یہ ایک سوال کا جواب شاید کچھ مفید ثابت ہو۔
The meeting together, mixing, and intermingling of men and women in one place, the crowding of them together, and the revealing and exposure of women to men are prohibited by the Law of Islam (Shari'ah). These acts are prohibited because they are among the causes for fitnah (temptation or trial which implies evil consequences), the arousing of desires, and the committing of indecency and wrongdoing.

Among the many proofs of prohibition of the meeting and mixing of men and women in the Qur’aan and Sunnah are:

Verse No. 53 of Surat al-Ahzab, or the Confederates (Interpretation of the meaning); "...for anything ye want, ask them from before a screen: that makes for greater purity for your hearts and for theirs..."

In explaining this Verse, Ibn Kathir (May Allaah have mercy on him) said: "Meaning, as I forbade you to enter their rooms, I forbid you to look at them at all. If one wants to take something from a woman, one should do so without looking at her. If one wants to ask a woman for something, the same has to be done from behind a screen."

The Prophet (May peace and blessings be upon him) enforced separation of men and women even at Allaah’s most revered and preferred place, the mosque. This was accomplished via the separation of the women’s rows from the men’s; men were asked to stay in the mosque after completion of the obligatory prayer so that women will have enough time to leave the mosque; and, a special door was assigned to women. Evidence of the foregoing are:

Umm Salamah (May Allah be pleased with her) said that after Allah’s Messenger (May peace and blessings be upon him) said "as-Salamu ‘Alaykum wa Rahmatullah’ twice announcing the end of prayer, women would stand up and leave. He would stay for a while before leaving. Ibn Shihab said that he thought that the staying of the Prophet (May peace and blessings be upon him) was in order for the women to be able to leave before the men who wanted to depart." Narrated by al-Bukhari under No. 793.

Abu Dawood under No. 876 narrates the same hadith in Kitab al-Salaat under the title "Insiraaf an-Nisaa’ Qabl al-Rijaal min al-Salaah" (Departure of Women before Men after the Prayer). Ibn ‘Umar said that Allah’s Messenger (May peace and blessings be upon him) said: "We should leave this door (of the mosque) for women." Naafi’ said: "Ibn ‘Umar never again entered through that door until he died." Narrated by Abu Dawood under No. 484 in "Kitab as-Salah" under the Chapter entitled: "at-Tashdid fi Thalik".

Abu Hurayrah said that the Prophet (May peace and blessings be upon him) said: ""The best of the men’s rows is the first and the worst is the last, and the best of the women’s rows is the last and the worst in the first." Narrated by Muslim under No. 664.

This is the greatest evidence that the Law of Islam (Shari'ah) forbids meeting and mixing of men and women. The farther the men are from the women’s rows, the better, and vice versa.

If these procedures and precautions were prescribed and adhered to in a mosque, which is a pure place of worship where people are as far away as they ever are from the arousal of desire and temptation, then no doubt the same procedures need to be followed even more rigorously at other places.

Abu Usayd al-Ansari narrated that he heard Allah’s Messenger (May peace and blessings be upon him) say to the women on his way out of the mosque when he saw men and women mixing together on their way home:
‘Give way (i.e., walk to the sides) as it is not appropriate for you to walk in the middle the road.’ Thereafter, women would walk so close to the wall that their dresses would get caught on it. Narrated by Abu Dawood in "Kitab al-Adab min Sunanihi, Chapter: Mashyu an-Nisa Ma’ ar-Rijal fi at-Tariq."We know that the intermingling, mixing and crowding together of men and women is part of today’s unavoidable yet regrettable affliction in most places, such as markets, hospitals, colleges, etc., but:

· We will not willfully choose or accept mixing and crowding, particularly in religious classes and council meetings in Islamic Centers.

· We take precautions to avoid meeting and mixing of men and women as much as possible while at the same time achieving desired goals and objectives. This result can be achieved by designating separate places assigned for men and women, using different doors for each, utilizing modern means of communication such as microphones, video recorders etc., and expediting efforts to have enough female teachers to teach women, etc.

· We show fear of Allaah as much as we can by not looking at members of the opposite sex and by applying self-restraint.​
 
Top