arifkarim
معطل
السلام علیکم
جس نے اس کا ساتھ نہیں دیا اسے سول نیوکلیر ٹیکنالوجی حاصل ہوتی
وہ اپنے فیصلے خود کرسکتا ہے، اور اس کا امریکہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا
اچھا دیکھتے ہیں ابھی ایران کا کیا انجام ہوتا ہے۔
السلام علیکم
جس نے اس کا ساتھ نہیں دیا اسے سول نیوکلیر ٹیکنالوجی حاصل ہوتی
وہ اپنے فیصلے خود کرسکتا ہے، اور اس کا امریکہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا
ہم امریکہ کا ساتھ دیں یا نہ دیں وہ ہر صورت ہمیں بند گلی میں دھکیلے گا کہ اس کے قومی مفادات کے لئیے ایسا کرنا ضروری ہے۔
افغانستان میں پٹتی ہوئی امریکی فوج کو مزید نقصان سے بچانے کے لئیے امریکہ کو اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے
موجودہ شرائط کے ساتھ کیری لوگر بل کو تسلیم کرنا حکومتی اداروں کو آپس میں ٹکرا دے گا اور یہی وہ مقصد ہے جس کا حصول امریکہ کے لئیے بہت بڑی کامیابی ہو گا۔
آپ خود ہی اپنی دليل کی نفی کر رہے ہيں۔ ايک جانب تو آپ يہ سمجھتے ہيں کہ افغانستان ميں جاری جنگ کے سبب امريکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اور دوسری جانب آپ کا يہ الزام ہے کہ کيری لوگر بل کا مقصد پاکستان کے مختلف اداروں کے مابين ٹکراؤ کی فضا پيدا کر کے ملک کو کمزور کرنا ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں اپنے مقاصد کے حصول کے ليے امريکہ ايک فعال، مستحکم اور مضبوط پاکستان کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ يہ بھی واضح رہے کہ ان مقاصد کا حصول پاکستان کے بھی بہترين مفاد ميں ہے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت اس خطے اور دنيا ميں پاکستان کی ايک قد آور اور اہم مسلم ملک کی حيثيت کو بھی تسليم کرتی ہے۔
پاکستان کا استحکام اور اس کا دفاع نا صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنيا کے بہترين مفاد ميں ہے۔ امريکہ اور عالمی برادری يہ توقع رکھتی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا کر پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کرے۔
امريکہ پاکستان ميں ايک منتخب جمہوری حکومت کو کامياب ديکھنے کا خواہ ہے جو نہ صرف ضروريات زندگی کی بنيادی سہولتيں فراہم کرے بلکہ اپنی رٹ بھی قائم کرے۔ اس ضمن میں امريکہ نے ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں کئ سالوں سے مسلسل امداد دی ہے۔ انتہا پسندی کی وہ سوچ اور عفريت جس نے دنيا کے بڑے حصے کو متاثر کيا ہے اس کے خاتمے کے لیے يہ امر انتہائ اہم ہے۔
تمام تر معاشی مسائل کے باوجود امريکی حکومت ہر ممکن امداد فراہم کر رہی ہے۔ يہ امداد محض تربيت اور سازوسامان تک ہی محدود نہيں ہے بلکہ اس ميں فوجی اور ترقياتی امداد بھی شامل ہے۔
کيری لوگر اسی مقصد کے حصول کی جانب ايک اہم قدم اور پيش رفت ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
اور جو ان دونوں سے بچ جاتے ہیں وہ تماہرے بموں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔اور تمہاری یہی امداد ہوتی ہے جس کے بہانے تم لوگ ان گدھے حکمرانوں کا بازو بڑی نازک جگہ سے مروڑتے ہو اور یہ گدھے تمہاری ہر بات پر آمنا صدقنا پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔فوج نے طالبان کی تلاش میں ایک گاؤں کو گھیرا ڈالا اور ایک بزرگ سے پوچھ گچھ شروع کی۔ فوجیوں کو شک تھا کہ گاؤں کے لوگ طالبان کے حامی ہیں ایک فوجی افسر نے بزرگ سے پوچھا کہ پاکستان آرمی کے بارے میں تمہارا کیاخیال ہے؟ بزرگ نے کہا کہ پاکستان آرمی ہماری محافظ ہے اور ہم اپنی آرمی کی بہت قدر کرتے ہیں۔ فوجی نے کہا کہ کیا تم ہمیں کافر سمجھتے ہو؟ بزرگ نے جواب میں کہا کہ استغفراللہ ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ فوجی افسر نے پوچھا کہ تم طالبان کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہو؟ بزرگ نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ طالبان نفاذ شریعت چاہتے ہیں، امریکا کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے سپاہی ہیں۔ فوجی افسر نے پوچھا کہ کیا تم طالبان کو کافر نہیں سمجھتے؟ بزرگ نے کہا کہ حضور نہ ہم آپ کو کافر سمجھتے ہیں نہ طالبان کو کافر سمجھتے ہیں۔ یہ سن کر فوجی افسر جھنجھلا اٹھا اور اس نے غصے سے بزرگ کو پوچھا کہ اگر طالبان بھی مسلمان اور ہم بھی مسلمان ہیں تو پھر کافر کون ہے؟ بزرگ نے بڑی عاجزی سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ جناب کافر توہم عام لوگ ہیں جنہیں آپ دونوں سے مار پڑتی ہے۔
واہ جناب بالکل صحیح بات کی آپ نے۔ جیسے چین ترقی کر رہا ہے اس لحاظ سے تو آنے والے دنوں کی سپر پاور ہے۔
يہ واضح رہے کہ کيری لوگر بل پاکستان اور امريکہ کی حکومتوں کے درميان باہم اتفاق سے تشکيل پانے والا کوئ دستخط شدہ معاہدہ نہيں ہے۔ يہ ايک قانونی بل ہے جس کا اطلاق امريکی حکومتی عہديدران پر ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں اس بل ميں پاکستان پر ترقياتی منصوبوں سے متعلق امداد کے حوالے سے کوئ شرائط عائد نہيں کی گئ ہيں۔ ليکن اس امدادی پيکج پر اعداد وشمار کے درست حساب کتاب اور فعال احتساب کے ليے اہم اور سخت اقدامات اٹھائے گئے ہيں جو کہ کانگريس کی جانب سے امريکہ کی انتظاميہ پر لاگو ہوتے ہيں نہ کہ پاکستان کی حکومت پر۔ اس کا مقصد اس بات کو يقينی بنانا ہے کہ يہ امداد انھی مقاصد کے لیے استعمال کی جائے جس کی منظوری دی گئ ہے۔
پاکستان کی حکومت کی جانب سے بھی ان اقدامات کو خوش آئند قرار ديا گيا ہے جو اس بات کو يقينی بنائيں گے کہ وہ رقم جو سکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں کی تعمير کے حوالے سے عوام کے ليے مختص کی گئ ہے، اس کوضائع ہونے سے بچايا جا سکے۔
يہ بات حيران کن ہے کہ جو لوگ آج کيری لوگر بل پر اعتراض کر رہے ہيں وہی ماضی ميں يہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ احتساب کا مناسب نظام نہ ہونے کے سبب امداد کے پيکج کارآمد ثابت نہيں ہو سکے ہيں۔
اس بل کا اصل نقطہ يہ ہے کہ شہريوں کی بہبود کے لیے 5۔7 بلين ڈالرز (قريب 62500 کروڑ روپے) مختص کيے گئے ہيں تا کہ اگلے پانچ سالوں (2010 – 2014) کے دوران معاشی بحالی، تعليم، صحت عامہ اور جمہوری اداروں کی مدد کے ضمن ميں پاکستان کے عوام کی مدد کی جا سکے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
عالی جاہ ، میں اپنی دلیل کی نفی نہیں کر رہا۔ جو امداد پاکستان کو اس بل کے ذریعے دی جارہی ہے وہ بھی پاکستان کے قومی اداروں کو آپس میں ٹکرا کر اپنا راستہ ہموار کرنے اور بازو مروڑنے میں آسانی پیدا کرنے کے لئیے دی جا رہی ہے۔آپ خود ہی اپنی دليل کی نفی کر رہے ہيں۔ ايک جانب تو آپ يہ سمجھتے ہيں کہ افغانستان ميں جاری جنگ کے سبب امريکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اور دوسری جانب آپ کا يہ الزام ہے کہ کيری لوگر بل کا مقصد پاکستان کے مختلف اداروں کے مابين ٹکراؤ کی فضا پيدا کر کے ملک کو کمزور کرنا ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں اپنے مقاصد کے حصول کے ليے امريکہ ايک فعال، مستحکم اور مضبوط پاکستان کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ يہ بھی واضح رہے کہ ان مقاصد کا حصول پاکستان کے بھی بہترين مفاد ميں ہے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت اس خطے اور دنيا ميں پاکستان کی ايک قد آور اور اہم مسلم ملک کی حيثيت کو بھی تسليم کرتی ہے۔
پاکستان کا استحکام اور اس کا دفاع نا صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنيا کے بہترين مفاد ميں ہے۔ امريکہ اور عالمی برادری يہ توقع رکھتی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا کر پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کرے۔
امريکہ پاکستان ميں ايک منتخب جمہوری حکومت کو کامياب ديکھنے کا خواہ ہے جو نہ صرف ضروريات زندگی کی بنيادی سہولتيں فراہم کرے بلکہ اپنی رٹ بھی قائم کرے۔ اس ضمن میں امريکہ نے ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں کئ سالوں سے مسلسل امداد دی ہے۔ انتہا پسندی کی وہ سوچ اور عفريت جس نے دنيا کے بڑے حصے کو متاثر کيا ہے اس کے خاتمے کے لیے يہ امر انتہائ اہم ہے۔
تمام تر معاشی مسائل کے باوجود امريکی حکومت ہر ممکن امداد فراہم کر رہی ہے۔ يہ امداد محض تربيت اور سازوسامان تک ہی محدود نہيں ہے بلکہ اس ميں فوجی اور ترقياتی امداد بھی شامل ہے۔
کيری لوگر اسی مقصد کے حصول کی جانب ايک اہم قدم اور پيش رفت ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
خود امریکہ وہ واحد وحشی ملک ہے جس نے جنگ میں اٹامک بم استعمال کیا ۔
دوسروں کی باری تم لوگ جوہری عدم پھیلاو کے نعرے لیکر آجاتے ہو ۔ اگر امریکہ نے اس پر عمل کیا ہوتا تو امریکہ کے بعد دوسرے ممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی کہاں سے جاتی ؟؟
اگر میں اپنے بچے کو نماز پڑھنے کا کہوںکا تو مجھے چاہئے میں خود پڑھوں پھر اس کو کہوں تاکہ اس پر اثر ہو ۔
میں اپنے بچے کو کار آہستہ چلانے کیلیے کہوں گا تو مجھے چاہیے میں خود بھی ویسے چلاوں تاکہ بچے پر اثر ہو
اگر انکل سام کو دنیا کے جوہری ہتھیاروں سے تکلیف ہے تو اس کو چاہیے وہ اپنے جوہری ہتھیار ختم کرے پھر دوسروں کو کہے
یہ انڈیا اور امریکہ کی تکلیف سانجھی کب ہوئی ؟؟
جب آپ بھارت کے ليے امريکی تعاون کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو آپ کو اس پورے خطے ميں امريکہ کی جانب سے اپنے دوستوں اور اتحاديوں کو دی جانے والی امداد اور تعاون کا تقابلی جائزہ لينا ہو گا جو کہ غير جانب داری اور توازن کے اصولوں پر مبنی ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ بھارت کو ايک دوست اور ديرپا اتحادی سمجھتا ہے بالکل اسی طرح جيسے امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات کئ دہائيوں سے موجود ہيں۔
عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت کا تعين براہراست زمينی حقائق اور مشترکہ اقتصادی اور طويل المدت مفادات اور حکمت عملی کی بنياد پر ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ، بھارت اور پاکستان کے مابين کے تعلقات ميں کئ نشيب و فراز آئے ہيں۔
بھارت اور پاکستان دو مختلف ممالک ہيں جن کی ضروريات بالکل مختلف ہيں۔ امريکہ ان دونوں ايشيائ ممالک سے ان کے باہمی تنازعات سے قطع نظر مثبت اور دوررس تعلقات کا خواہاں ہے۔ امريکہ کے نزديک اس حوالے سے معاملہ يہ نہيں ہے کہ دونوں ميں سے کسی ايک کا انتخاب کرے۔
پاکستان کی حدود کے اندر کسی دہشت گروہ يا غير رياستی عناصر کی جانب سے بھارت سميت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی کوئ بھی کاروائ دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرے گی جس کے نتيجے ميں سارے خطے ميں عدم استحکام کی فضا پيدا ہو گي۔ ايسے واقعات کسی بھی اعتبار سے پاکستان کے مفاد ميں نہیں ہیں۔ حکومت پاکستان اس حقيقت سے آگاہ ہے اور اس بات کی ضرورت کو تسليم کرتی ہے کہ مستقبل ميں ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
تمام فريقين کے مابين رائج خليج کو دور کرنے اور تعلقات کی مضبوطی کے ليے کی جانے والی انھی کاوشوں کو کيری لوگر بل ميں اجاگر کيا گيا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
آپ نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ امريکہ کے پاس نيوکلير ہتھيار اور ٹيکنالوجی ہے ليکن آپ يہ حقیقت نظرانداز کر رہے ہيں کہ امريکہ نے ايٹمی ہتھياروں کے عدم پھيلاؤ (نيوکلير نان پروليفريشن ٹريٹی) کے عالمی معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہيں جس کا مقصد نيوکلير ٹيکنالوجی کے پھيلاؤ کو روکنا ہے۔ سال 1968 ميں امريکہ، برطانيہ اور سويت يونين سميت دنيا کے 59 ممالک نے اس پر دستخط کيے تھے۔
تينوں اہم ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کيا تھا کہ ان ممالک کی مدد نہيں کی جائے گی جن کے پاس يہ صلاحيت نہيں ہے۔ جن ممالک کے پاس نيوکلير ٹيکنالوجی نہيں ہے انھيں اس يقين دہانی کے بدلے ميں پرامن مقاصد کے لیے يہ صلاحيت فراہم کی جائے گی کہ وہ ايٹمی ہتھياروں سے اجتناب کريں گے۔ دو ايٹمی طاقتوں فرانس اور چين نے سال 1992 تک اس معاہدے کی توثيق نہيں کی تھی اور کچھ ايٹمی طاقتوں نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کيے تھے جن ميں پاکستان بھی شامل ہے۔ سال 1995 ميں جب يہ معاہدہ اپنی معياد کے اختتام پر تھا تو اقوام متحدہ کے 174 ممالک کے مشترکہ ووٹ کے ذريعے اس معاہدے کی مدت ميں غير معينہ مدت کے ليے توثيق کر دی گئ۔