يہ واضح رہے کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ اور اس کے نتائج کی مکمل ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عالمی برادری کے مطالبات اور اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قراردادوں کو يکسر نظرانداز کر ديا تھا۔ اس وقت بھی تشدد کی لہر طالبان کی مرہون منت ہے۔
ہر ملک کی يہ ذمہ داری اور اس کا يہ حق ہے کہ اپنے شہریوں کی حفاظت کو يقينی بنائے۔ يہ اختيار اقوام متحدہ کے چارٹر ميں واضح کيا گيا ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کو عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے وضح کردہ قوانين کے تحت يہ اختيار حاصل تھا کہ وہ 911 جيسے مزيد واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔
بلکہ امريکہ پر شايد يہ الزام لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ نے اس وقت بروقت اقدامات نہيں اٹھائے جب دہشت گردوں نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر ديا تھا اور وہ طالبان کی حکومت کے سائے تلے اپنے آپ کو منظم کر رہے تھے۔
جہاں تک طالبان اور امريکی حکومت کے اقدامات ميں مماثلت کے حوالے سے آپ کی رائے ہے تو ميں واضح کر دوں کہ طالبان کے برخلاف امريکی حکومت کے اقدامات پاکستان اور افغانستان کے عوام کے خلاف نہيں ہيں۔ ہمارا ٹارگٹ اور مقصد صدر اوبامہ کے الفاظ کے مطابق القائدہ کی شکست وریخ اور مکمل خاتمہ ہے۔ ليکن اس کے ساتھ ساتھ يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے جو برسا برس کی خانہ جنگی اور طالبان کے نظام کے زير اثر دہشت گردی کا اڈہ بن چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کو ساتھ ملا کر عدل و انصاف پر مبنی ايک ايسا معاشرہ تشکيل ديا جائے جس ميں سب کو ان کے بنيادی حقوق مل سکيں۔
اس ضمن ميں جو اعدادوشمار ميں نے يو-ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں ان کی روشنی ميں يہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں صرف طاقت کے استعمال پر يقين رکھتا ہے۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ برسا برس کی سول جنگوں کے بعد افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔
http://img502.imageshack.us/my.php?image=96154060ez8.jpg
http://img522.imageshack.us/my.php?image=59764280ff7.jpg
http://img522.imageshack.us/my.php?image=65286244iv9.jpg
اب ان اقدامات کا طالبان اور دہشت گرد گروہوں کی کاروائيوں سے موازنہ کریں جو تشدد اور بلا امتياز خون خرابے کے ذريعے اپنی رٹ قائم کرنے کے درپے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں امريکی کاوشوں کا طالبان کے طريقہ کار سے موازنہ کيا جا سکتا ہے؟
جہاں تک امريک اور طالبان کی جانب سے بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو ميں اس بات سے انکاری نہيں ہوں کہ افغانستان ميں بے گناہ شہری اور امريکی اور نيٹو فوجی ہلاک ہوئے ہيں۔ دہشت گردی کے فوجی کاروائ ميں سب سے بڑا چيلنج يہ ہے کہ دہشت گرد کسی مخصوص يونيفارم ميں اپنے آپ کو منظر عام پر لے کر نہيں آتے اور نہ ہی وہ کسی عسکری معرکے ميں طے شدہ اصول و ضوابط کی پيروی کرتے ہيں۔ اس معرکے کے ليے کوئ ميدان جنگ بھی مخصوص نہيں ہے۔ دہشت گرد ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو نہ صرف عام شہريوں کی صف ميں شامل رکھيں بلکہ ضرورت پڑنے پر انھيں بطور ڈھال بھی استعمال کريں۔
اس حقیقت کے باوجود آپ اس بحث کے دوسرے پہلو کو بھی مدنظر رکھيں۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف کاروائ کے نتيجے ميں کتنی جانيں بچائ جا چکی ہيں؟
جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں رائے کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
۔