کیری لوگر بل کا متن

مجھے سمجھ نہیں‌آتا کہ اب تک دہشت گردی کی تعریف ہماری عقل و دانش میں کیوں نہیں واضح ہو پارہی ہے، لیکن ایک سادہ سا سوال آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‌اس کا جواب اپنے دل کی تمام تر سچائیوں سے دیجئے گا۔ امریکہ کے ڈرون حملوں سے کون ہلاک ہو رہا ہے اور وہ کتنے معصوم ہیں، اور دہشت گردوں‌کے خود کش حملوں سے ہمارے شہروں، مساجد، اسکول، کالجز ، بازاروں میں کون ہلاک ہو رہا ہے، شاید جواب مل جائے۔
 

راشد احمد

محفلین
حکومت کا دعوٰی ہے کہ ڈرون حملوں میں صرف دہشت گرد ہلاک ہورہے ہیں لیکن بم کی آنکھیں نہیں‌ہوتیں یہی وجہ ہے کہ ان حملوں میں زیادہ تر بے گناہ مارے جارہے ہیں۔ جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بعد میں ان کی ہی اولادیں خودکش بمبار کا روپ دھار لیتی ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

ساجد صاحب! میری نظر میں امریکا اور طالبان دونوں برابر کے انتہا پسند ہیں۔

ميں امريکہ اور طالبان کو ايک ہی پلڑے ميں ڈالنے کے حوالے سے آپ کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر آپ کا اشارہ امريکی اور نيٹو افواج کی فوجی کاروائ کے نتيجے ميں نادانستہ طور پر ہلاک ہونے والے بے گناہ شہريوں کی جانب ہے تو اس ضمن ميں آپ کو يہ حقيقت تسليم کرنا پڑے گی کہ کسی بھی فوجی تنازعے ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت ايک تلخ حقيقت ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ ان فوجی کاروائيوں کے دوران خود امريکی اور نيٹو کے کئ فوجی "فرينڈلی فائر" کے واقعات کے نتيجے ميں بھی ہلاک ہو چکے ہيں۔ طالبان اور ان سے منسلک القائدہ اور دوسری جانب عالمی اتحادی فوجيوں کی کاروائيوں ميں سب سے واضح فرق يہ ہے کہ طالبان اور القائدہ کے دہشت گرد دانستہ بے گناہ شہريوں کو ٹارگٹ کرتے ہيں جبکہ اس کے مقابلے ميں امريکہ اور اس کے اتحادی ان قواعد وضوابط کے پابند ہوتے ہیں جس سے اس طرح کے واقعات ميں ہر ممکن کمی مقصود ہوتی ہے۔

کسی بھی تنازعے کے ميرٹ اور اس کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ان واقعات کا غير جانب دارانہ تجزيہ کرنا چاہيے جو بالاخر ايک فوجی کاروائ کی صورت اختيار کر جاتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ پر ان تنازعات کو شروع کرنے کا الزام نہيں لگايا جا سکتا۔ 911 کے واقعات سے بہت پہلے دہشت گردوں نے امريکہ کے خلاف کھلی جنگ کا باقاعدہ اعلان کر ديا تھا۔ القائدہ کے دہشت گردوں کی جانب سے دنيا بھر ميں امريکی شہريوں کو نشانہ بنايا جا رہا تھا اور طالبان کی ليڈرشپ نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے باوجود عالمی برادری سے تعاون اور حمايت سے صاف انکار کر ديا تھا۔

اکتوبر 1999 ميں اقوام متحدہ کی جانب سے منظور کردہ قرداد نمبر 1267 ميں يہ واضح درج ہے کہ طالبان کی جانب سے اسامہ بن لادن کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کی حکومت سے اسامہ بن لادن کو حکام کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی اس قرارداد کا حصہ ہے۔

http://www.un.org/Docs/sc/committees/1267/1267ResEng.htm

يہاں ميں آپ کو ايک اور دستاويز کا لنک دے رہا ہوں جو امريکی حکومت اور طالبان کے مابين اسامہ بن لادن کے حوالے سے ہونے والے روابط کو مزيد واضح کرے گا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1195115&da=y

ستمبر 11 2001 کا واقعہ وہ نقطہ تھا جس پر تمام مذاکرات، مطالبات، قراردادوں اور رپورٹس کا سلسلہ منقطع ہو گيا۔ يہ واضح ہو چکا تھا کہ دہشت گردی کو روکنے، بے گناہ انسانوں کو محفوظ رکھنے اور اسامہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے ميں لانے کے ليے فوجی کاروائ آخری آپشن ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی يہ لکھا تھا کہ تاريخ کے کسی بھی فوجی تنازعے کی طرح دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کے نتيجے ميں بھی بے گناہ انسانوں کی ہلاکت ايک تلخ حقيقت ہے ليکن آپ کو يہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ کون سا فريق دانستہ بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ يہ وہي لوگ ہيں جو اس تنازعے کو شروع کرنے کا موجب بنے تھے اور جنھوں نے مذاکرات، قراردادوں اور پرامن طريقوں سے کی جانے والی ہر کوشش اور دہشت گردی کی وبا کو روکنے کے لیے کيے جانے والے تمام مطالبات کو يکسر مسترد کر ديا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

ساجد

محفلین
فواد صاحب ، آپ سے سوال کچھ پوچھا گیا اور آپ بات کو گول کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
چلئیے پھر سے دہرائے دیتا ہوں کہ "دہشت گردی کی متفقہ و مستند تعریف کیا ہے؟"۔ آپ کے پاس معلومات کا ایک سیلِ رواں ہوتا ہے ذرا یہ بھی فرمائیے کہ اقوام متحدہ نے کسی ملک کو کب سے اختیار دے دیا کہ وہ دیگر ممالک کی فضائی حدود میں گھس کر اس کے شہریوں پہ بم برسائے؟۔ اگر امریکہ اپنے قوانین کا اطلاق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں کرتا ہے تو کیا دوسرے ممالک یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ امریکیوں پہ اپنے قوانین کا اطلاق کریں؟ میں تو حیران ہوں کہ آپ جیسا باخبر انسان ایسی بات کو جائز قرار دے کہ جو عالمی امن کو تہہ و بالا کرے اور ایسے اقدامات کی مذمت نہ کرے کہ جو ممالک کی آزادی و خود مختاری کے لئیے خطرہ بننے کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پہ انسانی قتل کا سبب بنیں۔ آخر پتہ تو چلے کہ طالبان اور امریکہ میں قتل و تباہی لانے کی یہ صفت مشترک کیوں ہے؟
آپ بہت بار کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ نے یہ کیا اقوام متحدہ نے وہ کیا یہ بھی فرمائیے کہ چند دن پہلے ایک بار پھر اقوام متحدہ کے ادارے نے امریکہ کی ڈرون حملوں پہ مذمت کی اور اس سے جواب بھی مانگا تو کیا یہ ادارہ بھی سٹھیا گیا ہے ؟
محترم ، آؤٹ ریچ کے حوالے سے آپ کے تیار شدہ مراسلے اور الفاظ کے بغیر آپ جواب مرحمت فرمائیں تو بصد شوق آپ سے نیاز مندی کا طلب گار ہوں گا بہ صورت دیگر لکم دینکم ولی دین کے مصداق آپ سے اجازت چاہوں گا۔ کہ میرا مقصودِ تحریر تھا محفل کے قارئین کو خود امریکی قوانین کے تحت دہشت گردی کی تعریف سے روشناس کروانا اور ، میری دانست میں ، میں یہ کام مکمل کر چکا ہوں۔
 

ساجد

محفلین
مجھے سمجھ نہیں‌آتا کہ اب تک دہشت گردی کی تعریف ہماری عقل و دانش میں کیوں نہیں واضح ہو پارہی ہے، لیکن ایک سادہ سا سوال آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‌اس کا جواب اپنے دل کی تمام تر سچائیوں سے دیجئے گا۔ امریکہ کے ڈرون حملوں سے کون ہلاک ہو رہا ہے اور وہ کتنے معصوم ہیں، اور دہشت گردوں‌کے خود کش حملوں سے ہمارے شہروں، مساجد، اسکول، کالجز ، بازاروں میں کون ہلاک ہو رہا ہے، شاید جواب مل جائے۔
فاروقی صاحب ، پہلی بار آپ سے شرف نیاز حاصل ہونے پہ اپنی نیک خواہشات کا ہدیہ پیش کرتا ہوں۔
عالی وقار ، عرض یہ ہے کہ دہشت گردی صرف دہشت گردی ہوتی چاہے وہ کوئی گروہ کرے یا ملک۔ اور یہاں میں نے گروہ و ممالک کے ذکر کے بغیر دہشت گردی کی سادہ اور عام فہم تعریف کی درخواست کی تھی تا کہ ہم کسی ایک کسوٹی پہ تو دہشت گردی اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو پرکھ سکیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

ذرا یہ بھی فرمائیے کہ اقوام متحدہ نے کسی ملک کو کب سے اختیار دے دیا کہ وہ دیگر ممالک کی فضائی حدود میں گھس کر اس کے شہریوں پہ بم برسائے؟۔

يہ کوئ ڈھکی چپھی بات نہيں ہے کہ امريکہ اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف باہم اتحادی ہيں۔ انکی باہمی تعاون اور وسائل کا اشتراک اس حکمت عملی کا حصہ ہےجس کا مقصد افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں کے دونوں طرف موجود اس مشترکہ دشمن کا خاتمہ ہے جو بے گناہ افراد کو بے دريخ قتل کر رہا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

فاتح

لائبریرین
ميں امريکہ اور طالبان کو ايک ہی پلڑے ميں ڈالنے کے حوالے سے آپ کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر آپ کا اشارہ امريکی اور نيٹو افواج کی فوجی کاروائ کے نتيجے ميں نادانستہ طور پر ہلاک ہونے والے بے گناہ شہريوں کی جانب ہے تو اس ضمن ميں آپ کو يہ حقيقت تسليم کرنا پڑے گی کہ کسی بھی فوجی تنازعے ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت ايک تلخ حقيقت ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ ان فوجی کاروائيوں کے دوران خود امريکی اور نيٹو کے کئ فوجی "فرينڈلی فائر" کے واقعات کے نتيجے ميں بھی ہلاک ہو چکے ہيں۔ طالبان اور ان سے منسلک القائدہ اور دوسری جانب عالمی اتحادی فوجيوں کی کاروائيوں ميں سب سے واضح فرق يہ ہے کہ طالبان اور القائدہ کے دہشت گرد دانستہ بے گناہ شہريوں کو ٹارگٹ کرتے ہيں جبکہ اس کے مقابلے ميں امريکہ اور اس کے اتحادی ان قواعد وضوابط کے پابند ہوتے ہیں جس سے اس طرح کے واقعات ميں ہر ممکن کمی مقصود ہوتی ہے۔

کسی بھی تنازعے کے ميرٹ اور اس کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ان واقعات کا غير جانب دارانہ تجزيہ کرنا چاہيے جو بالاخر ايک فوجی کاروائ کی صورت اختيار کر جاتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ پر ان تنازعات کو شروع کرنے کا الزام نہيں لگايا جا سکتا۔ 911 کے واقعات سے بہت پہلے دہشت گردوں نے امريکہ کے خلاف کھلی جنگ کا باقاعدہ اعلان کر ديا تھا۔ القائدہ کے دہشت گردوں کی جانب سے دنيا بھر ميں امريکی شہريوں کو نشانہ بنايا جا رہا تھا اور طالبان کی ليڈرشپ نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے باوجود عالمی برادری سے تعاون اور حمايت سے صاف انکار کر ديا تھا۔

اکتوبر 1999 ميں اقوام متحدہ کی جانب سے منظور کردہ قرداد نمبر 1267 ميں يہ واضح درج ہے کہ طالبان کی جانب سے اسامہ بن لادن کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کی حکومت سے اسامہ بن لادن کو حکام کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی اس قرارداد کا حصہ ہے۔

http://www.un.org/Docs/sc/committees/1267/1267ResEng.htm

يہاں ميں آپ کو ايک اور دستاويز کا لنک دے رہا ہوں جو امريکی حکومت اور طالبان کے مابين اسامہ بن لادن کے حوالے سے ہونے والے روابط کو مزيد واضح کرے گا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1195115&da=y

ستمبر 11 2001 کا واقعہ وہ نقطہ تھا جس پر تمام مذاکرات، مطالبات، قراردادوں اور رپورٹس کا سلسلہ منقطع ہو گيا۔ يہ واضح ہو چکا تھا کہ دہشت گردی کو روکنے، بے گناہ انسانوں کو محفوظ رکھنے اور اسامہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے ميں لانے کے ليے فوجی کاروائ آخری آپشن ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی يہ لکھا تھا کہ تاريخ کے کسی بھی فوجی تنازعے کی طرح دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کے نتيجے ميں بھی بے گناہ انسانوں کی ہلاکت ايک تلخ حقيقت ہے ليکن آپ کو يہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ کون سا فريق دانستہ بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ يہ وہي لوگ ہيں جو اس تنازعے کو شروع کرنے کا موجب بنے تھے اور جنھوں نے مذاکرات، قراردادوں اور پرامن طريقوں سے کی جانے والی ہر کوشش اور دہشت گردی کی وبا کو روکنے کے لیے کيے جانے والے تمام مطالبات کو يکسر مسترد کر ديا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

فواد صاحب! میں سیاست کا بندہ ہوں ہی نہیں کہ اس قدر تفصیل لکھنا تو کجا پڑھ بھی سکوں۔ میں تو کبھی کبھار بھولا بھٹکا سیاست کے زمروں آپ ایسے جید علما کی صحبت سے مستفیض ہونے آ نکلتا ہوں کہ
عالموں کے ساتھ رہ کر میں بھی جیِّد ہو گیا
پہلے جانے کیا تھا رفتہ رفتہ سیِّد ہو گیا:rollingonthefloor:
یقین کیجیے آپ کا پہلا جملہ پڑھ کر ایک گوناگوں مسرت محسوس کر رہا ہوں کہ ہم سے تیسری دنیا کے لوگوں کی بھی کوئی "منطق" آپ کی سمجھ سے بالا رہی۔:grin:
امریکا اور طالبان کی "مساوات" محض انتہا پسندی تک محدود ہے بلکہ اس میں بھی یقیناً امریکا بازی مار گیا ہے:

  • طالبان اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنے ہی خود ساختہ قانون کے تحت امریکی حکومت کو معتوب گردانتے ہیں اور نقصان معصوم امریکی شہریوں کو پہنچاتے ہیں بعینہ اسی طرح امریکا اپنی مرضی کے خود ساختہ قانون کے تحت طالبان کو کچلنا چاہتا ہے اور قتل معصوم افغانی، عراقی و پاکستانی عوام کا کرتا ہے۔
  • نہ تو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری طالبان کرتے ہیں نہ امریکا۔
  • نہ ہی طالبان کو پرواہ ہے اپنے ساتھیوں کے مرنے کی اور نہ امریکا کو ہی یہ فکر ستاتی ہے کہ کتنے امریکی خاندان اس بدمعاشی کی نذر ہوتے ہیں۔
  • اس لڑائی میں فتح طالبان کا مطمع نظر ہے تو جیتنا امریکی حکومت کی ضد۔
  • اقوامِ متحدہ کی جانب سے دی گئی تنبیہ کو نہ تو طالبان کسی کھاتے میں لکھتے ہیں اور نہ ہی امریکا کے کان پر جوں رینگتی ہے۔
شاید اب آپ میں میری "منطق" کو سمجھنے کی کسی قدر سکت پیدا ہو گئی ہو۔

فواد صاحب! کچھ اعداد و شمار کے حوالے سے بتائیے گا اب تک طالبان نے انتہا پسندی میں بشمول 11 ستمبر کے واقعہ کے کتنا جانی نقصان کیا ہے اور صاحب بہادر امریکا نے اپنی نام نہاد جوابی انتہا پسندی میں کتنا؟ موازنہ درکار ہے۔
نیز دہشت گردی کے قوانین اور ملکی دائرۂ اختیار (jurisdiction) کی حدود کے متعلق بھی کچھ ارشاد ہو۔
 

ساجد

محفلین
يہ کوئ ڈھکی چپھی بات نہيں ہے کہ امريکہ اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف باہم اتحادی ہيں۔ انکی باہمی تعاون اور وسائل کا اشتراک اس حکمت عملی کا حصہ ہےجس کا مقصد افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں کے دونوں طرف موجود اس مشترکہ دشمن کا خاتمہ ہے جو بے گناہ افراد کو بے دريخ قتل کر رہا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
فواد صاحب ، "دہشت گردی" پہ آپ کے طویل و بلیغ مراسلے پڑھنے اور اب سرحد کے دونوں طرف کے "دشمن" جیسے الفاظ پڑھ کر بے اختیا ایک شعر میرے ہونٹوں پہ آگیا۔۔۔۔۔کچھ یوں فرمایا ہے شاعر نے،
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
ل۔و آپ اپن۔ے دام میں صی۔اد آ گیا​
خیر یہ سب تو چلتا رہتا ہے ۔ ہو سکے تو سائل کے سوالوں کا جواب عنایت فرمائیے۔
 

فاتح

لائبریرین
مجھے سمجھ نہیں‌آتا کہ اب تک دہشت گردی کی تعریف ہماری عقل و دانش میں کیوں نہیں واضح ہو پارہی ہے، لیکن ایک سادہ سا سوال آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‌اس کا جواب اپنے دل کی تمام تر سچائیوں سے دیجئے گا۔ امریکہ کے ڈرون حملوں سے کون ہلاک ہو رہا ہے اور وہ کتنے معصوم ہیں، اور دہشت گردوں‌کے خود کش حملوں سے ہمارے شہروں، مساجد، اسکول، کالجز ، بازاروں میں کون ہلاک ہو رہا ہے، شاید جواب مل جائے۔

انیس صاحب! آپ کے سوال کا انتہائی سادہ اور مبنی بر حق جواب یہ ہے کہ حملے خواہ امریکا کے ڈرون کے ذریعے ہوں یا خود کش بمباروں کے ذریعے ان سے میرے ماں باپ، میرے بھائی، میری بہنیں، میرے بچے ہی یا تو مر رہے ہیں اور یا ان کی سروں سے شفیق ماں باپ، روزی کمانے والے بیٹے، دکھ درد کے ساتھی شوہر اور بیویاں بچھڑ رہے ہیں۔ اور جو معدودے چند خوش نصیب ان دو قسم کے حملوں میں بچ جاتے ہیں وہ تا عمر کسی جسمانی معذوری کے باعث اس بچ جانے کو بد نصیبی سمجھتے ہیں۔:(:(:(
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

امریکا اور طالبان کی "مساوات" محض انتہا پسندی تک محدود ہے بلکہ اس میں بھی یقیناً امریکا بازی مار گیا ہے:

  • طالبان اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنے ہی خود ساختہ قانون کے تحت امریکی حکومت کو معتوب گردانتے ہیں اور نقصان معصوم امریکی شہریوں کو پہنچاتے ہیں بعینہ اسی طرح امریکا اپنی مرضی کے خود ساختہ قانون کے تحت طالبان کو کچلنا چاہتا ہے اور قتل معصوم افغانی، عراقی و پاکستانی عوام کا کرتا ہے۔
  • نہ تو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری طالبان کرتے ہیں نہ امریکا۔
  • نہ ہی طالبان کو پرواہ ہے اپنے ساتھیوں کے مرنے کی اور نہ امریکا کو ہی یہ فکر ستاتی ہے کہ کتنے امریکی خاندان اس بدمعاشی کی نذر ہوتے ہیں۔
  • اس لڑائی میں فتح طالبان کا مطمع نظر ہے تو جیتنا امریکی حکومت کی ضد۔
  • اقوامِ متحدہ کی جانب سے دی گئی تنبیہ کو نہ تو طالبان کسی کھاتے میں لکھتے ہیں اور نہ ہی امریکا کے کان پر جوں رینگتی ہے۔
شاید اب آپ میں میری "منطق" کو سمجھنے کی کسی قدر سکت پیدا ہو گئی ہو۔

فواد صاحب! کچھ اعداد و شمار کے حوالے سے بتائیے گا اب تک طالبان نے انتہا پسندی میں بشمول 11 ستمبر کے واقعہ کے کتنا جانی نقصان کیا ہے اور صاحب بہادر امریکا نے اپنی نام نہاد جوابی انتہا پسندی میں کتنا؟ موازنہ درکار ہے۔

يہ واضح رہے کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ اور اس کے نتائج کی مکمل ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عالمی برادری کے مطالبات اور اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قراردادوں کو يکسر نظرانداز کر ديا تھا۔ اس وقت بھی تشدد کی لہر طالبان کی مرہون منت ہے۔

ہر ملک کی يہ ذمہ داری اور اس کا يہ حق ہے کہ اپنے شہریوں کی حفاظت کو يقينی بنائے۔ يہ اختيار اقوام متحدہ کے چارٹر ميں واضح کيا گيا ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کو عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے وضح کردہ قوانين کے تحت يہ اختيار حاصل تھا کہ وہ 911 جيسے مزيد واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔

بلکہ امريکہ پر شايد يہ الزام لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ نے اس وقت بروقت اقدامات نہيں اٹھائے جب دہشت گردوں نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر ديا تھا اور وہ طالبان کی حکومت کے سائے تلے اپنے آپ کو منظم کر رہے تھے۔

جہاں تک طالبان اور امريکی حکومت کے اقدامات ميں مماثلت کے حوالے سے آپ کی را‎ئے ہے تو ميں واضح کر دوں کہ طالبان کے برخلاف امريکی حکومت کے اقدامات پاکستان اور افغانستان کے عوام کے خلاف نہيں ہيں۔ ہمارا ٹارگٹ اور مقصد صدر اوبامہ کے الفاظ کے مطابق القائدہ کی شکست وریخ اور مکمل خاتمہ ہے۔ ليکن اس کے ساتھ ساتھ يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے جو برسا برس کی خانہ جنگی اور طالبان کے نظام کے زير اثر دہشت گردی کا اڈہ بن چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کو ساتھ ملا کر عدل و انصاف پر مبنی ايک ايسا معاشرہ تشکيل ديا جائے جس ميں سب کو ان کے بنيادی حقوق مل سکيں۔

اس ضمن ميں جو اعدادوشمار ميں نے يو-ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں ان کی روشنی ميں يہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں صرف طاقت کے استعمال پر يقين رکھتا ہے۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ برسا برس کی سول جنگوں کے بعد افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔

http://img502.imageshack.us/my.php?image=96154060ez8.jpg

http://img522.imageshack.us/my.php?image=59764280ff7.jpg

http://img522.imageshack.us/my.php?image=65286244iv9.jpg

اب ان اقدامات کا طالبان اور دہشت گرد گروہوں کی کاروائيوں سے موازنہ کریں جو تشدد اور بلا امتياز خون خرابے کے ذريعے اپنی رٹ قائم کرنے کے درپے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں امريکی کاوشوں کا طالبان کے طريقہ کار سے موازنہ کيا جا سکتا ہے؟

جہاں تک امريک اور طالبان کی جانب سے بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو ميں اس بات سے انکاری نہيں ہوں کہ افغانستان ميں بے گناہ شہری اور امريکی اور نيٹو فوجی ہلاک ہوئے ہيں۔ دہشت گردی کے فوجی کاروائ ميں سب سے بڑا چيلنج يہ ہے کہ دہشت گرد کسی مخصوص يونيفارم ميں اپنے آپ کو منظر عام پر لے کر نہيں آتے اور نہ ہی وہ کسی عسکری معرکے ميں طے شدہ اصول و ضوابط کی پيروی کرتے ہيں۔ اس معرکے کے ليے کوئ ميدان جنگ بھی مخصوص نہيں ہے۔ دہشت گرد ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو نہ صرف عام شہريوں کی صف ميں شامل رکھيں بلکہ ضرورت پڑنے پر انھيں بطور ڈھال بھی استعمال کريں۔

اس حقیقت کے باوجود آپ اس بحث کے دوسرے پہلو کو بھی مدنظر رکھيں۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف کاروائ کے نتيجے ميں کتنی جانيں بچائ جا چکی ہيں؟

جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں رائے کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
۔
 

ساجد

محفلین
يہ واضح رہے کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ اور اس کے نتائج کی مکمل ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عالمی برادری کے مطالبات اور اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قراردادوں کو يکسر نظرانداز کر ديا تھا۔ اس وقت بھی تشدد کی لہر طالبان کی مرہون منت ہے۔

ہر ملک کی يہ ذمہ داری اور اس کا يہ حق ہے کہ اپنے شہریوں کی حفاظت کو يقينی بنائے۔ يہ اختيار اقوام متحدہ کے چارٹر ميں واضح کيا گيا ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کو عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے وضح کردہ قوانين کے تحت يہ اختيار حاصل تھا کہ وہ 911 جيسے مزيد واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔

بلکہ امريکہ پر شايد يہ الزام لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ نے اس وقت بروقت اقدامات نہيں اٹھائے جب دہشت گردوں نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر ديا تھا اور وہ طالبان کی حکومت کے سائے تلے اپنے آپ کو منظم کر رہے تھے۔

جہاں تک طالبان اور امريکی حکومت کے اقدامات ميں مماثلت کے حوالے سے آپ کی را‎ئے ہے تو ميں واضح کر دوں کہ طالبان کے برخلاف امريکی حکومت کے اقدامات پاکستان اور افغانستان کے عوام کے خلاف نہيں ہيں۔ ہمارا ٹارگٹ اور مقصد صدر اوبامہ کے الفاظ کے مطابق القائدہ کی شکست وریخ اور مکمل خاتمہ ہے۔ ليکن اس کے ساتھ ساتھ يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے جو برسا برس کی خانہ جنگی اور طالبان کے نظام کے زير اثر دہشت گردی کا اڈہ بن چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کو ساتھ ملا کر عدل و انصاف پر مبنی ايک ايسا معاشرہ تشکيل ديا جائے جس ميں سب کو ان کے بنيادی حقوق مل سکيں۔

اس ضمن ميں جو اعدادوشمار ميں نے يو-ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں ان کی روشنی ميں يہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں صرف طاقت کے استعمال پر يقين رکھتا ہے۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ برسا برس کی سول جنگوں کے بعد افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔

http://img502.imageshack.us/my.php?image=96154060ez8.jpg

http://img522.imageshack.us/my.php?image=59764280ff7.jpg

http://img522.imageshack.us/my.php?image=65286244iv9.jpg

اب ان اقدامات کا طالبان اور دہشت گرد گروہوں کی کاروائيوں سے موازنہ کریں جو تشدد اور بلا امتياز خون خرابے کے ذريعے اپنی رٹ قائم کرنے کے درپے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں امريکی کاوشوں کا طالبان کے طريقہ کار سے موازنہ کيا جا سکتا ہے؟

جہاں تک امريک اور طالبان کی جانب سے بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو ميں اس بات سے انکاری نہيں ہوں کہ افغانستان ميں بے گناہ شہری اور امريکی اور نيٹو فوجی ہلاک ہوئے ہيں۔ دہشت گردی کے فوجی کاروائ ميں سب سے بڑا چيلنج يہ ہے کہ دہشت گرد کسی مخصوص يونيفارم ميں اپنے آپ کو منظر عام پر لے کر نہيں آتے اور نہ ہی وہ کسی عسکری معرکے ميں طے شدہ اصول و ضوابط کی پيروی کرتے ہيں۔ اس معرکے کے ليے کوئ ميدان جنگ بھی مخصوص نہيں ہے۔ دہشت گرد ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو نہ صرف عام شہريوں کی صف ميں شامل رکھيں بلکہ ضرورت پڑنے پر انھيں بطور ڈھال بھی استعمال کريں۔

اس حقیقت کے باوجود آپ اس بحث کے دوسرے پہلو کو بھی مدنظر رکھيں۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف کاروائ کے نتيجے ميں کتنی جانيں بچائ جا چکی ہيں؟

جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں رائے کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
۔
فواد صاحب ، اگرچہ آپ کا جوابی مراسلہ فاتح کے نام ہے لیکن اس بحث کا ایک فریق ہونے کے ناطے آپ کو سلیوٹ کرتا ہوں کہ آپ انتہائی مستقل مزاج اور ثابت قدم ہیں۔ خون کی بہتی ندیاں، ملبے کا ڈھیر بنتے ممالک ، مسخ شدہ لاشیں، لوگوں کی آہ و زاریاں ، جنگ کی تباہ کاریاں اور ان کے نتیجے میں بڑھتا ہوا افلاس ، ننگ ، بھوک ، جہالت اور بدامنی بھی آپ کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کر سکے۔ تو پھر "ساجد" کیا چیز ہے۔
آپ کے اس مراسلے پہ تبصرہ کیا کروں کہ شاید آپ خود بھی نہیں جانتے کہ بین الاقوامی قوانین کو پامال کر نے والوں کی وکالت کر کے آپ کس خطرناک روش کی حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں اور قتل و خون ریزی کو مسیحائی کا نام دے کر کتنی بڑی نا انصافی کر رہے ہیں۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو ہدایت نصیب فرمائے۔ اب آپ جانیں یا فاتح بھائی۔
والسلام علیکم و رحمۃاللہ۔
 
فواد صاحب ، "دہشت گردی" پہ آپ کے طویل و بلیغ مراسلے پڑھنے اور اب سرحد کے دونوں طرف کے "دشمن" جیسے الفاظ پڑھ کر بے اختیا ایک شعر میرے ہونٹوں پہ آگیا۔۔۔۔۔کچھ یوں فرمایا ہے شاعر نے،
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
ل۔و آپ اپن۔ے دام میں صی۔اد آ گیا​
خیر یہ سب تو چلتا رہتا ہے ۔ ہو سکے تو سائل کے سوالوں کا جواب عنایت فرمائیے۔

فواد،

ویسے یہ بھی خوب خبر ہے کہ پاکستان اور امریکہ دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی ہیں۔

پاکستان وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرتا ہے اور بھرپور تیاری اور پلاننگ کے ساتھ اور اس کا سب سے بڑا اتحادی اور جنگ کا آغاز کرنے والا اور دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ جدوجہد کرنے والا ملک پاکستان کے ساتھ جڑی افغانستان کی سرحد پر قائم اپنی چوکیاں خالی کر دیتا ہے تاکہ جس دہشت گرد نے پاکستان میں جا کر اپنے دہشت گرد بھائیوں کی مدد کرنی ہے پاکستان فوج کے خلاف وہ آسانی سے کر لے اور انہیں نیٹو اور امریکی فوج کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہی دوستی ہے تو دشمنی کس کو کہتے ہیں اور اگر ایسے ہی دوست ہوں‌ تو پھر دشمنوں کی کس کافر کو حاجت ہے۔

غالب نے شاید امریکہ کے بارے میں ہی فرمایا تھا کہ

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
 

ساجد

محفلین
کوئی سنتا ہی نہیں یہ پند و نصیحت ناصح
آپ ک۔یوں ک۔ہہ کے گ۔نہ گار ہ۔وا کرت۔ے ہیں
(داغ دہلوی)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

فواد،

ویسے یہ بھی خوب خبر ہے کہ پاکستان اور امریکہ دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی ہیں۔

پاکستان وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرتا ہے اور بھرپور تیاری اور پلاننگ کے ساتھ اور اس کا سب سے بڑا اتحادی اور جنگ کا آغاز کرنے والا اور دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ جدوجہد کرنے والا ملک پاکستان کے ساتھ جڑی افغانستان کی سرحد پر قائم اپنی چوکیاں خالی کر دیتا ہے تاکہ جس دہشت گرد نے پاکستان میں جا کر اپنے دہشت گرد بھائیوں کی مدد کرنی ہے پاکستان فوج کے خلاف وہ آسانی سے کر لے اور انہیں نیٹو اور امریکی فوج کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہی دوستی ہے تو دشمنی کس کو کہتے ہیں اور اگر ایسے ہی دوست ہوں‌ تو پھر دشمنوں کی کس کافر کو حاجت ہے۔

غالب نے شاید امریکہ کے بارے میں ہی فرمایا تھا کہ

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

آپ نے جس ايشو کی جانب اشارہ کيا ہے وہ ايک غلط عمومی تاثر کی بنياد پر ہے جس کی ابتدا قدسيہ خالد کے روزنامہ "دی نيوز" ميں شائع ہونے والے ايک آرٹيکل سے ہوئ تھی۔

اس تاثر اور ايشو کے منظر عام پر آنے کے بعد جرنل ميککرسٹل کے ترجمان امريکی فضائيہ کے ليفٹنٹ کرنل ٹاڈ شولٹس نے اپنے اس بيان کے ذريعے واضح ترديد کی تھی

"يہ درست ہے کہ ڈيورنڈ لائن کے ساتھ بارڈر سيکورٹی ناقابل تسخير نہيں ہے ليکن ہم نے اس ميں کوئ نرمی نہيں کی ہے۔ ہم نے ہميشہ يہ موقف واضح کيا ہے کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف ليے جانے والے اقدامات افغانستان کی سيکورٹی کے ليے فائدہ مند ہيں اسے ليے ہمارے پاس ايسی کوئ وجہ نہيں ہے کہ ہم ان آپريشنز ميں رکاوٹ پيدا کرنے کے ليے کوئ اقدامات اٹھائيں"۔

يہ واضح ہے کہ پاکستان ميں کچھ اخبار نويسوں نے اس طويل المدت امريکی پاليسی کو غلط انداز ميں پيش کيا جس کے مطابق يہ فيصلہ کيا گيا تھا کہ دور دراز علاقوں کی چيک پوسٹس سے فوجی ہٹا کر ملک کے ان حصوں پر جاری آپريشنز پر توجہ مرکوز کی جائے جہاں بڑی تعداد ميں انسانی آبادی موجود ہے۔ يہ درست ہے کہ آئ – ايس – اے – ايف، نيٹو کمانڈ اور افغانستان نے حاليہ ہفتوں ميں سرحدی علاقوں ميں ريموٹ چيک پوسٹس پر فوجيوں کی پوزيشن ميں ردوبدل کيا ہے ليکن يہ پوسٹس سرحدی چيک پوانٹس نہيں تھيں اور ان اقدامات کا وزيرستان ميں جاری پاکستانی آپريشنز سے کوئ تعلق نہيں تھا۔ ان فيصلوں کا براہراست تعلق آئ – ايس – اے – ايف کی عوام کے تحفظ کو يقينی بنانے کے ليے انسانی آباديوں کے قريب جاری آپريشنز پر توجہ مرکوز کرنے کے ليے پاليسی ميں تبديلی سے ہے۔

ميں آپ کو ياد دلا دوں کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد ميں امريکی فوجيں افغانستان کے اندر موجود ہيں اور روزانہ ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائياں کی جا رہی ہيں۔ امريکہ کی جانب سے دہشت گردوں کو محفوظ راستہ دينے کی اس غير منطقی سوچ کا مطلب يہ ہے کہ افغانستان کے اندر موجود امريکی فوجيوں کی جانوں کو براہراست خطرے ميں ڈالنے کے علاوہ افغانستان ميں قيام امن کے لیے امريکی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔

يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ افغانستان ميں امريکہ کے علاوہ نيٹو کے درجنوں ممالک کی افواج بھی موجود ہيں۔ کيا يہ ممکن ہے کہ يہ تمام ممالک براہراست اپنی فوجيوں کی زندگی خطرے ميں ڈالنے پر آمادہ ہو جائيں صرف اس بنا پر کہ پاکستان کی افواج کی مشکلات ميں اضافہ کيا جا سکے؟ ان الزامات ميں منطق اور دانش کا کوئ پہلو نہيں ہے۔

پاکستان کی حکومت نے اپنی حدود کے اندر دہشت گردی کے خاتمے کے ضمن ميں اپنے مصمم ارادے کا اعادہ کيا ہے اور امريکی اور نيٹو افواج پاکستان کے قبائلی علاقوں ميں ان کاروائيوں کی مکمل حمايت اور سپورٹ کر رہی ہيں۔

امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کی امداد کے جو مختلف پروگرامز مرتب کيے گئے ہيں اس ميں دفاع کے حوالے سے امداد کے پروگرامز بھی شامل ہيں۔ ان کا واحد مقصد دہشت گردی کے عفريت اور ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ ميں پاکستان کی مدد کرنا ہے جو امريکی اور نيٹو افواج سميت اس خطے کے تمام "اسٹيک ہولڈرز" کے لیے يکساں خطرہ ہيں۔

يہ بھی واضح رہے کہ امريکی اور پاکستانی افواج کے اہم عہديداروں کے مابين باہمی روابط کے تمام چينل بحال ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ جرنل کيانی اور جرنل ميککرسٹل مختلف ايشوز پر تبادلہ خيال کے ليے مستقل بنيادوں پر ملاقاتيں کرتے رہتے ہيں۔

اس وقت پاکستان کی فوج امريکہ سے فوجی سازوسامان اور امداد لينے والے ممالک ميں سرفہرست ہے۔ آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ پاکستان کی فوج امريکہ سے يہ امداد قبول کرتی اگر اسے امريکی اقدامات اور ارادوں کے حوالوں سے يہ يقين ہوتا کہ يہ پاکستان کے مفاد ميں نہيں ہيں؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top