گھر کی چھت سے سامنے ٹینکی کا منظر
یہ منظر دیکھا تو پہلے تو افسوس اور دکھ ہوا کہ بچے اپنے جان خطرہ میں ڈال کر ٹینکی پر چڑھ گئے ہیں، اور فاتحانہ انداز سے تصویر کھینچوا رہے ہیں۔
پھر خیال آیا کہ یہاں رہتے ہوئے 11 سالوں میں کتنی ہی دفعہ یہ خواہش دل میں جاگی کہ اس ٹینکی پر چڑھ کر منظر دیکھا جائے، مگر کبھی ہمت نہ ہوئی۔ آج ان بچوں نے ہمت کر لی تو یہ اپنی بے ہمتی کا غصہ تو کہیں ان بچوں پر نہیں نکل رہا؟
ساتھ ہی یہ احساس اجاگر ہوا کہ
چھوٹے چھوٹے اہداف اور ان کی تکمیل پر طمانیت کا احساس بچپن میں ہی ہو سکتا ہے۔
جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا ہے، اہداف بھی بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ اور جب کوئی ہدف حاصل ہو جائے تو طمانیت کے احساس کے بجائے اس سے اگلا ہدف حاصل کرنے کی طلب پنپنے لگتی ہے، اور پہلے ہدف کی تکمیل محض ایک معمولی قدم محسوس ہوتا ہے۔
چھوٹے چھوٹے اہداف کو اہمیت دیجیے، یہی بڑے اہداف تک پہنچاتے ہیں۔ ان کو معمولی مت سمجھیے۔