فیصل عظیم فیصل
محفلین
تُم نے بے فائدہ اس راہ میں پتھر رکھا
ہم تو دیوار گراتے ہوئے آئے ہیں یہاں
راہ کا پتھر جلتا جلتا راکھ ہوا پھر لعل بنا
زیرک ظالم عشق کی کیمسٹری کو دیکھ
غریب شخص تھا مزدور بے لباس رہاکسی غریب آدمی کا دُکھتا قدم اگر جا پرا کسی دن
تو کہکشاں کے حسین ذرات حشر تک نوحہ خواں رہیں گے
وہ گھر کے واسطے کام و دہن کماتا تھا
صرف پانی ہے جان کر ان کوابر دیکھوں تو برس پڑتی ہیں آنکھیں نجمی
تھل کا باسی ہوں، مقدر سے جھڑی ملتی ہے
عمیر نجمی
یوں بہانا کبھی درست نہیں
سہ غدودی ہے آنسوؤں کا وجود
یوں تھکانا انہیں درست نہیں
کیمیا ان کی تین عنصر ہے
ملح و مائے کثیف و لحم خفی