کیمیا اور کیمسٹری کے اشعار

تُم نے بے فائدہ اس راہ میں پتھر رکھا
ہم تو دیوار گراتے ہوئے آئے ہیں یہاں

راہ کا پتھر جلتا جلتا راکھ ہوا پھر لعل بنا
زیرک ظالم عشق کی کیمسٹری کو دیکھ

کسی غریب آدمی کا دُکھتا قدم اگر جا پرا کسی دن
تو کہکشاں کے حسین ذرات حشر تک نوحہ خواں رہیں گے
غریب شخص تھا مزدور بے لباس رہا
وہ گھر کے واسطے کام و دہن کماتا تھا

ابر دیکھوں تو برس پڑتی ہیں آنکھیں نجمی
تھل کا باسی ہوں، مقدر سے جھڑی ملتی ہے
عمیر نجمی
صرف پانی ہے جان کر ان کو
یوں بہانا کبھی درست نہیں
سہ غدودی ہے آنسوؤں کا وجود
یوں تھکانا انہیں درست نہیں
کیمیا ان کی تین عنصر ہے
ملح و مائے کثیف و لحم خفی
 
نہ جانے خلقِ خدا کون سے عذاب میں ہے
ہوائیں چیخ پڑیں التجا کے لہجے میں
افتخار عارف
کثیر خلق خدا ہے ہوا کے دھوکے میں
یہ جاگ کر ہی پکارے گا وائے العبثی
-----------------------
ہوا ہے آب سے نکلا ہوا وہی عنصر
کہ جس کو لوگ حقیقت گمان کرتے ہیں
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
شہرِ گل کے خس و خاشاک سےخوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اُسی خاک سےخوف آتا ہے
افتخار عارف
 
بچھتی تھیں جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں
اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ
پھولوں کی چادروں کا بچھانا عظیم ہے
لیکن یہ کیمیا بھی کہیں دور چھپ گئی
کاغذ کی کشتیوں میں سواری کا شوق تھا
اب یہ شکایتیں ہیں ''کنارہ نہیں ملا''
کاغذ کی کشتیوں میں سواری کے شوق میں
جو دور نکلتے ہیں کنارے سے خوب ہے
یہ جانتے ہیں ڈوبنا ان کا ہے مقدر
پھر بھی وہ آسمان و ہوا اور دھوپ ہے
سماتا جب کبھی جلوہ الٰہی قلب مومن میں
یہ کیمیا سی کیمیا بے مثل و خوب ہے
 

جاسمن

لائبریرین
عمل انشقاق
یہ جو دنیا کا کھیل ہے پیارے
سب عناصر کا میل ہے پیارے
کچھ تو ناپائیدار ہوتے ہیں
اور کچھ پائیدار ہوتے ہیں
ان میں یورینم ہے اک عنصر
جو کہ فطرت میں ہے شکستہ تر
اس میں خوبی جو ایک ہے پائی
اس کا مرکز نری توانائی
اس کو باہر نکالتے ہیں ہم
کام اپنے سنوارتے ہیں ہم
حسن تدبیر سے نکلتی ہے
کام تخریب کے بھی کرتی ہے
آئیے اس کو توڑتے ہیں
اس کے مرکز کو پھوڑتے ہیں
نہ تو ڈنڈے سے نہ ہی روڑے سے
یہ نہ ٹوٹے کسی ہتھوڑے سے
بات سن لو بڑے دھیان سے یہ
ٹوٹ جاتا ہے نیوٹران سے یہ
جب بھی نیوٹران اس سے ٹکرائے
مرکزہ اس کا شق ہو جائے
کام ہوتا ہے چند لمحوں میں
ٹوٹ جاتا ہے یہ دو ٹکڑوں میں
بات آساں ہے ہم سمجھ پائے
یہ عمل انشقاق کہلائے
لفظ آسان ہم نے پایا ہے
یہ تو قرآن میں بھی آیا ہے (سورۃ انشقاق)

(اشتیاق احمد)
 

جاسمن

لائبریرین
ENTANGLEMENT!!!
(محمد علی)
اچانک مجھ سے کہتی ہے
فزکس اچھی پڑھاتے ہو
بڑی تفصیل اور تحقیق سے تم بات کرتے ہو
بہت باریک بینی سے بسر دن رات کرتے ہو
توجہ مجھ سے بڑھ کر ہے تمہاری آسمانوں پر
چلو اک امتحاں تو دو
کہ میں جو مل گئی تم کو
کئی بلین بھٹکتی کہکشاؤں کے
کئی بلین ستاروں کے
کئی بلین مداروں میں سے ایک سوئم سیارے پر
کئی بلین مجسموں میں
ملے ہو تم ہی کیوں مجھ کو
ملی ہوں میں ہی کیوں تم کو۔
ذرا سا مسکرا کر میں
مخاطب یوں ہوا اس سے
کہ تم شاید نہ مانو پر
میں ثابت کر دکھاؤں گا
میں ثابت کر دکھاؤں گا!!!
تمہیں مجھ سے ہی ملنا تھا
ذرا یہ ہاتھ پکڑا و۔۔۔۔۔
تمہاری جلد ہے نہ جو
تمہارے پور ہیں نہ جو
جوان پوروں میں خلیے ہیں
کئی بلین جو خلیے ہیں
جو ان خلیوں میں ایٹم ہیں
کئی بلین جو ایٹم ہیں
یہ ایٹم تیری مٹی میں
سمانے سے کہیں پہلے
کئی بلین ستاروں کی
دہکتی تہ میں رہتے تھے
وہاں رہنے سےبھی پہلے
کئی نوری برس لمبے
قد آور بادلوں میں تھے
جہاں یہ رقص کرتے تھے۔۔
تو میرے جسم کے خلیوں کے ایٹم بھی وہیں پر تھے
سو جب میرے تمہارے جسم کے خلیوں کے ایٹم پاس آے نا
تو اک انٹینگلمنٹ کا(RULE)ہوتا ہے یہاں ذروں کی دنیا میں۔۔
کہ موجِ رقص میں ذرےاگر اک دوسرے کی روشنی پی لیں
تو پھر ان کو جدا کرنے کا کوئی (LAW) نہیں ہوتا
سو یوں میرے بدن کے ان گنت خلیوں کے ایٹمز نے
تیرے ایٹمز کو چاہا تھا۔
یہ چاہت توکوئی تیرہ ارب سالوں سے جاری ہے۔
تمہارا ہاتھ جتنی دیر تک میں تھام کر یوں بیٹھ جاتا ہوں
میں اتنی دیر تک انٹینگلمنٹ کی روشنی کا ذائقہ محسوس کرتا ہوں۔۔
سو تم مانو یا نہ مانو
مری ایسی تھیوری کو
مگر یہ مان جاؤ بس
تمہیں مجھ سے ہی ملنا تھا
مجھے تم سے ہی ملنا تھا۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
پیروں سے ٹکراتے ہیں جب جھونکے سرد ہواؤں کے
ہاتھ لرزنے لگ جاتے ہیں چمڑے کے دستانوں میں
(عدنان محسن)
 

سیما علی

لائبریرین
خدا کو یاد کر کیوں ملتجی ہے کیمیا گر سے
کہ سونا خاک سے ہوتا ہے پیدا لعل پتھر سے

بحر لکھنؤی
 

سیما علی

لائبریرین
سُنا ہے عالمِ بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
صفا تھی جس کی خاک پا میں بڑھ کر ساغرِ جَم سے
علامہ اقبال
 

سیما علی

لائبریرین
کی۔۔میا گر نے مجھے جِھڑکا ، کہا ، گھر جاؤ
کچّ۔۔۔۔۔ا لوہا کہ۔۔۔۔اں بنتا ہے ط۔۔۔لا ، گھر جاؤ

سرد تاریکی میں کیوں پھرتے ہو یوں آوارہ
دھوپ پہنا کے مجھے شب نے کہا، گھر جاؤ

قطرہ قطرہ مِری آنکھوں سے نچڑتا گیا درد
اور ہر قط۔۔۔۔۔رہ مجھے کہتا رہا ، گھر جاؤ

“روشنی’ روشنی” چِلّانے سے کب لوٹے گا
چ۔۔۔۔۔اند گنگا میں کہیں ڈوب گی۔۔ا ، گھر جاؤ

میں نے مے خانے میں غالب سے کہا ڈرتے ہوئے
نش۔ّے سے غم نہیں مٹتا ہے ، چچا! گھر جاؤؑ

دو نُکیرین نے دھیرے سے مجھے سمجھایا
زیست اک کھی۔۔ل ہی تھا، ختم ہوا، گھر جاؤ

میلا توختم ہوا، لوگ گھ۔۔۔روں کو ہیں رواں
دھول پھانکو گی یہاں رُک کے؟ بُوآ، گھر جاؤ

“کیا تعجّب ہے جو لڑکوں نے بھلایا گھر کو” ٭
جب کہ بوڑھوں کو کئی بار کہ۔۔۔ا، گھر جاؤ

گونگے صحرا میں بھٹکتے ہوئے اسواروں کو
چ۔۔ار اط۔۔راف سے آتی ہے صدا، گھر جاؤ

شعر بے روح ہیں’ شاعر ہیں سبھی درماندہ
بزم برخ۔۔۔۔۔است ہوئی، بارے خدا، گھر جاؤ

دیکھو ’ آنندؔ ! یہ پھ۔اٹک۔۔ نہیں کُھلنے والا
لوٹ آئے گی تمھ۔۔۔۔۔اری یہ دعا، گھر جاؤ

جناب ستیا پال آنند
 

جاسمن

لائبریرین
دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی
‏یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا
احمد ندیم قاسمی
 
Top