شمشاد
لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 131
کی قلمرو میں پہلے پہل لکھنؤ کا سکہ جاری ہوا۔
اس کے بعد چھٹا دور وہ تھا جب لکھنؤ میں وزیر، صباؔ، رندؔ، گویاؔ، رشکؔ، نسیمؔ دہلوی، اسیرؔ، نواب مرزا شوقؔ اور پنڈت دیا شنکر نسیمؔ صاحبان مثنوی کی شاعری کا غلغلہ بلند تھا۔ اور دہلی میں مومنؔ، ذوق، غالبؔ نغمۂ شاعرانہ سنا رہے تھے۔ اس دور نے سچ یہ ہے کہ زبان کو بہ لحاظ خیالات سب سے زیادہ ترقی کے درجے پر پہنچا دیا۔
اس کے بعد ساتواں دور امیرؔ، داغؔ، منیرؔ، تسلیمؔ، مجروحؔ، جلالؔ، لطافتؔ، افضل اور حکیمؔ وغیرہ کا تھا۔
ان آخری دوروں پر غائر نظر ڈالنے سے صاف نظر آ جاتا ہے کہ فصاحت زبان اور شاعری نے لکھنؤ میں کیسی مضبوط جگہ پکڑ لی تھی۔ چند ہی روز میں شعر کہنا، لکھنؤ میں ایک وضع داری بن گیا اور شُعرا کی یہاں اس قدر کثرت ہو گئی کہ شاید کہیں کسی زمان میں نہ ہوئی ہو گی۔ عورتوں تک میں شعر و سخن کا چرچا ہوا۔ اور جہال کے کلام میں بھی شاعرانہ خیال آفرینیوں، تشبیہوں اور استعاروں کی جھلک نظر آنے لگی۔
(10)
فارسی شاعری کا اصلی اُٹھان مثنوی سے ہوا ہے۔ اور یہ صنفِ شاعری ہمیشہ سب سے زیادہ اہم اور باوقعت سمجھی گئی۔ ابتدا فردوسی کی رزمیہ مثنوی شاہنامے سے پڑی۔ پھر نظامیؔ، سعدیؔ، مولاناے رومؔ، خسروؔ، جامیؔ اور ہاتفیؔ وغرہ نے اس میں اعلا ترین شہرت و نام وری حاصل کی۔ اُردو میں میر تقی میر نے چھوٹی چھوٹی بہت سے مثنویوں دہلی و لکھنؤ کے قیام کے زمانے میں لکھی تھیں۔ مگر وہ اس قدر مختصر اور معمولی ہیں کہ مثنویوں کے تذکرے میں ان کا ذکر بھی بے محل سا معلوم ہوتا ہے۔
مثنوی لکھنے کا آغاز اردو میں میرضاحکؔ کے بیٹے میر غلام حسن حسنؔ سے ہوا جو
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 132
بچپن ہی میں اپنے پدر بزرگ وار کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے تھے۔ یہیں کی صحبت میں اُن کا نشو و نما ہوا تھا، یہیں پرورش پائی تھی، اور یہیں کی آب و ہوا کے آغوش میںان کی شاعری پلی تھی۔ کیوں کہ جس تعلیم اور جس سوسائٹی نے ان کی مثنوی بے نظیر و بدر منیر لکھوائی وہ خالص لکھنؤ کی تھی۔ اسی زمانے میں مرزا محہد تقی خاں ہوسؔ نے مثنوی لیلی مجنوں لکھی۔ اورلکھنؤ میں مثنویت کا مذاق بڑھنا شروع ہوا۔ آتشؔ و ناسخؔ کے زمانے میں تو ذرا خاموشی رہی۔ مگر پھر جو یہ مذاق اُبھرا تو پنڈت دیاشنکر نسیمؔ نے گلزار نسیم، آفتاب الدولہ قلقؔ نے طلسم الفت اور نواب مرزا شوقؔ نے بہارِ عشق، زہر عشق اور فریب عشق لکھیں۔اور انہیں اس قدر عام نمود و شہرت اور عالم گیر مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہر ادنا و اعلا کی زبان پر مثنویوں کے اشعار چڑھ گئے۔ اس سے پیش تر کے زامنے میں کسی صاحب نے مثنوی میر حسن کے جواب میں لذت عشق نام کی ایک مثنوی لکھی تھی، وہ نواب مرزا شوق کی مثنویوں کے ساتھ شائع ہونے کی وجہ سے انہیں کی جانب منسوب ہو گئی۔ لیکن حقیقت میں نہ وہ ان کی ہے اور نہ ان کے زمانے کی ہے۔
ان سب مثنویوں کے دیکھتے، مثنوی گلزار نسیم باوجود عام مقبولیت کے، صدہا غلطیوں سے مملو ہے۔ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نازک خیال نو مشق ہے جو ہر قسم کی شاعرانہ خوبیاں اپنے کلام میں پیدا کرنا چاہتا ہے، مگر قادرُ الکلامی کے نہ ہونے سے قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا ہے اور کسی جگہ اپنے مقصد کو نہیں حاصل کر سکتا۔ اس کے جواب میں آغا علی شمس نے جو ایک بہت ہی کہنہ مشق شاعر تھے، اسی بحرمیں ایک مثنوی لکھی تھی، جس میں غلطیوں سے پاک رہ کے تشبیہات، استعارات اور رعایت لفظی کےکمالات دکھائے تھے۔ مگر افسوس، وہ مثنوی مٹ گئی۔ اور گلزار نسیمؔ کو جو شہرت حاصل ہو چکی تھی، اس پر غالب نہ آ سکی۔ دہلی میں ان دنوں مومن خاں نے چند چھوٹی چھوٹی بے مثل مثنویاں لکھیں، جو
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 133
بہت ہی مقبول اور مشہور ہوئیں۔
مومن خاں کےمذاق شاعری میں نازک خیالی بڑھی ہوئی تھی۔ خیالی تشبیہوں اور استعاروں پر وہ اپنی سخن آفرینی کی عمارت قائم کرتے تھے۔ مثنویوں میں وہ زیادہ تر خیالی جذبات و صفات کو مشخص کر کے اپنے کلام میں ایک خاص لفط پیدا کیا کرتے تھے۔ مومن خاں کے ایک شاگرد نسیم دہلوی، لکھنؤ میں آئے اور یہاں کے مشاعروں میں اپنا رنگ جمایا کہ بہت سے لوگ ان کے شاگرد ہو گئے۔ نسیمؔ دہلوی نے لکھنؤ میں اپنے استاد کے رنگ کو خوب چمکایا۔ اور ان کے شاگرد تسلیم لکھنؤی نے اردو مثنوی میں نظیریؔ و عرفیؔ و صائبؔ کی خیال آرائیاں دکھا دیں اور نظم اردو میں جیتے جاگتے فیضیؔ و غنیمتؔ لا کے کھڑے کر دیے۔ ادھر آخر زمانے میں مولوی میر علی حیدر طباطبائی نظم لکھنؤی نے شراب کی مذمت میں ساقی نامۂ شقشقیہ کے نام سے ایک ایسی بے نظیر اخلاقی نظم اردو پبلک کے سامنے پیش کر دی کہ اس کا جواب نہیں ہو سکتا۔ غرض کہ مومن خاں کی چند مختصر مثنویوں سے اگر قطع نظر کر لی جائے تو اردو مثنوی گوئی کا آغاز بھی لکھنؤ میں ہوا اور ترقی بھی یہیں ہوئی۔
بعض حضرات مثنوی میر حسن اور گلزار نسیم کے ذریعے سے دہلی اور لکھنؤ کی زبان کا مقابلہ و موازنہ کیا کرتے ہیں، جس خیال کو مولوی محمد حسین صاحب آزاد نے اور زیادہ قوت دے دی۔ لیکن اول تو گلزار نسیم کو نظیرؔ اکبر آبادی کے بنجارا نامے کی طرح اگر شہرت ہو بھی گئی تو اُسے مثنوی میر حسن کے مقابلے میں رکھنا، اردو شاعری کی سخت تذلیل و توہین ہے۔ صحیح مقابلہ ہو سکتا ہے تو مثنوی میر حسن اور مثنوی طلسم الفت کا۔ اور اگر گلزار نسیم کی زبان زبردستی لکھنؤ کی زبان مان بھی لی جائے، تو مثنوی میر حسن اور گلزار نسیم کا مقابلہ دہلی اور لکھنؤ کی شاعری کا نہیں بلکہ خود لکھنؤ کی اگلی پچھلی زبانوں کا مقابلہ ہے۔ اس لیے کہ مثنوی میر حسن، لکھنؤ کی پہلی زبان کا نمونہ ہے اور یہ آخری زبان کا۔
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 134
شاعری کی ایک اہم اور قدیم ترین صنف، مرثیہ خوانی ہے۔ قدیم عربی شاعری میں زیادہ تر مرثیے اور رجز ہی شعر و سخن میں اظہار کمال کا ذریعہ تھے۔ فارسی میں مرثیہ خوانی کمزور پڑ گئی تھی لیکن بہ عہد سلاطین صفویہ، ایران میں مذہب شیعہ کو فروغ حاصل ہوا تع مصائب اہل بیت رسالت کی یاد تازہ کرنے کے لیے شعرا کو مرثیہ خوانی کی طرف توجہ ہوئی۔ مولانا محتشم کاشی نے چند بندوں کا ایک بے مثل مرثیہ لکھا تھا جو عموماً مقبول ہوا۔ اس کے بعد سے رواج تھا کہ شعرا کبھی کبھی ماتمِ حسین میں دو ایک مرثیے بھی موزوں کر دیا کرتے۔ لیکن شعر و سخن کی دنیا میں مرثیہ گوئی کی وقعت اس قدر کم تھی کہ مشہور تھا "بگڑا شاعر، مرثیہ گو" پھر جب مذہبی اعتبار سے دولتِ صفویۂ مرحومہ کی جانشین، اودھ کی سلطنت قرار پائی تو لکھنؤ میں مجالس کی ترقی و عزاداری کے جوش و خروش نے مرثیہ گوئی کی ایسی قدردانی کی کہ اس فن کو غیر معمولی عروج حاصل ہونا شروع ہوا اور دراصل لکھنؤ کے عروج کا سارا راز اسی تاریخی واقعے میں مستتر ہے۔ ہندوستان میں مغلوں کی سلطنت تھی جنہوں نے فارسی زبان کو درباری زبان قرار دیا اور فارسی معاشرت ان کی امیرانہ زندگی اور ان کے تمام کمالات کا مرکز تھی۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہر ایرانی ہندوستان میں آتے ہی آنکھوں پر بٹھایا جاتا اور اس کی ہر حرکت اور ہر وضع مقبولیت کی نگاہوں سے دیکھی جاتی۔ دہلی کی سلطنت میں بادشاہوں کا مذہب سُنی ہوجے کی وجہ سے، ایرانی اپنی بہت سی باتوں کو چھپاتے اور وہاں کی محفلوں میں اس قدر شگفتہ نہ ہونے پاتے جس قدر کہ وہ اصل میں تھے۔ اودھ کا دربار شیعہ تھا اور یہاں کا خاندان حکمرانی خاص خراساں سے آیا تھا۔ اس لیے یہاں ایرانی بالکل گُھل گئے۔ اور اپنے اصلی رنگ میں نمایاں ہونے کی وجہ سے وہ جس قدر شگفتہ ہوئے، اسی قدر زیادہ ہم مذہبی کے باعث یہاں کے اہل دربار نے ان کے اوضاع و اطوار کو حاصل کرنا شروع کیا۔ اور ایرانیت جو دراصل ساسانی اور عباسی شان و شوکت کے آغوش میں پلی ہوئی تھی، چند ہی روز کے اندر لکھنؤ کی معاشرت میں سرایت کر گئی۔
عرض سوداؔ و میرؔ کے زمانے میں میاں سکندرؔ، گداؔ، مسکینؔ اور افسردہؔ مرثیہ گو تھے جو چھوٹی
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 135
چھوٹی نظمیں شہادت امام حسینؓ کے بیان میں تصنیف کر کے مجلسوں میں سنا دیا کرتے۔ ان کے بعد میر خلیقؔ اور میر ضمیرؔ نے مرثیہ گوئی کو بہت ترقی دی اور مرثیوں کی موجودہ وضع انہی کے زمانے کی ایجاد ہوئی۔ یہاں تک کہ زمانہ میر ضمیرؔ کے شاگرد مرزا دبیر اور میر خلیقؔ کے صاحب زادے میر انیسؔ کو نام وری کے شہہ نشین پر لایا۔ اور ان دونوں بزرگوں نے مرثیہ خوانی میں ایسے ایسے کمالات شاعری دکھائے کہ شعر و سخن کے آسمان پر آفتاب و ماہ تاب بن کے چمکے۔ وہی مقابلہ جو میرؔ و سوداؔ اور آتشؔ و ناسخؔ میں رہا تھا، اب میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ میں قائم ہوا۔ مرزا دبیر میں شوکتِ الفاظ تھی، بلند خیالی تھی اور علم و فضل کا زور تھا۔ میر انیسؔ میں سادی، بے تکلف اور جذباتِ انسانی پر حکومت کرنے والی زبان کی وہ خوبیاں تھیں جو سوا مبدِأ فیاض کی عنایت کے سیکھنے سے نہیں آ سکتیں۔ ان دونوں بزرگوں نے فن مرثیہ گوئی کو شاعری کی اور تمام اصناف سے بڑھا دیا۔ اور ادبِ اردو میں وہ نئی چیزیں پیدا کر دیں جن کو انگریزی تعلیم کے اثر سے طبیعتیں ڈھونڈنے لگی تھیں۔
انیسؔ و دبیرؔ نے مرثیہ گوئی کو اس درجۂ کمال پر پہنچا دیا تھا کہ اب مرثیہ گوئی بجاے معیوب ہونے کے، سب سے بڑا شاعرانہ ہنر بن گئی تھی۔ تمام اہل لکھنؤ ان دونوں بزرگوں کے اس قدر معرف و مداح ہوئے کہ سارا شہر دو گروہوں میں بٹا ہوا تھا اور ہر سخن سنج یا اینسیاتھا یا دبیریا اور ان دونوں گروہوں میں ہمیشہ باہمی مخالفت رہتی۔
میر انیسؔ ن مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی کو بھی ایک فن بنا دیا۔ یونانیوں کے بعض مقرروں اور خطیبوں کی نسبت سنا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی تقریروں میں اثر پیدا کرنے کے لیے خاص خاص کوششین کی تھیں اور آواز کے نشیب و فراز اور اوضاع و اطوار کے تغیرات سے گفتگو میں اثر پیدا کرتے تھے۔ اسلام کی اس طولانی عمر میں اس نہایت ضروری جن کو اصول کے ساتھ خاص میر انیسؔ نے زندہ کیا۔ الفاظ کے مناسب آواز کے تغیرات اور مضامین کے موافق چہرہ بنا لینے، کلام کو اعضا و جوارح کے متناسب حرکات اور خط و خال کے
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 136
اشارت سے قوت دینے کا فن خاص لکھنؤ کی اور وہ بھی میر انیسؔ کے گھرانے کی ایجاد ہے۔ جس کی ترقی میں اب تک کوششیں جاری ہیں۔ اور ہامرے اسپیکر اپنی فصیح البیانی میں اثر پیدا کرنے کے لیے اگر ان باکمالوں کی شاگردی کریں تو نہایت ہی کامیاب اسپیکر ثابت ہوں۔
ڈراما کا فن سخن جو مغربی شاعری کی جان ہے، اس سے عربی و فارسی کا ادب مطلقاً خالی تھا اور فارسی کی شاگردی کی وجہ سے اردو میں بھی اس کی طرف کبھی توجہ نہیں کی گئی۔ سنسکرت میں اعلا درجے کے ڈراما تھے، مگر ان سے ہندوستان کی آخری سوسائٹی بالکل ناآشنا ہو چکی تھی۔ رام چندر جی اور سری کرشن جی کے کارنامے البتہ ہندوؤں میں مذہبی آداب کے ساتھ دکھائے جاتے تھے۔ مگر اردو شاعری کو ان سے کسی قسم کا تعلق نہ تھا۔ رام چندر جی کے حالات انگلستان کے المپیا کی طرح کھلے میدانوں میں رزمیہ نقالیوں کی شان سے دکھائے جاتے اور سری کرشن جی کے حالات رقص و سرود اور موسیقی کے پیرائے میں مذہبی اسٹیجوں پر بعینہ اُپیرا کے طریقے سے نظر آتے جو "رہس" کہلاتے۔ واجد علیشاہ کو رہس سے خاص دل چسپی پیدا ہو گئی۔ اور رہس کے پلاٹ سے ماخوذ کر کے انہوں نے اپنا ایک ڈراما تیار کیا۔ جس میں وہ کنھیا جی بنتے یا عشق کے ستائے ہوئے جوگی بن کے دھونی رماتے اور بہت سی عورتیں، پریاں اور عاشق مزاج گوپیاں بن کے انہیں ڈھونڈھتی پھرتیں۔ پھر جب قیصر باغ کے میلوں کا دروازہ عوام الناس کے لیے بھی کھل گیا تو سارے شہر کے شوقینوں میں ڈراما کا فن خود بہ خود ترقی کرنے لگا۔ اور چند ہی روز میں اس شوق کو اس قدر ترقی ہوئی کہ بعض مشہور شعرا بھی اس زمانے کے مذاق کے موافق طبع آزمائیاں کرنے اور ڈراما لکھنے لگے۔ چنانچہ واجد علی شاہ کے شوق کے ساتھ ہی "میاں امانت نے جو ایک مشاق شاعر تھے، اندر سبھا لکھی اور موجودہ عہد کی کمپنیوں کے طرح شہر میں جا بہ جا مختلف جماعتیں ان کی "اندر سبھا" کو اسٹیج پر کھیلنے لگیں، جن میں کہیں عورتیں اور کہیں لڑکے ایکٹ
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 137
کرتے۔ اس اندر سبھا میں اصولِ موسیقی کے مطابق دل کش دحنیں قائم کی گئیں اور سارا شہر اندر سبھا کے جلسے دیکھنے کا مشتاق تھا۔ میاں امانتؔ کی اندر سبھا کی کامیابیاں دیکھ کے اور لوگوں کو بھی شوق ہوا اور اس قسم کے بہت سے ڈرامے ایجاد ہو گئے۔ اور سب کا نام "سبھا" قرار پا گیا۔ چنانچہ شہر میں مداری لال وغیرہ کی بہت سے سبھائیں قائم ہو گئیں، جن کے پلاٹ بدلے ہوئے تھے۔
سبھا کے نئے رنگ نے شہر میں ایسی زندہ دلی پیدا کر دی کہ سوا اندر سبھا کے، لوگ سی اور قسم کا ناچ گانا پسند ہی نہ کرتے تھے۔ ہر طرف سبھاؤں کی دھوم تھی اور اس کی بنیاد پڑ گئی کہ سوسائٹی کے مذاق کے مطابق اگلے عاشقانہ قصے نقل کے طور پر اچھی نظموں میں اور دل کش مضمون کے ساتھ پبلک کے سامنے پیش کیے جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ پارسی تھیٹروں نے اپنی انتظامی خوبیوں اور نمایشی دل فریبیوں کی وجہ سے سبھاؤں کا رنگ پھیکا کر دیا۔ لیکن یہ نہ سمجھو کہ ڈراما کا وہ پرانا مذاق جو لکھنؤمیں ایجاد ہو کے مروج ہوا تھا، مٹ گیا۔ اول تو پارسیوں نے بھی اس چیز کو لکھنؤ سےلیا ہے۔ ان کا پہلا عام کھیل، امانتؔ کی اندر سبھا تھا، اور باوجود اس کے، لکھنؤ کے تمام قومی جلسوں میں آج تک سپیرے، ہرش چندر وغیرہ کے ایسے بیسیوں پرفارمنس ہو رہے ہیں اور اس مذاق کے ایکٹروں کا ایک مستقل گروہ پیدا ہو گیا ہے، جو شرفا میں سے قومی مذاق اٹھ جانے پر بھی عوام کو محظوظ کرتا ہے۔ بہ ہر تقدیر، اس میں شک نہیں کیا جا سکت کہ اردو ڈراما کی بنیاد خاص لکھنؤ ہی میں پڑی اور یہیں سے سارے ہندوستان میں اس کا رواج ہوا۔
اردو شاعری کی ایک قسم واسوخت ہیں۔ یہ خاص قسم کے عاشقانہ مسدس ہوتے ہیں اور ان کا مضمون عموماً یہ ہوت ہے کہ پہلے اپنے عشق کا اظہار، اس کے بعد معشوق کا سراپا، اس کی بے وفائیاں، پھر اس سے روٹھ کے، اسے یہ باور کرانا کہ ہم کسی اور معشوق پر عاشق ہو گئے۔ اس فرضی معشوق کے حسن و جمال کی تعریف کر کے معشوق کو جلانا، چھیڑنا، جلی کٹی سنانا اور
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 138
یوں اس کا غرور توڑ کے پھر ملاپ کر لینا۔ نظم اردو کی یہ قسم لکھنؤ ہی سے شروع ہوئی۔ زمانۂ وسط کے قریب قریب تمام شاعروں نے واسوخت لکھے ہیں اور ان میں بڑے بڑے لطف پیدا کیے ہیں۔ دہلی میں بھی بعد کے زمانے میں مختلف واسوخت لکھے گئے، خصوصاً مومن خاں نے کئی بہت اچھے واسوخت لکھے، مگر آغاز لکھنؤ ہی سے ہوا۔
اُمرا کی عیاشانہ طبیعتوں نے شاعری کی کئی اور صنفوں کو بھی پیدا کر دیا۔ جن کا آغاز دہلی ہی سے ہوا تھا۔ ان میں سب سے زیادہ مہمل ہزل گوئی ہے اور کسی قدر پرلطف ریختی ہے۔ ہزل گوئی کا آغاز دہلی میں جعفر زٹلی سے ہوا جو غالباً محمد شاہ کے زمانے میں تھے۔ ان کے کلام کو میں نے اول سے آخر تک دیکھا ہے۔ سوا فحش گوئی اور حد سے گزری ہوئی بے حیائی کے، نہ کوئی شاعرانہ خوبی نظر آتی ہے اور نہ زبان کا کوئی لطف ہے۔ اس کے بعد دہلی ہی کی خاک سے صاحبقراںؔ تخلص بلگرامؔ کے ایک ہزل لکھنؤ میں آئے اور یہیں چمکے۔ ان کا نام سید امام علی تھا اور آصف الدولہ کے زمانے میں وارد لکھنؤ ہوئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لکھنؤ کے مبتذل مذاق والے رئیس زادوں میں ان کا نشو و نما ہوا۔ ان کا دیوان ملتا ہے اور گو کہ کلام فحش اور تہذیب سے کوسوں دور ہے، مگر پھر بھی اس میں ایک بات ہے، شاعرانہ خوبیوں کے ساتھ زبان اور محاوروں کا پورا لطف ہے۔ لیکن اس فن کو لکھنؤ کے آخری دور میں میاں مشیر نے مرزا دبیرؔ کے شاگرد تھے، کمال کے درجے کو پہنچا دیا۔
مجھے اس موقع پر بلا لحاظ اس کے کہ شیعوں اور سنیوں کے متعصبانہ جذبات کا لحاظ کروں، یہ بتا دینا ضروری ہے کہ لکھنؤ میں جب شیعہ سلطنت قائم ہوئی تو شیعیت نے اپنے اصلی رنگ کو قائم رکھ کے، کمال آزادی کے ساتھ اپنے ہر اصول میں ترقی شروع کی۔ مذہب شیعہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے : ایک تولا یعنی اہل بیت کرام اور خاندان نبوت کے ساتھ اظہار محبت، اور دوسرا تبرا، یعنی اس خاندان محترم کے دشمنوں سے اپنی برات
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 139
ظاہر کرنا، جس نے باہمی رقابت و تعصب کے بڑھنے سے سب و شتم کی صورت اختیار کر لی۔ اصولاً اس عقیدے میں سُنی بھی ان کے ساتھ شریک ہیں، مگر فرق یہ آ پڑا کہ پہلے تینوں جانشینان رسالت کو اہل سُنت، افضل الناس بعد انبیاء و رُسُل، اور سچے جانشینان رسالت مانتے ہیں۔ اور شیعہ ان کو غاصب و ظالم بتاتے ہیں۔ اور جب یہ بزرگ بھی ان کے عقائد میں خاندان رسالت کے دشمن قرار پائے تو ان سے بھی تبرا واجب ہو گیا۔ جس کو مہذب اور صاحب علم لوگوں نے اگر حرفِ براءت کے صحیح معنوں کی حد تک رکھا تو عوام شیعہ اپنے مذاق کے مطابق ان پر زبانِ سب و شتم دراز کرنے لگے۔ اور یہی چیز سُنی (اور) شیعوں کے باہمی تعصب کی بنا قرار پا گئی۔
ان دونوں مذہبی چیزوں نے لکھنؤ کی شاعری پر نہایت ہی عمدہ اور مناسب اثر ڈالا۔ تولا نے مرثیہ گوئی کے فن کو اپنے آغوش میں لے کے جملہ اصناف شاعری سے بڑھا دیا۔ تو دشمنان خاندان نبوت سے تبرا کرنے کے جوش نے پُرانی ہجو گوئی کو اختیار کر کے، اسے "ہرزیہ گوئی" کے نام سے ترقی دی۔ اس فن کے متعدد باکمال لکھنؤ میں مشہور ہوئے، مگر افسوس یہ چیز بالتخصیص اہل سنت کو ناگوار گزرنے والی تھی۔ عہد شاہی میں اس پر تلواریں نکل پڑا کرتی تھیں اور انگریزی میں بھی آج تک کبھی کبھی فوجداریاں اور مقدمے بازیاں ہو جایا کرتی ہیں۔ جس کا نتینہ یہ تھا کہ ہرزیہ گوئی و ہرزیہ خوانی کو مکانوں کی چار دیواری سے باہر نکلنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اگر ہرزیہ گوئی کا عام سبجکٹ ایسا محدود اور ما بہ النزاع نہ ہوتا تو زمانہ دیکھتا کہ لکھنؤ کے ہرزیہ گویوں نے اپنے بے ہودہ گوئیوں اور فحاشیوں میں بھی کیسے کیسے کمال دکھائے ہیں۔
اس فن میں سب سے زیادہ شہرت مرزا دبیرؔ کے شاگرد میاں مشیر کو حاصل ہوئی۔ ہجو گوئی اور فحاشی پہلے بھی تھی، مگر مشیرؔ نے جس قسم کے محاورات سےکام لیا، بندش الفاظ، طرز ادا، اور استعمال تشبیہات میں جیسی مضحکہ خیزی پیدا کی اور صحبت کو مارے ہنسی کے
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 140
لٹا دینے اور سمعین کے پیٹ میں بل ڈال دینے کے لیے جو زبان اور جیسا اسلوب سخن اختیار کیا، اس کی خوبیاں اور جدتیں بیان سے باہر ہیں۔ ابتذال میں بھی لطف پیدا کر کے، اسے شایستہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے قابل بنا دینا، ان کا خاص جوہر تھا۔ جو ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی کو نہیں نصیب ہوا۔
ہزل گوئی ہی کے سلسلے میں میاں چرکینؔ کا نام بھی لینا چاہیے۔ لکھنؤ کے زمانۂ وسطےٰ میں عاشور علی خان نام ایک زندہ دل اور نہایت ہی قابل و مذاق رئیس تھے، ان کے وہاں کی صحبت، اس وقت کی سوسائٹی کا ایک اکمل ترین نمونہ تھی۔ انہی نے جانؔ صاحب اور چرکینؔ کو پیدا کیا۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہی کی صحبت میں صاحبقراںؔ کا بھی نشو و نما ہوا تھا۔ چرکین اپنے ہر شعر میں پیشاب پیخانے کے رعایت رکھتے اور ان کے اشعار سے ایسی تعفن اتی ہے کہ نام سنتے ہی ہمارے ناظرین کے دماغ سڑ گئے ہوں گے۔ مگر چوں کہ ان کو ایک قسم کی خصوصیت تھی، ہم نے ان کا ذکر دیا۔ ان کے کلام میں بعض شاعرانہ خوبیاں اور اچھی تشبیہیں بھی ہیں، مگر ان کے مذاق نے ان خوبیوں کو بھی گندہ اور پلید کر دیا ہے۔
لیکن ریختی کا فن باوجود غیر مہذب ہونے کے دل چسپ ہے اور چرکین کی شاعری کی طرح اذیت رساں نہیں۔ مردوں اور عورتوں کے محاورں اور لہجے میں تھوڑا بہت فرق ہر زبان میں ہوا کرتا ہے، مگر اتنا نہیں جتنا ہمیں اپنی زبان میں نظر آتا ہے۔ فارسی، عربی سب زبانوں میں یہ امتیاز موجود ہے۔ مگر اردو اس خصوصیت میں بڑھی ہوئی ہے۔ فارسی اور عربی کا پُرانا مذاق تھا کہ عورتیں شعر کہتیں تو اپنی زبان میں کہتیں۔ اور مرد کبھی عورتوں کی زبان سے کوئی خیال ادا کراتے ہیں تو زبان میں لطف پیدا کرنے کے لیے ان کی زبان اختیر کر لیتے ہیں۔ یہی حال انگریزی کا ہے۔ اردو شاعری ہمیشہ سے صرف مردوں کی زبان میں رہی، یہاں تک کہ اس میں عورتیں کہتی بھی ہیں، تو مرد بن کے کہتی ہیں، مردوں ہی کی زبان اختیار کرتی ہیں اور اپنے لیے ضمیریں تک مذکر استعمال کرتی ہیں۔
کی قلمرو میں پہلے پہل لکھنؤ کا سکہ جاری ہوا۔
اس کے بعد چھٹا دور وہ تھا جب لکھنؤ میں وزیر، صباؔ، رندؔ، گویاؔ، رشکؔ، نسیمؔ دہلوی، اسیرؔ، نواب مرزا شوقؔ اور پنڈت دیا شنکر نسیمؔ صاحبان مثنوی کی شاعری کا غلغلہ بلند تھا۔ اور دہلی میں مومنؔ، ذوق، غالبؔ نغمۂ شاعرانہ سنا رہے تھے۔ اس دور نے سچ یہ ہے کہ زبان کو بہ لحاظ خیالات سب سے زیادہ ترقی کے درجے پر پہنچا دیا۔
اس کے بعد ساتواں دور امیرؔ، داغؔ، منیرؔ، تسلیمؔ، مجروحؔ، جلالؔ، لطافتؔ، افضل اور حکیمؔ وغیرہ کا تھا۔
ان آخری دوروں پر غائر نظر ڈالنے سے صاف نظر آ جاتا ہے کہ فصاحت زبان اور شاعری نے لکھنؤ میں کیسی مضبوط جگہ پکڑ لی تھی۔ چند ہی روز میں شعر کہنا، لکھنؤ میں ایک وضع داری بن گیا اور شُعرا کی یہاں اس قدر کثرت ہو گئی کہ شاید کہیں کسی زمان میں نہ ہوئی ہو گی۔ عورتوں تک میں شعر و سخن کا چرچا ہوا۔ اور جہال کے کلام میں بھی شاعرانہ خیال آفرینیوں، تشبیہوں اور استعاروں کی جھلک نظر آنے لگی۔
(10)
فارسی شاعری کا اصلی اُٹھان مثنوی سے ہوا ہے۔ اور یہ صنفِ شاعری ہمیشہ سب سے زیادہ اہم اور باوقعت سمجھی گئی۔ ابتدا فردوسی کی رزمیہ مثنوی شاہنامے سے پڑی۔ پھر نظامیؔ، سعدیؔ، مولاناے رومؔ، خسروؔ، جامیؔ اور ہاتفیؔ وغرہ نے اس میں اعلا ترین شہرت و نام وری حاصل کی۔ اُردو میں میر تقی میر نے چھوٹی چھوٹی بہت سے مثنویوں دہلی و لکھنؤ کے قیام کے زمانے میں لکھی تھیں۔ مگر وہ اس قدر مختصر اور معمولی ہیں کہ مثنویوں کے تذکرے میں ان کا ذکر بھی بے محل سا معلوم ہوتا ہے۔
مثنوی لکھنے کا آغاز اردو میں میرضاحکؔ کے بیٹے میر غلام حسن حسنؔ سے ہوا جو
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 132
بچپن ہی میں اپنے پدر بزرگ وار کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے تھے۔ یہیں کی صحبت میں اُن کا نشو و نما ہوا تھا، یہیں پرورش پائی تھی، اور یہیں کی آب و ہوا کے آغوش میںان کی شاعری پلی تھی۔ کیوں کہ جس تعلیم اور جس سوسائٹی نے ان کی مثنوی بے نظیر و بدر منیر لکھوائی وہ خالص لکھنؤ کی تھی۔ اسی زمانے میں مرزا محہد تقی خاں ہوسؔ نے مثنوی لیلی مجنوں لکھی۔ اورلکھنؤ میں مثنویت کا مذاق بڑھنا شروع ہوا۔ آتشؔ و ناسخؔ کے زمانے میں تو ذرا خاموشی رہی۔ مگر پھر جو یہ مذاق اُبھرا تو پنڈت دیاشنکر نسیمؔ نے گلزار نسیم، آفتاب الدولہ قلقؔ نے طلسم الفت اور نواب مرزا شوقؔ نے بہارِ عشق، زہر عشق اور فریب عشق لکھیں۔اور انہیں اس قدر عام نمود و شہرت اور عالم گیر مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہر ادنا و اعلا کی زبان پر مثنویوں کے اشعار چڑھ گئے۔ اس سے پیش تر کے زامنے میں کسی صاحب نے مثنوی میر حسن کے جواب میں لذت عشق نام کی ایک مثنوی لکھی تھی، وہ نواب مرزا شوق کی مثنویوں کے ساتھ شائع ہونے کی وجہ سے انہیں کی جانب منسوب ہو گئی۔ لیکن حقیقت میں نہ وہ ان کی ہے اور نہ ان کے زمانے کی ہے۔
ان سب مثنویوں کے دیکھتے، مثنوی گلزار نسیم باوجود عام مقبولیت کے، صدہا غلطیوں سے مملو ہے۔ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نازک خیال نو مشق ہے جو ہر قسم کی شاعرانہ خوبیاں اپنے کلام میں پیدا کرنا چاہتا ہے، مگر قادرُ الکلامی کے نہ ہونے سے قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا ہے اور کسی جگہ اپنے مقصد کو نہیں حاصل کر سکتا۔ اس کے جواب میں آغا علی شمس نے جو ایک بہت ہی کہنہ مشق شاعر تھے، اسی بحرمیں ایک مثنوی لکھی تھی، جس میں غلطیوں سے پاک رہ کے تشبیہات، استعارات اور رعایت لفظی کےکمالات دکھائے تھے۔ مگر افسوس، وہ مثنوی مٹ گئی۔ اور گلزار نسیمؔ کو جو شہرت حاصل ہو چکی تھی، اس پر غالب نہ آ سکی۔ دہلی میں ان دنوں مومن خاں نے چند چھوٹی چھوٹی بے مثل مثنویاں لکھیں، جو
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 133
بہت ہی مقبول اور مشہور ہوئیں۔
مومن خاں کےمذاق شاعری میں نازک خیالی بڑھی ہوئی تھی۔ خیالی تشبیہوں اور استعاروں پر وہ اپنی سخن آفرینی کی عمارت قائم کرتے تھے۔ مثنویوں میں وہ زیادہ تر خیالی جذبات و صفات کو مشخص کر کے اپنے کلام میں ایک خاص لفط پیدا کیا کرتے تھے۔ مومن خاں کے ایک شاگرد نسیم دہلوی، لکھنؤ میں آئے اور یہاں کے مشاعروں میں اپنا رنگ جمایا کہ بہت سے لوگ ان کے شاگرد ہو گئے۔ نسیمؔ دہلوی نے لکھنؤ میں اپنے استاد کے رنگ کو خوب چمکایا۔ اور ان کے شاگرد تسلیم لکھنؤی نے اردو مثنوی میں نظیریؔ و عرفیؔ و صائبؔ کی خیال آرائیاں دکھا دیں اور نظم اردو میں جیتے جاگتے فیضیؔ و غنیمتؔ لا کے کھڑے کر دیے۔ ادھر آخر زمانے میں مولوی میر علی حیدر طباطبائی نظم لکھنؤی نے شراب کی مذمت میں ساقی نامۂ شقشقیہ کے نام سے ایک ایسی بے نظیر اخلاقی نظم اردو پبلک کے سامنے پیش کر دی کہ اس کا جواب نہیں ہو سکتا۔ غرض کہ مومن خاں کی چند مختصر مثنویوں سے اگر قطع نظر کر لی جائے تو اردو مثنوی گوئی کا آغاز بھی لکھنؤ میں ہوا اور ترقی بھی یہیں ہوئی۔
بعض حضرات مثنوی میر حسن اور گلزار نسیم کے ذریعے سے دہلی اور لکھنؤ کی زبان کا مقابلہ و موازنہ کیا کرتے ہیں، جس خیال کو مولوی محمد حسین صاحب آزاد نے اور زیادہ قوت دے دی۔ لیکن اول تو گلزار نسیم کو نظیرؔ اکبر آبادی کے بنجارا نامے کی طرح اگر شہرت ہو بھی گئی تو اُسے مثنوی میر حسن کے مقابلے میں رکھنا، اردو شاعری کی سخت تذلیل و توہین ہے۔ صحیح مقابلہ ہو سکتا ہے تو مثنوی میر حسن اور مثنوی طلسم الفت کا۔ اور اگر گلزار نسیم کی زبان زبردستی لکھنؤ کی زبان مان بھی لی جائے، تو مثنوی میر حسن اور گلزار نسیم کا مقابلہ دہلی اور لکھنؤ کی شاعری کا نہیں بلکہ خود لکھنؤ کی اگلی پچھلی زبانوں کا مقابلہ ہے۔ اس لیے کہ مثنوی میر حسن، لکھنؤ کی پہلی زبان کا نمونہ ہے اور یہ آخری زبان کا۔
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 134
شاعری کی ایک اہم اور قدیم ترین صنف، مرثیہ خوانی ہے۔ قدیم عربی شاعری میں زیادہ تر مرثیے اور رجز ہی شعر و سخن میں اظہار کمال کا ذریعہ تھے۔ فارسی میں مرثیہ خوانی کمزور پڑ گئی تھی لیکن بہ عہد سلاطین صفویہ، ایران میں مذہب شیعہ کو فروغ حاصل ہوا تع مصائب اہل بیت رسالت کی یاد تازہ کرنے کے لیے شعرا کو مرثیہ خوانی کی طرف توجہ ہوئی۔ مولانا محتشم کاشی نے چند بندوں کا ایک بے مثل مرثیہ لکھا تھا جو عموماً مقبول ہوا۔ اس کے بعد سے رواج تھا کہ شعرا کبھی کبھی ماتمِ حسین میں دو ایک مرثیے بھی موزوں کر دیا کرتے۔ لیکن شعر و سخن کی دنیا میں مرثیہ گوئی کی وقعت اس قدر کم تھی کہ مشہور تھا "بگڑا شاعر، مرثیہ گو" پھر جب مذہبی اعتبار سے دولتِ صفویۂ مرحومہ کی جانشین، اودھ کی سلطنت قرار پائی تو لکھنؤ میں مجالس کی ترقی و عزاداری کے جوش و خروش نے مرثیہ گوئی کی ایسی قدردانی کی کہ اس فن کو غیر معمولی عروج حاصل ہونا شروع ہوا اور دراصل لکھنؤ کے عروج کا سارا راز اسی تاریخی واقعے میں مستتر ہے۔ ہندوستان میں مغلوں کی سلطنت تھی جنہوں نے فارسی زبان کو درباری زبان قرار دیا اور فارسی معاشرت ان کی امیرانہ زندگی اور ان کے تمام کمالات کا مرکز تھی۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہر ایرانی ہندوستان میں آتے ہی آنکھوں پر بٹھایا جاتا اور اس کی ہر حرکت اور ہر وضع مقبولیت کی نگاہوں سے دیکھی جاتی۔ دہلی کی سلطنت میں بادشاہوں کا مذہب سُنی ہوجے کی وجہ سے، ایرانی اپنی بہت سی باتوں کو چھپاتے اور وہاں کی محفلوں میں اس قدر شگفتہ نہ ہونے پاتے جس قدر کہ وہ اصل میں تھے۔ اودھ کا دربار شیعہ تھا اور یہاں کا خاندان حکمرانی خاص خراساں سے آیا تھا۔ اس لیے یہاں ایرانی بالکل گُھل گئے۔ اور اپنے اصلی رنگ میں نمایاں ہونے کی وجہ سے وہ جس قدر شگفتہ ہوئے، اسی قدر زیادہ ہم مذہبی کے باعث یہاں کے اہل دربار نے ان کے اوضاع و اطوار کو حاصل کرنا شروع کیا۔ اور ایرانیت جو دراصل ساسانی اور عباسی شان و شوکت کے آغوش میں پلی ہوئی تھی، چند ہی روز کے اندر لکھنؤ کی معاشرت میں سرایت کر گئی۔
عرض سوداؔ و میرؔ کے زمانے میں میاں سکندرؔ، گداؔ، مسکینؔ اور افسردہؔ مرثیہ گو تھے جو چھوٹی
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 135
چھوٹی نظمیں شہادت امام حسینؓ کے بیان میں تصنیف کر کے مجلسوں میں سنا دیا کرتے۔ ان کے بعد میر خلیقؔ اور میر ضمیرؔ نے مرثیہ گوئی کو بہت ترقی دی اور مرثیوں کی موجودہ وضع انہی کے زمانے کی ایجاد ہوئی۔ یہاں تک کہ زمانہ میر ضمیرؔ کے شاگرد مرزا دبیر اور میر خلیقؔ کے صاحب زادے میر انیسؔ کو نام وری کے شہہ نشین پر لایا۔ اور ان دونوں بزرگوں نے مرثیہ خوانی میں ایسے ایسے کمالات شاعری دکھائے کہ شعر و سخن کے آسمان پر آفتاب و ماہ تاب بن کے چمکے۔ وہی مقابلہ جو میرؔ و سوداؔ اور آتشؔ و ناسخؔ میں رہا تھا، اب میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ میں قائم ہوا۔ مرزا دبیر میں شوکتِ الفاظ تھی، بلند خیالی تھی اور علم و فضل کا زور تھا۔ میر انیسؔ میں سادی، بے تکلف اور جذباتِ انسانی پر حکومت کرنے والی زبان کی وہ خوبیاں تھیں جو سوا مبدِأ فیاض کی عنایت کے سیکھنے سے نہیں آ سکتیں۔ ان دونوں بزرگوں نے فن مرثیہ گوئی کو شاعری کی اور تمام اصناف سے بڑھا دیا۔ اور ادبِ اردو میں وہ نئی چیزیں پیدا کر دیں جن کو انگریزی تعلیم کے اثر سے طبیعتیں ڈھونڈنے لگی تھیں۔
انیسؔ و دبیرؔ نے مرثیہ گوئی کو اس درجۂ کمال پر پہنچا دیا تھا کہ اب مرثیہ گوئی بجاے معیوب ہونے کے، سب سے بڑا شاعرانہ ہنر بن گئی تھی۔ تمام اہل لکھنؤ ان دونوں بزرگوں کے اس قدر معرف و مداح ہوئے کہ سارا شہر دو گروہوں میں بٹا ہوا تھا اور ہر سخن سنج یا اینسیاتھا یا دبیریا اور ان دونوں گروہوں میں ہمیشہ باہمی مخالفت رہتی۔
میر انیسؔ ن مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی کو بھی ایک فن بنا دیا۔ یونانیوں کے بعض مقرروں اور خطیبوں کی نسبت سنا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی تقریروں میں اثر پیدا کرنے کے لیے خاص خاص کوششین کی تھیں اور آواز کے نشیب و فراز اور اوضاع و اطوار کے تغیرات سے گفتگو میں اثر پیدا کرتے تھے۔ اسلام کی اس طولانی عمر میں اس نہایت ضروری جن کو اصول کے ساتھ خاص میر انیسؔ نے زندہ کیا۔ الفاظ کے مناسب آواز کے تغیرات اور مضامین کے موافق چہرہ بنا لینے، کلام کو اعضا و جوارح کے متناسب حرکات اور خط و خال کے
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 136
اشارت سے قوت دینے کا فن خاص لکھنؤ کی اور وہ بھی میر انیسؔ کے گھرانے کی ایجاد ہے۔ جس کی ترقی میں اب تک کوششیں جاری ہیں۔ اور ہامرے اسپیکر اپنی فصیح البیانی میں اثر پیدا کرنے کے لیے اگر ان باکمالوں کی شاگردی کریں تو نہایت ہی کامیاب اسپیکر ثابت ہوں۔
ڈراما کا فن سخن جو مغربی شاعری کی جان ہے، اس سے عربی و فارسی کا ادب مطلقاً خالی تھا اور فارسی کی شاگردی کی وجہ سے اردو میں بھی اس کی طرف کبھی توجہ نہیں کی گئی۔ سنسکرت میں اعلا درجے کے ڈراما تھے، مگر ان سے ہندوستان کی آخری سوسائٹی بالکل ناآشنا ہو چکی تھی۔ رام چندر جی اور سری کرشن جی کے کارنامے البتہ ہندوؤں میں مذہبی آداب کے ساتھ دکھائے جاتے تھے۔ مگر اردو شاعری کو ان سے کسی قسم کا تعلق نہ تھا۔ رام چندر جی کے حالات انگلستان کے المپیا کی طرح کھلے میدانوں میں رزمیہ نقالیوں کی شان سے دکھائے جاتے اور سری کرشن جی کے حالات رقص و سرود اور موسیقی کے پیرائے میں مذہبی اسٹیجوں پر بعینہ اُپیرا کے طریقے سے نظر آتے جو "رہس" کہلاتے۔ واجد علیشاہ کو رہس سے خاص دل چسپی پیدا ہو گئی۔ اور رہس کے پلاٹ سے ماخوذ کر کے انہوں نے اپنا ایک ڈراما تیار کیا۔ جس میں وہ کنھیا جی بنتے یا عشق کے ستائے ہوئے جوگی بن کے دھونی رماتے اور بہت سی عورتیں، پریاں اور عاشق مزاج گوپیاں بن کے انہیں ڈھونڈھتی پھرتیں۔ پھر جب قیصر باغ کے میلوں کا دروازہ عوام الناس کے لیے بھی کھل گیا تو سارے شہر کے شوقینوں میں ڈراما کا فن خود بہ خود ترقی کرنے لگا۔ اور چند ہی روز میں اس شوق کو اس قدر ترقی ہوئی کہ بعض مشہور شعرا بھی اس زمانے کے مذاق کے موافق طبع آزمائیاں کرنے اور ڈراما لکھنے لگے۔ چنانچہ واجد علی شاہ کے شوق کے ساتھ ہی "میاں امانت نے جو ایک مشاق شاعر تھے، اندر سبھا لکھی اور موجودہ عہد کی کمپنیوں کے طرح شہر میں جا بہ جا مختلف جماعتیں ان کی "اندر سبھا" کو اسٹیج پر کھیلنے لگیں، جن میں کہیں عورتیں اور کہیں لڑکے ایکٹ
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 137
کرتے۔ اس اندر سبھا میں اصولِ موسیقی کے مطابق دل کش دحنیں قائم کی گئیں اور سارا شہر اندر سبھا کے جلسے دیکھنے کا مشتاق تھا۔ میاں امانتؔ کی اندر سبھا کی کامیابیاں دیکھ کے اور لوگوں کو بھی شوق ہوا اور اس قسم کے بہت سے ڈرامے ایجاد ہو گئے۔ اور سب کا نام "سبھا" قرار پا گیا۔ چنانچہ شہر میں مداری لال وغیرہ کی بہت سے سبھائیں قائم ہو گئیں، جن کے پلاٹ بدلے ہوئے تھے۔
سبھا کے نئے رنگ نے شہر میں ایسی زندہ دلی پیدا کر دی کہ سوا اندر سبھا کے، لوگ سی اور قسم کا ناچ گانا پسند ہی نہ کرتے تھے۔ ہر طرف سبھاؤں کی دھوم تھی اور اس کی بنیاد پڑ گئی کہ سوسائٹی کے مذاق کے مطابق اگلے عاشقانہ قصے نقل کے طور پر اچھی نظموں میں اور دل کش مضمون کے ساتھ پبلک کے سامنے پیش کیے جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ پارسی تھیٹروں نے اپنی انتظامی خوبیوں اور نمایشی دل فریبیوں کی وجہ سے سبھاؤں کا رنگ پھیکا کر دیا۔ لیکن یہ نہ سمجھو کہ ڈراما کا وہ پرانا مذاق جو لکھنؤمیں ایجاد ہو کے مروج ہوا تھا، مٹ گیا۔ اول تو پارسیوں نے بھی اس چیز کو لکھنؤ سےلیا ہے۔ ان کا پہلا عام کھیل، امانتؔ کی اندر سبھا تھا، اور باوجود اس کے، لکھنؤ کے تمام قومی جلسوں میں آج تک سپیرے، ہرش چندر وغیرہ کے ایسے بیسیوں پرفارمنس ہو رہے ہیں اور اس مذاق کے ایکٹروں کا ایک مستقل گروہ پیدا ہو گیا ہے، جو شرفا میں سے قومی مذاق اٹھ جانے پر بھی عوام کو محظوظ کرتا ہے۔ بہ ہر تقدیر، اس میں شک نہیں کیا جا سکت کہ اردو ڈراما کی بنیاد خاص لکھنؤ ہی میں پڑی اور یہیں سے سارے ہندوستان میں اس کا رواج ہوا۔
اردو شاعری کی ایک قسم واسوخت ہیں۔ یہ خاص قسم کے عاشقانہ مسدس ہوتے ہیں اور ان کا مضمون عموماً یہ ہوت ہے کہ پہلے اپنے عشق کا اظہار، اس کے بعد معشوق کا سراپا، اس کی بے وفائیاں، پھر اس سے روٹھ کے، اسے یہ باور کرانا کہ ہم کسی اور معشوق پر عاشق ہو گئے۔ اس فرضی معشوق کے حسن و جمال کی تعریف کر کے معشوق کو جلانا، چھیڑنا، جلی کٹی سنانا اور
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 138
یوں اس کا غرور توڑ کے پھر ملاپ کر لینا۔ نظم اردو کی یہ قسم لکھنؤ ہی سے شروع ہوئی۔ زمانۂ وسط کے قریب قریب تمام شاعروں نے واسوخت لکھے ہیں اور ان میں بڑے بڑے لطف پیدا کیے ہیں۔ دہلی میں بھی بعد کے زمانے میں مختلف واسوخت لکھے گئے، خصوصاً مومن خاں نے کئی بہت اچھے واسوخت لکھے، مگر آغاز لکھنؤ ہی سے ہوا۔
اُمرا کی عیاشانہ طبیعتوں نے شاعری کی کئی اور صنفوں کو بھی پیدا کر دیا۔ جن کا آغاز دہلی ہی سے ہوا تھا۔ ان میں سب سے زیادہ مہمل ہزل گوئی ہے اور کسی قدر پرلطف ریختی ہے۔ ہزل گوئی کا آغاز دہلی میں جعفر زٹلی سے ہوا جو غالباً محمد شاہ کے زمانے میں تھے۔ ان کے کلام کو میں نے اول سے آخر تک دیکھا ہے۔ سوا فحش گوئی اور حد سے گزری ہوئی بے حیائی کے، نہ کوئی شاعرانہ خوبی نظر آتی ہے اور نہ زبان کا کوئی لطف ہے۔ اس کے بعد دہلی ہی کی خاک سے صاحبقراںؔ تخلص بلگرامؔ کے ایک ہزل لکھنؤ میں آئے اور یہیں چمکے۔ ان کا نام سید امام علی تھا اور آصف الدولہ کے زمانے میں وارد لکھنؤ ہوئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لکھنؤ کے مبتذل مذاق والے رئیس زادوں میں ان کا نشو و نما ہوا۔ ان کا دیوان ملتا ہے اور گو کہ کلام فحش اور تہذیب سے کوسوں دور ہے، مگر پھر بھی اس میں ایک بات ہے، شاعرانہ خوبیوں کے ساتھ زبان اور محاوروں کا پورا لطف ہے۔ لیکن اس فن کو لکھنؤ کے آخری دور میں میاں مشیر نے مرزا دبیرؔ کے شاگرد تھے، کمال کے درجے کو پہنچا دیا۔
مجھے اس موقع پر بلا لحاظ اس کے کہ شیعوں اور سنیوں کے متعصبانہ جذبات کا لحاظ کروں، یہ بتا دینا ضروری ہے کہ لکھنؤ میں جب شیعہ سلطنت قائم ہوئی تو شیعیت نے اپنے اصلی رنگ کو قائم رکھ کے، کمال آزادی کے ساتھ اپنے ہر اصول میں ترقی شروع کی۔ مذہب شیعہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے : ایک تولا یعنی اہل بیت کرام اور خاندان نبوت کے ساتھ اظہار محبت، اور دوسرا تبرا، یعنی اس خاندان محترم کے دشمنوں سے اپنی برات
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 139
ظاہر کرنا، جس نے باہمی رقابت و تعصب کے بڑھنے سے سب و شتم کی صورت اختیار کر لی۔ اصولاً اس عقیدے میں سُنی بھی ان کے ساتھ شریک ہیں، مگر فرق یہ آ پڑا کہ پہلے تینوں جانشینان رسالت کو اہل سُنت، افضل الناس بعد انبیاء و رُسُل، اور سچے جانشینان رسالت مانتے ہیں۔ اور شیعہ ان کو غاصب و ظالم بتاتے ہیں۔ اور جب یہ بزرگ بھی ان کے عقائد میں خاندان رسالت کے دشمن قرار پائے تو ان سے بھی تبرا واجب ہو گیا۔ جس کو مہذب اور صاحب علم لوگوں نے اگر حرفِ براءت کے صحیح معنوں کی حد تک رکھا تو عوام شیعہ اپنے مذاق کے مطابق ان پر زبانِ سب و شتم دراز کرنے لگے۔ اور یہی چیز سُنی (اور) شیعوں کے باہمی تعصب کی بنا قرار پا گئی۔
ان دونوں مذہبی چیزوں نے لکھنؤ کی شاعری پر نہایت ہی عمدہ اور مناسب اثر ڈالا۔ تولا نے مرثیہ گوئی کے فن کو اپنے آغوش میں لے کے جملہ اصناف شاعری سے بڑھا دیا۔ تو دشمنان خاندان نبوت سے تبرا کرنے کے جوش نے پُرانی ہجو گوئی کو اختیار کر کے، اسے "ہرزیہ گوئی" کے نام سے ترقی دی۔ اس فن کے متعدد باکمال لکھنؤ میں مشہور ہوئے، مگر افسوس یہ چیز بالتخصیص اہل سنت کو ناگوار گزرنے والی تھی۔ عہد شاہی میں اس پر تلواریں نکل پڑا کرتی تھیں اور انگریزی میں بھی آج تک کبھی کبھی فوجداریاں اور مقدمے بازیاں ہو جایا کرتی ہیں۔ جس کا نتینہ یہ تھا کہ ہرزیہ گوئی و ہرزیہ خوانی کو مکانوں کی چار دیواری سے باہر نکلنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اگر ہرزیہ گوئی کا عام سبجکٹ ایسا محدود اور ما بہ النزاع نہ ہوتا تو زمانہ دیکھتا کہ لکھنؤ کے ہرزیہ گویوں نے اپنے بے ہودہ گوئیوں اور فحاشیوں میں بھی کیسے کیسے کمال دکھائے ہیں۔
اس فن میں سب سے زیادہ شہرت مرزا دبیرؔ کے شاگرد میاں مشیر کو حاصل ہوئی۔ ہجو گوئی اور فحاشی پہلے بھی تھی، مگر مشیرؔ نے جس قسم کے محاورات سےکام لیا، بندش الفاظ، طرز ادا، اور استعمال تشبیہات میں جیسی مضحکہ خیزی پیدا کی اور صحبت کو مارے ہنسی کے
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 140
لٹا دینے اور سمعین کے پیٹ میں بل ڈال دینے کے لیے جو زبان اور جیسا اسلوب سخن اختیار کیا، اس کی خوبیاں اور جدتیں بیان سے باہر ہیں۔ ابتذال میں بھی لطف پیدا کر کے، اسے شایستہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے قابل بنا دینا، ان کا خاص جوہر تھا۔ جو ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی کو نہیں نصیب ہوا۔
ہزل گوئی ہی کے سلسلے میں میاں چرکینؔ کا نام بھی لینا چاہیے۔ لکھنؤ کے زمانۂ وسطےٰ میں عاشور علی خان نام ایک زندہ دل اور نہایت ہی قابل و مذاق رئیس تھے، ان کے وہاں کی صحبت، اس وقت کی سوسائٹی کا ایک اکمل ترین نمونہ تھی۔ انہی نے جانؔ صاحب اور چرکینؔ کو پیدا کیا۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہی کی صحبت میں صاحبقراںؔ کا بھی نشو و نما ہوا تھا۔ چرکین اپنے ہر شعر میں پیشاب پیخانے کے رعایت رکھتے اور ان کے اشعار سے ایسی تعفن اتی ہے کہ نام سنتے ہی ہمارے ناظرین کے دماغ سڑ گئے ہوں گے۔ مگر چوں کہ ان کو ایک قسم کی خصوصیت تھی، ہم نے ان کا ذکر دیا۔ ان کے کلام میں بعض شاعرانہ خوبیاں اور اچھی تشبیہیں بھی ہیں، مگر ان کے مذاق نے ان خوبیوں کو بھی گندہ اور پلید کر دیا ہے۔
لیکن ریختی کا فن باوجود غیر مہذب ہونے کے دل چسپ ہے اور چرکین کی شاعری کی طرح اذیت رساں نہیں۔ مردوں اور عورتوں کے محاورں اور لہجے میں تھوڑا بہت فرق ہر زبان میں ہوا کرتا ہے، مگر اتنا نہیں جتنا ہمیں اپنی زبان میں نظر آتا ہے۔ فارسی، عربی سب زبانوں میں یہ امتیاز موجود ہے۔ مگر اردو اس خصوصیت میں بڑھی ہوئی ہے۔ فارسی اور عربی کا پُرانا مذاق تھا کہ عورتیں شعر کہتیں تو اپنی زبان میں کہتیں۔ اور مرد کبھی عورتوں کی زبان سے کوئی خیال ادا کراتے ہیں تو زبان میں لطف پیدا کرنے کے لیے ان کی زبان اختیر کر لیتے ہیں۔ یہی حال انگریزی کا ہے۔ اردو شاعری ہمیشہ سے صرف مردوں کی زبان میں رہی، یہاں تک کہ اس میں عورتیں کہتی بھی ہیں، تو مرد بن کے کہتی ہیں، مردوں ہی کی زبان اختیار کرتی ہیں اور اپنے لیے ضمیریں تک مذکر استعمال کرتی ہیں۔