ایس ایس ساگر
لائبریرین
ریختہ صفحہ 356
شہر کی عام ڈومنیوں کی جلد جلد آمدورفت رہتی۔ اور آئے دن وہ طبلہ سارنگی لیے ڈیوڑھی پر کھڑی ہی رہتیں۔ اِس لیے ان کے سیکڑوں طائفے شہر میں موجود تھے۔ ڈومنیوں کا مذاق، جہاں تک مجھے معلوم ہے، نہایت فحش اور بیہودہ ہوا کرتا ہے۔ اور اُن کی صحبت عورتوں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتی ہے۔ چنانچہ جس طرح مردوں کی بداخلاقی کی باعث رنڈیاں تھیں، عورتوں کا اخلاق بگاڑنے کی باعث ڈومنیاں ہو گئیں۔
لیکن شرفا کے خاندان ڈومنیوں کی صحبت سے بچے ہوئے تھے۔ اور اِس لیے اُن کی عورتیں اس مضرّت سے بچی رہیں جو عمدہ خصائل و اخلاق کا بہترین نمونہ ہیں۔ لکھنؤ کی عورتوں کا کیرکٹر ہے کہ وہ شوہر پر اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کو تیار رہتی ہیں۔ اپنی ہستی کو شوہر کی ہستی کا ایک ضمیمہ تصور کرتی ہیں۔ اور بعض اور شہروں کی عورتوں کی طرح جو خانہ داری کے سلیقے میں لکھنؤ والیوں سے بہ درجہا بڑھی ہوتی ہیں، یہاں کی عورتوں کو کبھی یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ اپنا روپیا شوہر سے چھپا کے الگ جمع کریں۔ اور شوہر کی بیماری میں بھی اپنی دولت صرف کرنے میں تامل کریں۔ لکھنؤ کی عورتیں وہاں کی عورتوں کی سی ہنرمند نہیں اور گھر گرہستی کے کام میں ان کے مقابل پھوہڑ ہیں، حد درجے کی مُسرف ہیں، چٹوری ہیں، مگر شوہر کا ساتھ دینے اور اس پر اپنی جان قربان کردینے میں سب سے اوّل ہیں۔
(41)
(5) معاشرت میں پانچویں چیز نشست و برخاست ہے۔ ہر متمدّن قوم میں نشست و برخاست کے مختص قوانین اور اصولِ موضوعہ ہوا کرتے ہیں۔ اور انہی سے اس قوم کی ترقی و تہذیب کا درجہ قائم ہوا کرتا ہے۔ اگر آپ عیسائیوں کے متمدّن شہروں پیرس، لندن، اور برلن میں یا مسلمانوں کے مہذب بلاد قسطنطنیہ، تہران اور شیراز میں جائیے اور وہاں کے مہذب لوگوں کی صحبت میں شریک ہو جیے تو
ریختہ صفحہ 357
نظر آئے گا کہ ان میں نشست و برخاست کے اخلاقی قوانین کس قدر سخت ہیں۔ مگر ہندوستان کے بڑے تاجرانہ شہروں میں آپ جائیں اور وہاں کے اُمرا و معزّزین سے ملیں تو آپ کو اخلاقی قوانینِ تہذیب کا بالکل پتا نہ چلے گا۔ مگر ان شہروں میں جہاں کوئی خاص دربار قائم ہے، یا رہ چکا ہے مثلاً حیدرآباد دکن، بھوپال اور رام پور وغیرہ معزّز وطنی درباروں کے قائم ہونے کی برکت سے عوام و خواص سب میں حفظِ مراتب کے قواعد نظر آئیں گے۔ بخلاف تاجرانہ شہروں کے جہاں تمیزداری، ادب اور حفظِ مراتب کا نام و نشان بھی نہ ہوگا۔
دہلی میں اگلے دنوں یہ اخلاقی اصول یقیناً سب جگہ سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔ اِس لیے کہ وہاں کا دربار سب سے بڑا تھا اور صدیوں سے قائم چلا آتا تھا۔ مگر وہاں تجارت پیشہ اقوام کے سوسائٹی پر غالب آنے کی وجہ سے اگلی ساری تہذیب خاک میں مل گئی۔ نشست و برخاست کی بنیاد امارت، ریاست اور حکومت سے پڑتی ہے۔ حکومت و ریاست بتاتی ہے کہ چھوٹوں کو بڑوں سے اور بڑوں کو چھوٹوں سے کیونکر ملنا چاہیے۔ اور برابر والوں سے کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ مگر تجارت کو ان امارت کے چوچلوں اور اخلاقی تکلّفوں سے دشمنی ہے۔ وہ معاملت اور خودغرضی کے آغوش میں پلتی ہے اور سلف سیکری فائس یعنی اپنے وقت اور اپنے روپے، اپنے ہُنر اور اپنی دولت کو بے وجہ کسی پر قربان کر دینے کو حماقت اور لغویت بتاتی ہے۔ بخلاف اس کے ریاست کا جوہر یہ ہے کہ بے غرضی کے ساتھ اپنے طرف داروں یا قابل لوگوں سے مراعات کی جائے۔ اور اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ جہاں تجارت کو فروغ ہو گا اور تاجروں کی معاشرت خوش باش امیروں اور شریفوں کی معاشرت پر غالب آ جائے گی، وہاں کوئی اخلاقی قانون نہیں باقی رہ سکتا۔ چنانچہ اس چیز نے دہلی کے اگلے عظیم الشان درباروں کی ساری آن بان مٹا کے رکھ دی اور وہ بات نہیں باقی رہی،
ریختہ صفحہ 358
جو اُس کی نام وری کی تاریخ کے شایاں تھی۔
دہلی کی تہذیب کو جب تاجروں کا ہجوم تباہ کرنے لگا تو اُس نے اپنے قدیم وطن سے بھاگ کے لکھنؤ کے چھوٹے دربار میں پناہ لی جو اگرچہ چھوٹا تھا مگر اُس کے سواد میں داخل ہونے کے بعد کسی کو نہ نظر آ سکتا تھا کہ دنیا میں یہاں سے بڑا اور کوئی دربار بھی ہے۔ پھر یہاں آزادی سے بیٹھ کر شرفائے دہلی نے اپنے قوانینِ نشست و برخاست کو برتنا شروع کیا تو چند ہی روز میں یہ حالت ہو گئی کہ اکیلا لکھنؤ ہی سارے ہندوستان میں تہذیب و شائستگی اور آدابِ نشست و برخاست کا مرکز تھا۔ اور تمام شہروں کے مہذّب لوگ اہلِ لکھنؤ کی تقلید اور پیروی کررہے تھے۔ ان مراتب کا قائم کرنا کہ کس شخص کا استقبال دروازے تک آ کے کرنا چاہئے، کس کے لیے فقط کھڑے ہو جانے کی ضرورت ہے، کس کے لیے نیم خیز ہو کے اور کس کے لیے اپنی جگہ پر بیٹھے ہی بیٹھے " آئیے تشریف لائیے" کہہ دینا کافی ہے، زیادہ تر اپنے دلی فیصلے اور اجتہاد پر موقوف ہے اور اس اجتہاد کا جیسا ملکہ لکھنؤ کے مہذّب شرفا کو حاصل ہے، کسی کو نہیں۔
یہاں کوئی برابر والا آئے گا تو کھڑے ہو کے تعظیم دیں گے۔ اس کے لیے بہترین جگہ خالی کریں گے اور جب تک وہ بیٹھ نہ جائے گا، خود نہ بیٹھیں گے۔ اس کے سامنے ادب اور تمیزداری سے بیٹھیں گے۔ چہرہ بشّاش رکھیں گے تاکہ اُس کو کسی قسم کا تنغّص نہ ہو، جب وہ کوئی چیز دے گا تو ادب سے تسلیم کر کے لیں گے۔ اس کا پورا خیال رکھیں گے کہ ہماری کوئی حرکت اُسے ناگوار نہ ہو۔ اور اُس کی صحبت میں کسی اور ضروری کام کی طرف توجہ کریں گے تو اُس سے معذرت خواہ ہو کے اور معافی مانگ کے توجہ کریں گے۔ کہیں اُٹھ کے جانے کی ضرورت پیش آئے گی تو اُس سے اجازت لے کے جائیں گے۔ اگر اُس کے ساتھ جانے کی نوبت آئے تو راستے میں اُس کے پیچھے رہیں گے۔
ریختہ صفحہ 359
اور اُسے آگے بڑھائیں گے۔ اصولِ تہذیب کی پابندی میں وہ بھی اصرار کرے گا کہ "پہلے آپ تشریف لے چلیں۔" لیکن اِدھر سے بار بار یہی کہا جائے گا کہ "جناب آگے تشریف لے چلیں۔ میں کس قابل ہوں۔" اور اگر وہ کسی طرح نہ مانے اور مجبور ہی کر دے تو شکرگزاری میں آداب بجا کے آگے قدم بڑھائیں گے بھی تو اس انداز سے کہ اُس کی طرف پیٹھ نہ ہو۔
اکثر لوگ اِن آداب کا مضحکہ اڑاتے ہیں اور ضرب المثل ہو گیا ہے کہ چند لکھنؤ والے "پہلے آپ" "پہلے آپ" کہتے رہے اور ریل چھوٹ گئی۔ چنانچہ دونوں اسٹیشن پر پڑے رہ گئے۔ اِس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر چیز کا اعتدال سے گزر جانا بدنما اور مُضر ہو جاتا ہے۔ مگر کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آدابِ معاشرت کی نگہہ داشت اہلِ لکھنؤ کے اخلاق میں اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ اُن کے برتنے میں انہیں ضرر پہنچ جانے کا بھی خیال نہیں رہتا۔ جو لوگ تہذیب و شایستگی سے مُعرّا ہیں، جو اعتراض چاہیں کریں۔ لیکن ایک مہذّب و شایستہ آدمی ان باتوں کو بجائے عیب کے، اخلاقی جوہر تسلیم کرے گا۔
اب تو سب شہروں کی طرح یہاں بھی میز کرسیوں اور انگریزی فرنیچر کا رواج ہو گیا ہے، مگر پہلے نشست فرش کی تھی، جو حسبِ حیثیت و دولت قیمتی و پر تکلّف ہوا کرتا۔ اگر کوئی ہم رتبہ غیر یا بزرگ اور واجبُ التعظیم شخص آ جاتا تو اُسے گاؤ کے آگے بٹھا کے، سب لوگ حاضرینِ صحبت کی تعداد کے مطابق چھوٹا یا بڑا حلقہ باندھ کے مودّب اور دوزانو بیٹھ جاتے۔ جس کسی سے وہ بات کرتا، وہ شخص ہاتھ جوڑ کے نہایت ہی فروتنی سے جواب دیتا اور اُس کے سامنے زیادہ باتیں کرنا یا اپنی آواز کو اُس کی آواز پر بلند کرنا اخلاقی جرم خیال کرتا۔
لیکن اگر سب برابر والے حریفانِ صحبت اور یارانِ ہم مذاق ہوتے تو نشست میں بے تکلّفی رہتی۔ اور باوجود ہم رتبہ و ہم سِن ہونے کے، بے تکلّفی پر
ریختہ صفحہ 360
بھی سب ایک دوسرے کا ادب کرتے۔اس کا خیال رہتا کہ کسی کی طرف پیٹھ نہ ہو اور کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے جس سے کسی کی سُبکی یا اُس کی عزت کرنے سے بے پروائی ثابت ہو۔ نوکر اور خدمت گار پاس یا اس فرش پر نہ بیٹھ سکتے جس پر یارانِ صحبت بیٹھے ہوتے۔ وہ تعمیلِ احکام کے لیے سامنے ادب سے کھڑے ہوتے یا نظر سے غائب کسی قریب ہی ایسے مقام پر ٹھہرتے جہاں تک آواز پہنچ جائے۔ اور اُن کا ہر وقت کھڑا رہنا یا زیادہ باتیں کرنا بدتمیزی سمجھا جاتا۔
وہ خاص دان یا حقہ لا کے لگاتے تو صاحبِ خانہ اپنے ہاتھ سے دوستوں کے سامنے بڑھاتا اور وہ اُٹھ کے اور تسلیم کر کے لیتے۔ بے تکلّفی کی صحبتوں میں خُردوں کا بے ضرورت آنا نا مناسب تھا۔ اگر کبھی ضرورت سے وہ آ جاتے تو باپ کے آگے دوستوں کو نہایت ہی ادب سے جھک کے آداب بجا لاتے۔ اور اُن کے آتے ہی بزرگوں کی صحبت، بے تکلّف سے مہذّب بن جاتی۔ اور جس طرح وہ خُرد سب کی بزرگی کا ادب کرتا، اُسی طرح بزرگ اُس کی خُردی کا پاس کر کے اپنی بے تکلّفیاں چھوڑ دیتے۔
یہاں کی صحبت میں روز کے ملنے والوں سے مصافحے یا معانقے کا رواج نہ تھا۔ مصافحہ، مقدایانِ قوم کی دست بوسی تک محدود تھا۔ اور معانقہ صرف اُن دوستوں کے لیے تھا جو کسی سفر سے واپس آئیں یا مدّت کے بعد ملیں۔
زنانے میں مرد جاتے تو عورتوں کا احترام کرتے۔ اُن کے سامنے ممکن نہ تھا کہ وہ زیادہ بے تکلّفی برتیں یا اُن میں زیادہ نشست رکھیں۔ میاں بیوی میں بے تکلفی لازمی تھی۔ لیکن گھر کی بزرگ عورتوں کے سامنے وہ بھی ہرگز بے تکلّف نہ ہوتے۔ دِہات کے شرفا میں معمول تھا کہ نئی دُلھن جب تک چار پانچ بچوں کی ماں نہ ہو جائے، گھر کی تمام عورتوں کے سامنے شوہر سے پردہ کرتی اور مجال نہ تھی کہ کوئی عزیز مرد
شہر کی عام ڈومنیوں کی جلد جلد آمدورفت رہتی۔ اور آئے دن وہ طبلہ سارنگی لیے ڈیوڑھی پر کھڑی ہی رہتیں۔ اِس لیے ان کے سیکڑوں طائفے شہر میں موجود تھے۔ ڈومنیوں کا مذاق، جہاں تک مجھے معلوم ہے، نہایت فحش اور بیہودہ ہوا کرتا ہے۔ اور اُن کی صحبت عورتوں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتی ہے۔ چنانچہ جس طرح مردوں کی بداخلاقی کی باعث رنڈیاں تھیں، عورتوں کا اخلاق بگاڑنے کی باعث ڈومنیاں ہو گئیں۔
لیکن شرفا کے خاندان ڈومنیوں کی صحبت سے بچے ہوئے تھے۔ اور اِس لیے اُن کی عورتیں اس مضرّت سے بچی رہیں جو عمدہ خصائل و اخلاق کا بہترین نمونہ ہیں۔ لکھنؤ کی عورتوں کا کیرکٹر ہے کہ وہ شوہر پر اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کو تیار رہتی ہیں۔ اپنی ہستی کو شوہر کی ہستی کا ایک ضمیمہ تصور کرتی ہیں۔ اور بعض اور شہروں کی عورتوں کی طرح جو خانہ داری کے سلیقے میں لکھنؤ والیوں سے بہ درجہا بڑھی ہوتی ہیں، یہاں کی عورتوں کو کبھی یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ اپنا روپیا شوہر سے چھپا کے الگ جمع کریں۔ اور شوہر کی بیماری میں بھی اپنی دولت صرف کرنے میں تامل کریں۔ لکھنؤ کی عورتیں وہاں کی عورتوں کی سی ہنرمند نہیں اور گھر گرہستی کے کام میں ان کے مقابل پھوہڑ ہیں، حد درجے کی مُسرف ہیں، چٹوری ہیں، مگر شوہر کا ساتھ دینے اور اس پر اپنی جان قربان کردینے میں سب سے اوّل ہیں۔
(41)
(5) معاشرت میں پانچویں چیز نشست و برخاست ہے۔ ہر متمدّن قوم میں نشست و برخاست کے مختص قوانین اور اصولِ موضوعہ ہوا کرتے ہیں۔ اور انہی سے اس قوم کی ترقی و تہذیب کا درجہ قائم ہوا کرتا ہے۔ اگر آپ عیسائیوں کے متمدّن شہروں پیرس، لندن، اور برلن میں یا مسلمانوں کے مہذب بلاد قسطنطنیہ، تہران اور شیراز میں جائیے اور وہاں کے مہذب لوگوں کی صحبت میں شریک ہو جیے تو
ریختہ صفحہ 357
نظر آئے گا کہ ان میں نشست و برخاست کے اخلاقی قوانین کس قدر سخت ہیں۔ مگر ہندوستان کے بڑے تاجرانہ شہروں میں آپ جائیں اور وہاں کے اُمرا و معزّزین سے ملیں تو آپ کو اخلاقی قوانینِ تہذیب کا بالکل پتا نہ چلے گا۔ مگر ان شہروں میں جہاں کوئی خاص دربار قائم ہے، یا رہ چکا ہے مثلاً حیدرآباد دکن، بھوپال اور رام پور وغیرہ معزّز وطنی درباروں کے قائم ہونے کی برکت سے عوام و خواص سب میں حفظِ مراتب کے قواعد نظر آئیں گے۔ بخلاف تاجرانہ شہروں کے جہاں تمیزداری، ادب اور حفظِ مراتب کا نام و نشان بھی نہ ہوگا۔
دہلی میں اگلے دنوں یہ اخلاقی اصول یقیناً سب جگہ سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔ اِس لیے کہ وہاں کا دربار سب سے بڑا تھا اور صدیوں سے قائم چلا آتا تھا۔ مگر وہاں تجارت پیشہ اقوام کے سوسائٹی پر غالب آنے کی وجہ سے اگلی ساری تہذیب خاک میں مل گئی۔ نشست و برخاست کی بنیاد امارت، ریاست اور حکومت سے پڑتی ہے۔ حکومت و ریاست بتاتی ہے کہ چھوٹوں کو بڑوں سے اور بڑوں کو چھوٹوں سے کیونکر ملنا چاہیے۔ اور برابر والوں سے کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ مگر تجارت کو ان امارت کے چوچلوں اور اخلاقی تکلّفوں سے دشمنی ہے۔ وہ معاملت اور خودغرضی کے آغوش میں پلتی ہے اور سلف سیکری فائس یعنی اپنے وقت اور اپنے روپے، اپنے ہُنر اور اپنی دولت کو بے وجہ کسی پر قربان کر دینے کو حماقت اور لغویت بتاتی ہے۔ بخلاف اس کے ریاست کا جوہر یہ ہے کہ بے غرضی کے ساتھ اپنے طرف داروں یا قابل لوگوں سے مراعات کی جائے۔ اور اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ جہاں تجارت کو فروغ ہو گا اور تاجروں کی معاشرت خوش باش امیروں اور شریفوں کی معاشرت پر غالب آ جائے گی، وہاں کوئی اخلاقی قانون نہیں باقی رہ سکتا۔ چنانچہ اس چیز نے دہلی کے اگلے عظیم الشان درباروں کی ساری آن بان مٹا کے رکھ دی اور وہ بات نہیں باقی رہی،
ریختہ صفحہ 358
جو اُس کی نام وری کی تاریخ کے شایاں تھی۔
دہلی کی تہذیب کو جب تاجروں کا ہجوم تباہ کرنے لگا تو اُس نے اپنے قدیم وطن سے بھاگ کے لکھنؤ کے چھوٹے دربار میں پناہ لی جو اگرچہ چھوٹا تھا مگر اُس کے سواد میں داخل ہونے کے بعد کسی کو نہ نظر آ سکتا تھا کہ دنیا میں یہاں سے بڑا اور کوئی دربار بھی ہے۔ پھر یہاں آزادی سے بیٹھ کر شرفائے دہلی نے اپنے قوانینِ نشست و برخاست کو برتنا شروع کیا تو چند ہی روز میں یہ حالت ہو گئی کہ اکیلا لکھنؤ ہی سارے ہندوستان میں تہذیب و شائستگی اور آدابِ نشست و برخاست کا مرکز تھا۔ اور تمام شہروں کے مہذّب لوگ اہلِ لکھنؤ کی تقلید اور پیروی کررہے تھے۔ ان مراتب کا قائم کرنا کہ کس شخص کا استقبال دروازے تک آ کے کرنا چاہئے، کس کے لیے فقط کھڑے ہو جانے کی ضرورت ہے، کس کے لیے نیم خیز ہو کے اور کس کے لیے اپنی جگہ پر بیٹھے ہی بیٹھے " آئیے تشریف لائیے" کہہ دینا کافی ہے، زیادہ تر اپنے دلی فیصلے اور اجتہاد پر موقوف ہے اور اس اجتہاد کا جیسا ملکہ لکھنؤ کے مہذّب شرفا کو حاصل ہے، کسی کو نہیں۔
یہاں کوئی برابر والا آئے گا تو کھڑے ہو کے تعظیم دیں گے۔ اس کے لیے بہترین جگہ خالی کریں گے اور جب تک وہ بیٹھ نہ جائے گا، خود نہ بیٹھیں گے۔ اس کے سامنے ادب اور تمیزداری سے بیٹھیں گے۔ چہرہ بشّاش رکھیں گے تاکہ اُس کو کسی قسم کا تنغّص نہ ہو، جب وہ کوئی چیز دے گا تو ادب سے تسلیم کر کے لیں گے۔ اس کا پورا خیال رکھیں گے کہ ہماری کوئی حرکت اُسے ناگوار نہ ہو۔ اور اُس کی صحبت میں کسی اور ضروری کام کی طرف توجہ کریں گے تو اُس سے معذرت خواہ ہو کے اور معافی مانگ کے توجہ کریں گے۔ کہیں اُٹھ کے جانے کی ضرورت پیش آئے گی تو اُس سے اجازت لے کے جائیں گے۔ اگر اُس کے ساتھ جانے کی نوبت آئے تو راستے میں اُس کے پیچھے رہیں گے۔
ریختہ صفحہ 359
اور اُسے آگے بڑھائیں گے۔ اصولِ تہذیب کی پابندی میں وہ بھی اصرار کرے گا کہ "پہلے آپ تشریف لے چلیں۔" لیکن اِدھر سے بار بار یہی کہا جائے گا کہ "جناب آگے تشریف لے چلیں۔ میں کس قابل ہوں۔" اور اگر وہ کسی طرح نہ مانے اور مجبور ہی کر دے تو شکرگزاری میں آداب بجا کے آگے قدم بڑھائیں گے بھی تو اس انداز سے کہ اُس کی طرف پیٹھ نہ ہو۔
اکثر لوگ اِن آداب کا مضحکہ اڑاتے ہیں اور ضرب المثل ہو گیا ہے کہ چند لکھنؤ والے "پہلے آپ" "پہلے آپ" کہتے رہے اور ریل چھوٹ گئی۔ چنانچہ دونوں اسٹیشن پر پڑے رہ گئے۔ اِس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر چیز کا اعتدال سے گزر جانا بدنما اور مُضر ہو جاتا ہے۔ مگر کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آدابِ معاشرت کی نگہہ داشت اہلِ لکھنؤ کے اخلاق میں اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ اُن کے برتنے میں انہیں ضرر پہنچ جانے کا بھی خیال نہیں رہتا۔ جو لوگ تہذیب و شایستگی سے مُعرّا ہیں، جو اعتراض چاہیں کریں۔ لیکن ایک مہذّب و شایستہ آدمی ان باتوں کو بجائے عیب کے، اخلاقی جوہر تسلیم کرے گا۔
اب تو سب شہروں کی طرح یہاں بھی میز کرسیوں اور انگریزی فرنیچر کا رواج ہو گیا ہے، مگر پہلے نشست فرش کی تھی، جو حسبِ حیثیت و دولت قیمتی و پر تکلّف ہوا کرتا۔ اگر کوئی ہم رتبہ غیر یا بزرگ اور واجبُ التعظیم شخص آ جاتا تو اُسے گاؤ کے آگے بٹھا کے، سب لوگ حاضرینِ صحبت کی تعداد کے مطابق چھوٹا یا بڑا حلقہ باندھ کے مودّب اور دوزانو بیٹھ جاتے۔ جس کسی سے وہ بات کرتا، وہ شخص ہاتھ جوڑ کے نہایت ہی فروتنی سے جواب دیتا اور اُس کے سامنے زیادہ باتیں کرنا یا اپنی آواز کو اُس کی آواز پر بلند کرنا اخلاقی جرم خیال کرتا۔
لیکن اگر سب برابر والے حریفانِ صحبت اور یارانِ ہم مذاق ہوتے تو نشست میں بے تکلّفی رہتی۔ اور باوجود ہم رتبہ و ہم سِن ہونے کے، بے تکلّفی پر
ریختہ صفحہ 360
بھی سب ایک دوسرے کا ادب کرتے۔اس کا خیال رہتا کہ کسی کی طرف پیٹھ نہ ہو اور کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے جس سے کسی کی سُبکی یا اُس کی عزت کرنے سے بے پروائی ثابت ہو۔ نوکر اور خدمت گار پاس یا اس فرش پر نہ بیٹھ سکتے جس پر یارانِ صحبت بیٹھے ہوتے۔ وہ تعمیلِ احکام کے لیے سامنے ادب سے کھڑے ہوتے یا نظر سے غائب کسی قریب ہی ایسے مقام پر ٹھہرتے جہاں تک آواز پہنچ جائے۔ اور اُن کا ہر وقت کھڑا رہنا یا زیادہ باتیں کرنا بدتمیزی سمجھا جاتا۔
وہ خاص دان یا حقہ لا کے لگاتے تو صاحبِ خانہ اپنے ہاتھ سے دوستوں کے سامنے بڑھاتا اور وہ اُٹھ کے اور تسلیم کر کے لیتے۔ بے تکلّفی کی صحبتوں میں خُردوں کا بے ضرورت آنا نا مناسب تھا۔ اگر کبھی ضرورت سے وہ آ جاتے تو باپ کے آگے دوستوں کو نہایت ہی ادب سے جھک کے آداب بجا لاتے۔ اور اُن کے آتے ہی بزرگوں کی صحبت، بے تکلّف سے مہذّب بن جاتی۔ اور جس طرح وہ خُرد سب کی بزرگی کا ادب کرتا، اُسی طرح بزرگ اُس کی خُردی کا پاس کر کے اپنی بے تکلّفیاں چھوڑ دیتے۔
یہاں کی صحبت میں روز کے ملنے والوں سے مصافحے یا معانقے کا رواج نہ تھا۔ مصافحہ، مقدایانِ قوم کی دست بوسی تک محدود تھا۔ اور معانقہ صرف اُن دوستوں کے لیے تھا جو کسی سفر سے واپس آئیں یا مدّت کے بعد ملیں۔
زنانے میں مرد جاتے تو عورتوں کا احترام کرتے۔ اُن کے سامنے ممکن نہ تھا کہ وہ زیادہ بے تکلّفی برتیں یا اُن میں زیادہ نشست رکھیں۔ میاں بیوی میں بے تکلفی لازمی تھی۔ لیکن گھر کی بزرگ عورتوں کے سامنے وہ بھی ہرگز بے تکلّف نہ ہوتے۔ دِہات کے شرفا میں معمول تھا کہ نئی دُلھن جب تک چار پانچ بچوں کی ماں نہ ہو جائے، گھر کی تمام عورتوں کے سامنے شوہر سے پردہ کرتی اور مجال نہ تھی کہ کوئی عزیز مرد