شعیب گناترا
لائبریرین
ریختہ صفحہ ۲۰۱ کتابی صفحہ ۱۹۹
برابر ٹکّروں پر ٹکّریں ہوتی رہتی ہیں جن کی آواز بڑی دور تک جاتی ہے۔ پھر دونوں ایک دوسرے سے مُنہ ملا کے اور دانتوں کو اڑا کے ایک دوسرے کو ریلنا اور ڈھکیلنا شروع کرتے ہیں، جس میں اُن کے جسم کے پیچ و تاب کھانے سے انداز ہوتا ہے کہ کیسا زور لگا رہے ہیں۔ فیل بان، آنکس مار مار کے زور لگانے پر انہیں اور زیادہ ابھارتے رہتے ہیں۔ آخر دونوں میں سے ایک ہاتھی کم زور پڑتا اور ریلے کی تاب نہ لا کے زمین پر گرتا ہے۔ غالب ہاتھی اُس وقت اکثر دانت سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالتا اور کام تمام کر دیتا ہے۔ لیکن اکثر ہاتھیوں کا معمول ہے کہ کم زور پڑتے ہی دانت چھڑا کے بھاگتے ہیں اور غالب آنے والا تعاقب کرتا ہے۔ پاگیا تو ٹکّریں مار کر گراتا اور اکثر دانتوں سے پیٹ پھاڑ کے مار ڈالتا ہے۔ اور اگر وہ نکل گیا تو جان بچ جاتی ہے۔
لکھنؤ میں ہاتھیوں سے اکثر گینڈے بھی لڑائے جاتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ دونوں جانور باہم لڑتے ہی نہ تھے اور اگر کبھی لڑ گئے تو بےشک سخت لڑائی ہوتی۔ اگر کبھی ہاتھی نے گینڈے کو ڈھکیل کے اُلٹ دیا تو اس کے دانت پیٹ میں پیوست ہو کے اس کا کام تمام کر دیتے۔ اور اگر گینڈے نے موقع پا کے اپنا بالائی سینگ ہاتھی کے پیٹ میں اتار دیا تو کھال دور تک پھٹ جاتی۔ مگر ہاتھی سونڈ کی مدد سے گینڈے کے سینگ کو اپنے جسم میں زیادہ دور تک نہ گھسنے دیتا اور کاری زخم سے بچ جاتا۔
۵: اونٹ
یوں تو دنیامیں ہر ذی روح لڑسکتا ہے لیکن اونٹ سے زیادہ غیر موزوں لڑائی کے لیے کوئی جانور نہیں ہو سکتا۔ مگر لکھنؤ میں اونٹ بھی مست اور پُر جوش
ریختہ صفحہ ۲۰۲ کتابی صفحہ ۲۰۰
بنا کے لڑائے جاتے۔ اونٹ کی پکڑ مشہور ہے، اور اس کا بے طریقے گرنا اُس کے حق میں نہایت ہی خطرناک ہے۔ اونٹوں کا جوش، کف نکالنے اور جھاگ اُڑانے سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ کف اڑاتے ہوئے دوڑتے ہیں اور گالیاں دینے اور ایک دوسرے کے منہ پر تھوکنے یعنی بلبلانے اور جھاگ اڑانے سے لڑائی شروع ہوتی ہے۔ جسے موقع مل گیا، حریف کا لٹکتا ہوا ہونٹھ دانتوں سے پکڑ لیتا ہے اور کھینچنا شروع کرتا ہے۔ جس اونٹ کا ہونٹھ حریف کے دانتوں میں آگیا، وہ اکثر گر پڑتا ہے اور ہارتا ہے، اور اِسی پر لڑائی ختم ہو جاتی ہے۔
۶: گینڈا
گینڈے سے زیادہ مضبوط جانور کوئی نہیں پیدا کیا گیا ہے۔ وہ قد و قامت میں شیر اور ہاتھی سے چھوٹا ہے مگر ایسا روئیں تن پیدا کیا گیا ہے کہ نہ اس پر ہاتھی کے دانت کار گر ہوتے ہیں، نہ شیر کے پنجے اور ناخن- صرف پیٹ کی کھال نرم ہوتی ہے۔ اگر کوئی جانور اس پر حربہ کر سکا تو مار لیتا ہے، ورنہ ہر جانور اپنا زور صرف کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور آخر میں گینڈا اپنا بانسے پر کا زبردست سینگ اُس کے پیٹ میں بھونک بھونک کر مار ڈالتا ہے۔
لکھنؤ میں گینڈے، ہاتھیوں سے، شیروں سے، تیندوؤں سے اور خود گینڈوں سے لڑائے جاتے تھے۔ غازی الدین حیدر بادشاہ کے زمانے میں لڑانے کے علاوہ بعضے گینڈے اس خوبی سے سدھائے گئے تھے کہ گاڑی میں جوتے جاتے اور ہاتھی کی طرح اُن کی پیٹھ پر ہودا کس کے سواری لی جاتی۔ گینڈا بالطبع لڑنے والا جانور نہیں ہے بلک جہاں تک ممکن ہوتا ہے لڑائی کو طرح دیتا ہے۔ لیکن ہاں اگر اسے چھیڑا جائے تو مقابلے کے لیے تیار ہو کے نہایت ہی موذی بن جاتا ہے۔ نصیرالدین حیدر کے زمانے میں لڑائی
ریختہ صفحہ ۲۰۳ کتابی صفحہ ۲۰۱
کے پندرہ بیس گینڈے موجود تھے جو چاند گنج میں رہا کرتے۔ جب سوار انہیں رگید کے ایک دوسرے کے مقابل کر دیتے تو وہ سر جھکا کے ایک دوسرے کی طرف دوڑتے اور ٹکّریں ہونے لگتیں۔ دونوں کی یہ کوشش ہوتی کہ حریف کے پیٹ کو اپنے سینگ سے پھاڑ ڈالیں۔ اور اسی کوشش میں وہ دیر تک ایک دوسرے کو ریلتے پیلتے اور ڈھکیلتے رہتے۔ بڑے زور زور سے غرّاتے، سینگ کو سینگ سے ٹکراتے اور آخر میں لڑتے لڑتے سر جوڑ کے گتھ جاتے اور حریف کو ڈھکیلتے رہتے۔ یہاں تک کہ جو حریف کمزور پڑتا ہے، وہ آہستہ آہستہ ہٹنے اور جگہ چھوڑنے لگتا ہے۔ اور اس پر بھی جان نہیں چھوٹتی تو بھاگتا ہے۔ مگر غالب رگید رگید کے مارتا ہے۔ کمزور اپنا سینگ الگ کر کے مقابلے سے منہ موڑتا اور بڑے زور سے بھاگتا ہے۔ اگر محصور میدان ہوا تو غالب حریف بھاگتے میں اس پر حملہ کر کر کے اُسے گراتا اور پیٹ میں سینگ بھونک کے کام تمام کر دیتا ہے اور اگر وسیع کھلا میدان ہو اور شکست خوردہ گینڈا بھاگ سکا تو بھاگ کے اپنی جان بچا لیتا ہے۔ اُس وقت سوار رگید رگید کے اور گرم سلاخوں سے مار مار کے غالب کو مغلوب کے تعاقب سے روکتے اور ہٹا لے جاتے ہیں۔ گینڈوں کی لڑائی کا سارا دارومدار اس پر ہے کہ وہ سر جھکائے اور اپنے پیٹ کو بچائے رہیں۔ اگر دھوکے میں بھی کسی کا سر اٹھ گیا تو مقابل حریف اپنا کام کر گزرتا ہے۔ چنانچہ ایک گینڈا غالب آگیا اور اُس کا حریف بھاگنے لگا۔ اُسے بھاگتے دیکھ کے غالب نے سر اونچا کردیا اور ساتھ ہی اُسی شکست خورده گینڈے نے بجلی کی طرح دوڑ کے اس کے پیٹ میں سر ڈال دیا اور پیٹ پھاڑ ڈالا۔
۷: بارہ سنگھا
یہ چھوٹا نازک اور خوب صورت جانور ہے اور شاید لکھنؤ کے سوا اور کسی جگہ
ریختہ صفحہ ۲۰۴ کتابی صفحہ ۲۰۲
يہ تفنّنِ طبع کے طور پر نہ لڑایا گیا ہوگا۔ مگر اس کی لڑائی بڑی خوب صورت ہوتی ہے۔ ہرن، شعرا کے معشوق کا ہم شکل ہے، اِس لیے اس کی لڑائی میں بھی معشوقانہ ادائیں ظاہر ہوتی ہیں۔ مقابلے کے وقت پہلے بڑی خوب صورتی کے ساتھ دونوں حریف پینترے بدلتے رہتے ہیں اور آخر ٹکّریں ہونے لگتی ہیں جن میں سینگوں سے وہ تلوار کا بھی کام لیتے ہیں اور سپر کا بھی۔ آخر دیر تک کی ٹکّروں کے بعد دونوں کے سینگ آپس میں اس طرح اُلجھ جاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قفلی پڑ گئی۔ اب ایک دوسرے کو ریلتے اور ڈھکیلتے رہتے ہیں۔ ایک ریلا پیلی میں ایک کم زور پڑجاتا ہے اور اُس پر مغلوبی کی ایسی ہیبت طاری ہو جاتی ہے کہ نازک پانو تھرتھرانے لگتے ہیں اور سارے تن بدن میں رعشہ پڑجاتا ہے۔ مگر حریف ترس کھانے کے عوض زور میں آ کر اور ڈھکیلتا ہوا میدان کے خاتمے یعنی ٹھاٹھر تک پہنچا دیتا ہے، اب مغلوب کو بالکل نا امیدی ہوتی ہے، آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو اور سینگوں سے خون کے قطرے ٹپکنے لگتے ہیں اور وہ سینگ چھڑا کے لڑائی سے منہ پھیر لیتا ہے۔ اُس وقت حریف سینگوں سے اس کے جسم کو زخمی کرنا شروع کرتا ہے اور مغلوب بارہ سنگھا زور سے بھاگتا ہے، جس پُھرتی سے وہ بھاگتا ہے اسی تیزی سے غالب حریف اس کا تعاقب کرتا ہے۔ یہ دوڑ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ دونوں ہوا سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور ان پر نگاہ نہیں ٹھہرتی ہے مگر بے رحم دشمن مغلوب کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جہاں پاتا ہے، زخمی کرتا ہے۔ آخر زخموں سے چور کرتے کرتے مار ڈالتا ہے اور مرنے کے بعد اس کی لاش کو اپنے سینگوں سے جھنجھوڑ کے ہٹتا اور اپنی فتح پر نازاں ہوتا ہے۔*
--------------------------------
*مولانا حبیب الرحمٰن خاں صاحب شروانی نے بتایا اور ہمیں بھی بعد کو تاریخوں میں نظر آیا کہ درندے اور ہاتھی دہلی میں بھی لڑائے جاتے تھے۔
ریختہ صفحہ ۲۰۵ کتابی صفحہ ۲۰۳
۸: مینڈھا
یہ نہایت ہی غریب اور بے آزار جانور ہے مگر اس کی ٹکّر بڑی زبردست ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دو پہاڑ لڑ گئے۔ چنانچہ انہیں ٹکّروں کا تماشا دیکھنے کے لیے لوگ انہیں لڑاتے ہیں اور آج ہی نہیں قدیم الایّام سے ان کی لڑائی دیکھی جاتی رہی۔ ان کے لڑانے کا آغاز ہندوستان میں بلوچی لوگوں سے ہوا اور انہیں سے دوسرے مقاموں میں شوق پیدا ہوا۔ مگر لڑائی کے لیے ان کے پالنے اور تیار کرنے کا کام اکثر قصائیوں اور ادنا طبقے کے لوگوں سے متعلق رہا۔ امرا اور شرفا انہیں سامنے بلوا کے لڑائی کا تماشا دیکھ لیا کرتے تھے۔ سنا جاتا ہے کہ نواب آصف الدولہ اور سعادت علی خاں کو مینڈھوں کی لڑائی دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ غازی الدین حیدر اورنصیر الدین حیدر کے سامنے بھی اکثر مینڈھے لڑائے گئے۔ واجد علی شیر کو کلکتّے کے قیام میں بھی کسی حد تک شوق تھا۔ منشی السلطان بہادر اُن کی دلچسپی کے لیے اکثر قصائیوں کے زیرِ اہتمام بہت سی جوڑیں تیّار رکھتے تھے۔ اور میں نے کئی بار دیکھا کہ کسی زبردست مینڈھے کی ایسی ٹکّر پڑی کہ دوسرے حریف کا سر پھٹ گیا۔ مینڈھا جب ہارتا ہے اور مقابل حریف کی ٹکّر کی تاب نہیں لا سکتا تو اس کی ٹکّر خالی دے کے، بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار بادشاہ کا رمنا دیکھنے کے لیے مقررہ سالانہ تاریخ کو کلکتّے کے صدہا انگریز جمع تھے۔ بادشاہ سلامت اپنی وضع کے خلاف، بوچے پر سوار نکل آئے اور ان مہمانوں کے خوش کرنے کے لیے حکم دیا کہ مینڈھے لا کے لڑائے جائیں۔ چنانچہ اُن کی ٹکّروں کا ہنگامہ بلند ہوا اور اس سے زیادہ شور یورپین لوگوں نے ”ہُرّے“ اور خوشی کے نعرے بلند کر کے مچایا اور عجیب جوش و خروش کا عالم نظر آتا تھا۔ لکھنؤ میں انتراعِ سلطنت کے بعد بھی نوّاب محسن الدولہ بہادر کو مینڈھوں کی لڑائی دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اب شرفا
ریختہ صفحہ ۲۰۶ کتابی صفحہ ۲۰۴
اور امرا سے یہ مشغلہ چھوٹ گیا ہے، ادنا لوگوں میں معمولی حد تک باقی ہے۔
(۱۹)
درندوں کی لڑائی لکھنؤ میں صرف سلطنت اور امرائے دربار تک محدود تھی۔ اس لیے کہ اُن کی داشت، تیّاریو، لڑائی کے وقت ان کو سنبھالنا اور تماشائیوں کو اُن کی مضرّت سے بچانا، ایسی چیزیں ہیں جو عُربا درکنار، بڑے بڑے امیروں کے امکان سے بھی باہر ہیں۔ اور اسی لیے درندوں کی لڑائی سوادِ لکھنؤ میں اسی وقت تک دیکھی گئی جب تک اگلا دربار قائم تھا۔ اُدھر دربار برخاست ہوا اور اِدھر وحشت ناک دنگل بھی اجڑ گئے۔
لیکن طیور کی لڑائی ایسی نہ تھی۔ اس کا شوق ہر امیر و غریب کر سکتا تھا سور ہر شوقین محنت کر کے لڑائی کے قابل مرغ یا بٹیر تیّار کر سکتا تھا۔ جو طیور لکھنؤ میں شوق اور دل چسپی کے ساتھ لڑائے گئے، حسبِ ذیل ہیں (۱)مرغ (۲)بٹیر (۳)تیتر (۴)لَوے (۵)گُل دُم (۶)لال (۷) کبوتر (۸)توتے۔ ان میں سے ہر ایک کھیل کے جُدا جُدا بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
لکھنؤ کی کبوتر بازی اور بٹیر بازی عام طور پر مشہور ہے، جس پر آج کل کے تعلیم یافتہ اور موجودہ تہذیب کے دل داده اکثر تمسخر کیا کرتے ہیں۔ وہ اس سے واقف نہیں کہ ان شوقوں اور کھیلوں میں سے ہر ایک کو اُن لوگوں نے کس درجۂ کمال پر پہنچا کے، ایک مستقل فن بنا دیا تھا۔ لیکن جب وہ یورپ میں جا کے وہاں بھی اسی قسم کے لغو شوق دیکھیں گے تو کم از کم انہیں اپنے اِن الفاظ پر ندامت ضرور ہوگی۔ جو اپنے وطن کے اُن شوقینوں کی نسبت اکثر بے ساختہ کہہ بیٹھتے ہیں۔
ریختہ صفحہ ۲۰۷ کتابی صفحہ ۲۰۵
۱: مرغ بازی
لڑتے اگرچہ ہر قسم اور ہر قوم کے مرغ ہیں، مگر لڑائی کے لیے مخصوص اصیل مرغ ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ دنیا میں اصیل مرغ سے زیادہ بہادر اور کوئی جانور نہیں ہے۔ مرغ کی سی بہادری درحقیقت شیر میں بھی نہیں ہے۔ وہ مر جاتا ہے، مگر لڑائی سے منہ نہیں موڑتا۔ اصیل مرغ کی نسبت یہاں کے محقّقین کا خیال ہے کہ ان کی نسل عرب سے لائی گئی ہے، اور یہ قرینِ قیاس بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ فی زماننا اصیل کی جس قدر زیادہ اور اعلا نسلیں حیدرآباد دکن میں موجود ہیں، کہیں نہیں ہیں۔ اور ہندوستان میں وہی ایک شہر ہے جہاں اہلِ عرب سب جگہوں سے زیادہ آباد اور مقیم ہیں۔ بلندیِ ہند میں مرغوں کی نسلیں ایران ہوتی ہوئی آئیں۔ لکھنؤ کے نامی مرغ بازوں میں سے ایک صاحب کا بیان تھا کہ بازی میں ان کا مرغ اتفاقاً ہار گیا تھا، دل شکستہ ہو کے وہ ارضِ عراق میں چلے گئے۔ نجفِ اشرف میں کئی مہینے تک مصروفِ عبادت رہے اور شب و روز دعا کرتے کہ خداوندا! اپنے ائمّۂ معصومین کاصدقہ، مجھے ایسا مرغ دلوا جو لڑائی میں کسی سے نہ ہارے۔ ایک رات کو خواب میں بشارت ہوئی کہ ”جنگل میں جاؤ۔“ صبح آنکھ کھلتے ہی انہوں نے کوہ و بیاباں کا راستہ لیا اور ایک مرغی ساتھ لیتے گئے۔ یکایک درۂ کوہ سے ککڑوں کوں کی آواز آئی۔ اُنہوں نے فوراً قریب جا کے مرغی چھوڑی، جس کی آواز سنتے ہی مرغ نکل آیا۔ اور یہ فوراً کسی حکمت سے اُسے پکڑ لائے۔ اُس کی نسل ایسی تھی کہ پھر کبھی پالی میں اُنہیں شرمندہ نہ ہونا پڑا۔
مرغوں کی لڑائی کا شوق یہاں نوّاب شجاع الدولہ کے عہد سے آخر تک
ریختہ صفحہ ۲۰۸ کتابی صفحہ ۲۰۶
برابر رہا۔ نواب آصف الدولہ کو بے انتہا شوق تھا۔ نوّاب سعادت علی خاں باوجود بیدار مغزی کے، مرغ بازی کے دل دادہ تھے۔ ان کے شوق نے سوسائٹی پر ایسا اثر ڈالا کہ لکھنؤ کے امراے دربار درکنار، اُس زمانے میں جو اہلِ یورپ یہاں موجود تھے انہیں بھی یہی شوق ہو گیا تھا۔ چناں چہ جنرل مارٹن، جن کی کوٹھی لکھنؤ کی ایک قابلِ دید عمارت اور یوروپین بچّوں کی درس گاہ ہے، اوّل درجے کے مرغ باز تھے، اور نوّاب سعادت علی خاں اُن سے بازی بدکے مرغ لڑایا کرتے۔
لکھنؤ میں مرغوں کی لڑائی کا یہ طریقہ تھا کہ مرغ کے کانٹے باندھ دیے جاتے تاکہ اُن سے ضرر نہ پہنچا سکے۔ چونچ چاقو سے چھیل کے تیز اور نُکیلی کی جاتی اور جوڑ کے دونوں مرغ پالی میں چھوڑ دیے جاتے۔ مرغ باز اّن کے پیچھے پیچھے رہتے۔ مرغ کو دوسرے مرغ کے مقابلے میں چھوڑنا بھی ایک فن تھا جس میں یہ کوشش رہتی کہ ہمارا ہی مرغ پہلے چوٹ کرنے کا موقع پائے۔ اب دونوں مرغ چونچوں اور لاتوں سے لڑنا شروع کرتے۔ مرغ باز اپنے اپنے مرغ کو ابھارتے اور اشتعال دیتے اور چِلّا چِلّا کے کہتے۔ ”ہاں بیٹا! شاباش ہے!“، ”ہاں بیٹا، کاٹ!“، ”پھر یہیں پر!“۔ مرغ اُن کی للکاروں اور بڑھاووں پر اس طرح بڑھ بڑھ کے لاتیں اور چونچیں مارتے کہ معلوم ہوتا جیسے سمجھتے اور اُن کے کہنے پر عمل کر تے ہیں۔ جب لڑتے لڑتے زخمی اور چور ہوجاتے، تو باتّفاق فریقین تھوڑی دیر کے لیے اُٹھا لیے جاتے۔ یہ اٹھا لینا، مرغ بازی کی اصطلاح میں ”پانی“ کہلاتا ہے۔ اُس وقت مرغ باز ان کے زخمی سروں کو پونچھتے، اُن پر پانی کی پُھہاریں دیتے، زخموں کو اپنے منہ سے چوستے اور ایسی ایسی تدبیریں کرتے کہ چند منٹ کے اندر مرغوں میں پھر نیا جوش پیدا ہو جاتا اور تازہ دم ہو کے دوبارہ پالی میں چھوڑے جاتے۔ اسی طرح برابر ”پانی“ ہوتے رہتے۔ اور لڑائی کا خاتمہ چار پانچ روز بعد اور کبھی آٹھ نو روز بعد ہوتا۔ جب ایک مرغ اندھا ہو جاتا یا ایسی چوٹ کھا جاتا کہ اُٹھنے کے قابل نہ رہے،
ریختہ صفحہ ۲۰۹ کتابی صفحہ ۲۰۷
یا اور کسی وجہ سے لڑنے کے قابل نہ رہتا، تو سمجھا جاتا کہ وہ ہار گیا۔ بار ہا یہ ہوتا کہ مرغ کی چونچ ٹوٹ جاتی۔ اس صورت میں بھی جہاں تک بنتا، مرغ بار چونچ باندھ کے لڑاتے۔
حیدرآباد کا کھیل یہاں کے خلاف بہت سخت ہے۔ وہاں کانٹے نہیں باندھے جاتے۔ بلکہ بہ عوض باندھنے کے، چاقو سے چھیل کے برچھی کی اَنی بنا دیے جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑائی کا فیصلہ گھنٹا ہی ڈیڑھ گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔ لکھنؤ میں خاروں کے باندھنے کا طریقہ غالباً اس لیے اختیار کیا گیا تھا کہ لڑائی طول کھینچے اور زیادہ زمانے تک لطف اٹھایا جا سکے۔
لڑائی کے لیے مرغوں کی تیّاری میں مرغ باز کے کمالات، غذا اور داشت کے علاوہ اعضا کی مالش، پھوئی یعنی پانی کی پُھہار دینے، چونچ اور خار بنانے یا خار کے باندھنے اور کوفت کے مٹانے میں نظر آتے ہیں۔ اِس اندیشے سے کے زمین پر دانہ چگنے میں چونچ کو نقصان نہ پہنچ جائے، اکثر انہیں دانہ ہاتھ پر کھلایا جاتا ہے۔
یہ شوق واجد علی شاہ کے زمانے تک زوروں پر تھا۔ مٹیا برج میں نوّاب علی نقی خاں کی کوٹھی میں مرغوں کی پالی ہوتی تھی اور کلکتّے سے بعض انگریز اپنے مرغ لڑانے کو لایا کرتے تھے۔ بادشاہوں کے علاوہ اور بہت سے رئیسوں کو بھی مرغ بازی کا شوق تھا۔ مرزا حیدر، بہو بیگم صاحبہ کے بھائی نوّاب سالار جنگ حیدر بیگ خاں، میجر سوارس، جو نصیر الدین حیدر کے زمانے میں تھے، اور خود بادشاہ سے مرغ لڑاتے تھے۔ آغا برہان الدین حیدر بھی مرغ بازی کے شائق تھے۔ آخر الذکر رئیس کے وہاں آخر زمانے تک دو اڑھائی سو مرغ رہتے۔ نہایت ہی صفائی اور نفاست سے رکھے جاتے۔ دس بارہ آدمی ان کی داشت
ریختہ صفحہ ۲۱۰ کتابی صفحہ ۲۰۸
پر مامور تھے۔ میاں داراب علی خاں کو بڑا شوق تھا۔ نوّاب گھسیٹا نے بھی اس شوق کو آخر نباہا۔ ملیح آباد کے معزّز پٹھانوں کو بھی بہت شوق تھا اور اُن کے پاس اصیل مرغ کی بہت اچھی نسلیں محفوظ تھیں۔ یہاں مشہور مرغ باز جو اپنے فن میں استادِ یگانہ مانے جاتے، بہت سے تھے: میر امداد علی، شیخ گھسیٹا، منوّر علی، جن کو یہ کمال حاصل تھا کہ مرغ کی آواز سن کے بتا دیتے کہ یہ بازی لے جائے گا۔ صفدرعلی۔ اور ایک اوّل درجے کے وثیقے دار سید میرن صاحب بھی مشہور تھے۔ اِس آخری زمانے میں مندرجہ ذیل لوگوں کا نام مشہور ہوا: فضل علی جمعدار۔ قادر جیون خاں۔ حسین علی۔ نوروز علی۔ نوّاب محمد تقی خاں، جو یہاں کے ایک عالی مرتبہ رئیس تھے۔ میاں جان۔ دل چھنگا۔ حسین علی بیگ۔ احمد حسین۔ اِن میں سے اب کوئی زنده موجود نہیں ہے۔
یہی لوگ ہیں جنھوں نے مرغ بازی کو یہاں انتہائی کمال کے درجے پر پہنچا کے دکھا دیا۔ مگر میرا خیال ہے کہ فی الحال مرغ بازی کا شوق حیدرآباد دکن میں بڑھا ہوا ہے۔ وہاں کے بہت سے امیروں، جاگیر داروں اور منصب داروں کو شوق ہے، اور ان کے پاس مرغوں کی نسلیں بھی بے مثل ہیں، جن کی وہ بہت حفاظت کرتے ہیں۔
۲: بٹیر بازی
بٹیر بازی کا شوق لکھنؤ میں پنجاب سے آیا۔ پنجاب کے بعض کنچن لوگ، جن کی عورتیں عصمت فروشی کا پیشہ کرتی ہیں، نوّاب سعادت علی خاں کے عہد میں واردِ لکھنؤ ہوئے اور گھاگس بٹیر اپنے ساتھ لائے، جن کو وہ لڑاتے تھے۔ آج کل کی بعض نام ور رنڈیاں انھی لوگوں کی نسل سے ہیں۔ بٹیروں کی دوقسمیں ہوتی ہیں: ایک گھاگس اور دوسری چننگ۔ پنجاب میں صرف گھاگس بٹیر ہوتا ہے۔
برابر ٹکّروں پر ٹکّریں ہوتی رہتی ہیں جن کی آواز بڑی دور تک جاتی ہے۔ پھر دونوں ایک دوسرے سے مُنہ ملا کے اور دانتوں کو اڑا کے ایک دوسرے کو ریلنا اور ڈھکیلنا شروع کرتے ہیں، جس میں اُن کے جسم کے پیچ و تاب کھانے سے انداز ہوتا ہے کہ کیسا زور لگا رہے ہیں۔ فیل بان، آنکس مار مار کے زور لگانے پر انہیں اور زیادہ ابھارتے رہتے ہیں۔ آخر دونوں میں سے ایک ہاتھی کم زور پڑتا اور ریلے کی تاب نہ لا کے زمین پر گرتا ہے۔ غالب ہاتھی اُس وقت اکثر دانت سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالتا اور کام تمام کر دیتا ہے۔ لیکن اکثر ہاتھیوں کا معمول ہے کہ کم زور پڑتے ہی دانت چھڑا کے بھاگتے ہیں اور غالب آنے والا تعاقب کرتا ہے۔ پاگیا تو ٹکّریں مار کر گراتا اور اکثر دانتوں سے پیٹ پھاڑ کے مار ڈالتا ہے۔ اور اگر وہ نکل گیا تو جان بچ جاتی ہے۔
لکھنؤ میں ہاتھیوں سے اکثر گینڈے بھی لڑائے جاتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ دونوں جانور باہم لڑتے ہی نہ تھے اور اگر کبھی لڑ گئے تو بےشک سخت لڑائی ہوتی۔ اگر کبھی ہاتھی نے گینڈے کو ڈھکیل کے اُلٹ دیا تو اس کے دانت پیٹ میں پیوست ہو کے اس کا کام تمام کر دیتے۔ اور اگر گینڈے نے موقع پا کے اپنا بالائی سینگ ہاتھی کے پیٹ میں اتار دیا تو کھال دور تک پھٹ جاتی۔ مگر ہاتھی سونڈ کی مدد سے گینڈے کے سینگ کو اپنے جسم میں زیادہ دور تک نہ گھسنے دیتا اور کاری زخم سے بچ جاتا۔
۵: اونٹ
یوں تو دنیامیں ہر ذی روح لڑسکتا ہے لیکن اونٹ سے زیادہ غیر موزوں لڑائی کے لیے کوئی جانور نہیں ہو سکتا۔ مگر لکھنؤ میں اونٹ بھی مست اور پُر جوش
ریختہ صفحہ ۲۰۲ کتابی صفحہ ۲۰۰
بنا کے لڑائے جاتے۔ اونٹ کی پکڑ مشہور ہے، اور اس کا بے طریقے گرنا اُس کے حق میں نہایت ہی خطرناک ہے۔ اونٹوں کا جوش، کف نکالنے اور جھاگ اُڑانے سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ کف اڑاتے ہوئے دوڑتے ہیں اور گالیاں دینے اور ایک دوسرے کے منہ پر تھوکنے یعنی بلبلانے اور جھاگ اڑانے سے لڑائی شروع ہوتی ہے۔ جسے موقع مل گیا، حریف کا لٹکتا ہوا ہونٹھ دانتوں سے پکڑ لیتا ہے اور کھینچنا شروع کرتا ہے۔ جس اونٹ کا ہونٹھ حریف کے دانتوں میں آگیا، وہ اکثر گر پڑتا ہے اور ہارتا ہے، اور اِسی پر لڑائی ختم ہو جاتی ہے۔
۶: گینڈا
گینڈے سے زیادہ مضبوط جانور کوئی نہیں پیدا کیا گیا ہے۔ وہ قد و قامت میں شیر اور ہاتھی سے چھوٹا ہے مگر ایسا روئیں تن پیدا کیا گیا ہے کہ نہ اس پر ہاتھی کے دانت کار گر ہوتے ہیں، نہ شیر کے پنجے اور ناخن- صرف پیٹ کی کھال نرم ہوتی ہے۔ اگر کوئی جانور اس پر حربہ کر سکا تو مار لیتا ہے، ورنہ ہر جانور اپنا زور صرف کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور آخر میں گینڈا اپنا بانسے پر کا زبردست سینگ اُس کے پیٹ میں بھونک بھونک کر مار ڈالتا ہے۔
لکھنؤ میں گینڈے، ہاتھیوں سے، شیروں سے، تیندوؤں سے اور خود گینڈوں سے لڑائے جاتے تھے۔ غازی الدین حیدر بادشاہ کے زمانے میں لڑانے کے علاوہ بعضے گینڈے اس خوبی سے سدھائے گئے تھے کہ گاڑی میں جوتے جاتے اور ہاتھی کی طرح اُن کی پیٹھ پر ہودا کس کے سواری لی جاتی۔ گینڈا بالطبع لڑنے والا جانور نہیں ہے بلک جہاں تک ممکن ہوتا ہے لڑائی کو طرح دیتا ہے۔ لیکن ہاں اگر اسے چھیڑا جائے تو مقابلے کے لیے تیار ہو کے نہایت ہی موذی بن جاتا ہے۔ نصیرالدین حیدر کے زمانے میں لڑائی
ریختہ صفحہ ۲۰۳ کتابی صفحہ ۲۰۱
کے پندرہ بیس گینڈے موجود تھے جو چاند گنج میں رہا کرتے۔ جب سوار انہیں رگید کے ایک دوسرے کے مقابل کر دیتے تو وہ سر جھکا کے ایک دوسرے کی طرف دوڑتے اور ٹکّریں ہونے لگتیں۔ دونوں کی یہ کوشش ہوتی کہ حریف کے پیٹ کو اپنے سینگ سے پھاڑ ڈالیں۔ اور اسی کوشش میں وہ دیر تک ایک دوسرے کو ریلتے پیلتے اور ڈھکیلتے رہتے۔ بڑے زور زور سے غرّاتے، سینگ کو سینگ سے ٹکراتے اور آخر میں لڑتے لڑتے سر جوڑ کے گتھ جاتے اور حریف کو ڈھکیلتے رہتے۔ یہاں تک کہ جو حریف کمزور پڑتا ہے، وہ آہستہ آہستہ ہٹنے اور جگہ چھوڑنے لگتا ہے۔ اور اس پر بھی جان نہیں چھوٹتی تو بھاگتا ہے۔ مگر غالب رگید رگید کے مارتا ہے۔ کمزور اپنا سینگ الگ کر کے مقابلے سے منہ موڑتا اور بڑے زور سے بھاگتا ہے۔ اگر محصور میدان ہوا تو غالب حریف بھاگتے میں اس پر حملہ کر کر کے اُسے گراتا اور پیٹ میں سینگ بھونک کے کام تمام کر دیتا ہے اور اگر وسیع کھلا میدان ہو اور شکست خوردہ گینڈا بھاگ سکا تو بھاگ کے اپنی جان بچا لیتا ہے۔ اُس وقت سوار رگید رگید کے اور گرم سلاخوں سے مار مار کے غالب کو مغلوب کے تعاقب سے روکتے اور ہٹا لے جاتے ہیں۔ گینڈوں کی لڑائی کا سارا دارومدار اس پر ہے کہ وہ سر جھکائے اور اپنے پیٹ کو بچائے رہیں۔ اگر دھوکے میں بھی کسی کا سر اٹھ گیا تو مقابل حریف اپنا کام کر گزرتا ہے۔ چنانچہ ایک گینڈا غالب آگیا اور اُس کا حریف بھاگنے لگا۔ اُسے بھاگتے دیکھ کے غالب نے سر اونچا کردیا اور ساتھ ہی اُسی شکست خورده گینڈے نے بجلی کی طرح دوڑ کے اس کے پیٹ میں سر ڈال دیا اور پیٹ پھاڑ ڈالا۔
۷: بارہ سنگھا
یہ چھوٹا نازک اور خوب صورت جانور ہے اور شاید لکھنؤ کے سوا اور کسی جگہ
ریختہ صفحہ ۲۰۴ کتابی صفحہ ۲۰۲
يہ تفنّنِ طبع کے طور پر نہ لڑایا گیا ہوگا۔ مگر اس کی لڑائی بڑی خوب صورت ہوتی ہے۔ ہرن، شعرا کے معشوق کا ہم شکل ہے، اِس لیے اس کی لڑائی میں بھی معشوقانہ ادائیں ظاہر ہوتی ہیں۔ مقابلے کے وقت پہلے بڑی خوب صورتی کے ساتھ دونوں حریف پینترے بدلتے رہتے ہیں اور آخر ٹکّریں ہونے لگتی ہیں جن میں سینگوں سے وہ تلوار کا بھی کام لیتے ہیں اور سپر کا بھی۔ آخر دیر تک کی ٹکّروں کے بعد دونوں کے سینگ آپس میں اس طرح اُلجھ جاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قفلی پڑ گئی۔ اب ایک دوسرے کو ریلتے اور ڈھکیلتے رہتے ہیں۔ ایک ریلا پیلی میں ایک کم زور پڑجاتا ہے اور اُس پر مغلوبی کی ایسی ہیبت طاری ہو جاتی ہے کہ نازک پانو تھرتھرانے لگتے ہیں اور سارے تن بدن میں رعشہ پڑجاتا ہے۔ مگر حریف ترس کھانے کے عوض زور میں آ کر اور ڈھکیلتا ہوا میدان کے خاتمے یعنی ٹھاٹھر تک پہنچا دیتا ہے، اب مغلوب کو بالکل نا امیدی ہوتی ہے، آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو اور سینگوں سے خون کے قطرے ٹپکنے لگتے ہیں اور وہ سینگ چھڑا کے لڑائی سے منہ پھیر لیتا ہے۔ اُس وقت حریف سینگوں سے اس کے جسم کو زخمی کرنا شروع کرتا ہے اور مغلوب بارہ سنگھا زور سے بھاگتا ہے، جس پُھرتی سے وہ بھاگتا ہے اسی تیزی سے غالب حریف اس کا تعاقب کرتا ہے۔ یہ دوڑ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ دونوں ہوا سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور ان پر نگاہ نہیں ٹھہرتی ہے مگر بے رحم دشمن مغلوب کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جہاں پاتا ہے، زخمی کرتا ہے۔ آخر زخموں سے چور کرتے کرتے مار ڈالتا ہے اور مرنے کے بعد اس کی لاش کو اپنے سینگوں سے جھنجھوڑ کے ہٹتا اور اپنی فتح پر نازاں ہوتا ہے۔*
--------------------------------
*مولانا حبیب الرحمٰن خاں صاحب شروانی نے بتایا اور ہمیں بھی بعد کو تاریخوں میں نظر آیا کہ درندے اور ہاتھی دہلی میں بھی لڑائے جاتے تھے۔
ریختہ صفحہ ۲۰۵ کتابی صفحہ ۲۰۳
۸: مینڈھا
یہ نہایت ہی غریب اور بے آزار جانور ہے مگر اس کی ٹکّر بڑی زبردست ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دو پہاڑ لڑ گئے۔ چنانچہ انہیں ٹکّروں کا تماشا دیکھنے کے لیے لوگ انہیں لڑاتے ہیں اور آج ہی نہیں قدیم الایّام سے ان کی لڑائی دیکھی جاتی رہی۔ ان کے لڑانے کا آغاز ہندوستان میں بلوچی لوگوں سے ہوا اور انہیں سے دوسرے مقاموں میں شوق پیدا ہوا۔ مگر لڑائی کے لیے ان کے پالنے اور تیار کرنے کا کام اکثر قصائیوں اور ادنا طبقے کے لوگوں سے متعلق رہا۔ امرا اور شرفا انہیں سامنے بلوا کے لڑائی کا تماشا دیکھ لیا کرتے تھے۔ سنا جاتا ہے کہ نواب آصف الدولہ اور سعادت علی خاں کو مینڈھوں کی لڑائی دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ غازی الدین حیدر اورنصیر الدین حیدر کے سامنے بھی اکثر مینڈھے لڑائے گئے۔ واجد علی شیر کو کلکتّے کے قیام میں بھی کسی حد تک شوق تھا۔ منشی السلطان بہادر اُن کی دلچسپی کے لیے اکثر قصائیوں کے زیرِ اہتمام بہت سی جوڑیں تیّار رکھتے تھے۔ اور میں نے کئی بار دیکھا کہ کسی زبردست مینڈھے کی ایسی ٹکّر پڑی کہ دوسرے حریف کا سر پھٹ گیا۔ مینڈھا جب ہارتا ہے اور مقابل حریف کی ٹکّر کی تاب نہیں لا سکتا تو اس کی ٹکّر خالی دے کے، بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار بادشاہ کا رمنا دیکھنے کے لیے مقررہ سالانہ تاریخ کو کلکتّے کے صدہا انگریز جمع تھے۔ بادشاہ سلامت اپنی وضع کے خلاف، بوچے پر سوار نکل آئے اور ان مہمانوں کے خوش کرنے کے لیے حکم دیا کہ مینڈھے لا کے لڑائے جائیں۔ چنانچہ اُن کی ٹکّروں کا ہنگامہ بلند ہوا اور اس سے زیادہ شور یورپین لوگوں نے ”ہُرّے“ اور خوشی کے نعرے بلند کر کے مچایا اور عجیب جوش و خروش کا عالم نظر آتا تھا۔ لکھنؤ میں انتراعِ سلطنت کے بعد بھی نوّاب محسن الدولہ بہادر کو مینڈھوں کی لڑائی دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اب شرفا
ریختہ صفحہ ۲۰۶ کتابی صفحہ ۲۰۴
اور امرا سے یہ مشغلہ چھوٹ گیا ہے، ادنا لوگوں میں معمولی حد تک باقی ہے۔
(۱۹)
درندوں کی لڑائی لکھنؤ میں صرف سلطنت اور امرائے دربار تک محدود تھی۔ اس لیے کہ اُن کی داشت، تیّاریو، لڑائی کے وقت ان کو سنبھالنا اور تماشائیوں کو اُن کی مضرّت سے بچانا، ایسی چیزیں ہیں جو عُربا درکنار، بڑے بڑے امیروں کے امکان سے بھی باہر ہیں۔ اور اسی لیے درندوں کی لڑائی سوادِ لکھنؤ میں اسی وقت تک دیکھی گئی جب تک اگلا دربار قائم تھا۔ اُدھر دربار برخاست ہوا اور اِدھر وحشت ناک دنگل بھی اجڑ گئے۔
لیکن طیور کی لڑائی ایسی نہ تھی۔ اس کا شوق ہر امیر و غریب کر سکتا تھا سور ہر شوقین محنت کر کے لڑائی کے قابل مرغ یا بٹیر تیّار کر سکتا تھا۔ جو طیور لکھنؤ میں شوق اور دل چسپی کے ساتھ لڑائے گئے، حسبِ ذیل ہیں (۱)مرغ (۲)بٹیر (۳)تیتر (۴)لَوے (۵)گُل دُم (۶)لال (۷) کبوتر (۸)توتے۔ ان میں سے ہر ایک کھیل کے جُدا جُدا بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
لکھنؤ کی کبوتر بازی اور بٹیر بازی عام طور پر مشہور ہے، جس پر آج کل کے تعلیم یافتہ اور موجودہ تہذیب کے دل داده اکثر تمسخر کیا کرتے ہیں۔ وہ اس سے واقف نہیں کہ ان شوقوں اور کھیلوں میں سے ہر ایک کو اُن لوگوں نے کس درجۂ کمال پر پہنچا کے، ایک مستقل فن بنا دیا تھا۔ لیکن جب وہ یورپ میں جا کے وہاں بھی اسی قسم کے لغو شوق دیکھیں گے تو کم از کم انہیں اپنے اِن الفاظ پر ندامت ضرور ہوگی۔ جو اپنے وطن کے اُن شوقینوں کی نسبت اکثر بے ساختہ کہہ بیٹھتے ہیں۔
ریختہ صفحہ ۲۰۷ کتابی صفحہ ۲۰۵
۱: مرغ بازی
لڑتے اگرچہ ہر قسم اور ہر قوم کے مرغ ہیں، مگر لڑائی کے لیے مخصوص اصیل مرغ ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ دنیا میں اصیل مرغ سے زیادہ بہادر اور کوئی جانور نہیں ہے۔ مرغ کی سی بہادری درحقیقت شیر میں بھی نہیں ہے۔ وہ مر جاتا ہے، مگر لڑائی سے منہ نہیں موڑتا۔ اصیل مرغ کی نسبت یہاں کے محقّقین کا خیال ہے کہ ان کی نسل عرب سے لائی گئی ہے، اور یہ قرینِ قیاس بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ فی زماننا اصیل کی جس قدر زیادہ اور اعلا نسلیں حیدرآباد دکن میں موجود ہیں، کہیں نہیں ہیں۔ اور ہندوستان میں وہی ایک شہر ہے جہاں اہلِ عرب سب جگہوں سے زیادہ آباد اور مقیم ہیں۔ بلندیِ ہند میں مرغوں کی نسلیں ایران ہوتی ہوئی آئیں۔ لکھنؤ کے نامی مرغ بازوں میں سے ایک صاحب کا بیان تھا کہ بازی میں ان کا مرغ اتفاقاً ہار گیا تھا، دل شکستہ ہو کے وہ ارضِ عراق میں چلے گئے۔ نجفِ اشرف میں کئی مہینے تک مصروفِ عبادت رہے اور شب و روز دعا کرتے کہ خداوندا! اپنے ائمّۂ معصومین کاصدقہ، مجھے ایسا مرغ دلوا جو لڑائی میں کسی سے نہ ہارے۔ ایک رات کو خواب میں بشارت ہوئی کہ ”جنگل میں جاؤ۔“ صبح آنکھ کھلتے ہی انہوں نے کوہ و بیاباں کا راستہ لیا اور ایک مرغی ساتھ لیتے گئے۔ یکایک درۂ کوہ سے ککڑوں کوں کی آواز آئی۔ اُنہوں نے فوراً قریب جا کے مرغی چھوڑی، جس کی آواز سنتے ہی مرغ نکل آیا۔ اور یہ فوراً کسی حکمت سے اُسے پکڑ لائے۔ اُس کی نسل ایسی تھی کہ پھر کبھی پالی میں اُنہیں شرمندہ نہ ہونا پڑا۔
مرغوں کی لڑائی کا شوق یہاں نوّاب شجاع الدولہ کے عہد سے آخر تک
ریختہ صفحہ ۲۰۸ کتابی صفحہ ۲۰۶
برابر رہا۔ نواب آصف الدولہ کو بے انتہا شوق تھا۔ نوّاب سعادت علی خاں باوجود بیدار مغزی کے، مرغ بازی کے دل دادہ تھے۔ ان کے شوق نے سوسائٹی پر ایسا اثر ڈالا کہ لکھنؤ کے امراے دربار درکنار، اُس زمانے میں جو اہلِ یورپ یہاں موجود تھے انہیں بھی یہی شوق ہو گیا تھا۔ چناں چہ جنرل مارٹن، جن کی کوٹھی لکھنؤ کی ایک قابلِ دید عمارت اور یوروپین بچّوں کی درس گاہ ہے، اوّل درجے کے مرغ باز تھے، اور نوّاب سعادت علی خاں اُن سے بازی بدکے مرغ لڑایا کرتے۔
لکھنؤ میں مرغوں کی لڑائی کا یہ طریقہ تھا کہ مرغ کے کانٹے باندھ دیے جاتے تاکہ اُن سے ضرر نہ پہنچا سکے۔ چونچ چاقو سے چھیل کے تیز اور نُکیلی کی جاتی اور جوڑ کے دونوں مرغ پالی میں چھوڑ دیے جاتے۔ مرغ باز اّن کے پیچھے پیچھے رہتے۔ مرغ کو دوسرے مرغ کے مقابلے میں چھوڑنا بھی ایک فن تھا جس میں یہ کوشش رہتی کہ ہمارا ہی مرغ پہلے چوٹ کرنے کا موقع پائے۔ اب دونوں مرغ چونچوں اور لاتوں سے لڑنا شروع کرتے۔ مرغ باز اپنے اپنے مرغ کو ابھارتے اور اشتعال دیتے اور چِلّا چِلّا کے کہتے۔ ”ہاں بیٹا! شاباش ہے!“، ”ہاں بیٹا، کاٹ!“، ”پھر یہیں پر!“۔ مرغ اُن کی للکاروں اور بڑھاووں پر اس طرح بڑھ بڑھ کے لاتیں اور چونچیں مارتے کہ معلوم ہوتا جیسے سمجھتے اور اُن کے کہنے پر عمل کر تے ہیں۔ جب لڑتے لڑتے زخمی اور چور ہوجاتے، تو باتّفاق فریقین تھوڑی دیر کے لیے اُٹھا لیے جاتے۔ یہ اٹھا لینا، مرغ بازی کی اصطلاح میں ”پانی“ کہلاتا ہے۔ اُس وقت مرغ باز ان کے زخمی سروں کو پونچھتے، اُن پر پانی کی پُھہاریں دیتے، زخموں کو اپنے منہ سے چوستے اور ایسی ایسی تدبیریں کرتے کہ چند منٹ کے اندر مرغوں میں پھر نیا جوش پیدا ہو جاتا اور تازہ دم ہو کے دوبارہ پالی میں چھوڑے جاتے۔ اسی طرح برابر ”پانی“ ہوتے رہتے۔ اور لڑائی کا خاتمہ چار پانچ روز بعد اور کبھی آٹھ نو روز بعد ہوتا۔ جب ایک مرغ اندھا ہو جاتا یا ایسی چوٹ کھا جاتا کہ اُٹھنے کے قابل نہ رہے،
ریختہ صفحہ ۲۰۹ کتابی صفحہ ۲۰۷
یا اور کسی وجہ سے لڑنے کے قابل نہ رہتا، تو سمجھا جاتا کہ وہ ہار گیا۔ بار ہا یہ ہوتا کہ مرغ کی چونچ ٹوٹ جاتی۔ اس صورت میں بھی جہاں تک بنتا، مرغ بار چونچ باندھ کے لڑاتے۔
حیدرآباد کا کھیل یہاں کے خلاف بہت سخت ہے۔ وہاں کانٹے نہیں باندھے جاتے۔ بلکہ بہ عوض باندھنے کے، چاقو سے چھیل کے برچھی کی اَنی بنا دیے جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑائی کا فیصلہ گھنٹا ہی ڈیڑھ گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔ لکھنؤ میں خاروں کے باندھنے کا طریقہ غالباً اس لیے اختیار کیا گیا تھا کہ لڑائی طول کھینچے اور زیادہ زمانے تک لطف اٹھایا جا سکے۔
لڑائی کے لیے مرغوں کی تیّاری میں مرغ باز کے کمالات، غذا اور داشت کے علاوہ اعضا کی مالش، پھوئی یعنی پانی کی پُھہار دینے، چونچ اور خار بنانے یا خار کے باندھنے اور کوفت کے مٹانے میں نظر آتے ہیں۔ اِس اندیشے سے کے زمین پر دانہ چگنے میں چونچ کو نقصان نہ پہنچ جائے، اکثر انہیں دانہ ہاتھ پر کھلایا جاتا ہے۔
یہ شوق واجد علی شاہ کے زمانے تک زوروں پر تھا۔ مٹیا برج میں نوّاب علی نقی خاں کی کوٹھی میں مرغوں کی پالی ہوتی تھی اور کلکتّے سے بعض انگریز اپنے مرغ لڑانے کو لایا کرتے تھے۔ بادشاہوں کے علاوہ اور بہت سے رئیسوں کو بھی مرغ بازی کا شوق تھا۔ مرزا حیدر، بہو بیگم صاحبہ کے بھائی نوّاب سالار جنگ حیدر بیگ خاں، میجر سوارس، جو نصیر الدین حیدر کے زمانے میں تھے، اور خود بادشاہ سے مرغ لڑاتے تھے۔ آغا برہان الدین حیدر بھی مرغ بازی کے شائق تھے۔ آخر الذکر رئیس کے وہاں آخر زمانے تک دو اڑھائی سو مرغ رہتے۔ نہایت ہی صفائی اور نفاست سے رکھے جاتے۔ دس بارہ آدمی ان کی داشت
ریختہ صفحہ ۲۱۰ کتابی صفحہ ۲۰۸
پر مامور تھے۔ میاں داراب علی خاں کو بڑا شوق تھا۔ نوّاب گھسیٹا نے بھی اس شوق کو آخر نباہا۔ ملیح آباد کے معزّز پٹھانوں کو بھی بہت شوق تھا اور اُن کے پاس اصیل مرغ کی بہت اچھی نسلیں محفوظ تھیں۔ یہاں مشہور مرغ باز جو اپنے فن میں استادِ یگانہ مانے جاتے، بہت سے تھے: میر امداد علی، شیخ گھسیٹا، منوّر علی، جن کو یہ کمال حاصل تھا کہ مرغ کی آواز سن کے بتا دیتے کہ یہ بازی لے جائے گا۔ صفدرعلی۔ اور ایک اوّل درجے کے وثیقے دار سید میرن صاحب بھی مشہور تھے۔ اِس آخری زمانے میں مندرجہ ذیل لوگوں کا نام مشہور ہوا: فضل علی جمعدار۔ قادر جیون خاں۔ حسین علی۔ نوروز علی۔ نوّاب محمد تقی خاں، جو یہاں کے ایک عالی مرتبہ رئیس تھے۔ میاں جان۔ دل چھنگا۔ حسین علی بیگ۔ احمد حسین۔ اِن میں سے اب کوئی زنده موجود نہیں ہے۔
یہی لوگ ہیں جنھوں نے مرغ بازی کو یہاں انتہائی کمال کے درجے پر پہنچا کے دکھا دیا۔ مگر میرا خیال ہے کہ فی الحال مرغ بازی کا شوق حیدرآباد دکن میں بڑھا ہوا ہے۔ وہاں کے بہت سے امیروں، جاگیر داروں اور منصب داروں کو شوق ہے، اور ان کے پاس مرغوں کی نسلیں بھی بے مثل ہیں، جن کی وہ بہت حفاظت کرتے ہیں۔
۲: بٹیر بازی
بٹیر بازی کا شوق لکھنؤ میں پنجاب سے آیا۔ پنجاب کے بعض کنچن لوگ، جن کی عورتیں عصمت فروشی کا پیشہ کرتی ہیں، نوّاب سعادت علی خاں کے عہد میں واردِ لکھنؤ ہوئے اور گھاگس بٹیر اپنے ساتھ لائے، جن کو وہ لڑاتے تھے۔ آج کل کی بعض نام ور رنڈیاں انھی لوگوں کی نسل سے ہیں۔ بٹیروں کی دوقسمیں ہوتی ہیں: ایک گھاگس اور دوسری چننگ۔ پنجاب میں صرف گھاگس بٹیر ہوتا ہے۔