گردن میں گولی لگنے کے بعد ملالہ ہسپتال میں

حسان خان

لائبریرین
بی بی سی اردو سروس میں گل مکئی کے نام سے سوات سے ڈائریاں لکھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی سوات میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئی ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر سوات میں ایک سکول وین پر فائرنگ کی گئی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں امن ایوارڈ یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی سمیت دو طالبات زخمی ہوگئی ہیں۔

فائرنگ کا یہ واقعہ منگل کو سوات کے صدر مقام مینگورہ میں پیش آیا۔

دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمہ داری قبل کر لی ہے۔

تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو فون پر بتایا کے ملالہ یوسف زئی پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ ان کے خیالات طالبان کے خلاف تھے۔

سرکاری ریڈیو سٹیشن کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کو سیدو شریف سے اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ کردیا گیا ہے۔

تاہم ملالہ یوسفزئی کے والد کے اصرار پر ان کو پشاور منتقل کیا گیا۔ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ملالہ یوسفزئی کو پشاور سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا ہے۔

پولیس اہلکار فضل الرحیم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ خواجہ آباد میں واقع ایک نجی سکول کی طالبات سکول وین میں سوار ہو رہی تھیں کہ اس دوران نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔

مقامی حکام کے مطابق نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چودہ سالہ ملالہ شدید زخمی ہوگئیں اور انہیں تشویش ناک حالت میں سیدو شریف کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

پی ٹی وی کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملالہ کی گردن میں گولی لگی ہے اور ان کی جان بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تاحال اس حملے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حملہ آوروں کا ہدف ملالہ ہی تھیں۔

صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

صد رآصف علی زرداری نےکہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ انتہا پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پر عزم ہے۔

ملالہ یوسفزئی نے سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے قبل علاقے کے حالات پر بی بی سی اردو کے لیے ’گل مکئی‘ کے قلمی نام سے ڈائری لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔

بعدازاں حکومتِ پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن یوارڈ بھی دیا تھا۔ انہیں دو ہزار گیارہ میں ’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔

ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہی ہے۔ سوات میں سنہ دو ہزار نو میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور شدت پسند مذہبی رہنما مولانا فضل اللہ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔

اس زمانے میں طالبان کے خوف سے اس صورتِ حال پر میڈیا میں بھی کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔

ان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کےلیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی۔

اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔

ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں انہوں نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی بھر پور مخالفت کی تھی۔

ماخذ
 
یہ پاکستانی طالبان کوئی جعلی قسم کے طالبان ہیں۔
ایسی تھرڈ کلاس حرکتیں کرتے ہیں اور ایسے فخریہ بیان کرتے ہیں جیسے امریکہ فتح کر لیا ہو۔۔۔
 

عسکری

معطل
تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو فون پر بتایا کے ملالہ یوسف زئی پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ ان کے خیالات طالبان کے خلاف تھے۔

واہ بھئی واقعی بڑا تیر مارا ہے ہیجڑوں نے آج تو ۔ایک 14 سالہ بچی پر فائرنگ جہاد فی سبیل اللہ ؟ لعنت ایسے جہاد اور مجاہدوں پر پھر تو :bad:
 

عسکری

معطل
یہ پاکستانی طالبان کوئی جعلی قسم کے طالبان ہیں۔
ایسی تھرڈ کلاس حرکتیں کرتے ہیں اور ایسے فخریہ بیان کرتے ہیں جیسے امریکہ فتح کر لیا ہو۔۔۔
اور اصلی طالبان کیا ہوتے ہیں جو افغانستان میں ایساکرتے ہیں وہ؟:timeout: وہ بھی ایسے ہیں جیسے یہ فرق صرف یہ ہے کہ وہ کسی اور کے بچوں کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں ۔ وہ بھی ہزاروں لاکھوں بے گناہوں کو قتل کر چکے ہیں ۔
 

عسکری

معطل
احسان اللہ سے پہلے یہ بھونکتا تھا نا ؟ اب سڑ رہا ہے یہ وہ بھی آ جائے گا اپنے انکل کے پاس جلد
muslim%20khan.jpg
 

نایاب

لائبریرین
یا رب اپنا غضب نازل فرما ایسے انسانیت کے دشمنوں پہ آمین
لعنت ایسے ظالموں پہ ۔
"اے رب محمد گواہ رہنا میں نے ایسے جہاد اور ایسے مجاہدوں سے برات کا اظہار کیا۔"
یہ کیسا جہاد ہے جو معصوموں سے ڈرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
بی بی سی اردو سروس میں گل مکئی کے نام سے سوات سے ڈائریاں لکھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی سوات میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئی ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر سوات میں ایک سکول وین پر فائرنگ کی گئی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں امن ایوارڈ یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی سمیت دو طالبات زخمی ہوگئی ہیں

فائرنگ کا یہ واقعہ منگل کو سوات کے صدر مقام مینگورہ میں پیش آیا۔
کلِکگل مکئی کی ڈائری پڑھیے
دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو فون پر بتایا کے ملالہ یوسف زئی پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ ان کے خیالات طالبان کے خلاف تھے۔
دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کو سیدو شریف سے اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ کردیا گیا ہے۔
تاہم ملالہ یوسفزئی کے والد کے اصرار پر ان کو پشاور منتقل کیا گیا۔ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ملالہ یوسفزئی کو پشاور سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا ہے۔
پشاور میں ہمارے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے صوبائی سینیئر وزیر بشیر احمد بلور نے کہا کہ گولی اب بھی اندر ہی ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملالہ کی زندگی کے لیے اگلے آٹھ سے دس روز نہایت اہم ہیں۔

نہوں نے کہا کہ حملے سب پر ہو رہے ہیں اور ان پر خود بھی ہوئے ہیں۔ ’لیکن ملالہ یوسفزئی کو تحفظ فراہم کرنے کی زیادہ ضرورت تھی۔ ملالہ کو سکیورٹی فراہم کرنی چاہیے تھی اور سکیورٹی فراہم کرنا انتظامیہ کا کام تھا۔‘
پولیس اہلکار فضل الرحیم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ خواجہ آباد میں واقع ایک نجی سکول کی طالبات سکول وین میں سوار ہو رہی تھیں کہ اس دوران نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔
مقامی حکام کے مطابق نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چودہ سالہ ملالہ شدید زخمی ہوگئیں اور انہیں تشویش ناک حالت میں سیدو شریف کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
صد رآصف علی زرداری نےکہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ انتہا پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پر عزم ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے قبل علاقے کے حالات پر بی بی سی اردو کے لیے ’گل مکئی‘ کے قلمی نام سے ڈائری لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔
بعدازاں حکومتِ پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن یوارڈ بھی دیا تھا۔ انہیں دو ہزار گیارہ میں ’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔

ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہی ہے۔ سوات میں سنہ دو ہزار نو میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور شدت پسند مذہبی رہنما مولانا فضل اللہ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔
اس زمانے میں طالبان کے خوف سے اس صورتِ حال پر میڈیا میں بھی کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
ان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرت کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کےلیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی۔
اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔
ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں انہوں نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی بھر پور مخالفت کی تھی۔

ربط
 

قیصرانی

لائبریرین
بی بی سی اردو سروس میں گل مکئی کے نام سے سوات سے ڈائریاں لکھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی سوات میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئی ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر سوات میں ایک سکول وین پر فائرنگ کی گئی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں امن ایوارڈ یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی سمیت دو طالبات زخمی ہوگئی ہیں

فائرنگ کا یہ واقعہ منگل کو سوات کے صدر مقام مینگورہ میں پیش آیا۔
کلِکگل مکئی کی ڈائری پڑھیے
دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو فون پر بتایا کے ملالہ یوسف زئی پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ ان کے خیالات طالبان کے خلاف تھے۔
دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کو سیدو شریف سے اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ کردیا گیا ہے۔
تاہم ملالہ یوسفزئی کے والد کے اصرار پر ان کو پشاور منتقل کیا گیا۔ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ملالہ یوسفزئی کو پشاور سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا ہے۔
پشاور میں ہمارے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے صوبائی سینیئر وزیر بشیر احمد بلور نے کہا کہ گولی اب بھی اندر ہی ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملالہ کی زندگی کے لیے اگلے آٹھ سے دس روز نہایت اہم ہیں۔

نہوں نے کہا کہ حملے سب پر ہو رہے ہیں اور ان پر خود بھی ہوئے ہیں۔ ’لیکن ملالہ یوسفزئی کو تحفظ فراہم کرنے کی زیادہ ضرورت تھی۔ ملالہ کو سکیورٹی فراہم کرنی چاہیے تھی اور سکیورٹی فراہم کرنا انتظامیہ کا کام تھا۔‘
پولیس اہلکار فضل الرحیم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ خواجہ آباد میں واقع ایک نجی سکول کی طالبات سکول وین میں سوار ہو رہی تھیں کہ اس دوران نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔
مقامی حکام کے مطابق نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چودہ سالہ ملالہ شدید زخمی ہوگئیں اور انہیں تشویش ناک حالت میں سیدو شریف کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
صد رآصف علی زرداری نےکہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ انتہا پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پر عزم ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے قبل علاقے کے حالات پر بی بی سی اردو کے لیے ’گل مکئی‘ کے قلمی نام سے ڈائری لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔
بعدازاں حکومتِ پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن یوارڈ بھی دیا تھا۔ انہیں دو ہزار گیارہ میں ’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔




ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہی ہے۔ سوات میں سنہ دو ہزار نو میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور شدت پسند مذہبی رہنما مولانا فضل اللہ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔
اس زمانے میں طالبان کے خوف سے اس صورتِ حال پر میڈیا میں بھی کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
ان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرت کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کےلیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی۔
اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔
ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں انہوں نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی بھر پور مخالفت کی تھی۔

ربط
جزاک اللہ۔ اس بارے دو اور دھاگے بھی کھل چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں یکجا کر دیا جائے
 

ساجد

محفلین
یہ ہے امریکی طلسمِ ہوش ربا جو آنِ واحد میں یوں رنگ بدلتا ہے کہ دیکھنے اور سننے والے مبہوت رہ جائیں۔پاکستانی طالبان ہیں کیا؟ امریکہ کا ایجاد کردہ عفریت جو اسی کے اشارہ ابرو پر کسی بھی قسم کے غیر انسانی فعل کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا کیوں کہ وہ طالبان مخالف خیالات رکھتی ہے ، پاکستانی فوجیوں کو ذبح کیا جاتا ہے کیونکہ وہ طالبان مخالف ہیں ، پاکستانی عوام کو خود کش حملوں میں مارا جاتا ہے کیوں کہ وہ طالبان مخالف ہیں ۔ ذرا خوردبین لگا کر ڈھونڈئیے کہ ان طالبان نے اب تک پاکستان میں کتنے امریکیوں پر حملے کئے؟ کتنے امریکی اغوا کئے؟ جبکہ ریمنڈ ڈیوس اور اس کے بعد گرفتار ہونے والے امریکی "سفارتکاروں" کی تفتیش کے دوران ان کے پاکستان میں ایسے مدارس کے ساتھ روابط اور دوروں کا انکشاف ہوا جو طالبان کے زیرِ اثر ہیں۔ کیا ابھی بھی ہم امریکی ڈگڈگی پر بندر کی طرح ناچتے ہوئے ملالہ پر ہونے والے حملے کو صرف طالبان کی کارروائی قرار دے کر خود کو دھوکے میں ڈال لیں؟
پاکستان میں اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائیاں امریکی آشیر باد سے ہوتی ہیں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جاتی ہیں۔ان کارروائیوں کے ماضی مین جھانکئیے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ جب کبھی پاکستان کی حکومت نے ،عوام کے دباؤ پر ، امریکی مفادات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی تو اچانک ہی ان "طالبان" کی کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا۔ غربت و افلاس کے مارے ممالک میں برائے فروخت ضمائر کی ایک بڑی منڈی ہوتی ہے جس میں ہر مال روکڑے پر دستیاب ہوتا ہے۔ امریکہ یہ روکڑا ہماری حکومت میں شامل ضمیر فروش عناصر کو بھی دیتا ہے اور کھلی منڈی میں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے اور اس کھلی منڈی میں مسلح گروہ بہترین جنس شمار کئے جاتے ہیں اور اس جنس کو اپنی بہترین قیمت مطلوب ہوتی ہے وہ قیمت اگر پاکستان سے مل جائے تو "اسلام کے قلعے" کی بنیادیں مضبوط کر کے نیکی کمائی جاتی ہے۔ امریکہ سے مل جائے تو روس کے خلاف "جہاد" کر کے عنداللہ ماجور ہوا جاتا ہے اور اگر سی آئی اے سرمایہ کاری کر دے تو "نفاذِ شریعت" کے نام پر خود کش حملوں کے ذریعہ سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔اور ان خود کش حملوں میں استعمال کیا جاتا ہے ہمارے ہی بچوں کو۔ شاید یہ دین کے ٹھیکیدار خود "72حوروں" سے ملنے میں شرم محسوس کرتے ہیں......۔
پاکستانی عوام کی اوقات ہی کیا ہے؟ یا شاید ان کی جذباتیت ہی ان کو اس مقام تک لے آئی ہے۔ ہم جس کے چوتڑوں پر راکھ لگی دیکھ لیتے ہیں اسے 'باباجی" مان لیتے ہیں۔ جو لمبی داڑھی رکھ لے اسے "مولوی" مان لیتے ہیں بے شک وہ دین کی غلط تشریح کرتا رہے لیکن وہ چونکہ اللہ اور اس کے رسول کا نام لیتا ہے اس لئے قابلِ تقلید ہے۔ ہماری اسی کمزوری کو اہلِ مغرب اور امریکہ نے بخوبی سمجھا اور انہی مداریوں کو تربیت دے کر ہمارے درمیان پھیلایا جو دین کے نام پہ دہشت گردی کرتے ہیں اور دراصل اپنے آقاؤں کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم ان کو چندے دیتے ہیں۔ ان سے عقیدتیں جتلاتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی ان کے حوالے کر دیتے ہیں کہ دین سیکھ لیں یوں ہم ان کو اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا خون افرادی قوت کی صورت میں فراہم کر رہے ہیں۔
وقفے وقفے سے مسلم ممالک میں مارکیٹ سروے کے لئے کوئی نہ کوئی مذہبی دل آزاری والی حرکت کی جاتی ہے تا کہ ہماری جذباتیت کے مدو جذر کے مطابق پالیسیاں بنانے میں مدد مل سکے اور ایک پراکسی ٹارگٹ کو سامنے رکھ کر خود اس کی اوٹ میں رکھ کر کام دکھایا جا سکے۔ نہ جانے ہم مسلمان سمجھتے کیوں نہیں۔ شاید ہم میں سے بہتوں نے تو "لارنس آف عریبیہ" کا نام بھی نہیں سنا ہو گا ، پھر میرے لیکچر جھاڑنے کا کیا فائدہ؟؟؟۔
 

عسکری

معطل
ویل پر ایک بات تو اپ بھی جانتے ہیں پروکسی کا جواب بھی دیا جاتا ہے اور پروکسی کی اپنے اندر موجود جڑیں بھی کاٹی جاتی ہیں ۔ 40 ہزار پاکستانیوں کا خون جتنا ان امریکیوں کے سر ہے اتنا ہی ان رزیلوں کے بھی صرف امریکہ پر بات ختم نہیں ہو جاتی ۔ اب بھی وقت ہے پاکستان بے لگام انصاف کر لے اور اپنی فوجوں کو اختیارات دے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی ۔ اگر اسی طرح معاملہ چلتا رہا تو افغان جنگ ختم ہونے کے 10 سال بعد یہ دھندا ختم ہو گا
 

نایاب

لائبریرین
یہ ہے امریکی طلسمِ ہوش ربا جو آنِ واحد میں یوں رنگ بدلتا ہے کہ دیکھنے اور سننے والے مبہوت رہ جائیں۔پاکستانی طالبان ہیں کیا؟ امریکہ کا ایجاد کردہ عفریت جو اسی کے اشارہ ابرو پر کسی بھی قسم کے غیر انسانی فعل کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا کیوں کہ وہ طالبان مخالف خیالات رکھتی ہے ، پاکستانی فوجیوں کو ذبح کیا جاتا ہے کیونکہ وہ طالبان مخالف ہیں ، پاکستانی عوام کو خود کش حملوں میں مارا جاتا ہے کیوں کہ وہ طالبان مخالف ہیں ۔ ذرا خوردبین لگا کر ڈھونڈئیے کہ ان طالبان نے اب تک پاکستان میں کتنے امریکیوں پر حملے کئے؟ کتنے امریکی اغوا کئے؟ جبکہ ریمنڈ ڈیوس اور اس کے بعد گرفتار ہونے والے امریکی "سفارتکاروں" کی تفتیش کے دوران ان کے پاکستان میں ایسے مدارس کے ساتھ روابط اور دوروں کا انکشاف ہوا جو طالبان کے زیرِ اثر ہیں۔ کیا ابھی بھی ہم امریکی ڈگڈگی پر بندر کی طرح ناچتے ہوئے ملالہ پر ہونے والے حملے کو صرف طالبان کی کارروائی قرار دے کر خود کو دھوکے میں ڈال لیں؟
پاکستان میں اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائیاں امریکی آشیر باد سے ہوتی ہیں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جاتی ہیں۔ان کارروائیوں کے ماضی مین جھانکئیے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ جب کبھی پاکستان کی حکومت نے ،عوام کے دباؤ پر ، امریکی مفادات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی تو اچانک ہی ان "طالبان" کی کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا۔ غربت و افلاس کے مارے ممالک میں برائے فروخت ضمائر کی ایک بڑی منڈی ہوتی ہے جس میں ہر مال روکڑے پر دستیاب ہوتا ہے۔ امریکہ یہ روکڑا ہماری حکومت میں شامل ضمیر فروش عناصر کو بھی دیتا ہے اور کھلی منڈی میں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے اور اس کھلی منڈی میں مسلح گروہ بہترین جنس شمار کئے جاتے ہیں اور اس جنس کو اپنی بہترین قیمت مطلوب ہوتی ہے وہ قیمت اگر پاکستان سے مل جائے تو "اسلام کے قلعے" کی بنیادیں مضبوط کر کے نیکی کمائی جاتی ہے۔ امریکہ سے مل جائے تو روس کے خلاف "جہاد" کر کے عنداللہ ماجور ہوا جاتا ہے اور اگر سی آئی اے سرمایہ کاری کر دے تو "نفاذِ شریعت" کے نام پر خود کش حملوں کے ذریعہ سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔اور ان خود کش حملوں میں استعمال کیا جاتا ہے ہمارے ہی بچوں کو۔ شاید یہ دین کے ٹھیکیدار خود "72حوروں" سے ملنے میں شرم محسوس کرتے ہیں......۔
پاکستانی عوام کی اوقات ہی کیا ہے؟ یا شاید ان کی جذباتیت ہی ان کو اس مقام تک لے آئی ہے۔ ہم جس کے چوتڑوں پر راکھ لگی دیکھ لیتے ہیں اسے 'باباجی" مان لیتے ہیں۔ جو لمبی داڑھی رکھ لے اسے "مولوی" مان لیتے ہیں بے شک وہ دین کی غلط تشریح کرتا رہے لیکن وہ چونکہ اللہ اور اس کے رسول کا نام لیتا ہے اس لئے قابلِ تقلید ہے۔ ہماری اسی کمزوری کو اہلِ مغرب اور امریکہ نے بخوبی سمجھا اور انہی مداریوں کو تربیت دے کر ہمارے درمیان پھیلایا جو دین کے نام پہ دہشت گردی کرتے ہیں اور دراصل اپنے آقاؤں کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم ان کو چندے دیتے ہیں۔ ان سے عقیدتیں جتلاتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی ان کے حوالے کر دیتے ہیں کہ دین سیکھ لیں یوں ہم ان کو اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا خون افرادی قوت کی صورت میں فراہم کر رہے ہیں۔
وقفے وقفے سے مسلم ممالک میں مارکیٹ سروے کے لئے کوئی نہ کوئی مذہبی دل آزاری والی حرکت کی جاتی ہے تا کہ ہماری جذباتیت کے مدو جذر کے مطابق پالیسیاں بنانے میں مدد مل سکے اور ایک پراکسی ٹارگٹ کو سامنے رکھ کر خود اس کی اوٹ میں رکھ کر کام دکھایا جا سکے۔ نہ جانے ہم مسلمان سمجھتے کیوں نہیں۔ شاید ہم میں سے بہتوں نے تو "لارنس آف عریبیہ" کا نام بھی نہیں سنا ہو گا ، پھر میرے لیکچر جھاڑنے کا کیا فائدہ؟؟؟۔
سچی دل درد مند کی صدا ۔
حقیقت یہی ہے جب بھی امریکی مفادات پر ضرب لگنے کا اندیشہ سامنے آیا ۔ یہ اسلامی جہادی کاروائیاں شروع ۔
اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا راگ سروں کی بلندی پر ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عسکری

معطل
سچی دل درد مند کی صدا ۔
حقیقت یہی ہے جب بھی امریکی مفادات پر ضرب لگنے کا اندیشہ سامنے آیا ۔ یہ اسلامی جہادی کاروائیاں شروع ۔
اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا راگ سروں کی بلندی پر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
فوجی کاروائیوں کے ساتھ جس چیز کو 10 سال سے پاکستانی حکومتوں نے نظر انداز کیا وہ میڈیا وار اور ان کی نرسریوں کو سکھانا تھا اور تعلیم عام کرنی تھی جو کہ افسوس سے نہیں ہو سکا ابھی تک ۔
 

ساجد

محفلین
فوجی کاروائیوں کے ساتھ جس چیز کو 10 سال سے پاکستانی حکومتوں نے نظر انداز کیا وہ میڈیا وار اور ان کی نرسریوں کو سکھانا تھا اور تعلیم عام کرنی تھی جو کہ افسوس سے نہیں ہو سکا ابھی تک ۔
جناب ، بدقسمتی تو یہی ہے کہ پاکستانی حکومتوں نے بھی اسی پراکسی کو استعمال کیا۔ تبھی تو یہ عفریت بے قابو ہے۔
 
ملالہ یوسف زئی پر حملہ شرمنا ک ہے
یہ بات بھی درست ہے کہ جنھوں نے بھی یہ کام کیا ہے ان کی مذمت کی جانی چاہیے
ساجد کی بات بھی قابل غور ہے
مگر سب سے بڑی ذمہ دار خود پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ان کی غلط پالیسیوں اور کمزوری کی وجہ سے پاکستانی عوام غیر محفوظ ہیںِ۔ ہر روز کراچی میں پندرہ لوگ مررہے ہیں مگر کسی کو کوئی فکر نہیں
 

سید ذیشان

محفلین
یہ ہے امریکی طلسمِ ہوش ربا جو آنِ واحد میں یوں رنگ بدلتا ہے کہ دیکھنے اور سننے والے مبہوت رہ جائیں۔پاکستانی طالبان ہیں کیا؟ امریکہ کا ایجاد کردہ عفریت جو اسی کے اشارہ ابرو پر کسی بھی قسم کے غیر انسانی فعل کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا کیوں کہ وہ طالبان مخالف خیالات رکھتی ہے ، پاکستانی فوجیوں کو ذبح کیا جاتا ہے کیونکہ وہ طالبان مخالف ہیں ، پاکستانی عوام کو خود کش حملوں میں مارا جاتا ہے کیوں کہ وہ طالبان مخالف ہیں ۔ ذرا خوردبین لگا کر ڈھونڈئیے کہ ان طالبان نے اب تک پاکستان میں کتنے امریکیوں پر حملے کئے؟ کتنے امریکی اغوا کئے؟ جبکہ ریمنڈ ڈیوس اور اس کے بعد گرفتار ہونے والے امریکی "سفارتکاروں" کی تفتیش کے دوران ان کے پاکستان میں ایسے مدارس کے ساتھ روابط اور دوروں کا انکشاف ہوا جو طالبان کے زیرِ اثر ہیں۔ کیا ابھی بھی ہم امریکی ڈگڈگی پر بندر کی طرح ناچتے ہوئے ملالہ پر ہونے والے حملے کو صرف طالبان کی کارروائی قرار دے کر خود کو دھوکے میں ڈال لیں؟
۔

ہم لوگ تو بہت ہی نیک ہیں کوئی برا کام کر ہی نہیں سکتے۔ سب برے کام رشوت خوری، ڈاکہ زنی، جعلی ادویات بنانا، غیرت کے نام پر قتل، غریب کسانوں کو جاگیرداری نظام کی بنا پر نسلوں تک غلام بنانا، فوج کی پلاٹوں کی سکیمیں، سیاستدانوں کے سویس اکاونٹس، مولیوں کے دین کے نام پر چندے یہ سب بیرونی سازشیں ہیں۔ ہم لوگ دودھ کے دھلے ہیں۔ خدارا اپنے دشمن کو پہچانئے اور denial mode سے باہر آ جائیں۔ کیونکہ اس کے بعد اور بھی بڑے مرحلے طے کرنے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
ہم لوگ تو بہت ہی نیک ہیں کوئی برا کام کر ہی نہیں سکتے۔ سب برے کام رشوت خوری، ڈاکہ زنی، جعلی ادویات بنانا، غیرت کے نام پر قتل، غریب کسانوں کو جاگیرداری نظام کی بنا پر نسلوں تک غلام بنانا، فوج کی پلاٹوں کی سکیمیں، سیاستدانوں کے سویس اکاونٹس، مولیوں کے دین کے نام پر چندے یہ سب بیرونی سازشیں ہیں۔ ہم لوگ دودھ کے دھلے ہیں۔ خدارا اپنے دشمن کو پہچانئے اور denial mode سے باہر آ جائیں۔ کیونکہ اس کے بعد اور بھی بڑے مرحلے طے کرنے ہیں۔
جناب اس میں انکاری پہلو والی بات ہی نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اپنے کر رہے ہیں، ضمائر کی منڈی میں سرمایہ کاری سے مستفید ہونے والے مسلحین۔
 
Top