حسان خان
لائبریرین
بی بی سی اردو سروس میں گل مکئی کے نام سے سوات سے ڈائریاں لکھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی سوات میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئی ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر سوات میں ایک سکول وین پر فائرنگ کی گئی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں امن ایوارڈ یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی سمیت دو طالبات زخمی ہوگئی ہیں۔
فائرنگ کا یہ واقعہ منگل کو سوات کے صدر مقام مینگورہ میں پیش آیا۔
دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمہ داری قبل کر لی ہے۔
تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو فون پر بتایا کے ملالہ یوسف زئی پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ ان کے خیالات طالبان کے خلاف تھے۔
سرکاری ریڈیو سٹیشن کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کو سیدو شریف سے اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ کردیا گیا ہے۔
تاہم ملالہ یوسفزئی کے والد کے اصرار پر ان کو پشاور منتقل کیا گیا۔ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ملالہ یوسفزئی کو پشاور سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا ہے۔
پولیس اہلکار فضل الرحیم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ خواجہ آباد میں واقع ایک نجی سکول کی طالبات سکول وین میں سوار ہو رہی تھیں کہ اس دوران نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔
مقامی حکام کے مطابق نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چودہ سالہ ملالہ شدید زخمی ہوگئیں اور انہیں تشویش ناک حالت میں سیدو شریف کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
پی ٹی وی کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملالہ کی گردن میں گولی لگی ہے اور ان کی جان بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تاحال اس حملے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حملہ آوروں کا ہدف ملالہ ہی تھیں۔
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
صد رآصف علی زرداری نےکہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ انتہا پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پر عزم ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے قبل علاقے کے حالات پر بی بی سی اردو کے لیے ’گل مکئی‘ کے قلمی نام سے ڈائری لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔
بعدازاں حکومتِ پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن یوارڈ بھی دیا تھا۔ انہیں دو ہزار گیارہ میں ’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہی ہے۔ سوات میں سنہ دو ہزار نو میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور شدت پسند مذہبی رہنما مولانا فضل اللہ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔
اس زمانے میں طالبان کے خوف سے اس صورتِ حال پر میڈیا میں بھی کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
ان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کےلیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی۔
اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔
ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں انہوں نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی بھر پور مخالفت کی تھی۔
ماخذ
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر سوات میں ایک سکول وین پر فائرنگ کی گئی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں امن ایوارڈ یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی سمیت دو طالبات زخمی ہوگئی ہیں۔
فائرنگ کا یہ واقعہ منگل کو سوات کے صدر مقام مینگورہ میں پیش آیا۔
دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمہ داری قبل کر لی ہے۔
تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو فون پر بتایا کے ملالہ یوسف زئی پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ ان کے خیالات طالبان کے خلاف تھے۔
سرکاری ریڈیو سٹیشن کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کو سیدو شریف سے اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ کردیا گیا ہے۔
تاہم ملالہ یوسفزئی کے والد کے اصرار پر ان کو پشاور منتقل کیا گیا۔ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ملالہ یوسفزئی کو پشاور سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا ہے۔
پولیس اہلکار فضل الرحیم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ خواجہ آباد میں واقع ایک نجی سکول کی طالبات سکول وین میں سوار ہو رہی تھیں کہ اس دوران نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔
مقامی حکام کے مطابق نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چودہ سالہ ملالہ شدید زخمی ہوگئیں اور انہیں تشویش ناک حالت میں سیدو شریف کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
پی ٹی وی کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملالہ کی گردن میں گولی لگی ہے اور ان کی جان بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تاحال اس حملے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حملہ آوروں کا ہدف ملالہ ہی تھیں۔
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
صد رآصف علی زرداری نےکہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ انتہا پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پر عزم ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے قبل علاقے کے حالات پر بی بی سی اردو کے لیے ’گل مکئی‘ کے قلمی نام سے ڈائری لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔
بعدازاں حکومتِ پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن یوارڈ بھی دیا تھا۔ انہیں دو ہزار گیارہ میں ’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہی ہے۔ سوات میں سنہ دو ہزار نو میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور شدت پسند مذہبی رہنما مولانا فضل اللہ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔
اس زمانے میں طالبان کے خوف سے اس صورتِ حال پر میڈیا میں بھی کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
ان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کےلیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی۔
اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔
ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں انہوں نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی بھر پور مخالفت کی تھی۔
ماخذ