اصل میں ہوا کچھ یوں تھا کہ بروز پیر ہم عدنان بھائی سے فون پر بات کررہے تھے۔اس دوران انہوں نے جانے کس دل سے دل پر پتھر رکھ کر کہا،تم سے ملنے کو دل کرتا ہے۔ اب ہم کہ ٹھہرے نرم دل، رحم دل، سخی دل وغیرہ وغیرہ، فوراً ان کی باتوں کے جھانسے میں آگئے اور لگے انہیں دعوت دینے کہ آج رات ڈنر پر مل لیں۔اب وہ کہ ٹھہرے ایک نمبر کے یو ٹرن باز بھیا، فوراً یو ٹرن لے لیا:
’’نہیں بھیا، آج نہیں، کل کا رکھ لیں۔‘‘
ہم اپنی ازلی ابدی شرافت کے ہاتھوں ہمیشہ مجبور ہوجاتے ہیں، اب بھی ہوگئے۔شاہد بھائی عرف ٹرومین کو فون کیا کہ اگلے دن منگل کو پریتم آن ملو۔ چوں کہ یہ پریتم شعر و شاعری والے نہیں ہیں جو شاعر کے جان دینے پر بھی نہیں آتے چناں چہ فوراً مان گئے۔
اگرچہ ایفائے عہد کے معاملہ میں بھیا کا سابقہ ریکارڈ ذرا بھی تسلی بخش نہیں ہے، پھر بھی ہم نے ان کے وعدہ پر اعتبار کیا اور غضب کیا جو ترے وعدے پہ اعتبار کیا۔اگلے دن فون کرکے یاد دہانی کرائی تو کہنے لگے:
’’نہیں بھیا، آج نہیں، جمعہ کا رکھ لیں۔‘‘
اب بتائیے اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہیے تھا؟ وہی نا جو اس وقت آپ کا دل کہہ رہا ہے؟ لیکن دل کے ہر کہے پر عمل کرنا کہاں ممکن ہے سو صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئے۔ جمعہ کے دن واٹس ایپ پر گروپ بنایا جس میں ہر دو صاحبان کو ایڈ کیا اور میسج بھیجا آج جمعہ ہے، جمعہ کا وعدہ ہے۔ٹرومین بھائی نے جواب دیا جی ہاں، ہمیں یاد ہے اور ہماری تشریف آوری ضرور ہوگی۔
عدنان بھیا کی جانب مسلسل خاموشی چھائی رہی، ہم انتظار کرتے رہے، کرتے رہے، کرتے رہے، اس وقت تک جب تک ہماری آخری حد نہیں آگئی۔ اور جب آخری حد آگئی تو ہم نے حد درجہ ناراض ہوکر انہیں کال ملائی، مگر عدنان بھائی نے کال ریسیو نہ کی۔اس موقع پر ایک عاقل بالغ انسان ہونے کے ناطے ہماری جو کیفیات تھیں وہ فطرت کے عین قریب تھیں۔قریب تھا کہ کوئی انتہائی درجہ کا شدید سانحہ رونما ہوجاتا کہ بھیا کی کال آگئی، اور وہی گھسی پٹی بہانے بازیاں شروع ہوگئیں، موبائل چارج پہ تھا، انچارج سر پہ تھا وغیرہ وغیرہ۔
ہم نے پوچھا خلاصہ بتائیں کہ آرہے ہیں یا نہیں؟ پورا یقین تھا کہ جواب نہیں میں ہوگا۔خلافِ توقع عدنان بھائی نے کہا:
’’ہاں ہاں، بھیا کیوں نہیں آئیں گے، رات کو نو بجے آرہے ہیں۔‘‘
ہم نے اس یقین کے ساتھ فون بند کیا کہ اگلا انکار نو بجے سننے کو ملے گا۔تھوڑی دیر بعد ٹرومین بھائی کا فون آگیا کہ مجھے ضروری کام سے جانا ہے لہٰذا دس بجے تک آؤں گا۔ یہ ٹرومین یعنی سچے پکے انسان کا سچا پکا ریکارڈ ہے کہ ہمیشہ دئیے گئے ٹائم سے ٹھیک ایک گھنٹہ لیٹ آتے ہیں۔ پہلے آٹھ بجے کا وقت دیا تھا تو نو بجے آئے۔اب نو بجے کا وقت رکھا تو دس بجا دئیے۔لیکن لیٹ آکر اتنی معصوم شکل بنا کر معذرت پیش کریں گے کہ بندہ خود کو ہی کوسنے لگتا ہے کہ ناحق اس معصوم اور فرشتہ صفت انسان پر غصہ ہوئے۔مگر اس بار ان کے ساتھ معاملہ کچھ ایسا تھا کہ انہوں نے جو کیا ٹھیک کیا۔
ہم دئیے گئے وقت کے مطابق ٹھیک نو بجے گھر سے نکلے۔ پہنچنے والے تھے کہ عدنان بھائی کی کال آگئی:
’’ہم نو بجے سے مسجد کی سیڑھیوں پہ بیٹھے ہیں، آپ کہاں بیٹھے ہیں؟‘‘
ہم نے کہا: ’’سواری پہ بیٹھے ہیں،قریب ہی ہیں، بس دو تین منٹ میں پہنچ رہے ہیں۔‘‘
یہ جو بھیا نے تحریر کیا ہے کہ ہم فون کرنے کے پندرہ منٹ بعد پہنچے، اسے محض مجذوب کی بڑ سمجھا جائے۔سوا نو بجے ہم بھیا کے سامنے کھڑے تھے۔ٹرومین بھائی کو فون کیا، انہوں نے نہیں اٹھایا،سوچ رہے ہوں گے کیوں بلاوجہ دماغ کی دہی اور دہی کی لسی کروں، پہنچنے کے بعد اکٹھے ہی دو دو ہاتھ کرلیں گے۔
تھوڑی دیر بعد ہم اور بھیا قریبی ہوٹل میں جا بیٹھے، فوراً ہی بیرے سر پر آ بیٹھے۔ ہم نے عرض کیا:
’’اے بھائی، ہم اپنے بھائی کا انتظار کررہے ہیں، جب تک وہ نہیں آجاتے آپ بھی انتظار کریں۔‘‘ بیرے سر سے جا اُترے اور انتظار کرنے میں مصروف ہوگئے۔
اس دوران بھیا نے طویل غیر حاضری کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات سے باخبر کرنا شروع کیا، جیسے ہی سانس لینے رکے موقع غنیمت جان کر ٹرومین بھائی آن پہنچے۔ ٹائم دیکھا، دس بج رہے تھے، ہم نے بے تکان بولتے بھیا کو دیکھا، بھیا نے نظریں چرا کر مینو کارڈ کو دیکھا، ٹرومین بھائی نے صورتِ حال کو دیکھا اور فوراً سخاوت کے دریا بہادئیے کہ آج کی دعوت میری طرف سے ہے۔ بھیا کے ہاتھ سے مینو کارڈ گرگیا، بانچھیں کھل گئیں، جھوٹے منہ بھی نہ کہا گیا کہ بھائی یہ مناسب نہیں ہے۔ نہیں بھئی نہیں، بھیا خواب میں بھی یہ نہیں بولیں گے، ڈرتے ہیں کہیں سامنے والا ان کی بات کی لاج نہ رکھ لے۔
کھانے سے قبل سلاد پیش کی گئی۔ ہمارا بھوک سے اچھا حال ہورہا تھا۔ ہم بھوک کو برا حال نہیں کہہ سکتے اگر خدانخواستہ بھوک ناراض ہوگئی تو ہمارے کھانے پینے کے سسٹم کا کیا ہوگا؟ ہم بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر سلاد کھانے لگے۔ ہوشیار بھیا نے ہاتھ تک نہ لگایا، ہم سب سمجھ رہے تھے کہ بھیا دعوت کھانے کے چکر میں منگل سے کچھ نہیں کھا رہے تھے، اب برت کیسے توڑ دیں۔
کھانے میں چائینیز رائس، گولہ کباب، چکن تکہ، رائتہ اور سلاد تھا۔ سب نے مزے لے لے کر کھایا اور کھا کھا کر مزے لیے۔ بھیا نے اتنا کھایا کہ بدہضمی ہوگئی، اسے دور کرنے کے لیے فرمائشیں شروع ہوگئیں، مچلنے لگے کہ ہمیں گرین ٹی پلاؤ۔ اب انہیں اتنی دور سے بلایا ہے تو نخرے بھی اٹھانے تھے۔گرین ٹی کا پوچھتے پوچھتے ٹی ہاؤس پہنچے، وہاں ہماری فرمائشیں شروع ہوگئیں، بیرے سے کہا میٹھا کم اور لیموں زیادہ، ساتھ ادرک کا تڑکا۔ گاہک بنانے کے چکر میں بیرا ہمارے چکروں میں آگیا اور جو کہا پورا کردکھایا۔
گرم ماحوم میں محفل کی سرد پڑتی رونقوں کی بات چھڑی اور آپ تو جانتے ہیں کہ اب کے جو بات چھڑی تو بہت دور تلک جائے گی سو بہت دور تلک گئی۔ شاہد بھائی عرف ٹرومین نے اس حوالہ سے تجزیہ پیش کیا، جس کا ایک نکتہ یہ تھا کہ اردو رسم الخط کی سہولت کی وجہ سے اکثر محفلین فیس بک، ٹوئیٹر اور واٹس ایپ پر زیادہ فعال ہوگئے، اس کے باعث محفل پر توجہ کم ہوگئی ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ اس دوران عظیم بھائی عرف فلسفی کی محبتوں اور اخلاص کو یاد کیا گیا کہ وہ کس طرح شاہد بھائی سے ملنے ریاض سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔
کھانا کھانے کے بعد چائے پینا اور چائے پینے کے بعد پان کھانا ہمارے لوازمات میں شامل ہے۔ لہٰذا ایک بڑی پان شاپ پہ گئے، پان والے کے بے حد اصرار کے باوجود اس کے پہلے سے بنے رکھے پان کھانے سے انکار کیا، خود اپنی زیر نگرانی، اپنی مرضی کے مسالہ جات ڈلوا کر من پسند پان بنوایا اور وہ لطف و سرور پایا جو اس نوع کے پان کا خاصا ہوتا ہے۔
چوں کہ کھالیا تھا، پی لیاتھا، اب کرنے کو کچھ اورنہیں تھا چناں چہ مزید کیا رکنا تھا سو سلام علیک کی اور ایک ایک کرکے رخصت ہوئے۔
جانے سے پہلے ایک اہم بات کی طرف توجہ مرکوز کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ کر سب سے پہلے راہِ فرار اختیار کرنے والی جانی پہچانی، مشہور زمانہ اور نامور شخصیت اپنے بھیا ہی کی تھی!!!