صلیبیں اٹھائے لوگ
حسن مجتییٰ
بی بی سی اردو بلاگ
مجھے اختر کالونی کراچی کا وہ ٹین ایج لڑکا یاد ہے جس کے والدین اسے گھر سے بن سنور کر اچھے کپڑے پہن کر باہر نکلنے سے منع کرتے تھے کہ کہیں پڑوسی مارے حسد کے اس پر 'توہین رسالت' کی آڑ لے کر حملہ نہ کرديں۔ یہ وہ دن تھے جب اختر کالونی جیسی بستی میں بھی سپاہ صحابہ والے آن پہنچے تھے۔
میں ان دنوں وائی ایم سی اے، کراچی میں رہتا تھا جہاں کے سکول کی بچیوں کو قریب کے آرٹلری تھانہ میدان کے لڑکے اور برنس روڈ کے پہلوان روز آکر چھیڑا کرتے تھے۔ ایک دن کسی ایسے اوباش نے وائی ایم سی اے سکول سے چھٹی کے وقت نکلتی لڑکی کے گال پر تھپڑ مار دیا تھا۔ جب کسی راہ گیر نے نوجوان کے اس اقدم پر مداخلت کرنا چاہی تو اسے کہا گیا 'تمہارا کیا! لڑکی تو عیسائی ہے۔' لڑکی کی مدد کو آنے والے عیسائی نوجوانوں کو 'توہین رسالت' کی دھمکی دے کر خاموش کردیا گیا۔
کراچی وائی ایم سی اے ایک عجیب نگر تھا۔ اب سنا ہے وائی ایم سی اے کے سو سال کی لیز ختم ہونے پر اس پر لینڈ مافیا اور ایک 'نامعلوم' گروپ نے قبضہ کرلیا ہے۔
مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب مجھے ایک عیسائی ٹیکسی ڈرائیور سلیم مسیح نے بتایا تھا کہ رشوت نہ دینے پر ٹریفک اے ایس آئی اس کے چالان پر لکھنے لگا تھا 'ملزم ڈرائيور نے سلمان رشدی کے کتاب کی تعریف کی۔'
سلیم مسیح ڈرائیور نے مجھے بتایا تھا کہ وہ تو بھلا ہو ٹریفک پولیس افسر کے دوسرے ساتھیوں کا جنہوں نے اسے 'توہین رسالت' کے قانون کے غلط استعمال سے روک دیا تھا۔
صدر میں جہانگیر پارک کے سامنے تاریخی سینٹ اینڈریو چرچ کی بیرونی دیوار کو بھائی لوگوں نے آتے جاتے ایک اوپن ایئر پیشاب گھر میں بدل دیا تھا۔ جب چرچ کے پادری نے ایسا کرنے والوں سے احتجاج کیا تو اسے کہا گیا 'یہ مسجد نہیں چرچ ہے۔'
ان دنوں بینظیر بھٹو کی حکومت تھی اور وائی ایم سی اے کے مسیحی چوکیدار نے مجھ سے کہا 'حسن بھائی، حکومت ان پر کیوں توہین رسالت نہیں لگاتی جو کہتے ہیں بھٹو یسوع کی طرح صلیب پر چڑھ گیا تھا'۔ بشیر بھائی چوکیدار عجیب آدمی تھا۔ ایک رات اس نے مجھے اپنی جیب سے کسی مدرسے کی ایک سند نکال کر دکھائی کہ جو اس کے عیسائی مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہونے کی تھی۔ پھر وہ کہنے لگا 'کیا کریں، کل اگر کوئی ایسی ویسی بات ہو جائے تو بچا تو جائے'۔