فارقلیط رحمانی
لائبریرین
واہ! ان گول گپوں کو صوبہ گجرات کی گجراتی زبان میں پکوڑیاں کہتے ہیں،(چنے کے آٹے یا بیسن کے جو پکوڑے بنائے جاتے ہیں انہیں گجراتی میں بھجیے(بھجیے=بھج+ یے)کہا جاتا ہے۔) ان کا دوسرا نام پانی پوری بھی ہے۔اتر پردیس میں یہ پانی بتاشے اور پانی پکوڑی کے طور پر معروف ہیں۔شہر احمدآباد میں افراط ہیں ان کے ٹھیلوں کی۔ ہر مہک ، ہر فلیور میں دستیاب ہیں، پودینہ، لہسن، کھجور کی چٹنی، زیرہ، سونف، ۔۔۔۔۔۔جیسے تقریباً آٹھ فلیورز میں دستیاب ہیں، پرانے قلعہ کی فصیل سے گھرے ہوئے شہر کے علاقوں میں پانچ روپے کے چار عدد تو فصیلی شہر (Walled City)سے باہر فی عدد پانچ روپے کے حساب سے دستیا ب ہیں۔ مردوں کے مقابلے عورتیں اس کی زیادہ شوقین ہوتی ہیں۔ چونکہ اس کے بیچ سوراخ کرنے کے بعد اسے پانی میں ڈبوتے وقت کھلانے والے کا ہاتھ بھی اس پانی میں ڈوبتا ہے۔ لہٰذا نفاست پسند افراد اسے کھانا پسند نہیں کرتے۔ البتہ۔ نفاست پسندوں کی نفاست کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ گول گپہ فروشوں نے اس کا ایک حل تلاش کر لیا اور وہ یہ کہ انہوں نے مٹکے سے پانی نکالنے والے ڈونگے کے تلے میں ایک سوراخ کر لیا اور اس سے پانی نکال کر سوراخ سے بہنے والے پانی سے گول گپوں کو بھر کر فروخت کر نے لگے اس طرح اب کچھ نفاست پسند بھی اس طرف راغب ہوئے ہیں۔ پہلے گول گپے صرف اتر پردیس کے ہندو ہی بناتے اور فروخت کرتے تھے۔جو بھیا جی کہلاتے تھے۔ لیکن اب مسلمان بھی اس صنعت و تجارت میں شامل ہو چکے ہیں۔ ماہِ رمضان میں افطاری کے بعد اس کے ٹھیلوں پر شہد کی مکھیوں کی طرح روزہ داروں کا ہجوم رہتا ہے۔