جے ایف-17 تھنڈر -
JF-
17 Thunder یا FC-1Xiaolong Fierce Dragon
ایک ایسا پروجیکٹ ہے جس سے پاکستانی عوام کا مستقبل اور جذبات وابسطہ ہیں ۔
اس کو میں ایسے جانتا ہوں جیسے اپنے گھر کے کسی فرد کو ۔حالنکہ میری اس سے ملاقات 2010 میں ہوئی تھی ۔
پر میں اسے 2003 سے جانتا ہوں ۔
اس کی ایک بہت ہی لمبی داستان ہے جو اصل میں اف-7 ایم سے شروع ہوئی تھی ۔ پاکستان نے اف-7 پی کے بعد جب ایف7 ایم کو پہلی بار دیکھا تو اس میں بہت انٹرسٹ تھا پاکستان کے لیے اپنے جیف6 جہازوں کو تبدیل کرنے کے بارے میں ۔ پاکستان چاہتا تھا کہ ایف-7 ایم کو دوبارہ یورپیین یا امیرکن سسٹمز کے ساتھ بنایا جائے ۔ گروومین امریکی جہاز ساز کمپنی کو شامل کر کے سابر-2 کے نام سے جہاز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔2 سال تک سوپر-7 یا سابر =2 کے اوپر امریکی کمپنی کام کرتی رہی کہ چاہنا میں ہونے والے مظاہروں جنہیں تینان مین سٹریٹ کے مظاہروں سے یاد کیا جاتا ہے ہو گئے ۔ چائنا نے طاقت کا استمال کیا تو امریکہ نے چائنا پر پابندیاں لگا دی ۔ گرومین پروگیکٹ چھوڑ کر چلی گئی اور چائنا اکیلا اس پر کام کرتا رہا ۔لیکن جو پروگرام امریکی انجن ایویونکس اور اور ٹیکنیکی مدد سے شروع ہو تھا امریکی کمپنی کے بغیر اس کا مکمل ہونا نا ممکن ہو چکا تھا ۔بالاخر پاکستان نے بھی سوپر-7 یا سابر-2 سے ہاتھ کھینچ لیا اور یہ پروجیکٹ ختم ہو گیا ۔ لیکن اس کا بیسیک ڈیزائین کہیں گم گشتہ اوراق میں پڑا رہا ۔ پاکستان نے ایف-7 پی جی بنوا لیئے جن پر پہت ساری پاکستانی ٹیکنالوجی بھی استمال ہوئی اور معاملات جوں کے تو رہے ۔ اس دوران 9 سال میں پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا ۔چائنا اب وہ چائنا نہیں تھا اور پاکستان بھی وہ پاکستان نہیں تھا 1995 میں پاکستان نے کوشش کی تھی کہ یورپی کمپنی سابر-2 کے لیئے ایوینکس مہیا کرے ۔ اٹلی کی کمپنی جس سیلیکس گلیلو جس کے پاکستان سے بہت گہرے تعلقات ہیں نے آفر بھی کہ پر معاملہ جوں کا تو رہا ۔ 1999 میں جب پابندیاں انتہا کو پینچی اور پاکستان کو آگے کوئی راہ سجھائی نا دی تو پاکستان سوچ میں پڑا دوبارا سوپر -7 کی ۔ امریکہ نے 66 ایف سولہ روک رکھے تھے 11 سال سے روس کچھ بیچنے کو تیار نہیں تھا یورپ امریکہ کے پیچھے چلتا ہے ۔ اسطرح پاکستان اگر حرکت نا کرتا تو دوسرا عراق یا شام کی ائیر فورس بن جاتا ۔ 1999 میں دوبارہ پر جوش طریقے سے ایگریمنٹ ہوئے سینکڑوں چینی پاکستان ائیرو ناٹیکل انجینیرز نے مل کر سوپر-7 سابر-3 کا نیا ڈیزائین بنایا اور اس کے لئے چائنا نے روس کو کلموف آر ڈی 93 انجن بیچنے پر آمادہ کیا ۔ بھارت نے اس دوران روس پر جتنا ڈال سکتا تھا دباؤ ڈالا کہ انجن ڈیل کینسل ہو جائے پر ڈیل پوٹن نے سائن کر دی اور پوری بھی کی ۔ اس دوران چائنا اپنا انجن ڈبلیو ایس 10 اور ڈبلیو ایس 15 پر بھی کام کرتا رہا جو کہ مستقبل میں ان جہازوں کے علاوہ جے-10 ایف-20 جے 11 بی پر بھی استمال ہونے تھے ۔ یاد رہے جہازوں میں سب سے مشکل ٹیکنالوجی جیٹ انجن بنانا ہے ۔ بھارت نے 1986 میں کاویری کے نام سے جیٹ انجن بنانا شروع کیا جو19 جون 2012 میں ناکام ہو کر ختم کر دیا گیا 64 ملین ڈالر تخمینہ جو انڈیا نے لگایا تھا کاویری کا وہ 2 ارب ڈالر ضائع کر کے بھی نا بن سکا ۔ اور اسطرح انڈیا کا بنا تیجاس جیٹ 15 سال لیٹ ہو گیا ہے ،
1999 میں نئے معاہدے کے تحت پاکستان چائنا نے 50-50 پارٹنر شپ کی جے ایف-17 میں اور پاکستان نے 500 ملین ڈالر ادا کر دئے ۔ کام زار شور سے شروع ہوا کہ اب ناکامی نا ہو ۔پاکستانی انجینیرز نے یہ ہرف سامنے رکھا کہ اس جہاز کو پاکستان کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالہ جائے جو ہماری ملتی رول لو کاسٹ جیٹ کی ضرورتوں کو پورا کے ۔ پاکستان نے اس سے اپنے 182 ایف-7 80 میراج5 نوے میراج3 اور 50 اے-5 جہازوں کو تبدیل کرنا تھا ۔ اتنی پری تعداد میں تیسری جنریشن کے جہازوں کو چوتھی جنریشن کے جہازوں کو خرید کر پورا کرنا پاکستان جیسے ملک کے لیے نا ممکن کام ہے ۔ جہاز جو 20 سال پہلے 15 ملین ڈالر کا تھا اب 65 ملین کا ہو چکا ہے ۔اس کا واحدحل جہاز بنانا تھا ۔ ائیر فورس کی کمانڈ گاہے بہ گاہے چائنا جاتی رہی اور پروجیکٹ دیکھتی رہی ۔2001 میں کام کے دوران ہی پاکستنا ائیر فورس نے ائیر فریم میں تبدیلی کر ڈالی جو کہ پروجیکٹ کو تھوڑا اور لیٹ کر گئی ۔ 2002 میں ائیر فریم ایویونکس تیار ہو چکے تھے انیجن روس سے پہلی گھیپ جیسے ہی پہنچی کام شروع ہو گیا ۔ انجن فٹ کرنا بھی ایک مشکل کام ہے جس میں مہینوں لگے 2003 میں پہلی بار جہاز نے دن کی روشنی دیکھی اور اسے ہینگر سے باہر نکالا گیا تھوڑا ٹہلا کر واپس اندر ۔کچھ دن بعد ٹیکسی ٹرائل اور رن وے ٹرائیل ہوئے اور ہوتے رہے ۔ پی ٹی ون یعینی پروٹو ٹائپ نمبر-1 یہ جہاز 31 مئی 2003 کو ایک بہت ہی پر وقار تقریب میں پہلی بار ٹیک آف کر گیا 16 منٹ تک ہونے والی اس پہلی پرواز کو چائنا کا ٹیسٹ پائلٹ نے اڑایا ۔
اس کے بعد تجربوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور ادھر مزید پروٹو ٹائپ بنائے گئے ۔ 4 پروٹو ٹائپ بنانے کے بعد ایک اور زبردست کام کیا گیا وہ تھا ڈیزائن میں مزید تبدیلی کر کے جہاز کے ائیر انٹیکس کو ڈی ایس آئی ٹینالوجہ سے مزین کر دیا گیا جو کہ اسوقت تک صرف جے ایف-17 اور امریکہ کے آخری جہاز ایف-35 میں ہے ۔یہ ایسی ٹینالوجی ہے جس سے انجن کو ہوا جانے والے ان ٹیکس پر ابھار بنا کر انجن کے بلیڈز کو چھپا دیا جاتا ہے اسطرح جہاز کی راڈار کراس سیکشن کم ہو جاتی ہے اور وہ مزید چھوٹا نظر آتا ہے راڈار کو ۔ یہ پہلا میجر سرپرائز تھا دنیا کو جے ایف 17 کا ۔ 2004 سے 2007 تک 6 پروٹو ٹائپ اور 2 سمال بیچ پروڈکشن سے جہاز بنائے گئے ۔ پروٹو ٹائپ 4 اور 6 کو مستقل بنا کر جہاز کی پروڈکشن شروع ہو گئی ۔ اسی دوران کامرہ میں ایک طرھ سے جے ایف -17 کا شہر بسایا گیا جس میں پروڈکشن ہینگرز راڈار اور ایونکس بنانے کی فیکٹریاں پائب فیٹکری کلر فیکٹری اور کئی دوسی فیسیلیٹیز بنائی گئی ۔ 2007 کے 2مارچ میں پاکستان پہلے دو جہاز پہنچے ایک 07-101 اور دوسرا 07-102 اور یہ پہلی بار 23 مارچ کی تقریب میں اڑے ۔
2 مزید جہاز سمال بیچ پرودکشن سے پاکستان کو 2009 میں ملے اور پاکستان میں جہاز بنانے کا کام شروع ہو گیا 23 نومبر 2009 کو پہلا پاکستان کا بنا جہاز رول آؤٹ ہوا اور ایک بہت بڑی تقریب منعقد کی گئی ۔ اور سیریل پرودکشن شروع گئی ۔
18 فروری 2010 تک پاکستان کو پاس ٹوٹل 16 جے ایف-17 بن چکے تھے جنہیں پہلی بار سروس مین انڈکٹ کر دیا گیا ۔ 25 اے-5 جہازوں والے سکوڈرن نمبر26 بلیک سپائڈرز کو جے ایف-17 دیے گئے جو کہ پشاور میں بیسڈ ہے ۔ اور اے-5 کو سروس سے ریٹائرڈ کر دیا گیا ۔
11 اپریل 2011 کو مزید ایک سکوڈرن جہازوں کا بن چکا تھا جسے نمبر 16 بلیک سپائڈرز کے حوالے کای گیا اور ان سے بھی اے-5 واپس لے لیے گئے اسطرح اے -5 کو مکمل سروس سے نکال دیا گیا اور تیسے سکوڈرن کے جہاز بنانے کا کام شروع ہوا تیسرا سکوڈرن حال ہی مین مکمل ہوا ہے جس کی ابھی تک کوئی نیوز نہیں ائی ہے ۔
جے ایف-17 پاکستانی چینی اور امریکی ہتھیارون کو لے جانے کی صلاحیت والا یاک ایڈوانس جہاز ہے ۔ یہ ہر موسم میں دن رات اپنا کام کر سکتا ہے اس میں ڈیٹا لنک سسٹم ہیں جس سے یہ آپس میں یا اواکس کے ساتھ جو کہ زیڈ ڈی تھری ہے ڈیٹا ٹرانسفر کرتا ہے ۔ اس پر بی وی آر میزائیل ایس ڈی-10 لگائے جاتے ہیں جو کہ دشمن کے جہازوں کو 100 کلو میٹر تک نشانہ بناتا ہے ۔ پی ایل-5 میزائیل نصب ہوتے ہیں جو شارٹ رینج ہیں سی-802 اینٹی شپ میزائیل جو 250 کلو میٹر سے دشمن کے بحری جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں اور سی 803 جو کہ 350 کلو میٹر رینج کے ہیں۔ پاکستان کے بنے رعد کروز میزائیل سے لیس کیا جا سکتا ہے جو کہ 390 کلو میٹر تک نشانہ لگاتے ہیں نیوکلئیر وار ہیڈ بھی استمال کر سکتا ہے ۔ اسی طرھ پاکستان کا بنا بلیک ایرو میزائیل بھی نصب کیا جا سکتا ہے جو 67 کلو میٹر تک جہازوں کو نشانہ بناتا ہے ۔برازیل سے ایم ون پھرانا میزائیل لایا گیا ہے جو کہ 10 کلو میتر تک جہازون کو نشانہ بناتا ہے ۔ مار-1 اینتی ریدی ایشن میزائیل سے جے ایف-17 100 کلو میٹر تک دشمن کے راڈاروں کو نشانہ بناتا ہے ۔یہ چائنا کے بنے جی بی یو طرز کے ایل ٹی میزائیل بھی کیری کرتا ہے جو کہ لیزر گائڈڈ ہیں یہ کلسٹر بم جیسئ حجارہ اور روکی بھی دیلورو کرتا ہے ۔اینٹی رن وے میں یہ دیورینڈل اور آر پی بی استمال کرتا ہے اور ایم کے سریز کے سارے فری فال بم 500 کے جی 1000 جی والے بھی اس پر استمال ہو سکتے ہیں ۔اس کی اپنی ڈبل بیریل گن بھی ہے جو جہاز میں فٹ ہے ۔اس میں ٹارگٹ پوڈز اور ریکونینس پوڈز بھی نصب ہوتی ہیں الغرق یہ پاکستان کا بنا ایف سولہ کہا جا سکتا ہے جو پاکستان میں موجود 90 فیصد ہوائی ہتھیار کیری کرتا ہے ۔ فضا میں ایندھن بھرنے کاسستم بلوک-2 میں نصب کیا جا رہا ہے
ابھی تک اس کا سنگل سیٹ ویرزن ہے
وزن 6586 کلو ہے اور یہ 3 ٹن ہتھیار لے جا سکتا ہے
اس کی سپیڈ 1909 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے
اور یہ 3500 کلو میٹر تک اڑتا ہے اپنے فیول سے
اس کت 7 ہارڈ پوئنٹ ہیں جن پر ملتی ریک بھی استمال ہو سکتے ہیں اگر ہتھیار زیادہ ہو تو ۔
اور یہ 55 ہزار فٹ کی بلندی تک جا سکتا ہے
اب تک پاکستان 42 جہاز بنا چکا ہے بلوک-1 میں 50 جہاز بنائیں جائیں گے بلوک 2 اور بلوک3 میں 100 ہر بلوک میں اسطرح پاکستان 250 جہاز بنائے گا اور پھر اس کو فروخت بھی کیا جائے گا بہت سارے ممالک نے اسے خریدنے میں دلچسبی لی ہے پر پاکستان کی ضرورت جب تک پوری نہیں ہوتی اس کی فروخت ممکن نہیں ۔ اس نے 4 ائیر شوز میں حصہ لیا ہے جس سے دنیا کو یہ جاننے کا موقع ملا کہ پاکستان کیا کچھ بنا رہا ہے اور بنا سکتا ہے ۔ بریطانیہ دوبئی اور چائنا ترکی کے ائیر شوز میں جے ایف-17 پاکستانی جھنڈا لہرا چکا ہے
یہ بڑی بری باتیں ہیں جو بتائی جا سکتی ہیں جے-ایف-17 تھنڈر کے بارے میں اگر کوئی سوال ہو تو ویلکم ورنہ تو اس پر ایک بھر پور دھاگہ بنایا جا سکتا ہے
پی ٹی 01 کی پہلی پرواز
9 اپریل2004 کو پہلی بار پاکستانی ٹیسٹ پائلٹوں نے جہاز کو اڑایا ۔ چائنا کے اسی ائیر بیس سے جہاں یہ جہاز بنتے ہیں سکواڈرن لیڈر احسان الحق اور سکواڈرن لیڈر راشد حبیب نے اسے 30 منٹ کے لیے اڑایا ۔
پہلا پاکستانی پائلٹ
پہلا پاکستانی جہاز 101
مارک-82 امریکی بمون سے لیس
3 ڈارپ ٹینک اور 4 فری فال بموں 2 پی ایل-5 میزائیلوں سے لیس
چائنا ائیر شو میں
برٹش ائیر شو میں
پاکستان کا بنا پہلا جے ایف-17 جسے 111 کہتے ہیں
سکوڈرن-26 کے جوان پشاور پہنچنے پر
ترکی میں
چائنا ائیر شو میں
ڈی ایس آئی انٹیک قریب سے
پاکستان میں بناتے وقت
سی-802 میزائیلوں سے لیس
سکوڈرن کی لائن اپ
الیکٹرونیک پوڈ سے لیس