یکے نیم میں بیٹھے پیتے تھے غنچی
کہ پوشیدہ غنچی وہاں آپڑی
لڑکپن کی دھندلاتی یادوں میں اکثر ایک شعر کبھی کبھی گونجتا ہے جو والد صاحب کبھی کبھی پڑھا کرتے تھے۔ شعرکی لطافت سے محظوظ ہو نے کی استعداد کے پیدا ہو نے کے با وجود یہ پلؑے نہ پڑتا تھا سو ایک دن والد صاحب نے کچھ پس منظر بتایا تو پتا چلا کہ اس پس منظر کے بغیر یہ بھی لایعنی ہی ہے۔کچھ لوگ ہندی مین فارسی کی پیوند کاری کیا کرتے تھے ۔ اور شعری ذوق کی مجبوری کے باعث ایسے نمونے وجود میں آجاتے تھے۔ ایک دن یہ ہی لوگ ڈیوڑھی میں بیٹھے حقہ کا مزہ لے رہے تھے کہ وہاں اچانک ایک چھپ کلی آ کے گری اور کسی نے اس واقعے کو منظوم کر دیا ۔ اب ڈیوڑھی غنچے اور چھپکلی کا زبان وبیان میں ایسا الجھاؤ پیش کیا کہ عقل عاجز ہو رہی ۔
یکے نیم تو ہوگیا ایک اور آدھا ۔یعنی ڈیڑھ سو ڈیوڑھی کا متبادل ہوا۔ غنچی وہ لوگ کہتے تھے حقے کو۔سو بات یہ بنی کہ ڈیوڑھی میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔اب غنچی کو پہلے مصرع میں حقہ تھی دوسرے مصرع میں پھول کی کلی کا روپ دھار گئی اور پوشیدہ ہوکر چھپکلی بن گئی اور ان کی حقے کی محفل مین مخل ہو گئی۔