سیما علی
لائبریرین
ظہیراحمدظہیر صاحب !!!سیما علی ، اس خزانے کی حفاظت کیجئے۔ کتب خانوں کا اجڑنا اور ضائع ہونا اب عام ہوتا جارہا ہے۔ یہاں امریکا میں کئی ایسے واقعات ہوئے کہ والد یا والدہ نے جو ذخیرہء کتب زندگی بھرمحنت اور محبت سے جمع کیا تھا وہ ان کی وفات کے بعد اولاد نے ضائع کردیا کہ نہ تو وہ اردو لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو شعر و ادب کا شوق ہے۔ محبی و مکرمی سرور عالم راز سرور کہ اب اسی بیاسی سال کے ہوچکے ہیں آئے دن اپنی کتابیں مختلف جگہوں پر عطیہ کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں کچھ یونیورسٹیاں ہیں کہ جن میں اردو چیئر یا اردو کا شعبہ موجود ہے وہ کتابیں لے لیتے ہیں ۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی عرصہ ہوا کتابیں جمع کرنا چھوڑدیں ۔ اب برقی کتب سے کام چلاتا ہوں ۔ آپ اگر ان کتب کو رکھنا چاہتی ہیں تو بہت ہی اچھی بات ہے ورنہ کسی ادارے یا لائبریری وغیرہ کو عطیہ کرنے کے بارے میں سوچئے ۔
یاد آیا کہ راشد اشرف صاحب پرانی کتب کو محفوظ کرنے کا کام کررہے ہیں ۔ شاید وہ اس میں دلچسپی رکھتے ہوں ۔
عین نوازش
مین اپنے والد صاحب کا اثاثہ دل و جان سے عزیز رکھتی ہوں ۔۔اب بھی سب سے اولین خواہش اچھی کتاب ہے دنیا کے کسی کونے پر ہوں۔پہلی فرصت میں کتاب خریدتی ہوں۔میرے بیٹے نے بڑی کوشش کرلی کہ ٹیبلٹ پر کتاب پڑھوں مگر جو لطف کتاب پڑھنے میں ہے کوئی میڈیم اسکا بدل نہیں راشد اشرف صاحب سے ضرور پوچھتی ہوں
میرے پاس بھی "نقوش" کے کچھ ایسے نمبرز ہیں جو 1950ء کی دہائی میں چھپے تھے جیسے "افسانہ نمبر"، مجھے لاہور سے پرانی انارکلی کے فٹ پاتھوں پر ملے تھے، 1990ء کی دہائی میں جب میں لاہور میں تعلیم کی غرض سے مقیم تھا۔
میرے پاس بھی "نقوش" کے کچھ ایسے نمبرز ہیں جو 1950ء کی دہائی میں چھپے تھے جیسے "افسانہ نمبر"، مجھے لاہور سے پرانی انارکلی کے فٹ پاتھوں پر ملے تھے، 1990ء کی دہائی میں جب میں لاہور میں تعلیم کی غرض سے مقیم تھا۔
میرے پاس بھی "نقوش" کے کچھ ایسے نمبرز ہیں جو 1950ء کی دہائی میں چھپے تھے جیسے "افسانہ نمبر"، مجھے لاہور سے پرانی انارکلی کے فٹ پاتھوں پر ملے تھے، 1990ء کی دہائی میں جب میں لاہور میں تعلیم کی غرض سے مقیم تھا۔
میرے پاس بھی "نقوش" کے کچھ ایسے نمبرز ہیں جو 1950ء کی دہائی میں چھپے تھے جیسے "افسانہ نمبر"، مجھے لاہور سے پرانی انارکلی کے فٹ پاتھوں پر ملے تھے، 1990ء کی دہائی میں جب میں لاہور میں تعلیم کی غرض سے مقیم تھا۔
میرے پاس بھی "نقوش" کے کچھ ایسے نمبرز ہیں جو 1950ء کی دہائی میں چھپے تھے جیسے "افسانہ نمبر"، مجھے لاہور سے پرانی انارکلی کے فٹ پاتھوں پر ملے تھے، 1990ء کی دہائی میں جب میں لاہور میں تعلیم کی غرض سے مقیم تھا۔
آخری تدوین: