ہمارے معاشرتی آداب اور مسائل

جاسمن

لائبریرین
رشوت
پچھلے دور میں نہ صرف رشوت کے ریٹس بڑھے بلکہ نئے دروازے کھُلے اور کئی ایسے ادارے جو رشوت سے پاک تھے، ان میں بھی در آئی۔
اب مزید بڑھ گئی۔ اب تو لوگ لیتے/دیتے ہوئے چھپانے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ مسجد کے اندر، مسجد کے باہر لین دین ہو رہے ہوتے ہیں۔ میں کتنے ہی ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو ایک وقت نہ دیتے تھے، نہ لیتے تھے۔ اب وہ اس قدر مجبور ہو چکے ہیں اس نظام کے شکنجے میں کہ لیتے اب بھی نہیں لیکن دے رہے ہیں۔
کاغذات نکال لیتے ہیں فائلوں سے۔ اتنا تنگ کرتے ہیں، اتنے چکر لگواتے ہیں، اس قدر انتظار کرواتے ہیں باہر بٹھا بٹھا کے کہ بندہ ذلیل و خوار ہو کے آخر دے دیتا ہے۔ پہلی تنخواہ، آنریریا، الاؤنس لگ گیا نکالو حصہ۔ حصہ بھی اتنا زیادہ فیصد کہ بندہ جو سوچ رہا تھا کہ امی کا آپریشن کراؤں گا، بچے کی فیس بھروں گا، بجلی کے بلوں سے بچنے کے لیے سولر لگوا لوں گا، اب سوائے چھوٹے خرچوں کے کچھ نہیں کر سکتا۔ اور رشوت لینے والا ان ہی پیسوں سے اپنی امی کا آپریشن کراتا ہے، اپنے بچوں کی فیس بھرتا ہے، اپنے گھر کی چھت سولر پینلز سے بھر دیتا ہے۔
آڈٹ کرنے والی ٹیمیں گرمیوں میں بھی کاجو بادام کھاری ہیں، آڈٹ والے ادارے کے قریبی سیرگاہوں کی مہنگی مہنگی سیریں کرتی ہیں۔ اس قدر حرام کھا کے بھی پیرے پھر بھی لگا کے ہی جاتی ہیں۔ البتہ تھوڑے چھوٹے پیرے لگاتی ہیں جو جلد اور آسانی سے ختم ہو جاتے ہیں۔ ان آڈٹ والوں کا اپنا آڈٹ ہو تو یہ کہیں کے نہ رہیں۔
ہم گھر میں یہ لطیفہ سناتے ہیں کہ ہمارے یہاں سفارش کی ثقافت ختم ہو گئی ہے۔ جی ہاں۔۔۔ اب صرف سفارش سے کام نہیں ہوتے۔ سونے کے ساتھ سہاگہ ہو تب ہوتے ہیں۔
نظامِ انصاف میں بھی یہی حال ہے۔ جب مزاج ایسے بنیں گے تو پھر سب ادارے ایسے ہو جائیں گے۔ یتیم، بیوہ مارے مارے پھرتے ہیں، ایک بھینس اور ایک لاکھ لے کے فلاں کاغذ دبا لیا۔ اب یتیم و بیوہ عدالت کے چکر پہ چکر لگائیں۔ اپنا جو چھوٹا موٹا کام دھندہ کرتے تھے، اس سے بھی جائیں۔ سو سب کچھ روزِ محشر پہ چھوڑ کے ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں۔
خاص طور پہ ناانصافی کی داستانیں نہیں سُنی جاتیں۔ دل پھٹ جاتا ہے۔
اتنی داستانیں ہیں کہ گِنتی میں نہیں آتیں۔ زمین کانپتی ہے نہ آسمان پھٹتا ہے۔
کچھ اور ہو نہ ہو، ایک یہ نظام ٹھیک کر لیں اور جلد کر لیں۔ اللہ سے بہت ڈر لگتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
معاشرتی مسائل کے اس دھاگے میں اب تک کے تین صفحات ہو چکے ہیں ۔ ان تین صفحات میں کئی ایک اہم مسائل سامنے آ چکے ہیں۔
اگر چہ ابتدائی مرحلے میں مسائل کو جمع کرنا اور فہرست بنانا تھا تھا لیکن کئی تبصرے ، تجا ویز ، جذبات احساسات اور وڈیو پیغامات بھی شامل ہو چکے ہیں جو یقینا متعلقہ اور مفید ہیں ۔
اب تک کے مذکورہ مسائل کی فہرست ذیل میں بنائی جا رہی ہے ۔
ان میں سے ہر ایک پر ایک الگ رائے زنی کی جائے گی جس میں مسئلہ کے مضمرات ،بشمول اسباب ، اثرات (نقصانات )، اور ممکنہ حل تجویز کیے جائیں گے ۔
آخر میں میں نے فہرست میں کچھ اضافہ کیا ہے ۔ اگر اور مسائل دوران گفتگو سامنے آئیں تو انہیں بھی اسی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا۔

کیا پہلے مسائل کی فہرست تیار کی جائے۔ یا مسائل اور اُن کا ممکنہ حل ساتھ ساتھ تجویز کیا جائے۔
اس کے بعد کا لائحہء عمل کیا ہوگا؟

اب ان موضوعات پر کس طرح گفتگو کا آغاز کیا جائے ، اسی دھاگے میں عنوان دے کر بحث کی جائے یا ہر ایک مسئلہ کے لیے الگ دھاگا کھولا جائے ؟
اور بعد میں سب مباحث کے روابط اس دھاگے میں درج کر دیئے جائیں ۔تجاویز کی درخواست کی جاتی ہے ۔

محمد احمد زیک نیرنگ خیال جاسمن اور دیگر شریک محفلین

1۔ وقت کی پابندی
2۔ راستے کے آداب و قوانین
3۔ فرائض منصبی کارو باری لین دین میں غفلت اور بد دیانتی
4۔ ماحولیات ، شجرکاری
5۔ گداگری (کا نظام )
6۔صفائی ستھرائی ،
7۔ طب اور صحت کے نظام میں خرابیاں
8۔ تعلیمی نظام اور اس کی خرابیاں
9۔ اداروں میں رشوت ستانی کا نظام اور سے نمٹنے کے امکانات
10۔ فکری (مذہبی، روایتی و خاندانی)شدت پسندی کے اسباب اور ااعتدال کی ضرورت
11۔معاشرے کے مجموعی اور اجمالی انداز فکر ( مائنڈسیٹ) میں مثبت تبدیلی کی ضرورت اور اس کے امکانات
12۔نو جوان نسل کی تعلیمی اور عملی رہنمائی کے لیے (کیریئر کاونسلنگ ) کے مواقع
13۔ خیراتی اداروں کے نظام کا غربت کم کرنے کا کردار
 

محمداحمد

لائبریرین
معاشرتی مسائل کے اس دھاگے میں اب تک کے تین صفحات ہو چکے ہیں ۔ ان تین صفحات میں کئی ایک اہم مسائل سامنے آ چکے ہیں۔
اگر چہ ابتدائی مرحلے میں مسائل کو جمع کرنا اور فہرست بنانا تھا تھا لیکن کئی تبصرے ، تجا ویز ، جذبات احساسات اور وڈیو پیغامات بھی شامل ہو چکے ہیں جو یقینا متعلقہ اور مفید ہیں ۔
اب تک کے مذکورہ مسائل کی فہرست ذیل میں بنائی جا رہی ہے ۔
ان میں سے ہر ایک پر ایک الگ رائے زنی کی جائے گی جس میں مسئلہ کے مضمرات ،بشمول اسباب ، اثرات (نقصانات )، اور ممکنہ حل تجویز کیے جائیں گے ۔
آخر میں میں نے فہرست میں کچھ اضافہ کیا ہے ۔ اگر اور مسائل دوران گفتگو سامنے آئیں تو انہیں بھی اسی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا۔



اب ان موضوعات پر کس طرح گفتگو کا آغاز کیا جائے ، اسی دھاگے میں عنوان دے کر بحث کی جائے یا ہر ایک مسئلہ کے لیے الگ دھاگا کھولا جائے ؟
اور بعد میں سب مباحث کے روابط اس دھاگے میں درج کر دیئے جائیں ۔تجاویز کی درخواست کی جاتی ہے ۔

محمد احمد زیک نیرنگ خیال جاسمن اور دیگر شریک محفلین

1۔ وقت کی پابندی
2۔ راستے کے آداب و قوانین
3۔ فرائض منصبی کارو باری لین دین میں غفلت اور بد دیانتی
4۔ ماحولیات ، شجرکاری
5۔ گداگری (کا نظام )
6۔صفائی ستھرائی ،
7۔ طب اور صحت کے نظام میں خرابیاں
8۔ تعلیمی نظام اور اس کی خرابیاں
9۔ اداروں میں رشوت ستانی کا نظام اور سے نمٹنے کے امکانات
10۔ فکری (مذہبی، روایتی و خاندانی)شدت پسندی کے اسباب اور ااعتدال کی ضرورت
11۔معاشرے کے مجموعی اور اجمالی انداز فکر ( مائنڈسیٹ) میں مثبت تبدیلی کی ضرورت اور اس کے امکانات
12۔نو جوان نسل کی تعلیمی اور عملی رہنمائی کے لیے (کیریئر کاونسلنگ ) کے مواقع
13۔ خیراتی اداروں کے نظام کا غربت کم کرنے کا کردار
بہت خوب!

میری رائے تو یہ ہے کہ ایک ایک کرکے علیحدہ علیحدہ لڑی بنا کر گفتگو کی جائے تو اچھا رہے گا۔ لیکن ایک وقت میں ایک ہی موضوع پر گفتگو ہو تو بہتر رہے گا۔

باقی جو آپ احباب مناسب سمجھیں۔
 

زیک

مسافر
پچھلے کچھ عرصہ میں پاکستانیوں (اور چند پاکستانی امریکیوں) سے بیماری کی حالت میں واسطہ پڑا تو یہ احساس ہوا کہ ان لوگوں کو عیادت کرنے کے آداب بھی کچھ ٹھیک سے نہیں آتے۔

مریض کو کافی دیر تک تنگ کرنا۔ اسے علاج کے قسم قسم کے (دوائیاں،دیسی ٹوٹکے، کھانا پینا وغیرہ) مشورے دینا جیسے آپ ماہر طبیب ہیں۔ بجائے اس کے کہ مریض کو تسلی دیں کہ ہم آپ کے لئے دعا کریں گے مریض کو لمبی لمبی دعائیں اور وظیفے بھیجنا کہ وہ خود کرتا پھرے۔ صدقہ کے مشورے (آپ خود کیوں مریض کی خاطر نہیں کر دیتے؟) اسی طرح مریض کو موت یاد دلانا اور گناہوں سے مغفرت کی تاکید کرنا۔ مریض اپنی تکلیف میں کچھ شکایت کر دے تو اس پر استغفار اور ناراضی۔ مریض آپ کی کال نہ اٹھائے تو بار بار کال کرنا اور غصہ کا اظہار۔

کچھ عیادت گزاروں کو آپ کی بیماری کا علم ہوتاُہے تو آپ سے ایک منٹ کو حال پوچھتے ہیں اور پھر ڈر کر ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے فون پر بھی انہیں آپ کی بیماری نہ لگ جائے
 

علی وقار

محفلین
اسے علاج کے قسم قسم کے (دوائیاں،دیسی ٹوٹکے، کھانا پینا وغیرہ) مشورے دینا
ہم پاکستانیوں میں عقل کہاں! شامتِ اعمال، لگتا ہے کسی بے چارے نے سنامکی تجویز کر دی ہو گی جب کہ ادرک کے رس سے بھی کام چلایا جا سکتا تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ہم جو سال چھ مہینے کے لیے پاکستان سے دور ہوتے ہیں ان کے لیے ملک و معاشرہ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے تو وہ جو برس ہا برس سے دور ہیں ان کے لیے سب کچھ ہی تبدیل سمجھیں۔ عمارات و روایات ہر دو زاویوں سے۔
معاشرے منجمد تو نہیں رہتے تیس سال میں کافی بدل جاتے ہیں۔ اب تو پاکستانی معاشرے کا ویو میرے لئے کافی دھندلا گیا ہے۔ کچھ چیزیں ویسی ہی ہیں لیکن کافی تبدیل ہو چکیں

میں نے اکیس سال سے پاکستان کا سفر نہیں کیا۔ پاکستان کی تصویر میرے ذہن میں شائد اب بھی نوے کی دہائی جیسی ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پاکستان میں ایک نیا ٹرینڈ یہ دیکھنے کو ملا کہ بہت سے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز صرف کیش میں فیس لیتے ہیں اور اگر آپ آن لائن فیس دینے پر اصرار کریں تو بھی وہ انکار کر دیتے ہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی ریستوران میں کھانا کھانے چلے جائیں تو وہ آپ سے یہ تو پوچھتے ہیں کہ بل کیش میں دیں گے یا کارڈ سے لیکن وجہ نہیں بتاتے کہ کارڈ سے ادایگی پر ٹیکس کم کٹے گا اس لیے بہت سے لوگ کیش میں زیادہ بل ادا کر آتے ہیں اور وہ لوگ اس فیس پر ٹیکس بچا لیتے ہیں۔

مجھے اتنے عرصے میں یہ سمجھ آئی کہ کنزیومر رائٹس کا یہاں کسی کو کچھ آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی اس بارے میں متعلقہ ادارے آگاہی دینا ضروری سمجھتے ہیں۔
 

فہیم

لائبریرین
پاکستان کا (اکم از کم کراچی کا تو) آوے کا آوے پوری طرح بگڑ چکا ہے۔
یہاں مہذب دنیا کے قاعدے قانون کا سوچنا ہی اب بیکار معلوم ہوتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہم جو سال چھ مہینے کے لیے پاکستان سے دور ہوتے ہیں ان کے لیے ملک و معاشرہ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے تو وہ جو برس ہا برس سے دور ہیں ان کے لیے سب کچھ ہی تبدیل سمجھیں۔ عمارات و روایات ہر دو زاویوں سے۔
چلیں واپسی مبارک ہو۔ کیسی ہیں فرحت؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پچھلے کچھ عرصہ میں پاکستانیوں (اور چند پاکستانی امریکیوں) سے بیماری کی حالت میں واسطہ پڑا تو یہ احساس ہوا کہ ان لوگوں کو عیادت کرنے کے آداب بھی کچھ ٹھیک سے نہیں آتے۔

مریض کو کافی دیر تک تنگ کرنا۔ اسے علاج کے قسم قسم کے (دوائیاں،دیسی ٹوٹکے، کھانا پینا وغیرہ) مشورے دینا جیسے آپ ماہر طبیب ہیں۔ بجائے اس کے کہ مریض کو تسلی دیں کہ ہم آپ کے لئے دعا کریں گے مریض کو لمبی لمبی دعائیں اور وظیفے بھیجنا کہ وہ خود کرتا پھرے۔ صدقہ کے مشورے (آپ خود کیوں مریض کی خاطر نہیں کر دیتے؟) اسی طرح مریض کو موت یاد دلانا اور گناہوں سے مغفرت کی تاکید کرنا۔ مریض اپنی تکلیف میں کچھ شکایت کر دے تو اس پر استغفار اور ناراضی۔ مریض آپ کی کال نہ اٹھائے تو بار بار کال کرنا اور غصہ کا اظہار۔

کچھ عیادت گزاروں کو آپ کی بیماری کا علم ہوتاُہے تو آپ سے ایک منٹ کو حال پوچھتے ہیں اور پھر ڈر کر ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے فون پر بھی انہیں آپ کی بیماری نہ لگ جائے
ایک تو آپ کا بھلا کرتے ہیں۔۔۔۔ اب آپ کو معلوم ہوتے وہ ٹوٹکے تو آپ استعمال نہ کرتے۔۔۔۔ ہوہوہوہوہوہوہو۔۔۔۔
باقی رہی بات۔۔۔۔۔ گناہوں والی۔۔۔ تومجھے وہ یاد آگئی۔۔۔ بیمار کا حال اچھا ہے۔
راقم: السلام علیکم
رائے : وع لی کم ال سل ام
راقم: تمہاری بیماری کے بارے میں سُنا، کہو کیسی طبیعت ہے؟
رائے : مجھے شک تھا کہ تمہارا ہی فون ہوگا۔ بس کچھ نہ پوچھو، مر رہا ہوں۔
راقم: اوہ تمہاری آواز سے بیماری کی شدت کا اندازہ ہورہا ہے۔ بخارکیا ٹوٹنے میں نہیں آرہا۔
رائے : بس کہتے ہیں کہ بیماری سے گناہ جھڑتے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ٹنڈ درخت ہی رہ جائے گا اور سب گناہ جھڑ جائیں گے۔
راقم: گویا حاجی ہونے لگے ہو۔
رائے: ہائے کافر۔۔۔ مجھے یہاں فرشتے نظر آرہے ہیں۔ اور تجھے شوخیاں سوجھ رہیں ہیں۔ اللہ دشمن کو بھی تجھ سا دوست نہ دے۔
راقم: دل چھوٹا مت کر، اللہ شفا دینے والا ہے۔
رائے: اللہ ہی شفا دے تو دے، ڈاکٹروں حکیموں کے بس کی بات تو نہیں لگتی۔
راقم: تم گئے تھے ڈاکٹر کے پاس؟ کیا کہتا؟
رائے:میاں وہ تو خود دوراہے کا شکار ہے۔ کبھی کہتا ٹائیفائیڈ ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ نمونیا ہے۔ اب اللہ ہی جانے۔ کبھی کوئی دوائی تھما دیتا ہے تو کبھی کوئی۔ ایک یہی فقیر ذات ملی تھی اس کلموہے کو اپنے تجربات کے لئے۔
راقم: پریشان نہ ہو میں نماز جمعہ کے بعد واعظ کو خاص دعا کرنے کے لیے کہوں گا۔
رائے: ہاں ضرور۔ لیکن بڑی مسجد سے ہی دعا کروانا، وہ مینار والی سے۔ یہ چھوٹے محلے کی مسجد کا مولوی بھی چھوٹا ہے۔ جس دن سے دعا کا کہا ہے اور بیمار ہوگیا ہوں۔ لگتا ہے اس کےگناہ بھی میری بیماری سے ہی جھڑیں گے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پاکستان کا (اکم از کم کراچی کا تو) آوے کا آوے پوری طرح بگڑ چکا ہے۔
یہاں مہذب دنیا کے قاعدے قانون کا سوچنا ہی اب بیکار معلوم ہوتا ہے۔
فہیم جب اکاونٹیبلیٹی کلچر سرے سے موجود ہی نہ ہو تو تہذیب ،قاعدہ، قانون سب بھول جاتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
جہیز
لالچ
فضول خرچی اور اصراف
طلاق کی بڑھتی شرح اور ٹوٹتے گھر
بزرگوں کے خراب حالات
موبائل کا زیادہ اور غلط استعمال
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جہیز
لالچ
فضول خرچی اور اصراف
طلاق کی بڑھتی شرح اور ٹوٹتے گھر
بزرگوں کے خراب حالات
موبائل کا زیادہ اور غلط استعمال
میڈیا کے ذریعے بہت سے قابل اعتراض اور خلاف تہذیب رویوں کو نارملائز کرنا بھی شامل کر لیں۔ یہ رویے کہیں نہ کہیں ان تمام مسائل کی وجہ بنتے ہیں جن کی آپ نے بہت درست نشان دہی کی۔
 
Top