ہمارے معاشرتی آداب اور مسائل

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
تو ہم پرستی یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک متعدی بیماری ہے۔ ایک کو لگے تا ممکن ہی نہیں کہ دوسرا اس سے متاثر نہ ہو۔
اس کے علاوہ پیر پرستی کہہ لیجئیے یا پھر روحانی رہنماؤں کی حد سے زیادہ پیروی۔۔۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک بڑی خرابی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تو ہم پرستی یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک متعدی بیماری ہے۔ ایک کو لگے تا ممکن ہی نہیں کہ دوسرا اس سے متاثر نہ ہو۔
اس کے علاوہ پیر پرستی کہہ لیجئیے یا پھر روحانی رہنماؤں کی حد سے زیادہ پیروی۔۔۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک بڑی خرابی ہے۔
بہت اچھی نشاندہی ایک اور مسئلے کی طرف ۔ اگر چہ ا مرض کا زور دیہاتی ماحول میں شدید تر ہے لیکن بڑے شہر کی دیواریں بھی اس وائرس کے نفوذ کے شہادت ناموں کی تصاویر بنی نظر آتی ہیں ، پیری مریدی اور اس طرح کی جھاڑ پھونک ، جادو ٹونے اور سانپ بچھو کے ڈسنے کے لیے لیے دم درور اور محبوباؤں کو زیر کرنے کے وظائف اور نہ جانے کیا کیا اعمال ایسے ہیں جنہوں نے ہماری فکر کو اسیر کر رکھا ہے ۔
توہم پرستی کو بھی اس فہرست میں شامل کر رہا ہوں ۔

نئی لسٹ

1۔ وقت کی پابندی
2۔ راستے کے آداب و قوانین
3۔ فرائض منصبی کارو باری لین دین میں غفلت اور بد دیانتی
4۔ ماحولیات ، شجرکاری
5۔ گداگری (کا نظام )
6۔صفائی ستھرائی ،
7۔ طب اور صحت کے نظام میں خرابیاں
8۔ تعلیمی نظام اور اس کی خرابیاں
9۔ اداروں میں رشوت ستانی کا نظام اور سے نمٹنے کے امکانات
10۔ فکری (مذہبی، روایتی و خاندانی)شدت پسندی کے اسباب اور ااعتدال کی ضرورت
11۔معاشرے کے مجموعی اور اجمالی انداز فکر ( مائنڈسیٹ) میں مثبت تبدیلی کی ضرورت اور اس کے امکانات
12۔نو جوان نسل کی تعلیمی اور عملی رہنمائی کے لیے (کیریئر کاونسلنگ ) کے مواقع
13۔ خیراتی اداروں کے نظام کا غربت کم کرنے کا کردار
14۔معاشرے میں پھیلی توہم پرستی ، تجارتی پیری مریدی ،جادو ٹونہ اور جھاڑپھونک
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
یوں تو کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ لیکن بعض اوقات انھیں ہی مزدوری کر کے گھر چلانا پڑتا ہے۔ جو وقت ان کی تعلیم کا ہوتا ہے، وہ یوں صرف ہو جاتا ہے ۔ تو اسے بھی شامل کر لیجئیے ایک معاشرتی برائی کے طور پر۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یوں تو کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ لیکن بعض اوقات انھیں ہی مزدوری کر کے گھر چلانا پڑتا ہے۔ جو وقت ان کی تعلیم کا ہوتا ہے، وہ یوں صرف ہو جاتا ہے ۔ تو اسے بھی شامل کر لیجئیے ایک معاشرتی برائی کے طور پر۔
یوں اس لسٹ کے تحت اس دھاگے کا عنوان ہو جائے گا۔ معاشرے کا پوسٹ مارٹم ۔ اور یہی اس کا مقصد بھی ہے ۔

نئی لسٹ

1۔ وقت کی پابندی
2۔ راستے کے آداب و قوانین
3۔ فرائض منصبی کارو باری لین دین میں غفلت اور بد دیانتی
4۔ ماحولیات ، شجرکاری
5۔ گداگری (کا نظام )
6۔صفائی ستھرائی ،
7۔ طب اور صحت کے نظام میں خرابیاں
8۔ تعلیمی نظام اور اس کی خرابیاں
9۔ اداروں میں رشوت ستانی کا نظام اور سے نمٹنے کے امکانات
10۔ فکری (مذہبی، روایتی و خاندانی)شدت پسندی کے اسباب اور ااعتدال کی ضرورت
11۔معاشرے کے مجموعی اور اجمالی انداز فکر ( مائنڈسیٹ) میں مثبت تبدیلی کی ضرورت اور اس کے امکانات
12۔نو جوان نسل کی تعلیمی اور عملی رہنمائی کے لیے (کیریئر کاونسلنگ ) کے مواقع
13۔ خیراتی اداروں کے نظام کا غربت کم کرنے کا کردار
14۔معاشرے میں پھیلی توہم پرستی ، تجارتی پیری مریدی ،جادو ٹونہ اور جھاڑپھونک
15۔ بچوں کی (اجباری) مزدوری ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
معاشرے کا پوسٹ مارٹم ۔ اور یہی اس کا مقصد بھی ہے ۔
پوسٹ مارٹم ،،،،،،، کرنا ہی ہے تو
پھر جنسی تفریق کو کیوں بھولیں۔ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کے حقوق کی عدم پیروی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کہیں انھیں تعلیم کے مساوی مواقع نہیں ملتے اور کہیں گھریلو تشدد کی صورت میں ناروا سلوک ہوتا ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
لیکن معاشرے فرد کی طرح نہیں ہوتے، پھر سے زندہ کیے جا سکتے ہیں ۔
درست فرمایا۔ جب تک افراد زندہ ہیں وہ معاشرے کو پھر سے زندہ کر سکتے ہیں۔ اجتماعی کوششیں اور حکومتی اقدامات اس میں معاون ہوں تو جامع اور طویل حکمت عملیوں کے ذریعے مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا۔ انفرادی طور پر بھی اگر ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرے تو یہ بہتری کی طرف پہلا قدم شمار کیا جا سکتا ہے۔
معاشرے کا انتقال نہیں ہوا۔ لیکن اس کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے۔ لوگوں کی بنیادی ضروریات بلکہ سہولیات ہی پوری نہیں ہو پا رہیں جیسے پانی ، گیس اور بجلی کی فراہمی۔ یہ چیزیں ہی کسی اور طرف دھیان نہیں جانے دیتیں۔ بنیاد بہتر بنے تو ایک مضبوط معاشرہ تشکیل پائے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
وقت کے ضیاع کے سلسلے مین ایک یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ بچوں کی چھٹیوں میں انہیں اپنے اوقات کار کے لیے کیا کیا مواقع فراہم اور پیدا کیے جا سکتے ہیں ۔
چھوٹے بچے اس دوران کارٹون اور بڑے بچے فلمیں ڈرامے دیکھنے میں صرف کرتے ہیں ۔ ان کے لیے کیا بہتر آپشنز ہیں ؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
سو دو سو سال پہلے اکثر یہ سہولیات نہیں تھیں زندگی کتنی بہترین گزرتی تھی۔ ساری گڑبڑ ہی بجلی اور گیس کی ہے
زندگی بہترین ہوا کرتی تھی نا؟
لوگوں کو ایک ساتھ رینے کا زیادہ وقت بھی مل جاتا تھا
بات یہ نہیں کہ ساری گڑبڑ بجلی اور گیس کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ترقی کے ساتھ یہ سہولیات زندگی میں آئی ہیں تو ان کی فراہمی مناسب طریقے سے کیوں نہیں ہوتی۔
 

ظفری

لائبریرین
اس عمومی سے عنوان پر مشتمل دھاگے کا محرک، قریبی دوستوں میں چھڑی ایک بحث بنام معاشرتی مسائل بنا ۔

اس دھاگے میں معاشرے میں رائج رسومات اور بدلتے حالات میں موجودہ مسائل اور ان کی درجہ بندی کے لیے آراء جمع کی جائیں گی اور ممکنہ حل کے لیے نتائج اخذ کیے جائیں گے ۔پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے کثرت سے آمد و رفت رہی تو کئی باتیں بہت زور و شور سے سامنے آئیں ۔یہ ایسے مسائل ہیں جن سے ہم سب براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہیں ۔

محفلین سے گزارش ہے کہ مختلف مسائل کو اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہاں پیش کریں تاکہ ہم ان کی فہرست سے مسائل کی درجہ بندی کر سکیں اور جہاں جہاں معاشرتی طور پر بہتری لانے کے لیے اقدامات کر سکیں سکیں ۔بہت سے مسائل کے حل کے لیے ہمیں قانون اور انتظامی مدد کی ضرورت ہو گی لیکن کافی حد تک معاشرتی شعور بھی اس میں بہتری لا سکتا ہے ۔مسائل کی فہرست کے بعد حل کے لیے غور اور تجاویز پیش کیے جائیں ۔

مثال کے طور پرکچھ مسئلوں سے میں خود آغاز کرتا ہوں کہ ۔

1۔وقت کی پابندی۔
ہمارے ہاں شادی بیاہ کی تقریبات میں دعوتیں کی جاتی ہیں ان میں اوقات کا خیال بالکل نہیں رکھا جاتا اور مہمان ۔ ایک یا دو گھنٹے۔ تک تاخیر سے پہنچ رہے ہوتے ہیں ۔ اس بات پر کوئی حیرت یا اعتراض نہیں کیا جاتا گویا یہ یہ سب میزبانوں اور مہمانوں نے بطور نارمل روٹین تسلیم کیا ہوا ہے ۔شہر کے ماحول کو دیکھتے ہوئے چند منٹ کی تاخیر تو ٹریفک یا پارکنگ کے پیش نظر کسی حد تک نظر انداز کی جاسکتی ہے لیکن دو گھنٹے اور بعض اوقات اس سے بھی بڑھ کر وقت کا ضیاع ایک تکلیف دہ حقیقت ہے ۔

2۔ راستے کے آداب ۔
گلیوں اور سڑکوں میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں یا سائیکلوں اور پیدل چلنے والے لوگ کہیں بھی نظام کے پابند نظر نہیں آتے الا یہ کہ شہر کی بڑی سڑکوں پر ایسا ہوتا ہے ۔سڑکوں پر چلتی گاڑیاں غلط یو ٹرن اور الٹی طرف گاڑیاں چلانا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ میں نے چھوٹی سڑکوں پر بڑے ٹرکوں کو بھی ایسا کرتے دیکھا ۔

3، فرائض منصبی ۔
سرکاری نیم سرکاری یا غیر سرکاری دفتری اوقات میں غیر حاضر رہنا ۔اور اپنے کام میں غفلت کرنا ۔یہ ایک عام مرض ہے جو سوسائٹی میں ہر جگہ پھیلا نظر آتا ہے ۔
خوشی ہوئی کہ ایک عرصہ کےبعد کسی مثبت موضوع پر کوئی لڑی دیکھی۔شاید اس وجہ سے محفل پر آمد باقاعدگی سے ممکن ہوجائے ۔
 
Top