ہمارے معاشرتی آداب اور مسائل

جاسمن

لائبریرین
بے راہ روی
جیسا کہ فرحت کیانی نے بھی ذکر کیا کہ بہت سے قابلِ اعتراض اور خلافِ تہذیب رویوں کو نارملائز کیا جا رہا ہے۔
چونکہ میرا تعلق تعلیمی ادارے سے ہے، ایسے ایسے واقعات علم میں آتے رہتے ہیں کہ ہم ان کے بارے میں اپنے تعلیمی دور میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ آج ہی ملتان کے ایک تعلیمی ادارے کی سربراہ جو میری سہیلی ہے، اپنی ایک طالبہ کے بارے میں بتا رہی تھی کہ وہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور بڑی پیاری بچی ہے۔ باپ کو بلا کے بتایا کہ چوکیدار کے ساتھ تعلق ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ دونوں کورٹ میرج کر لیں، اپنی بچی کو سنبھال لیں۔ چوکیدار کو بھی نکال دیا تھا۔ باپ نے غور نہیں کیا اور بچی گھر سے غائب۔ چوکیدار عام سا مرد۔ تین بچیوں کا باپ۔
لڑکیوں کا ایک گروپ جن پہ شبہ تھا کہ یہ ٹھیک نہیں ہیں، نظر رکھی جاتی تھی۔ ادارے کے ایک ملازم کے ساتھ سب کا تعلق۔ اس کا موبائل قابو کیا۔ کھولا تو نجانے کیا کیا۔
کچھ عرصے پہلے میں نے ایک انکوائری کی تھی۔ وہ بھی بے حد شرم ناک تھی۔ لیکن حاصل وصول کچھ نہیں۔ بس تبادلہ ہوتا ہے۔ وہ بھی ضروری نہیں۔
ایک خاتون سربراہ کے خلاف انکوائری اسی بنا پہ کئی بار ہوئی ہے لیکن وہ ہنوز وہی ہیں، کچھ بھی نہیں ہوا۔
یہ چند واقعات ہیں۔
چولستان یونیورسٹی میں کچھ عرصے میں تین نوجوانوں نے بریک اپ پہ خود کشی کر لی۔ ان میں سے ایک اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
اور جامعات میں کچھ اساتذہ کے رویے بھی اسی طرح ہیں۔ بچیوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ آج کل چونکہ بی اے اور ایم اے ختم کر دیا گیا ہے تو بچے بچیاں انٹرمیڈیٹ کے بعد بی ایس میں داخلہ لیتے ہیں۔ کم عمری کے باعث جال میں پھنستے ہیں اور بہت نقصان اٹھاتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
بزرگوں کا احترام تو ایک طرف رہا، اب انھیں گھر بدر بھی کیا جا رہا ہے۔ یا تو گھر کے کسی کونے کھدرے یا سٹور، برآمدے میں بے یارو مددگار بیٹھے ہیں یا پھر گھر سے بے گھر۔ جہاں بزرگوں کے ادارے (عافیت) ہیں، وہاں چلے جاتے ہیں ورنہ کوئی ٹھکانہ نہیں۔ خاص طور پہ ایسے بزرگ کہ جنھیں کوئی بیماری ہوتی ہے اور عافیت بھی نہیں رکھتا تو وہ بہت خوار ہوتے ہیں۔
ملتان کے عافیت میں عرصہ پہلے جانا ہوا تو انھوں نے ایک بزرگ سے ملوایا کہ جنھیں ان کے گھر والوں نے گھر سے نکال دیا تھا۔ عافیت والوں نے انھیں سڑک کنارے دیکھا۔میلا چیکٹ تہبند اور کرتا پہنے۔ جو گندگی سے لتھڑا ہوا تھا۔ انھیں خود پہ کنٹرول نہیں رہا تھا صدمے کی وجہ سے۔ انھیں ادارے میں لے کے گئے۔ نہلایا دھلایا۔ صاف کپڑے پہنائے۔ کچھ عرصے تک وہ بہت نارمل ہو گئے۔ جب ہم ملے تو بہت اچھی حالت میں تھے۔
 

جاسمن

لائبریرین
نشہ کی بیماری
المیہ یہ ہے کہ جو بڑے مگرمچھ نشہ بیچتے ہیں، نشے کا کاروبار کرتے ہیں، سب کو ان کے بارے میں اچھی طرح علم بھی ہوتا ہے، انھیں کوئی نہیں پکڑتا اور نشہ کرنے والوں سے معاشرہ انتہائی تحقیر آمیز برتاؤ کرتا ہے۔ نوجوانوں میں خاص طور پہ نشہ کی بیماری بہت پھیل رہی ہے۔ ہمارے ہاں پرائیویٹ ہسپتال بے حد مہنگے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں توجہ نہیں ہے۔ پھر نشہ کے علاج کے بعد ری ہیبلیٹیشن/بحالی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ نشہ کے مرض سے نجات پا کر بندہ واپس اسی ماحول میں جاتا ہے، وہاں اسے پھر تحقیر والے رویے ملتے ہیں، پرانے دوستوں سے ملاقات اور کچھ عرصہ بعد وہ پھر سے مشہ کرنے لگتا ہے۔ گھرانے اجڑ گئے اور اجڑ رہے ہیں۔ نشے کا مریض سب کچھ بیچ دیتا ہے۔ اس کے گھر کا ہر فرد لیکن خاص طور پہ والدین تباہ ہو جاتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
غربت اور مہنگائی
دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں میں پچھلے کچھ عرصے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں نے بجلی کے بل بھرنے کے لیے زیور تک بیچ دیے۔ ایک شخص جو دو جگہ کما کے والدین، بیوہ بھابھی بچوں اور اپنے خاندان کا بھی پیٹ پالتا ہے، پچاس ہزار کماتا ہے اور بل آیا پچیس ہزار۔ ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ دل کانپتا ہے۔ آج سڑک پہ ایک شخص کو دھوپ میں گم سم بیٹھا دیکھا۔ سمجھ نہیں آتی کس کس کو دیکھیں۔ نظر انداز کرتے ہوئے بھی خود اپنا آپ برا لگنے لگتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ پالنہار تو اللہ ہی ہے پر ہم کیسے دیکھیں ۔۔۔۔ کیسے دیکھیں۔۔۔۔ کیسے؟؟؟
 

الف نظامی

لائبریرین
لوگوں نے بجلی کے بل بھرنے کے لیے زیور تک بیچ دیے۔ ایک شخص جو دو جگہ کما کے والدین، بیوہ بھابھی بچوں اور اپنے خاندان کا بھی پیٹ پالتا ہے، پچاس ہزار کماتا ہے اور بل آیا پچیس ہزار۔
آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے ہر صارف فی یونٹ 24 روپے اضافی دینے پر مجبور ہے، گوہر اعجاز

ہے کوئی ایسی حکومت اور اپوزیشن جو آئی پی پیز سے ظالمانہ معاہدے ختم کروائے؟

سستی بجلی بنائیں ،آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کریں یا ختم کریں
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
بے راہ روی
جیسا کہ فرحت کیانی نے بھی ذکر کیا کہ بہت سے قابلِ اعتراض اور خلافِ تہذیب رویوں کو نارملائز کیا جا رہا ہے۔
چونکہ میرا تعلق تعلیمی ادارے سے ہے، ایسے ایسے واقعات علم میں آتے رہتے ہیں کہ ہم ان کے بارے میں اپنے تعلیمی دور میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ آج ہی ملتان کے ایک تعلیمی ادارے کی سربراہ جو میری سہیلی ہے، اپنی ایک طالبہ کے بارے میں بتا رہی تھی کہ وہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور بڑی پیاری بچی ہے۔ باپ کو بلا کے بتایا کہ چوکیدار کے ساتھ تعلق ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ دونوں کورٹ میرج کر لیں، اپنی بچی کو سنبھال لیں۔ چوکیدار کو بھی نکال دیا تھا۔ باپ نے غور نہیں کیا اور بچی گھر سے غائب۔ چوکیدار عام سا مرد۔ تین بچیوں کا باپ۔
لڑکیوں کا ایک گروپ جن پہ شبہ تھا کہ یہ ٹھیک نہیں ہیں، نظر رکھی جاتی تھی۔ ادارے کے ایک ملازم کے ساتھ سب کا تعلق۔ اس کا موبائل قابو کیا۔ کھولا تو نجانے کیا کیا۔
کچھ عرصے پہلے میں نے ایک انکوائری کی تھی۔ وہ بھی بے حد شرم ناک تھی۔ لیکن حاصل وصول کچھ نہیں۔ بس تبادلہ ہوتا ہے۔ وہ بھی ضروری نہیں۔
ایک خاتون سربراہ کے خلاف انکوائری اسی بنا پہ کئی بار ہوئی ہے لیکن وہ ہنوز وہی ہیں، کچھ بھی نہیں ہوا۔
یہ چند واقعات ہیں۔
چولستان یونیورسٹی میں کچھ عرصے میں تین نوجوانوں نے بریک اپ پہ خود کشی کر لی۔ ان میں سے ایک اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔
اور یہ صرف تعلیمی اداروں تک ہی محدود نہیں بلکہ معاشرے کے ہر طبقے میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ڈر لگتا ہے کہ ہم بطور معاشرہ اور قوم کس طرف جا رہے ہیں۔


سرکاری اداروں میں کرپشن کوئی بھی ہو چاہے کردار کی یا مالی۔ سب سے بہتر حل یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسے پوسٹ آؤٹ کر دو جس پر میری بحث ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ جو تباہی اور گندگی یہاں مچی ہے وہی وہ دوسری جگہ جا کربھی کریں گے لیکن اس بات کی سنگینی کا عموما ادراک نہیں کیا جاتا۔
 

جاسمن

لائبریرین
میری بحث ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ جو تباہی اور گندگی یہاں مچی ہے وہی وہ دوسری جگہ جا کربھی کریں گے لیکن اس بات کی سنگینی کا عموما ادراک نہیں کیا جاتا۔
بالکل صحیح کہا۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ ایسے اشخاص جو بچیوں کی تباہی کے ذمہ دار ہیں، مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں، انھیں بس دوسرے ادارے میں بھیج دو۔ بھئی وہاں جا کے تائب ہو جائیں گے؟
اور فرحت نے کہا کہ سنگینی کا ادراک نہیں کیا جاتا۔۔۔
کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ جس واقعہ بلکہ واقعات پہ میں نے انکوائری کی، "بڑوں" نے انھیں شاید سنجیدگی سے لیا ہی نہیں یا پھر ان کے علم میں ایسے اور واقعات آتے ہوں گے اور اب ان کے نزدیک بھی "نارملائز" ہو گیا ہو گا۔
اب اساتذہ اور سربراہوں میں بھی کوئی شخص اس کردار کا نکل آتا ہے، کسی دور میں ہمارے لیے جن کا کردار مثالی ہوا کرتا تھا۔ لیکن ان کے خلاف بھی کچھ نہیں ہوتا۔ الٹا جو ایسے لوگوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، انھیں نشانۂ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔
والدین بھی آنکھیں، کان بند کر لیتے ہیں۔ میرا تو تجربہ و مشاہدہ ہے کہ آج تک جتنے والدین کو بلا کے بچیوں سے متعلق بتایا، والدین نے کوئی خاص ایکشن نہیں لیا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک سولہ سالہ بچی کی بیوہ ماں کو بلا کے سمجھایا کہ اس کے پاس سے موبائل پکڑا گیا ہے اور کسی شادی شدہ مرد سے رابطے میں ہے۔ ماں بیچاری، منہ زور بچی کے سامنے بہت مجبور نظر آتی تھی۔ میں نے بچی کے چہرے اور آنکھیں دیکھ کے ساتھیوں سے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہ مجھے سمجھنے والی نہیں لگتی۔ یہ اب مُڑ کے واپس آتی نظر نہیں آتی۔ دوسری بار موبائل پکڑا گیا اور اوپر چھت پہ چڑھ کے دور سڑک پہ اشارے۔۔۔ آخرکار اسے نکالنا پڑا۔ یہ ماں تو سمجھ گئی لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ لیکن کئی والدین کو بلا کے سمجھاتے ہیں تو وہ عملی طور پہ کچھ نہیں کرتے۔ مائیں باپ تک بات نہیں جانے دیتیں۔ اور اس طرح معاملات اور خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اب تو ٹرپ لے کے جانا بھی ہائی رسکی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اور ۔۔۔ محرم رشتوں میں بھی اب ایسے واقعات سننے میں آنے لگے ہیں کہ ذہن بند ہونے لگتا ہے۔ پہلے ہم کہیں دور کی کوئی کہانی سنتے تھے اور یقین نہیں کرتے تھے۔ اب ہمارے ارد گرد ہی کہیں سننے کو مل جاتا ہے۔
یا اللہ! رحم!
 

عثمان

محفلین
میں نے بچی کے چہرے اور آنکھیں دیکھ کے ساتھیوں سے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہ مجھے سمجھنے والی نہیں لگتی۔ یہ اب مُڑ کے واپس آتی نظر نہیں آتی۔ دوسری بار موبائل پکڑا گیا اور اوپر چھت پہ چڑھ کے دور سڑک پہ اشارے۔۔۔ آخرکار اسے نکالنا پڑا۔ یہ ماں تو سمجھ گئی لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ لیکن کئی والدین کو بلا کے سمجھاتے ہیں تو وہ عملی طور پہ کچھ نہیں کرتے۔ مائیں باپ تک بات نہیں جانے دیتیں۔ اور اس طرح معاملات اور خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں۔

سولہ سالہ نابالغ بچی کے متعلق ایسی حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں۔
پاکستانی معاشرے میں ہر تبدیلی سے نمٹنے کا واحد حل عموماً افراد پر پابندیوں کے صورت میں نکالا جاتا ہے جس کی افادیت محدود ہوتی ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ایک رویہ جس کی ہمیشہ سے مذمت کی جاتی ہے لیکن وہ بھی معاشرے سے ختم نہیں کیا جا سکا ۔ اپنا کوڑا کہیں بھی ڈمپ کر دینا۔ کل شہر کی ایک الیٹ سوسائٹی میں میری گاڑی کے آگے ایک ہنڈا سوک جا رہی تھی۔ بچے بھی بیٹھے تھے اس میں۔ گاڑی کا شیشہ نیچے ہوا اور فروٹ کی چھلکوں سے بھرا شاپنگ بیگ سڑک کنارے اچھا ل دیا گیا۔ میں نے خوب باتیں سنائیں ۔ آج صبح آفس آتے ہوئے ایک سڑک پر یک موٹر سائکل پر مزدور ٹائپ بندہ جا رہا تھا۔ اس نے بڑے آرام سے موٹر سائکل سے لٹکا کوڑے کا تھیلا اتارا اور سڑک کے کنارے پھینک کر یہ جا وہ جا۔
سو قانون اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔ امیر غریب ، پڑھا لکھا ان پڑھ سب ایک برابر ہیں کیوں کہ تربیت اور اکاونٹیبلیٹی دونوں روایات ناپید ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بالکل صحیح کہا۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ ایسے اشخاص جو بچیوں کی تباہی کے ذمہ دار ہیں، مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں، انھیں بس دوسرے ادارے میں بھیج دو۔ بھئی وہاں جا کے تائب ہو جائیں گے؟
اور فرحت نے کہا کہ سنگینی کا ادراک نہیں کیا جاتا۔۔۔
کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ جس واقعہ بلکہ واقعات پہ میں نے انکوائری کی، "بڑوں" نے انھیں شاید سنجیدگی سے لیا ہی نہیں یا پھر ان کے علم میں ایسے اور واقعات آتے ہوں گے اور اب ان کے نزدیک بھی "نارملائز" ہو گیا ہو گا۔
اب اساتذہ اور سربراہوں میں بھی کوئی شخص اس کردار کا نکل آتا ہے، کسی دور میں ہمارے لیے جن کا کردار مثالی ہوا کرتا تھا۔ لیکن ان کے خلاف بھی کچھ نہیں ہوتا۔ الٹا جو ایسے لوگوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، انھیں نشانۂ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔
والدین بھی آنکھیں، کان بند کر لیتے ہیں۔ میرا تو تجربہ و مشاہدہ ہے کہ آج تک جتنے والدین کو بلا کے بچیوں سے متعلق بتایا، والدین نے کوئی خاص ایکشن نہیں لیا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک سولہ سالہ بچی کی بیوہ ماں کو بلا کے سمجھایا کہ اس کے پاس سے موبائل پکڑا گیا ہے اور کسی شادی شدہ مرد سے رابطے میں ہے۔ ماں بیچاری، منہ زور بچی کے سامنے بہت مجبور نظر آتی تھی۔ میں نے بچی کے چہرے اور آنکھیں دیکھ کے ساتھیوں سے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہ مجھے سمجھنے والی نہیں لگتی۔ یہ اب مُڑ کے واپس آتی نظر نہیں آتی۔ دوسری بار موبائل پکڑا گیا اور اوپر چھت پہ چڑھ کے دور سڑک پہ اشارے۔۔۔ آخرکار اسے نکالنا پڑا۔ یہ ماں تو سمجھ گئی لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ لیکن کئی والدین کو بلا کے سمجھاتے ہیں تو وہ عملی طور پہ کچھ نہیں کرتے۔ مائیں باپ تک بات نہیں جانے دیتیں۔ اور اس طرح معاملات اور خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اب تو ٹرپ لے کے جانا بھی ہائی رسکی ہے۔
اللہ رحم۔
ویسے مجھے یہی لگتا ہے کہ رویے نارملائز کر دیے گئے ہیں۔ بعض اوقات تو مجھے یہ حیرت ہوتی ہے کہ بہت سی ایسی باتیں اور رویے جنھیں مغربی یا ہمارے خیال میں مادر پدر آزاد معاشروں اور ملکوں میں بھی عمومی طور پر معیوب یا غیر فطری سمجھا جاتا ہے وہ اب ہمارے ماحول میں عام ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
چند دن پہلے سڑک پر جا رہا تھا کہ دیکھا مجھ سے آگے ایک نوجوان جا رہا ہے ، اس نے چاکلیٹ یا کوئی اور چیز کھا کر اس کا لفافہ نیچے پھینک دیا۔
چند قدم آگے چل کر وہ واپس آیا اور زمین پر گرا لفافہ اٹھا لیا۔
اب شاید وہ کسی ڈسٹ بن کی تلاش میں تھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
سولہ سالہ نابالغ بچی کے متعلق ایسی حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں۔
ضروری نہیں کہ میری رائے حتمی ہو۔ ایک خدشے کا اظہار تھا اور وہ بھی صرف ساتھیوں سے۔ لڑکی کو جب اس کی سہیلی سمیت بلایا تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کھڑی تھی۔ پہلے خاموش پھر بدتمیزی اور جھوٹ۔
اساتذہ اور والدین اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پہ کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ جسے حتمی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن بہت مرتبہ درست بھی نکلتی ہے۔
مجھے یاد آ رہا ہے کہ میری ایک شاگرد تھی جو درمیان کی سیٹ پہ بیٹھتی تھی۔ میں کچھ دنوں سے اس بچی کو نوٹ کر رہی تھی لیکن مجھے فرصت نہیں مل رہی تھی اس سے بات کرنے کی۔ چند دن بعد میں اسے گراؤنڈ میں لے گئی۔ کچھ باتیں کرنے کے بعد اس سے پوچھا کہ "وہ کون ہے"۔ پہلے تو چونکی پھر آخرکار بتا دیا کہ بھائی کو ٹیوشن پڑھانے آتا ہے۔
والدین کو بلایا۔ بچی کو سمجھایا۔
قصہ مختصر دعویٰ نہیں لیکن اساتذہ اور والدین بچوں کے چہرے، رویوں، دوستوں اور پڑھائی وغیرہ سے بہت سے اندازے لگاتے ہیں۔
 
Top