ہمارے معاشرتی آداب اور مسائل

جاسمن

لائبریرین
ایک رویہ جس کی ہمیشہ سے مذمت کی جاتی ہے لیکن وہ بھی معاشرے سے ختم نہیں کیا جا سکا ۔ اپنا کوڑا کہیں بھی ڈمپ کر دینا۔ کل شہر کی ایک الیٹ سوسائٹی میں میری گاڑی کے آگے ایک ہنڈا سوک جا رہی تھی۔ بچے بھی بیٹھے تھے اس میں۔ گاڑی کا شیشہ نیچے ہوا اور فروٹ کی چھلکوں سے بھرا شاپنگ بیگ سڑک کنارے اچھا ل دیا گیا۔ میں نے خوب باتیں سنائیں ۔ آج صبح آفس آتے ہوئے ایک سڑک پر یک موٹر سائکل پر مزدور ٹائپ بندہ جا رہا تھا۔ اس نے بڑے آرام سے موٹر سائکل سے لٹکا کوڑے کا تھیلا اتارا اور سڑک کے کنارے پھینک کر یہ جا وہ جا۔
سو قانون اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔ امیر غریب ، پڑھا لکھا ان پڑھ سب ایک برابر ہیں کیوں کہ تربیت اور اکاونٹیبلیٹی دونوں روایات ناپید ہیں۔
واقعی ایسا ہی ہے۔ کوڑا پھینکنے کے علاوہ جگہ جگہ تھوکنا۔ اُف!
نصف ایمان نہیں حاصل کر سکتے ہم، جو کس قدر آسان ہے تو باقی نصف کے لیے کیسے کوشش کر سکیں گے!
 

ظفری

لائبریرین
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ یہ سب رویئے (جو اب تک گنوائے گئے ) اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ ہے ۔ گذشتہ 10 ماہ میں پاکستان کے میں نےچار وزٹ کیئے ۔ اور ہر بار یہی بات نوٹ کی ۔ اخلاقی قدروں کی جو درگت گذشتہ تیس سال میں یہاں بنی ہے ۔ اس نے قوم کو ذہنی انتشار میں مبتلا کردیا ہے ۔ جیسے ہی اخلاقی معیار گرا ۔ لوگوں رویوں میں ایک منفی جوہری تبدیلی پیدا ہوگئی۔ انہوں اپنےمطابق اپنے معیار تعین کرلیئے ۔ اس سے قطع نظر کہ دین اور معاشرے کے اقدار میں ان کی جگہ بنتی بھی ہے یا نہیں ۔ انہوں نے اپنے معیار کے حصول کے لیئے ہر اس چیز کو جائز قرار دیدیا ۔ جو ان کی خواہشات کے حصول میں مدد دے ۔
معاملہ اتنا آسان نہیں ہے ۔ یہاں صرف خرابیوں کی نشاندہی کافی نہیں ہے ۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں ۔ جس سے قوم میں یہ تنزلی پیدا ہوئی ۔ اگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سب اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ ہے تو پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اس کا آغاز کیسے ہوا ۔ اس پر ایک مفصل بحث کی ضرورت ہے ۔ اراکین ایک متفق ہوں تو اس پر میں مذید لکھنے کی کوشش کرسکتا ہوں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شاید۔ اب صحیح یاد نہیں
کسی گروہ کو شہر یا بستی سے نکالنے کا موضوع تھا ؟
۔ اس پر ایک مفصل بحث کی ضرورت ہے ۔ اراکین ایک متفق ہوں تو اس پر میں مذید لکھنے کی کوشش کرسکتا ہوں ۔
ظفری بھائی !!! مجھے اس مراسلے میں نہ صرف ایک حاذق نباض کی روح محسوس ہوئی بلکہ درد مند ی اور خیر خواہی کی تازگی بھی ۔شاد آباد رہیئے ۔
درحقیقت اس دھاگے کا اصل مقصد یہی تھا ۔ اور اسے الگ الگ موضوعات میں تقسیم کرنا بھی اسی باعث تھا ۔کہ ان اسباب پر ازحد سنجید گی اور فکری گہرائی کے ساتھ غور و خوض کر کے تجزیہ کیا جائے اور پھر ممکنہ حل پیش کیے جائیں ۔ ابھی فی الحال وقت کی پابندی اور اس کے درست استعمال کے لیے ایک دھاگا چل رہا ہے ۔ میری درخواست ہو گی کہ ان بحثوں کو الگ الگ نقاط کے تحت زیر بحث بھی لایا جائے ۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
گذشتہ 10 ماہ میں پاکستان کے میں نےچار وزٹ کیئے ۔
اس بارے میں بھی لکھیں کہ کیوں اتنے چکر لگے اور کیا مشاہدات رہے

اراکین ایک متفق ہوں تو اس پر میں مذید لکھنے کی کوشش کرسکتا ہوں ۔
متفق ہونے کی پروا نہ کریں اور لکھیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی ہاں۔ ایک شہر کی حدود سے نکالا گیا تھا اور پھر جہاں وہ بسے وہاں ہی بستی بن گئی اور پھر وہاں سے نکالنے کا معاملہ
آنندی ۔
غلام عباس کا مشہور زمانہ اور شاہکار افسانہ تھا جس کے باعث ان کے قلم کو شہرت ملی ۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
معاملہ اتنا آسان نہیں ہے ۔ یہاں صرف خرابیوں کی نشاندہی کافی نہیں ہے ۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں ۔ جس سے قوم میں یہ تنزلی پیدا ہوئی ۔ اگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سب اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ ہے تو پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اس کا آغاز کیسے ہوا ۔ اس پر ایک مفصل بحث کی ضرورت ہے ۔ اراکین ایک متفق ہوں تو اس پر میں مذید لکھنے کی کوشش کرسکتا ہوں ۔
معاشرے کا مجموعی مزاج
 

الف نظامی

لائبریرین
بابا صوبن سائیں مجھے (ملک بشیر احمد کامریڈ) خود کہتا تھا کہ جب ہیڈ تونسہ بیراج بن رہا تھا تو میں کبھی بجری کبھی سیمنٹ کبھی ریت اور کبھی ٹھیکیداروں کو دیکھتا رہتا تھا اور ٹھیکیداروں سے سوال کرتا کہ تم نے بجری کو دھو کر مکس کیا ہے۔ اس طرح کے سوال پوچھتا رہتا تھا۔ تو وہ بھی سمجھتے کہ حکومت نے اس بزرگ آدمی کو جو سیدھا سادھا معلوم ہوتا ہے کو ہماری سی آئی ڈی کے لیے چھوڑا ہے۔ پھر مجھ سے بولتے بابو میرا کوئی تونسہ بیراج میں حصہ تھا۔ مطلب تو یہ تھا کہ ڈر اور خوف کی وجہ سے اچھا کام کریں گے۔
بابا صوبن سائیں , صفحہ 18
 
Top