اُردو کے شیدائی کا نیا تحفہ
عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
مصنف کے نزدیک اُردو محض ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک طرزِ حیات اور ایک تہذیبی اور تمدنی استعارہ بھی ہے
تقسیمِ ہند کے وقت اُردو زبان، جِسے سیکولر روایت کے تحت ہندوستانی کہہ کر بھی پکارا جاتا تھا، سارے ہندوستان کی لِنگوا فرانکا تھی، یعنی مختلف بولیاں بولنے والوں کی اکثریت اُردو کو ایک رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کرتی تھی۔
یہاں اس دلچسپ بات کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ انگریزوں کو اُردو سکھانے کے لیے گراہم بیلی نے جو معروف کتاب مرتب کی تھی اسکا اصل عنوان تھا:
Teach yourself Hindustani
لیکن اب یہی کتاب
Teach yourself Urdu
کے نام سے دستیاب ہے۔
تقسیم کے بعد پاکستان میں اُردو کو سرکاری اور قومی سرپرستی حاصل ہوگئی لیکن بھارت میں اُردو کو زندہ رکھنے اور فروغ دینے کے لیے اہلِ اُردو کو بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔
اُن کے سامنے سب سے اہم مرحلہ اس تاثر کو ختم کرنا تھا کہ اُردو توعربی اور فارسی بولنے والے غیر ملکی حملہ آوروں کی زبان تھی، چنانچہ لسانیاتی تحقیق کی بنیاد پر بار بار اس نکتے کو واضح کیا گیا کہ اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی، اسکا قواعدی ڈھانچہ تمام تر مقامی ہے، اسکے مفرد افعال سب مقامی ہیں اور اسکے جملے کی ساخت عین وہی ہے جو ہندی جملے کی ہوتی ہے۔
اردو محض ایک زبان نہیں
اُردو کو محض ایک زبان کہنا اُردو کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے۔ یہ ایک طرزِ حیات، ایک اسلوبِ زیست، ایک اندازِ نظر یا جینے کا ایک طریقہ و سلیقہ بھی ہے، اس لیے کہ اُردو صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایسا روشن استعارہ ہے جسکی کوئی دوسری مثال کم از کم برِصغیر کی زبانوں میں نہیں ہے
گوپی چند نارنگ
پاکستان میں حاکم طبقوں کو چونکہ اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ اردو کو ایک مقامی زبان ثابت کیا جائے، بلکہ عربی اور فارسی سے اردو کے گہرے روابط کا تذکرہ اُن کے تصورِ حاکمیت کو مستحکم کرنا تھا، چنانچہ پاکستان میں چالیس پچاس برس تک نہ تو اُردو پر کوئی سنجیدہ لسانیاتی تحقیق ہوئی اور نہ ہی لسانیات کو بالعموم ایک سائنس کے طور پر پڑھنے پڑھانے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
آج بھی سرکاری سرپرستی میں شائع ہونے والے علمی رسائل میں عربی کو اُمّ الالسنہ (تمام زبانوں کی ماں) اور اردو کو عربی اور فارسی کی بیٹی قرار دیا جاتا ہے۔
ڈ
اکٹر گوپی چند نارنگ گزشتہ نصف صدی سے اُردو کے محاذ پر یوں سر گرم ہیں جیسے کوئی جانباز سپاہی اپنے وطنِ عزیز کی سرحد پر سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑا ہو اور مخالف جانب سے آنے والے ہر وار کو اپنے سینے پہ سہ رہا ہو۔ پچھلے پچاس برس سے اُردو ہی انکا اوڑھنا بچھونا ہے اور مولوی عبدالحق کے بعد اگر کسی کو صحیح معنوں میں اردو کا دیوانہ کہا جاسکتا ہے تو شاید وہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہی کی شخصیت ہے۔ اُردو سے انکے عشق کا دعویٰ کسی مجذوب کی بڑ نہیں بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے کیونکہ وہ اُردو کو محض ایک زبان نہیں سمجھتے بلکہ اس سے کہیں زیادہ اونچا
اُردو کے شیدائی کا نیا تحفہ
عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
درجہ دیتے ہیں۔ ایک جگہ خود لکھتے ہیں:
’اُردو کو محض ایک زبان کہنا اُردو کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے۔ یہ ایک طرزِ حیات، ایک اسلوبِ زیست، ایک اندازِ نظر یا جینے کا ایک طریقہ و سلیقہ بھی ہے، اس لیے کہ اُردو صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایسا روشن استعارہ ہے جسکی کوئی دوسری مثال کم از کم برِصغیر کی زبانوں میں نہیں ہے۔‘
گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں گوپی چند نارنگ ایک محقق، ادیب، دانشور، ماہرِ لسانیات، مُدّرس، ماہرِ تعلیم، ادبی نقاد، معاشرتی مُبصّراور پاک و ہند کے مابین ایک سفیرِ امن کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ اُن کی ادبی اور علمی خدمات کے اعتراف میں انہیں ہند سرکار نے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا اور وہ کئی سرکاری اور نیم سرکاری عہدوں پر فائز بھی رہے جن میں ساہتیہ اکادمی کی صدارت جیسا اعلیٰ اعزاز بھی شامل ہے، لیکن گوپی چند نارنگ کو خود اپنی جس شناخت پہ فخر ہے وہ محض اُردو کے ایک شیدائی کی ہے۔ اُردو زبان اور ادب کے منفرد پہلوؤں پر اُن کی گوناں گوں تحریریں پاک و ہند کے مختلف رسائل و جرائد میں بکھری پڑی تھیں لیکن اب دوستوں، مداحوں اور شاگردوں کے اصرار پر انھوں نے پچاس برس کے عرصے پر پھیلے ہوئے اس علمی و ادبی سرمائے میں سے چیدہ چیدہ مضامین علیحدہ کر کے انھیں ایک کتابی شکل میں شائع کر دیا ہے، پاکستان میں اس علمی مواد کے حقوق سنگِ میل پبلی کیشنز نے حاصل کر کے یہاں سے بھی کتاب جاری کر دی ہے جو کہ پچیس منتخب مضامین پر مشتمل ہے۔
نارنگ صاحب اس نقطہ نظر کے سخت مخالف رہے ہیں کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کر کے رومن یا دیوناگری کردیا جائے۔ اس سلسلے میں اُن کا اولین مضمون ستمبر 1961 میں دہلی کے ایک رسالے میں شائع ہوا تھا جو کہ بعد میں حوالے کی ایک دستاویز بن گیا اور کئی کتابوں میں اس کے اقتباسات استعمال ہوئے۔ یہ مکمل مضمون اب گوپی چند نارنگ کی کتاب ’اُردو زبان اور لسانیات‘ میں شامل کر لیا گیا ہے
پہلے حصّے کے سات مضامین کا تعلق اُردو کی لسانی ساخت اور ہندی سے اسکے قریبی رشتے سے ہے۔ اس حصّے کا مضمون اُردو کے افعالِ مرکبہ خاص طور پر لائقِ توجہ ہے جس میں مصنف نے پِیڑ ہُک کے کام
(Compound verb in Hindi)
کو آگے بڑھایا ہے اور دو کی بجائے اِن مرکب افعال کو پانچ تفصیلی زمروں میں تقسیم کیا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصّے کا تعلق املا اور رسم الخط سے ہے جو کہ مصنف کا محبوب موضوع ہے اور وہ برسوں تک ترقی اردو بورڈ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی املا کمیٹی کے سرگرم رکن بھی رہے ہیں۔
نارنگ صاحب اس نقطہ نظر کے سخت مخالف رہے ہیں کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کر کے رومن یا دیوناگری کردیا جائے۔ اس سلسلے میں اُن کا اولین مضمون ستمبر 1961 میں دہلی کے ایک رسالے میں شائع ہوا تھا جو کہ بعد میں حوالے کی ایک دستاویز بن گیا اور کئی کتابوں میں اس کے اقتباسات استعمال ہوئے۔ یہ مکمل مضمون اب گوپی چند نارنگ کی کتاب ’اُردو زبان اور لسانیات‘ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
کتاب کے تیسرے حصّے میں احتشام حسین، دتاتریہ کیفی اور فرمان فتح پوری کی لسانی خدمات کا ذکر ہے اور چوتھے حصّے میں کُل ہند اردو کانفرنسوں کا احوال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دہلی کی کرخنداری بولی کا لسانی تجزیہ، کربل کتھا کی زبان اور ریاست بہار کے اس مستحسن اقدام پر اظہارِ خیال ہے کہ اُردو کو دوسری ریاستی زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔
کتاب کا آخری حصّہ خالص لسانیاتی اور تکنیکی موضوعات کےلیے وقف ہے جس میں پہلی بار اردو آوازوں کی مختصر ترین اِکائیوں کو صوتیات کے محدّب عدسوں تلے لا کے جانچا پرکھا گیا ہے اور اسطرح اردو آوازوں کے سپکٹروگرام بھی پہلی مرتبہ معرضِ وجود میں آئے ہیں۔ اس حصّے کے آخری دو مضامین میں اُردو کی ہائیہ اور ُغنّہ آوازوں پر بحث کی گئی ہے اور ڑ / ڑھ کی مخصوص اردو ۔ ہندی آوازوں کو لیبارٹری کی میز پر رکھ کر ماہرِ صوتیات کی چِمٹی سے الٹ پلٹ کر دیکھا گیا ہے۔
جہاں گوپی چند نارنگ خود کو اس امر پہ مبارک باد دیتے ہیں کہ انھیں گیسوئے اُردو سنوارنے کی سعادت میں حصّہ نصیب ہوا، وہیں یہ اردو زبان کی بھی خوش قسمتی ہے کہ اسے تکنیکی کِیل کانٹے سے لیس ایک ایسا تجزیہ کار میسر آگیا جو اسکی صوتیاتی نزاکتوں اور اِملائی نفاستوں کو دنیا بھر کے علمائے النسہ کے سامنے فخر سے پیش کر سکتا ہے۔
گوپی چند نارنگ کے مضامین پر مشتمل کتاب ’اُردو زبان اور لسانیات‘ یقیناً پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرے گی اور شاید یہ لسانی تحقیق کے اُس تالاب میں ایک پتھر کی طرح گرے جسکا بند پانی برسوں سے کسی ہل چل کا متمنی ہے۔۔۔