قافیہ میں یہ قطعاً ضروری نہیں کہ ایک لفظ کے مقابل ایک لفظ ہی ہو گا۔ "تیار" کے مقابل "دو چار" قافیہ لانا بالکل درست ہے۔
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
جنابِ
مزمل شیخ بسمل کی رائے یقیناً صائب تر ہو گی۔
جی متفق ہوں سر!
قافیہ کے لیے ضروری نہیں کہ الفاظ ہم آواز ہونے کے ساتھ ساتھ ہم وزن بھی ہوں۔ نہ ہی یہ ضروری ہے کہ سب ہم آواز الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ قافیہ بھی ہو سکیں۔بلکہ بعض اوقات تو قافیہ لفظ سے نکل کر ترکیب تک پہنچ جاتا ہے۔ گو کہ قافیہ کی چند کتابوں میں اس عمل کو بعض وقت بطور عیب ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن صنائع کی کتابوں میں ایک صنعت "معمول" کے نام سے ہوتی ہے۔ یعنی قافیہ کو اس طرح لانا کہ ایک قافیہ دو الفاظ یا کلموں پر مشتمل ہو۔ جیسے غالب کو دیکھیں:
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
٭یہاں دیکھیں تو سنائے، بنائے، بجھائے، مٹائے، ستائے وغیرہ سب الفاظ فعولن کے وزن پر آتے ہیں۔ لیکن دوسرے شعر میں قافیہ کو لفظ سے توڑ کر ترکیب میں ڈھال دیا ہے۔
ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک لفظ کے ایک ٹکڑے سے قافیہ لے لیا۔ اور باقی کو ردیف میں ڈال دیا۔ یہ بھی معمول کی ایک قسم ہے۔ مومن خان مومن کو دیکھیں:
کہے ہی چھیڑنے کو میرے، گر سب ہوں مرے بس میں
نہ دوں ملنے کسی معشوق اور عاشق کو آپس میں
رقیب بوالہوس نے رونما میں تیرے کب جاں دی
وہ نو وارد ہے کیا جانے دیارِ عشق کی رسمیں
٭یہاں اوپر سے الٹ مسئلہ ہے۔ بس، آپس، رس، خس وغیرہ تو ہم قافیہ تھے ہی، لیکن مومن نے اپنی آزادی کے لیے تصرف یہ کیا ہے کہ قافیہ اور ردیف کو ایک دوسرے میں تحلیل کرکے ایک نیا کارنامہ سر انجام دے ڈالا ہے۔ یعنی رسمیں ایک ہی لفظ ہے جس میں قافیہ بھی ہوگیا اور ردیف بھی۔