ہم قافیہ الفاظ لکھیں

السلام و علیکم ۔
کچھ الفاظ جو میں لکھ رہا ہوں کیا یہ سب ہم قافیہ لکھے ہیں یا ان مین غلطی کا امکان ہے رہنمائی فرمائی جائے ممنون ہوں گا۔
مناتے،نہاتے،کراتے ،گنواتے،ستاتے، جلاتے،سلاتے،رلاتے، بھلاتے، بلاتے،گراتے،پلاتے،ملاتے،بجھاتے،چھپاتے،لبھاتے،سناتے، ان میں جو تھیک ہیں ان کی نشان دہی کر دی جائے اور اگر اضافہ ممکن ہو تو کر دیجئے نہایت شکر گزار ہوں گا۔ عبدالرازق شاد
وعلیکم السلام
یہ قوافی درست ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
شہزادے کے ہم قافیہ الفاظ کیا ہوں گے؟؟؟
دلدادے
عم زادے
خانوادے
اُفتادے
فرستادے
ارادے
 
جنابِ متلاشی
جب ہم بات کر رہے ہوں قوافی کی، تو اُن میں اعراب کا مماثل ہونا بھی زیرِ غور آئے گا اور مصرعے کے اندر وزن سے مطابقت بھی۔ اس تاگے میں جنابِ الف عین کے ارشادات خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔
ایسے میں مجھے تو یہ بات عجیب تر لگتی ہے کہ ہمارے اہلِ علم دوست املاء میں کچھ اِدھر اُدھر کر جاتے ہیں؛ مثال کے طور پر ۔۔ السلام و علیکم (اس میں واو نہیں ہونی چاہئے)؛ درست لفظ اکٹھے ہے نہ کہ اکھٹے۔۔ معانی کے معاملات اس کے علاوہ ہیں۔ کتابت (یہاں ٹائپنگ) کی غلطی مختلف بات ہے۔ یہیں ایک دوست نے شرط کو شرظ اور ٹھیک کو تھیک لکھ دیا؛ اس پر گرفت کی ضرورت نہیں۔
امید ہے احباب توجہ فرمائیں گے۔
 
قافیہ میں یہ قطعاً ضروری نہیں کہ ایک لفظ کے مقابل ایک لفظ ہی ہو گا۔ "تیار" کے مقابل "دو چار" قافیہ لانا بالکل درست ہے۔
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں​

جنابِ مزمل شیخ بسمل کی رائے یقیناً صائب تر ہو گی۔
 
قافیہ میں یہ قطعاً ضروری نہیں کہ ایک لفظ کے مقابل ایک لفظ ہی ہو گا۔ "تیار" کے مقابل "دو چار" قافیہ لانا بالکل درست ہے۔
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں​

جنابِ مزمل شیخ بسمل کی رائے یقیناً صائب تر ہو گی۔

جی متفق ہوں سر!
قافیہ کے لیے ضروری نہیں کہ الفاظ ہم آواز ہونے کے ساتھ ساتھ ہم وزن بھی ہوں۔ نہ ہی یہ ضروری ہے کہ سب ہم آواز الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ قافیہ بھی ہو سکیں۔بلکہ بعض اوقات تو قافیہ لفظ سے نکل کر ترکیب تک پہنچ جاتا ہے۔ گو کہ قافیہ کی چند کتابوں میں اس عمل کو بعض وقت بطور عیب ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن صنائع کی کتابوں میں ایک صنعت "معمول" کے نام سے ہوتی ہے۔ یعنی قافیہ کو اس طرح لانا کہ ایک قافیہ دو الفاظ یا کلموں پر مشتمل ہو۔ جیسے غالب کو دیکھیں:
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
٭یہاں دیکھیں تو سنائے، بنائے، بجھائے، مٹائے، ستائے وغیرہ سب الفاظ فعولن کے وزن پر آتے ہیں۔ لیکن دوسرے شعر میں قافیہ کو لفظ سے توڑ کر ترکیب میں ڈھال دیا ہے۔

ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک لفظ کے ایک ٹکڑے سے قافیہ لے لیا۔ اور باقی کو ردیف میں ڈال دیا۔ یہ بھی معمول کی ایک قسم ہے۔ مومن خان مومن کو دیکھیں:
کہے ہی چھیڑنے کو میرے، گر سب ہوں مرے بس میں
نہ دوں ملنے کسی معشوق اور عاشق کو آپس میں
رقیب بوالہوس نے رونما میں تیرے کب جاں دی
وہ نو وارد ہے کیا جانے دیارِ عشق کی رسمیں
٭یہاں اوپر سے الٹ مسئلہ ہے۔ بس، آپس، رس، خس وغیرہ تو ہم قافیہ تھے ہی، لیکن مومن نے اپنی آزادی کے لیے تصرف یہ کیا ہے کہ قافیہ اور ردیف کو ایک دوسرے میں تحلیل کرکے ایک نیا کارنامہ سر انجام دے ڈالا ہے۔ یعنی رسمیں ایک ہی لفظ ہے جس میں قافیہ بھی ہوگیا اور ردیف بھی۔
 
آخری تدوین:
جی متفق ہوں سر!
قافیہ کے لیے ضروری نہیں کہ الفاظ ہم آواز ہونے کے ساتھ ساتھ ہم وزن بھی ہوں۔ نہ ہی یہ ضروری ہے کہ سب ہم آواز الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ قافیہ بھی ہو سکیں۔بلکہ بعض اوقات تو قافیہ لفظ سے نکل کر ترکیب تک پہنچ جاتا ہے۔ گو کہ قافیہ کی چند کتابوں میں اس عمل کو بعض وقت بطور عیب ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن صنائع کی کتابوں میں ایک صنعت "معمول" کے نام سے ہوتی ہے۔ یعنی قافیہ کو اس طرح لانا کہ ایک قافیہ دو الفاظ یا کلموں پر مشتمل ہو۔ جیسے غالب کو دیکھیں:
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
٭یہاں دیکھیں تو سنائے، بنائے، بجھائے، مٹائے، ستائے وغیرہ سب الفاظ فعولن کے وزن پر آتے ہیں۔ لیکن دوسرے شعر میں قافیہ کو لفظ سے توڑ کر ترکیب میں ڈھال دیا ہے۔

ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک لفظ کے ایک ٹکڑے سے قافیہ لے لیا۔ اور باقی کو ردیف میں ڈال دیا۔ یہ بھی معمول کی ایک قسم ہے۔ مومن خان مومن کو دیکھیں:
کہے ہی چھیڑنے کو میرے، گر سب ہوں مرے بس میں
نہ دوں ملنے کسی معشوق اور عاشق کو آپس میں
رقیب بوالہوس نے رونما میں تیرے کب جاں دی
وہ نو وارد ہے کیا جانے دیارِ عشق کی رسمیں
٭یہاں اوپر سے الٹ مسئلہ ہے۔ بس، آپس، رس، خس وغیرہ تو ہم قافیہ تھے ہی، لیکن مومن نے اپنی آزادی کے لیے تصرف یہ کیا ہے کہ قافیہ اور ردیف کو ایک دوسرے میں تحلیل کرکے ایک نیا کارنامہ سر انجام دے ڈالا ہے۔ یعنی رسمیں ایک ہی لفظ ہے جس میں قافیہ بھی ہوگیا اور ردیف بھی۔
توجہ کے لئے ممنون ہوں، جناب شیخ صاحب۔
ایک ذرا سی توضیح کی اجازت چاہوں گا کہ اس اشتراک کو بحر میں فٹ آنا چاہئے۔ شکریہ۔
 

من

محفلین
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ڈستا. ہنستا. سستا. چبھتا. برستا. چھپتا. جلتا. کیا یہ سب ہم قافیہ ہیں؟
 

شکیب

محفلین
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ڈستا. ہنستا. سستا. چبھتا. برستا. چھپتا. جلتا. کیا یہ سب ہم قافیہ ہیں؟
ڈستا، ہنستا، سستا، برستا ٹھیک ہیں۔ بقیہ نہیں۔
ان الفاظ ک آخر میں موجود ”تا“ چونکہ اصلی نہیں ہے، اس لیے قافیہ ”تا“ کے پہلے والے کو لیں گے، تا کو آپ اپنی سمجھ کے لیے ردیف کہہ سکتی ہیں۔اگرچہ اصلا وہ قافیہ کا حصہ ہے۔
یعنی اصل قوافی ہوں گے ڈس، برس،ترس وغیرہ۔
 

من

محفلین
ڈستا، ہنستا، سستا، برستا ٹھیک ہیں۔ بقیہ نہیں۔
ان الفاظ ک آخر میں موجود ”تا“ چونکہ اصلی نہیں ہے، اس لیے قافیہ ”تا“ کے پہلے والے کو لیں گے، تا کو آپ اپنی سمجھ کے لیے ردیف کہہ سکتی ہیں۔اگرچہ اصلا وہ قافیہ کا حصہ ہے۔
یعنی اصل قوافی ہوں گے ڈس، برس،ترس وغیرہ۔
اوہ جزاکم اللہ سوتی انہنگ اسی کو کہتے ہیں؟
 

من

محفلین
اور اگر کہیں زیر زبر کا فرق ہوں دھستا اور رِستا سَستا پِستا کیا یہ ٹھیک قوافی ہیں؟
 

شکیب

محفلین
اوہ جزاکم اللہ سوتی انہنگ اسی کو کہتے ہیں؟
شاید آپ صوتی آہنگ کہنا چاہ رہی ہیں۔
صوتی قوافی البتہ اہمیت کے حامل ہیں۔ صوتی قوافی وہ ہوتے ہیں جو اردو میں الفاظ کے ایک جیسے تلفظ کی بنا پر درست قرار پاتے ہیں(اس میں اختلاف بھی ہے)
مثلا برس، ڈس، ترس کے ساتھ ”قصص“ جس میں ص موجود ہے لیکن آواز س کی ہے
اور اگر کہیں زیر زبر کا فرق ہوں دھستا اور رِستا سَستا پِستا کیا یہ ٹھیک قوافی ہیں؟

نہیں۔ صرف زبر ہی چلے گا۔
 

من

محفلین
شاید آپ صوتی آہنگ کہنا چاہ رہی ہیں۔
صوتی قوافی البتہ اہمیت کے حامل ہیں۔ صوتی قوافی وہ ہوتے ہیں جو اردو میں الفاظ کے ایک جیسے تلفظ کی بنا پر درست قرار پاتے ہیں(اس میں اختلاف بھی ہے)
مثلا برس، ڈس، ترس کے ساتھ ”قصص“ جس میں ص موجود ہے لیکن آواز س کی ہے


نہیں۔ صرف زبر ہی چلے گا۔
بہت شکریہ
 
Top