ہوئے مسند نشیں پھر ملک و ملت بیچنے والے

یہاں پر میں اصل حکمرانوں کی بات ہی نہیں کروں گا کیونکہ وہ ٰ نیوٹرل ٰ ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا، آپ نے مان لیا۔ :)
بالفرض ہو بھی چکے ہوں، تو حالات کی ذمہ داری میں اہم حصہ انھی کا ہے۔
اور میں نہیں سمجھتا کہ ان معاشی حالات کا محض حکومت کی تبدیلی سے کوئی تعلق ہے۔ حکومت نہ بھی بدلی ہوتی، تو حالات کچھ مختلف نہ ہونے تھے۔
 

علی وقار

محفلین
انھوں نے کہا، آپ نے مان لیا۔ :)
بالفرض ہو بھی چکے ہوں، تو حالات کی ذمہ داری میں اہم حصہ انھی کا ہے۔
اور میں نہیں سمجھتا کہ ان معاشی حالات کا محض حکومت کی تبدیلی سے کوئی تعلق ہے۔ حکومت نہ بھی بدلی ہوتی، تو حالات کچھ مختلف نہ ہونے تھے۔
نیوٹرل کو کسی شے میں قید کر رکھا ہے میں نے تابش بھائی۔ غور فرمائیے۔ یہ بات مجھے بھی درست لگتی ہے کہ حکومت نہ بدلی ہوتی تب بھی حالات شاید ایسے ہی ہونے تھے۔
 
عبید بھائی ، میں نے بڑی بری خبریں سنی ہیں ۔ آپ تو وہاں ہیں تو زیادہ بہتر جانتے ہوں گے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس صورتحال سے امن و امان کے ساتھ نکل پائے گا۔ کیا کسی رہنما کی امید نظر آتی ہے؟ کوئی امیدکی کرن؟
وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کون زحمت کرے پھر شمعیں جلانے کی ظہیرؔ
جب سیہ رات کے شکوے ہی شغف ہو جائیں​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
امید صرف ربِ کائنات سے ہے۔ ان شاء اللہ ہم اس مشکل سے نکل آئیں گے۔ مگر اتنا ضرور کہنا چاہوں گا ظہیر بھائی کہ رہنماؤں کے علاوہ کسی حد تک یا شاید کافی حد تک قصور ہمارا اپناہے جو ہم اپنے لیے ایسے سیاسی رہنماؤں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس وقت بظاہر آئی ایم ایف کے پاس جانے کے ان کے پاس کوئی پلان نہ ہے اور ٰدوست ٰ ممالک قرض یا امداد دینے سے گریزاں ہیں سو آئی ایم ایف کی شرائط مانی جائیں گی اور مہنگائی کا ایک اور طوفان آئے گا۔ اس کے بعد جو قرض آئے گا، اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ سیاست دانوں کو اپنی لڑائی کے لیے ایک آدھ سال اور مل جائے گا۔ یہ چکر یوں ہی چلتا رہے گا۔ یہاں پر میں اصل حکمرانوں کی بات ہی نہیں کروں گا کیونکہ وہ ٰ نیوٹرل ٰ ہو چکے ہیں۔
لیکن علی بھائی ، سوال یہ ہے کہ اس پیچیدہ صورتحال کا حل کہاں سے آئے گا؟ ملک کے پاس لیڈرشپ ہے نہیں ، سیاسی منظر نامے پر بچکانہ ذہنیت کے حامل خباثتدان بازیگری میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہر شخص صرف آج کا سوچ رہا ہے ، کل کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے؟ کیا اب تنگ آکر عوام اٹھ کھڑے ہونگے ، طوائف الملوکی شروع ہوجائے گی ؟! کراچی میں روز افزوں جرائم کی صورتحال کی جو خبریں آرہی ہیں وہ تو بہت تشویشناک ہیں؟ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ، عدلیہ ، فوج ، بیوروکریٹس ، صحافی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز تمام فضولیات کو کچھ دیر کے لیے بھلا کر ایک گول میز کانفرنس کریں ۔ حقائق کا جائزہ لیں ، صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کریں اور ایک راستہ طے کریں ۔ عسکریہ اگر چاہے تو یہ کام کرسکتی ہے ۔ سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ، قومی سلامتی اور یکجہتی کا ایجنڈا منوانا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ۔ فضول سیاستدانوں اور دیگر پلیئرز کی چھانٹی بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ان کے لیے ۔ یہ لوگ اب کس بات کا انتظار کررہے ہیں؟ کیا آگ جب ان کے گھروں تک پہنچے گی تو جاگیں گے؟ کیا لوگ انہیں مارنا شروع کریں گے تو یہ کچھ کریں گے؟ نمک حرامی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
انھوں نے کہا، آپ نے مان لیا۔ :)
بالفرض ہو بھی چکے ہوں، تو حالات کی ذمہ داری میں اہم حصہ انھی کا ہے۔
اور میں نہیں سمجھتا کہ ان معاشی حالات کا محض حکومت کی تبدیلی سے کوئی تعلق ہے۔ حکومت نہ بھی بدلی ہوتی، تو حالات کچھ مختلف نہ ہونے تھے۔
تابش بھائی ، جب ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو ، عدالتوں میں انصاف نہ ہو ، رشوت اور سفارش کے بغیر کوئی کام نہ ہوتا ہو تو معیشت کہاں سے ترقی کرے گی۔ کون انویسٹمنٹ کرے گا اور کون ترقیاتی منصوبے بنائے گا؟ معاشی بدحالی تو پھر دن بدن بڑھتی ہی جائے گی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ مہنگائی اس وقت بوجوہ ایک عالمگیر مسئلہ بنتی جارہی ہے لیکن معیشت مستحکم اور ترقی پذیر ہو تو اس پر قابو پانا مشکل نہیں ۔ پڑوس میں بنگلہ دیش اور انڈیا بھی تو ہیں ، وہاں کی صورتحال تو ایسی نازک نظر نہیں آتی کہ جیسی ہمارے ہاں پیدا ہوچکی ہے؟ جو لوگ ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہونے دیتے وہی اس معاشی صورتحال کے بھی ذمہ دار ہیں ۔
 

علی وقار

محفلین
لیکن علی بھائی ، سوال یہ ہے کہ اس پیچیدہ صورتحال کا حل کہاں سے آئے گا؟ ملک کے پاس لیڈرشپ ہے نہیں ، سیاسی منظر نامے پر بچکانہ ذہنیت کے حامل خباثتدان بازیگری میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہر شخص صرف آج کا سوچ رہا ہے ، کل کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے؟ کیا اب تنگ آکر عوام اٹھ کھڑے ہونگے ، طوائف الملوکی شروع ہوجائے گی ؟! کراچی میں روز افزوں جرائم کی صورتحال کی جو خبریں آرہی ہیں وہ تو بہت تشویشناک ہیں؟ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ، عدلیہ ، فوج ، بیوروکریٹس ، صحافی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز تمام فضولیات کو کچھ دیر کے لیے بھلا کر ایک گول میز کانفرنس کریں ۔ حقائق کا جائزہ لیں ، صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کریں اور ایک راستہ طے کریں ۔ عسکریہ اگر چاہے تو یہ کام کرسکتی ہے ۔ سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ، قومی سلامتی اور یکجہتی کا ایجنڈا منوانا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ۔ فضول سیاستدانوں اور دیگر پلیئرز کی چھانٹی بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ان کے لیے ۔ یہ لوگ اب کس بات کا انتظار کررہے ہیں؟ کیا آگ جب ان کے گھروں تک پہنچے گی تو جاگیں گے؟ کیا لوگ انہیں مارنا شروع کریں گے تو یہ کچھ کریں گے؟ نمک حرامی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔
ظہیر بھائی، اگر خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کر گیا تو یہ تب ضرور مل بیٹھیں گے اور عسکریہ ہی ان کو بٹھائے گی کیونکہ انہیں بہرحال اس ملک کوبچائے رکھنے کی تدابیر کرنا ہوتی ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بقا کا راز بھی اس ملک کی سلامتی کے ساتھ جڑا ہے، گو کہ میں اُن کے سیاسی رول کا سخت ناقد ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ملک کی بےسمتی میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ اور اگر کہیں سے قرض کی مے مل گئی تو یہ سب مل کر نہیں بیٹھیں گے اور سیاست بازی کا کاروبار خوب چمکے گا۔ دوسری جانب، جرائم کی شرح ضرور بڑھ گئی ہے اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے مگر میں اس کے باجود نا اُمید نہیں ہوں۔ اور یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اس ملک میں انقلاب دستک نہیں دے رہا ہے، تاہم انارکی کے آثار ضرور موجود ہیں۔ بصد معذرت عرض ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں گے مگر ان کے لیے ہی اٹھ کھڑے ہوں گے جو کہ منظرنامے پر موجود سیاست دان ہیں۔ یہ آپسی لڑائی مزید شدت اختیار کرے گی اور اگر واقعی ملک ڈیفالٹ کر گیا تو بہ امر مجبوری قومی حکومت یا نگران سیٹ اپ قائم کر دیا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ نام نہاد نیوٹرلز ہر پارٹی سے ایسے افراد کی فہرست تلاش کر رہے ہیں جو کہ انتہائی برا وقت آنے پر نگران سیٹ اپ کا حصہ بنا دیے جائیں گے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی، اگر خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کر گیا تو یہ تب ضرور مل بیٹھیں گے اور عسکریہ ہی ان کو بٹھائے گی کیونکہ انہیں بہرحال اس ملک کوبچائے رکھنے کی تدابیر کرنا ہوتی ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بقا کا راز بھی اس ملک کی سلامتی کے ساتھ جڑا ہے، گو کہ میں اُن کے سیاسی رول کا سخت ناقد ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ملک کی بےسمتی میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ اور اگر کہیں سے قرض کی مے مل گئی تو یہ سب مل کر نہیں بیٹھیں گے اور سیاست بازی کا کاروبار خوب چمکے گا۔ دوسری جانب، جرائم کی شرح ضرور بڑھ گئی ہے اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے مگر میں اس کے باجود نا اُمید نہیں ہوں۔ اور یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اس ملک میں انقلاب دستک نہیں دے رہا ہے، تاہم انارکی کے آثار ضرور موجود ہیں۔ بصد معذرت عرض ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں گے مگر ان کے لیے ہی اٹھ کھڑے ہوں گے جو کہ منظرنامے پر موجود سیاست دان ہیں۔ یہ آپسی لڑائی مزید شدت اختیار کرے گی اور اگر واقعی ملک ڈیفالٹ کر گیا تو بہ امر مجبوری قومی حکومت یا نگران سیٹ اپ قائم کر دیا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ نام نہاد نیوٹرلز ہر پارٹی سے ایسے افراد کی فہرست تلاش کر رہے ہیں جو کہ انتہائی برا وقت آنے پر نگران سیٹ اپ کا حصہ بنا دیے جائیں گے۔
نا امید تو میں بھی کبھی نہیں ہوتا ہوں ، علی وقار بھائی ! اور ویسے بھی امید برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ ہے بھی کیا؟ لیکن امید کی کوئی کرن تو کہیں سے نظر آئے ۔ کوئی توحوصلہ افزا خبر ہو۔
علی بھائی ، یہ کیسی عجیب بات ہے ۔ ہمارے عوام پاکستان کی خاطر اپنی جان دینے کو تیار ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے "خواص" ہیں کہ اپنی جان کی خاطر پاکستان دینے کو تیار ہیں ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لیکن امید کی کوئی کرن تو کہیں سے نظر آئے ۔ کوئی توحوصلہ افزا خبر ہو۔
حوصلہ افزا خبریں ہیں ناں ظہیر صاحب: غریب کو روٹی تو مل ہی رہی ہے کچھ کو مانگ کر، کچھ چھین کر کھا رہے ہیں۔ روٹی کے ساتھ چھوٹا بڑا گوشت کھانے کا سوال تو خیر شاید بقر عید ہی پر پیدا ہوتا ہے لیکن چکن تو مل ہی رہا تھا، اب وہ بھی چھ سو روپے کلو ہو گیا تو کیاہوا غریب دال تو کھا ہی سکتا ہے، سنا ہے ملک میں دالوں کا وافر ذخیرہ پورے پندرہ دن کے لیے ابھی تک موجود ہے۔ اس کے بعد پیاز کے ساتھ روٹی کھائی جا سکتی ہے لیکن پیاز بھی تو سونے کے بھاؤ کو چھو رہا ہے سو ملک کا نمک تو ہم حلال کر ہی سکتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عمدہ غزل ہے ظہیر صاحب قبلہ، سبھی اشعار حسبِ حال اور لاجواب ہیں۔ یہ شعر بہت ہی پسند آیا:

مٹاکر تو دکھائیں پہلے کالک اپنے چہروں کی
بنام ِ صبح روشن تر یہ ظلمت بیچنے والے

واہ واہ واہ۔
 

علی وقار

محفلین
نا امید تو میں بھی کبھی نہیں ہوتا ہوں ، علی وقار بھائی ! اور ویسے بھی امید برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ ہے بھی کیا؟ لیکن امید کی کوئی کرن تو کہیں سے نظر آئے ۔ کوئی توحوصلہ افزا خبر ہو۔
علی بھائی ، یہ کیسی عجیب بات ہے ۔ ہمارے عوام پاکستان کی خاطر اپنی جان دینے کو تیار ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے "خواص" ہیں کہ اپنی جان کی خاطر پاکستان دینے کو تیار ہیں ۔
یہاں جو زیادہ تر وزرائے اعظم بنے، وہ کب یہ چاہتے ہوں گے کہ انہیں ووٹ نہ ملیں، عوامی حمایت نہ ملے، یا وہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس دیں۔ اس ملک کو لُوٹ کر جو کھا رہے ہیں، ان میں اکثر و بیشتر سدا بہار وزیر و مشیر ہیں، جن کے کھابے لگے ہوئے ہیں، یا وہ ایلیٹ طبقہ جو ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتا، خصوصاً بڑے بزنس مین اور پراپرٹی آئیکون، سب سے بڑھ کو تو نام نہاد نیوٹرلز۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں میں اپنے من پسند افراد کو شامل کرتی آئی ہے، یہ اشرافیہ کی وہ کلاس ہے جو ہرحکومت میں اپناحصہ وصول پاتی ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے کوئی وزیراعظم بہتر کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے گا چاہے وہ کیسا بھی اہل کیوں نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ وزرائے اعظم کا کوئی قصور نہ ہو، یہ بھی اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے اس ملک میں بھی اقتدار لینے پر تُل جاتے ہیں جس کے متعلق انہیں خوب معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا انجام بھی کچھ اچھا شاید نہ ہو گا مگر میری نظر میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ مشکل فیصلے حکومت سے کرواتی ہے اور اگر حکومت ان کے کہے میں نہ ہو تو پھر وہ اپوزیشن کو اقتدار میں لانے کی ٰسازشوں ٰ میں مصروف ہو جاتی ہے یعنی کہ ان کے لیے آپشن ہمیشہ اوپن رہتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہیں سیاسی جماعتوں کی سپورٹ مل گئی ہے، اور اگر یہ سپورٹ نہ کرتے تو ان کے خلاف بھی کیسز کھل جاتے۔ اس لیے، یہ چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود اقتدار میں آ گئے۔ میرا تو اب بھی یہ خیال ہے کہ موجودہ اپوزیشن کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی گیم بن سکتی ہے،اگر آج موجودہ حکومت مشکل فیصلے (عوام پر مہنگائی بم گرانا مگر ایلیٹ کلاس سے صرفِ نظر کیے رکھنا) نہ کرے گی۔ یہ چکر یوں ہی چلتا رہے گا۔ جب تک عسکریہ اپنا قبلہ درست نہیں کرلیتی ہے تب تک اس ملک کا مستقبل زیادہ روشن نہیں۔ اگر انہیں کسی مرحلے پر اپنی غلطی کا واقعی احساس ہو گیا تو شاید بات بن بھی جائے۔ ملکی منظرنامے پر موجود سیاست دانوں سے معاملہ فہمی کی توقع عبث ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کہتے ہیں کہ لیڈر آنے والی نسل کا سوچتا ہے اور سیاستدان آنے والے انتخابات کا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر سیاست دان آنے والے انتخابات کا سوچتاہے۔ پی ڈی ایم کے کرتا دھرتا تو خیر اتنی مرتبہ آزمائے جا چکے ہیں کہ کوئی انتہا نہیں۔ تحریکِ انصاف میں بھی دنیا جہان کے آزمائے ہوئے کارتوسوں کو ایک بار پھر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور اس پر خان صاحب جیسا اڑیل انسان۔ قاسم علی شاہ (خیر میں اس آدمی سے نہ ہی متاثر ہوں اور نہ ہی کبھی اس کے لیکچر سنے) نے درست کہا کہ آخرت کے معاملات (یعنی کہ کرپٹ سیاست دانوں کا مواخذہ) دنیا میں حل مت کریں۔ (اگرچہ یہ ایک بھونڈی سی فرمائش لگتی ہے۔ لیکن حالات کی نزاکتوں کا تقاضا یہی ہے) پھر مختلف احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں جب ان کا کوئی امیر کبیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔ صحیح بخاری۔
ان سے عرض ہے کہ بھائیو یہ حدیث شریف سر آنکھوں پر۔ لیکن ہمیں صرف موقع پرستی ہی کیوں سوجھتی ہے۔ کیا قرآن نے سود کو حرام قرار نہیں دیا(سود ایسا گناہ ہے جس کے کرنے والے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اعلانِ جنگ ہے)۔ کیا خواتین کو حکم نہیں دیا کہ زور سے پاؤں زمین پر مار کر نہ چلیں کہ کہیں ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو۔ کیا قتلِ ناحق کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ نہیں کہا گیا۔ اور ان کے علاوہ بے شمار معاملات میں دین نے ایک واضح حکم دے رکھا ہے جسے روز وطنِ عزیز میں پاؤں تلے روندا جاتا ہے۔
کیا عشاقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دیس میں ان تمام اصولوں کو ایک ضرب سے نافذ کیا جا سکتا ہے جنہیں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم پر لازمی قرار دیا؟ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے بٹے ہوئے جتھوں کو ایک قوم بنانے کے لیے تئیس برس لگے۔
اگر ایک جھٹکے میں کوئی ایسا کر سکتا ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو ایک "کن" سے کر دے گا لیکن ہم انسانوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں وقت کے تقاضاؤں کو دیکھنا پڑے گا۔ آہستہ آہستہ اپنے ہدف کو پہنچنا پڑے گا۔ شرط صرف اخلاصِ نیت اور مسلسل چلتے رہنا ہے۔ صبر اور امید کا دامن پکڑے رہنا ہے۔ اور ان راستوں پر چلنا پڑے گا مصلحت (مصلحت کے معنی آج کل ایسے گڈ مڈ کر دیئے گئے کہ مصلحت ابن الوقتی کا مترادف بن کر رہ گئی) اور حکمت کے ساتھ جن راستوں پر خود جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ چلے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حوصلہ افزا خبریں ہیں ناں ظہیر صاحب: غریب کو روٹی تو مل ہی رہی ہے کچھ کو مانگ کر، کچھ چھین کر کھا رہے ہیں۔ روٹی کے ساتھ چھوٹا بڑا گوشت کھانے کا سوال تو خیر شاید بقر عید ہی پر پیدا ہوتا ہے لیکن چکن تو مل ہی رہا تھا، اب وہ بھی چھ سو روپے کلو ہو گیا تو کیاہوا غریب دال تو کھا ہی سکتا ہے، سنا ہے ملک میں دالوں کا وافر ذخیرہ پورے پندرہ دن کے لیے ابھی تک موجود ہے۔ اس کے بعد پیاز کے ساتھ روٹی کھائی جا سکتی ہے لیکن پیاز بھی تو سونے کے بھاؤ کو چھو رہا ہے سو ملک کا نمک تو ہم حلال کر ہی سکتے ہیں۔
😟😟😟
بالکل ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے ۔ ہر طرف سے ایسی ہی خبریں مل رہی ہیں ۔ اور ہر شخص کا یہی کہنا ہے کہ مہنگائی کی یہ صورتحال بدتر ہوتی جائے گی۔ اس میں بہتری کی کوئی امید کسی کونظر نہیں آتی۔ سب سے بڑی تشویش کی بات یہی ہے کہ کسی کو کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اچھے بھلے لوگوں کو بے ایمانی اور جرائم کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ اللّٰہ رحم فرمائے ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا نازک ترین موڑ ہے ۔ اگر اب بھی کوئی درست قدم نہیں اٹھایا گیا تو پھر خاکم بدہن معاشرے میں بہت ٹوٹ پھوٹ ہونے کا خدشہ ہے۔ خدشات کی شدت اس بار امید کی حدت سے بہت زیادہ ہے ۔ اللّٰہ کریم اپنی پناہ میں رکھے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہاں جو زیادہ تر وزرائے اعظم بنے، وہ کب یہ چاہتے ہوں گے کہ انہیں ووٹ نہ ملیں، عوامی حمایت نہ ملے، یا وہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس دیں۔ اس ملک کو لُوٹ کر جو کھا رہے ہیں، ان میں اکثر و بیشتر سدا بہار وزیر و مشیر ہیں، جن کے کھابے لگے ہوئے ہیں، یا وہ ایلیٹ طبقہ جو ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتا، خصوصاً بڑے بزنس مین اور پراپرٹی آئیکون، سب سے بڑھ کو تو نام نہاد نیوٹرلز۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں میں اپنے من پسند افراد کو شامل کرتی آئی ہے، یہ اشرافیہ کی وہ کلاس ہے جو ہرحکومت میں اپناحصہ وصول پاتی ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے کوئی وزیراعظم بہتر کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے گا چاہے وہ کیسا بھی اہل کیوں نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ وزرائے اعظم کا کوئی قصور نہ ہو، یہ بھی اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے اس ملک میں بھی اقتدار لینے پر تُل جاتے ہیں جس کے متعلق انہیں خوب معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا انجام بھی کچھ اچھا شاید نہ ہو گا مگر میری نظر میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ مشکل فیصلے حکومت سے کرواتی ہے اور اگر حکومت ان کے کہے میں نہ ہو تو پھر وہ اپوزیشن کو اقتدار میں لانے کی ٰسازشوں ٰ میں مصروف ہو جاتی ہے یعنی کہ ان کے لیے آپشن ہمیشہ اوپن رہتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہیں سیاسی جماعتوں کی سپورٹ مل گئی ہے، اور اگر یہ سپورٹ نہ کرتے تو ان کے خلاف بھی کیسز کھل جاتے۔ اس لیے، یہ چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود اقتدار میں آ گئے۔ میرا تو اب بھی یہ خیال ہے کہ موجودہ اپوزیشن کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی گیم بن سکتی ہے،اگر آج موجودہ حکومت مشکل فیصلے (عوام پر مہنگائی بم گرانا مگر ایلیٹ کلاس سے صرفِ نظر کیے رکھنا) نہ کرے گی۔ یہ چکر یوں ہی چلتا رہے گا۔ جب تک عسکریہ اپنا قبلہ درست نہیں کرلیتی ہے تب تک اس ملک کا مستقبل زیادہ روشن نہیں۔ اگر انہیں کسی مرحلے پر اپنی غلطی کا واقعی احساس ہو گیا تو شاید بات بن بھی جائے۔ ملکی منظرنامے پر موجود سیاست دانوں سے معاملہ فہمی کی توقع عبث ہے۔
میرا خیال ہے کہ بات اب بہت آگے تک بڑھ چکی ہے۔ الزام تراشی اور بلیم گیم تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ۔ ہر برے عمل اور غلط قدم کی کوئی نہ کوئی توجیہہ بھی پیش کی جاسکتی ہے اور کی جاتی رہی ہے ۔ لیکن کیا یہ وقت ان لاحاصل باتوں کا ہے ؟! اس وقت تو فوری طور پر ترجیحات کو درست کرنے اور damage controlکے موڈ میں آنے کی ضرورت ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت قومی سالمیت کو خطرہ ہے۔ خاکم بدہن پاکستان کی شہ رگ پر حملہ ہورہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں عدم مساوات ، کرپشن اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کی ذمہ دار کلی طور پر عسکریہ رہی ہے لیکن بدقسمتی یا خوش قسمتی سے اس وقت ملک کا یہی واحد ادارہ ہے جو اس قدر منظم ہے اور اس کے پاس اس قدر افرادی قوت اور صلاحیت ہے کہ یہ چاہیں تو ملک میں سے کرپشن اور جرائم کو ختم کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اور کوئی فوری حل نظر نہیں آتا ۔ پورے ملک کو کھاکر اور تباہ کرکے یہ لوگ اس وقت منظر نامے سے غائب ہونا چاہتے ہیں اور نیوٹرل ہونے کا دعویٰ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا نہیں کرنے دینا چاہیے۔ جو گند اتنے عرصے تک انہوں نے ملک میں پھیلائی ہے وہ انہی کو صاف کرنا ہے ۔ اگر یہ لوگ واقعی نیوٹرل ہیں تو پھر انہیں سیاسی منظر نامے سے کرپٹ لوگوں کی صفائی کرنا چاہیئے ، مافیاؤں کا کاتمہ کرنا چاہیئے۔ یہ کام نہ تو پولس کرسکتی ہے ، نہ عدلیہ کرسکتی ہے اور عوام تو بیچارے ہیں ہی بے بس۔ جو گند حاجی صاحب پھیلا گئے ہیں اسے صرف حافظ صاحب ہی صاف کرسکتے ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کہتے ہیں کہ لیڈر آنے والی نسل کا سوچتا ہے اور سیاستدان آنے والے انتخابات کا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر سیاست دان آنے والے انتخابات کا سوچتاہے۔ پی ڈی ایم کے کرتا دھرتا تو خیر اتنی مرتبہ آزمائے جا چکے ہیں کہ کوئی انتہا نہیں۔ تحریکِ انصاف میں بھی دنیا جہان کے آزمائے ہوئے کارتوسوں کو ایک بار پھر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور اس پر خان صاحب جیسا اڑیل انسان۔ قاسم علی شاہ (خیر میں اس آدمی سے نہ ہی متاثر ہوں اور نہ ہی کبھی اس کے لیکچر سنے) نے درست کہا کہ آخرت کے معاملات (یعنی کہ کرپٹ سیاست دانوں کا مواخذہ) دنیا میں حل مت کریں۔ (اگرچہ یہ ایک بھونڈی سی فرمائش لگتی ہے۔ لیکن حالات کی نزاکتوں کا تقاضا یہی ہے) پھر مختلف احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں جب ان کا کوئی امیر کبیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔ صحیح بخاری۔
ان سے عرض ہے کہ بھائیو یہ حدیث شریف سر آنکھوں پر۔ لیکن ہمیں صرف موقع پرستی ہی کیوں سوجھتی ہے۔ کیا قرآن نے سود کو حرام قرار نہیں دیا(سود ایسا گناہ ہے جس کے کرنے والے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اعلانِ جنگ ہے)۔ کیا خواتین کو حکم نہیں دیا کہ زور سے پاؤں زمین پر مار کر نہ چلیں کہ کہیں ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو۔ کیا قتلِ ناحق کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ نہیں کہا گیا۔ اور ان کے علاوہ بے شمار معاملات میں دین نے ایک واضح حکم دے رکھا ہے جسے روز وطنِ عزیز میں پاؤں تلے روندا جاتا ہے۔
کیا عشاقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دیس میں ان تمام اصولوں کو ایک ضرب سے نافذ کیا جا سکتا ہے جنہیں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم پر لازمی قرار دیا؟ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے بٹے ہوئے جتھوں کو ایک قوم بنانے کے لیے تئیس برس لگے۔
اگر ایک جھٹکے میں کوئی ایسا کر سکتا ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو ایک "کن" سے کر دے گا لیکن ہم انسانوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں وقت کے تقاضاؤں کو دیکھنا پڑے گا۔ آہستہ آہستہ اپنے ہدف کو پہنچنا پڑے گا۔ شرط صرف اخلاصِ نیت اور مسلسل چلتے رہنا ہے۔ صبر اور امید کا دامن پکڑے رہنا ہے۔ اور ان راستوں پر چلنا پڑے گا مصلحت (مصلحت کے معنی آج کل ایسے گڈ مڈ کر دیئے گئے کہ مصلحت ابن الوقتی کا مترادف بن کر رہ گئی) اور حکمت کے ساتھ جن راستوں پر خود جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ چلے۔
کیا بات کررہے ہیں آپ قبلہ ۔ بھوکے ننگے آدمی کو نماز روزے حج زکوٰۃ سے کیا واسطہ؟!
جس آدمی کو اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لالے پڑے ہوں اس کی ترجیحات میں معاشرے میں عریانی اور فحاشی اور سود اور منافع کا فرق نہیں ہوتا ۔ اسی لیے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اکثر اپنی دعاؤں میں فقر و فاقہ سے پناہ مانگتے تھے ۔ اسلام کی بنیادی اور اہم ترین تعلیمات میں سے بھوکوں کو کھانا کھلانا، محروموں کی مدد کرنا ، مجبوروں کی داد رسی ، مساوات اور انصاف قائم کرنا ہے ۔ معاشی مساوات اور معاشرتی ہمواری کے بغیر "اسلامی نظام " لانے کی بات بھی مت کیجیے ۔ ممکن ہی نہیں ہے ۔ رسول اللّٰہ کا طریقہ یہ نہیں تھا۔ وہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس طرح اسلامی نظام نہیں لائے تھے۔ اسلام کسی پر زبردستی نافذ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ من چاہے کا سودا ہوتا ہے ۔ اگر لوگ اسلام پر چلنے پر تیار نہیں ہیں تو نہ سہی۔ ان پر کوئی نظام اوپر سے زبردستی نہیں ٹھونسا جاسکتا ۔ اسلام تو roots سے شروع ہوتا ہے ۔ پہلے لوگ مسلمان ہوتے تب اسلامی نظام آتا ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اسلام کا دعویٰ کرنے والی اکثر سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما خود اسلام سے کوسوں دور ہیں ۔ وہ کیا کسی اور کو تلقین اور تبلیغ کریں گے۔
 

علی وقار

محفلین
میرا خیال ہے کہ بات اب بہت آگے تک بڑھ چکی ہے۔ الزام تراشی اور بلیم گیم تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ۔ ہر برے عمل اور غلط قدم کی کوئی نہ کوئی توجیہہ بھی پیش کی جاسکتی ہے اور کی جاتی رہی ہے ۔ لیکن کیا یہ وقت ان لاحاصل باتوں کا ہے ؟! اس وقت تو فوری طور پر ترجیحات کو درست کرنے اور damage controlکے موڈ میں آنے کی ضرورت ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت قومی سالمیت کو خطرہ ہے۔ خاکم بدہن پاکستان کی شہ رگ پر حملہ ہورہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں عدم مساوات ، کرپشن اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کی ذمہ دار کلی طور پر عسکریہ رہی ہے لیکن بدقسمتی یا خوش قسمتی سے اس وقت ملک کا یہی واحد ادارہ ہے جو اس قدر منظم ہے اور اس کے پاس اس قدر افرادی قوت اور صلاحیت ہے کہ یہ چاہیں تو ملک میں سے کرپشن اور جرائم کو ختم کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اور کوئی فوری حل نظر نہیں آتا ۔ پورے ملک کو کھاکر اور تباہ کرکے یہ لوگ اس وقت منظر نامے سے غائب ہونا چاہتے ہیں اور نیوٹرل ہونے کا دعویٰ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا نہیں کرنے دینا چاہیے۔ جو گند اتنے عرصے تک انہوں نے ملک میں پھیلائی ہے وہ انہی کو صاف کرنا ہے ۔ اگر یہ لوگ واقعی نیوٹرل ہیں تو پھر انہیں سیاسی منظر نامے سے کرپٹ لوگوں کی صفائی کرنا چاہیئے ، مافیاؤں کا کاتمہ کرنا چاہیئے۔ یہ کام نہ تو پولس کرسکتی ہے ، نہ عدلیہ کرسکتی ہے اور عوام تو بیچارے ہیں ہی بے بس۔ جو گند حاجی صاحب پھیلا گئے ہیں اسے صرف حافظ صاحب ہی صاف کرسکتے ہیں ۔
ظہیر بھائی، میرے خیال میں حافظ صاحب جب اس تنازع میں براہ راست الجھیں گے تو وہ بھی حاجی صاحب بن جائیں گے۔ ہنگامی صورت حال تب ہو گی جب پانی سر سے اونچا ہو جائے گا، اور ابھی بھی تمام تر مشکلات و مسائل کے باوصف وہ وقت نہیں آیا ہے، گو کہ لگتا ہے کہ یہ وقت زیادہ دوری پر نہیں۔ بصد معذرت اختلاف کی جسارت کروں گا کہ نیوٹرلز کو نیوٹرل ہی رہنا چاہیے کیونکہ ہم ان کی طرف سے کوئی اور تجربہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ سیاست دان بونے ہی سہی، ان کو ہی سیاسی منظرنامے پر رہنا چاہیے۔ خیر کی راہ نکلے گی جیسا کہ ہمیں اس کے آثار کراچی میں نظر آئے ہیں۔ جماعت اسلامی کو نظریاتی اختلاف رکھنے والوں نے بھی ووٹ دیے ہیں۔ میں بھی ان سے اختلاف رکھتا ہوں مگر ووٹ اسی کو ملنا چاہیے جو کہ اس کا حق دار ہے۔ ہم ہجوم سے قوم بن سکتے ہیں، اور بن جائیں گے، مگر نیوٹرلز کو اب فرنٹ فٹ پر نہیں آنا چاہیے الا یہ کہ ہم واقعی ڈیفالٹ کر جائیں۔ تب تو شاید یہ اُن کی آئینی ذمہ داری بن جائے۔ تب کی تب دیکھی جائے گی سر۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی، میرے خیال میں حافظ صاحب جب اس تنازع میں براہ راست الجھیں گے تو وہ بھی حاجی صاحب بن جائیں گے۔ ہنگامی صورت حال تب ہو گی جب پانی سر سے اونچا ہو جائے گا، اور ابھی بھی تمام تر مشکلات و مسائل کے باوصف وہ وقت نہیں آیا ہے، گو کہ لگتا ہے کہ یہ وقت زیادہ دوری پر نہیں۔ بصد معذرت اختلاف کی جسارت کروں گا کہ نیوٹرلز کو نیوٹرل ہی رہنا چاہیے کیونکہ ہم ان کی طرف سے کوئی اور تجربہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ سیاست دان بونے ہی سہی، ان کو ہی سیاسی منظرنامے پر رہنا چاہیے۔ خیر کی راہ نکلے گی جیسا کہ ہمیں اس کے آثار کراچی میں نظر آئے ہیں۔ جماعت اسلامی کو نظریاتی اختلاف رکھنے والوں نے بھی ووٹ دیے ہیں۔ میں بھی ان سے اختلاف رکھتا ہوں مگر ووٹ اسی کو ملنا چاہیے جو کہ اس کا حق دار ہے۔ ہم ہجوم سے قوم بن سکتے ہیں، اور بن جائیں گے، مگر نیوٹرلز کو اب فرنٹ فٹ پر نہیں آنا چاہیے الا یہ کہ ہم واقعی ڈیفالٹ کر جائیں۔ تب تو شاید یہ اُن کی آئینی ذمہ داری بن جائے۔ تب کی تب دیکھی جائے گی سر۔
میں کب کہہ رہا ہوں کہ وہ فرنٹ پر آئیں ۔ صفائی کا سارا کام پسِ پردہ ہوسکتا ہے ۔ مخالفین کو داخلِ زنداں کرنا یا دوسری دنیا میں بھیجنا جب ان لوگوں کے لیے آسان کام ہے تو یہی حربے جھاڑجھنکاڑ کو صاف کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں اور یہ عین ثواب کا کام ہوگا۔ شاید اس سے ان کے پچھلے گناہ دھل جائیں ۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
میں کب کہہ رہا ہوں کہ وہ فرنٹ پر آئیں ۔ سفائی کا سارا کام پسِ پردہ ہوسکتا ہے ۔ مخالفین کو داخلِ زنداں کرنا یا دوسری دنیا میں بھیجنا جب ان لوگوں کے لیے آسان کام ہے تو یہی حربے جھاڑجھنکاڑ کو ساف کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں اور یہ عین ثواب کا کام ہوگا۔ شاید اس سے ان کے پچھلے گناہ دھل جائیں ۔
سر اس کے لیے انہیں جو کچھ کرنا ہو گا، وہ ان سے نہ ہو پائے گا یعنی کہ پہلے اپنا گھر صاف کرنا ہو گا۔ :) وہ دیگر کا قبلہ تو درست کر سکتے ہیں مگر اپنی اصلاح سے بوجوہ قاصر ہیں۔ اگر وہ واقعی کچھ اچھا کرنا چاہیں تو مجھے حیرت ہو گی۔ اپنی اصلاح کرنا چاہیں تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ آپ کے منہ میں گھی شکر۔
 
Top