شہباز پولیس مقابلہ کیس میں بری
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مبینہ جعلی پولیس مقابلہ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا نام خارج کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا ہے۔ عام انتخابات میں جن مقدمات کی بنیاد پر شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے تھے ان میں یہ مرکزی مقدمہ تھا۔
عدالت نے یہ حکم مدعی سعید الدین کے اس بیان کی روشنی میں دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کو شہباز شریف کی بریت پر کوئی اعت۔زاض نہیں ہے اور شہباز شریف کی حد تک یہ مقدمہ خارج کردیا جائے۔
شہباز شریف کے وزارتِ اعٰلی کے دور میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں پانچ نوجوانوں کی ہلاکت کے الزام میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمہ زیر سماعت تھا۔
مقدمہ کی سماعت کے سلسلہ میں شہباز شریف بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
شہباز شریف نے اپنے خلاف لاہور کےعلاقہ سبزہ زار پولیس سٹیشن میں درج ہونے والے اس مقدمہ سے بریت کے لیے بھی ایک درخواست دائر کی ہوئی تھی جس میں ان کے وکلاء خواجہ حارث اور امتیاز کیفی نے یہ موقف اختیار کیا کہ شہباز شریف کو دانستہ طور پر اس مقدمہ میں ملوث کیا گیا ہے اور اس مقدمہ میں ملزموں کی فہرست میں ان کا نام تیرہویں نمبر پر ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کو سیاسی عناد کی بنیاد پر مقدمہ میں ملوث کیا گیا تھا اور مذکورہ مقدمہ وقوعہ کے تین برس بعد درج ہوا، جس میں شہباز شریف کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت نہیں ہے۔ اس بنیاد پر درخواست میں شہباز شریف کو بری کرنے کی استدعا کی گئی۔
سبزہ زار کیس
شہباز شریف پر یہ مقدمہ سنہ انیس سو اٹھانوے میں ان کی وزارتِ اعٰلی کے دور میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں پانچ نوجوانوں کی ہلاکت کے قریباً تین برس بعد سنہ دو ہزار ایک میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر درج ہوا تھا اور اس کے مدعی ہلاک شدگان میں سے ایک کے والد سعید الدین ہیں
دوسری جانب سنیچر کے روز بریت کی درخواست پر سماعت سے پہلےمدعی سعید الدین کی جانب سے ان کے وکیل آفتاب باجوہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کے مؤکل شہباز شریف کے اس مؤقف سے مطمن ہیں کہ ان کا اس مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مدعی نے عدالت میں بیان دیا کہ ان کو شہباز شریف کی بریت پر کوئی اعتزاض نہیں ہے۔
شہباز شریف پر یہ مقدمہ سنہ انیس سو اٹھانوے میں ان کی وزارتِ اعٰلی کے دور میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں پانچ نوجوانوں کی ہلاکت کے قریباً تین برس بعد سنہ دو ہزار ایک میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر درج ہوا تھا اور اس کے مدعی ہلاک شدگان میں سے ایک کے والد سعید الدین ہیں۔
عدالت نے اس مقدمہ میں شہباز شریف کی ضمانت منظور کر رکھی تھی اور ان پر ابھی فردجرم عائد ہونا تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران سنہ دو ہزار تین میں عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے پر شہباز شریف کو مفرور قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیےگئے تھے۔تاہم شہباز شریف کے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکا تھا۔
پچیس نومبر کو پاکستان آمد کے بعد مدعی سعید الدین نے عدالت میں دوبارہ درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اب جبکہ شہباز شریف پاکستان میں ہیں تو پولیس انہیں کیوں گرفتار نہیں کر رہی۔
اس پر عدالت نے پولیس حکام کو نوٹس جاری کیے تھے۔وطن واپسی کے بعد شہباز شریف نے عدالت کے سامنے پیش ہو کر خود کو عدالت کے حوالے کر دیا تھا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/elections08/story/2008/03/printable/080301_shahbaz_free_sq.shtml