یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

زرقا مفتی

محفلین
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی

IMF board approves $6.7 billion loan for Pakistan
63.jpg


کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والے آئی ایم ایف سے بھیک کیوں مانگتے ہیں
 

زرقا مفتی

محفلین
نیلے رنگ میں لکھے جملے کے علاوہ آپ کو کس بات پر اعتراض ہے؟
اس کے ساتھ اخبار کا نام اور تاریخ بھی ہونی چاہئے پھر ہی اس خبر کا تجزیہ ہوسکتا ہے۔ :)

نیلے رنگ میں لئیق احمد صاحب کے لئے نمایاں کیا
آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ میں نواز شریف کو بھارت نواز سمجھتی ہوں
 

x boy

محفلین
ویسے میرا ارادہ ادھر کوئی تصویر لگانے کا نہیں تھا۔ لیکن لئیق احمد بھائی نے عمران کی تصویر مشرف کے ساتھ لگا دی۔ جو کہ حالیہ ہی بات ہے اور اتنی پرانی نہیں۔ تو میں نے سوچا کچھ پرانے جنرل کی یادیں بھی تازہ کروا دوں۔ جن کو شاید احباب نے طاق میں رکھ دیا ہے۔ :)

30.jpg


a5-d3otciaa9q7o.jpg
مرد مومن مرد حق
ضیاء الحق ضیاء الحق
زبردست ماضی ہے ضیاء الحق کے زمانے میں فلسطینیوں کا قتل عام اور کشمیریوں کا قتل کتنا ہوا تھا کوئی بتا سکتا ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کا کہنا ہے کہ سانحہ لاہور کی عدالتی تحقیقات میں اگر وہ بھی ذمہ دار ثابت ہوئے تو استعفیٰ دے دیں گے۔
http://www.express.pk/story/263514/

اب ہم چین سے استعفی بردار کوریئر کے منتظر ہیں
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
مرد مومن مرد حق
ضیاء الحق ضیاء الحق
زبردست ماضی ہے ضیاء الحق کے زمانے میں فلسطینیوں کا قتل عام اور کشمیریوں کا قتل کتنا ہوا تھا کوئی بتا سکتا ہے
ضیا الحق نے کتنے فلسطینی مروائے کبھی اس پر بھی تحقیق کیجئے گا۔
 

زرقا مفتی

محفلین
چیف جسٹس نے وحیدہ شاہ تھپڑ کا ازخود نوٹس لے لیا
http://urdutimes.com/content/16620

وحیدہ شاہ دو سال کے لیے نااہل

پاکستان کے الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس تریپن سے پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون امیدوار وحیدہ شاہ کو خواتین پولنگ سٹاف پر ہاتھ اٹھانے کے واقعہ پر فیصلہ سناتے ہوئے دو سال کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/03/120307_waheeda_slap_tf.shtml
 

زرقا مفتی

محفلین
February 3, 2008
Nawaz Sharif warns of anarchy if polls are rigged
gulfnews.com
Former prime minister Nawaz Sharif said his party will contest elections even though he does not trust the Election Commission
 

زرقا مفتی

محفلین
پنجاب پولیس
شہباز شریف کے شہر میں آدم خور
نجم ولی خان 13 دسمبر 2012
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے شہر میںنئی نئی سڑکوں، اوورہیڈ برجوں اور انڈر پاسز کی بہار ضرور آئی ہو گی، یہاں وزیروں اور بڑے بڑے بیوروکریٹوں کی کرپشن کے سامنے بند بھی ضرورباندھا گیا ہو گا، صحت کے شعبے میں پچھلے پینسٹھ سالوں کے بگڑے ہوئے کام سنوارے جا رہے ہوں گے، کھیل اور تعلیم کے میدان میں انقلابی اقدامات کی بنیاد ضرور رکھی جا رہی ہو گی مگر یہ امر بھی حقیقت ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے صوبے میں پولیس کو نتھ نہیں ڈال سکے، تھانہ کلچر میں دس فیصد بہتری بھی نہیں لا سکے۔ پولیس کا وہ ادارہ جسے آئینی طور پر شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے بنایا جاتا ہے وہی عوام کے جان و مال کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ایک عام آدمی گناہ کرے تو بری بات لیکن اگرعالم گناہ گار ہو تو وہ بدتر ہے، عام آدمی اگر جاہل ہو تو کوئی بات نہیں لیکن اگر استاد جاہل ہو تو وہ بدتر ہے ، اسی طرح عام آدمی کسی کی جان لے لے توبری بات ہے لیکن وہ پولیس جسے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری دی گئی ہے، جان لے تو بدترین ہے۔
پولیس نے لاہور میں پھروہی ڈرامہ ترتیب دیا جس کا سکرپٹ انہیں ازبر ہو چکا، جس کی ریہرسل بار بار کر چکے۔ چکوال کے محسن نامی نوجوان کو غالب مارکیٹ پولیس نے رات کے اندھیرے میں گولی ماردی، ایس پی ماڈل ٹاو¿ن ملک اویس نے میڈیا کو رٹی رٹائی پوری کہانی سنا دی کہ یہ دوڈکیٹ تھے، جنہوں نے خالد کلینک کے قریب پولیس سے مقابلہ کیا، اس نوجوان کی پسلیوں میں دو گولیاں لگیں جس کے بعد اس سے خالد کلینک سے زبردستی علاج کروانے کی کوشش کی مگر بعد میں فرار ہونے کی کوشش میں پولیس نے اسے دھر لیا، اس نے پولیس کے سب انسپکٹر پر بھی گولی چلائی مگروہ اسی طرح محفوظ رہا جیسے جعلی مقابلوں میں ہمیشہ پولیس والوں کو خراش تک نہیں آتی ۔ یہ مقابلہ بھی اسی طرح رات میں ہوا جیسے اکثر جعلی پولیس مقابلے سورج ڈوبنے کے بعد ہی ہوتے ہیں جیسے پولیس والے سورج سے شرمندہ ہوں۔ مگر اس اندھیرے میں بھی وہاں لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرے نے پولیس والوں کی پوری کارستانی اپنے اندر محفوظ کر لی، اس ویڈیو کے سامنے آنے پر علم ہوا کہ نوجوان محسن کو پولیس نے دوڑ لگوائی کہ بھاگ جاو¿، وہ بھاگا اور قریب ہی جھاڑی میں چھپ گیا، پولیس کا ہر طرف سے گھیرا تھا،وہاں ایک کار آئی تو اسے واپس بھیج دیا گیا اور ایک موٹرسائیکل کی روشنی میں محسن کو ٹریس کیا گیا اور اسے گولیاں مار دی گئیں۔ قریب ہی سادہ کپڑوں میں پولیس اہلکار کھڑا تھا جس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا پستول زمین پر وہاں پھینک دیا جہاں محسن کی نعش کو پہنچایا گیا۔ میں حیرت زدہ ہوں کہ وہ سب انسپکٹر اسد اور وہ ایس پی ملک اویس کس طرح اپنے بچوں، اپنے رشتے داروں اور اپنی سماجی محفلوں میں لوگوں کے سامنے جائیں گے جن کے ہاتھوں پر ایک بے گناہ کا خون لگا ہوا ہو گامگراس سوال پر مجھے سبزہ زار کے مبینہ پولیس مقابلے میں مرنے والے شہباز بٹ کی آواز سنائی دے رہی ہے ، وہ کہہ رہا ہے کہ اسی طرح یہ ایس پی بھی گرج برس کے نوکری کرے گا جس طرح اسے قتل کرنے والا ڈی ایس پی ریاست باجواہ افسری کر رہا ہے، میجر ریٹائرڈ مبشر نے ہائی کورٹ کو پیش کی جانے والی انکوائری میں اسے قاتل قرار دیا تھا اوراس پر قتل عمد کا مقدمہ درج ہو گیا تھا۔ فوجداری وکیل آفتاب باجواہ بتاتے ہیں کہ اگر کوئی پولیس والا ایسے کسی مقدمے میں پھنس جائے تولاہور کے تمام تھانوں سے بیس سے تیس ہزار روپے اکٹھے کر کے اسلامی قانون ” دیت“ کا مذاق بنا دیا جاتا ہے، ورثاءکو رقم کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں اور قاتل افسر عین اسلامی طریقے سے معافی حاصل کرتے ہوئے نوکری پر بحال ہوجاتا ہے۔ شہباز بٹ کے ساتھ مجھے اس نوجوان کی آواز بھی سنائی دی جسے ستوکتلہ کے علاقے میں اس کی ماں کی موجودگی میں پولیس اہلکاروں نے قتل کر دیا تھا، ماں کے ساتھ جناح ہسپتال سے اپنے عزیز کی عیادت کر کے سائیکل پر آنےو الے کو پولیس اہلکاروں نے روکا، موج مستی کرتے ہوئے اس نوجوان سے کہا گیا کہ تم اس عورت کے ساتھ رنگ رلیاں منانے جا رہے ہو، انیس سالہ نوجوان غصے میں آگیا اور کہا کہ اس کی ماں ہے، پھر ان اہلکاروں نے ماں کی شان میں گستاخی کی، نوجوان کی برہمی پر اسے موت کی سزا دے دی گئی اور پھر ان پولیس اہلکاروں نے اپنے افسروں کو ساتھ ملاتے ہوئے اس ماں کو صلح پر مجبور کر دیا ۔۔۔ یہ میرے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا شہر ہے جس پر ان کے سابق دور حکومت میں سبزہ زار میں پولیس مقابلے کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی، وہ جلاوطنی ختم کر کے آئے تھے تب بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں حاضر ہو تے رہے تھے، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان کی بریت کے خلاف درخواست سماعت کے لئے منظور ہو چکی ہے مگر ان کی طرف سے اس الزام کو عدالت میں بھگتنے کے باوجود سیاسی مخالفین یہی کہتے ہیں کہ پولیس مقابلے انہی کی ہدایت پر ہوتے ہیں تاکہ ان جرائم پیشہ افراد کا دھرتی سے وزن کم کیا جا سکے جن کے خلاف عدالتوں میں گواہیاں اور ثبوت پیش نہیں ہو پاتے اور ۔۔۔ وہ بری ہوجاتے ہیں، اور انہی کی نام لیتے ہوئے پولیس جعلی مقابلوں میں بے گناہوں کو پار کرنے لگتی ہے، سپاریاں لینے اور بکنگیں کرنے لگتی ہے۔
آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمان بارے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پولیس مقابلے کرنےو الے افسروں کو انعامات سے نوازتے ہیں۔ وہ پولیس افسروں کو کہتے ہیں کہ انہیں خوش خبریاں چاہئیں اور خوش خبری کا مطلب پولیس مقابلے ہی لئے جاتے ہیں۔ یہ وہ پولیس ہے جس کے ایک ونگ نے ایک ہی ماں کے پانچ بیٹے مقابلوں میں مار دئیے اور ماں سلمیٰ بی بی باقی چار بیٹوں کی جان بچانے کے لئے عدالت میں پیش ہو گئی، یہی وہ پولیس ہے جو ایک دن میں چوہنگ میں تین بندوں مارنے کے ساتھ صوبے بھر میں نو ، نو آدمیوں کا خون پی جاتی ہے مگر اپنے دامن پر کوئی داغ،خنجر پر کوئی چھینٹ تک نہیں آنے دیتی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس پولیس پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں، وہ پولیس جو کمیونٹی پولیسنگ تک کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، جس کے ڈی ایس پیز اور ایس پیز نے ہمارے تاجروں، نام نہاد سماجی رہنماو¿ں کو اپنا ٹاو¿ٹ اور سیاسی رہنماو¿ں کو اپنا” کانا “بنارکھا ہے۔ یہ سندھ میں وزیراعظم کے بھائی کو مار کے بھی محفوظ ہے اور پنجاب میں عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے کے بعد بھی۔
مجھے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے بہت احترام کے ساتھ کہنا ہے کہ آپ پولیس میں اصلاحات میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے، آپ کا صوبہ ہی نہیں آپ کامثالی شہر تک ایک پولیس سٹیٹ ہے۔ یہ پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ، یہ اس کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سمیت تمام اقدامات پانی پر لکھے ہوئے لفظوں کی طرح رہے ہیں۔آپ کے شہر میں ہر ایس ایچ او ایک کرائے کے قاتل کی مانند ہے جسے کسی بھی وقت ہائر کیا جا سکتا ہے۔ وہ پولیس جو دعویٰ کرتی ہے کہ اس سے لاہور شہر میں کوئی مافیا نہیں بننے دیا، وہ اس ایک کروڑ آبادی کے شہرکا سب سے بڑا مافیا بن گئی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ پولیس افسران کیا منہ لے کر خانہ کعبہ اور روضہ رسول صلی اللہ و علیہ وسلم پر حاضر ہوتے ہوںگے،کیا ان کی زبانو ں سے انسانی خون کے ٹپکتے قطرے ،کیا ان کے دانتوں میں انسانی بوٹیوں کے ریشے وضو کرنے سے نکل جاتے ہوں گے۔ کیا طواف کرتے ہوئے ان کااحرام سفید ہی رہتا ہوگا۔ شہباز شریف کے شہر میں ایک اور نوجوان کو صرف ایک محکمانہ سرٹیفیکیٹ، صرف آئی جی کی طرف سے ایک سفارش اور ایک پروموشن کے لئے قتل کر دیا گیا۔ اب پولیس اس فوٹیج کو غلط ثابت کرنے کے لئے زور لگا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ضمیر فروشوں کے ہجوم میں پولیس والوں کو ایسے بے شمار گواہ مل جائیں گے جو فوٹیج کو غلط ثابت کرتے ہوئے بتائیں گے کہ انہوں نے محسن کو گولیاں چلاتے ہوئے خود دیکھا، پسلیوں میں گولیاں لگنے کے بعد بھی کئی کلومیٹر دور تک بھاگتے دیکھا ۔۔۔ مگر جو مجھے ایک عام شہری ، ایک عام صحافی ہوتے ہوئے نظر آ رہا ہے کیا شہباز شریف ، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے۔۔۔ جو جانور آدم خور ہوجائے پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ غریب آدمی کا بچہ کھا رہا ہے یا کسی امیر آدمی کا۔ ہماری پولیس آدم خور ہو چکی ہے، ابھی تک اس شہر میں یہ غریبوں کے بچے کھا رہی ہے، مجھے یہی درخواست کرنی ہے کہ اس آدم خور کو کسی بڑی تباہی سے پہلے کسی آئین، کسی قانون اور کسی تہذیب کے پنجرے میں بند کر دیا جائے۔


http://dailypakistan.com.pk/columns/13-Dec-2012/31470
 

زرقا مفتی

محفلین
شہباز پولیس مقابلہ کیس میں بری
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مبینہ جعلی پولیس مقابلہ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا نام خارج کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا ہے۔ عام انتخابات میں جن مقدمات کی بنیاد پر شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے تھے ان میں یہ مرکزی مقدمہ تھا۔

عدالت نے یہ حکم مدعی سعید الدین کے اس بیان کی روشنی میں دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کو شہباز شریف کی بریت پر کوئی اعت۔زاض نہیں ہے اور شہباز شریف کی حد تک یہ مقدمہ خارج کردیا جائے۔

شہباز شریف کے وزارتِ اعٰلی کے دور میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں پانچ نوجوانوں کی ہلاکت کے الزام میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمہ زیر سماعت تھا۔

مقدمہ کی سماعت کے سلسلہ میں شہباز شریف بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

شہباز شریف نے اپنے خلاف لاہور کےعلاقہ سبزہ زار پولیس سٹیشن میں درج ہونے والے اس مقدمہ سے بریت کے لیے بھی ایک درخواست دائر کی ہوئی تھی جس میں ان کے وکلاء خواجہ حارث اور امتیاز کیفی نے یہ موقف اختیار کیا کہ شہباز شریف کو دانستہ طور پر اس مقدمہ میں ملوث کیا گیا ہے اور اس مقدمہ میں ملزموں کی فہرست میں ان کا نام تیرہویں نمبر پر ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کو سیاسی عناد کی بنیاد پر مقدمہ میں ملوث کیا گیا تھا اور مذکورہ مقدمہ وقوعہ کے تین برس بعد درج ہوا، جس میں شہباز شریف کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت نہیں ہے۔ اس بنیاد پر درخواست میں شہباز شریف کو بری کرنے کی استدعا کی گئی۔

t.gif

سبزہ زار کیس
800_right_quote.gif
شہباز شریف پر یہ مقدمہ سنہ انیس سو اٹھانوے میں ان کی وزارتِ اعٰلی کے دور میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں پانچ نوجوانوں کی ہلاکت کے قریباً تین برس بعد سنہ دو ہزار ایک میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر درج ہوا تھا اور اس کے مدعی ہلاک شدگان میں سے ایک کے والد سعید الدین ہیں
800_left_quote.gif



دوسری جانب سنیچر کے روز بریت کی درخواست پر سماعت سے پہلےمدعی سعید الدین کی جانب سے ان کے وکیل آفتاب باجوہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کے مؤکل شہباز شریف کے اس مؤقف سے مطمن ہیں کہ ان کا اس مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مدعی نے عدالت میں بیان دیا کہ ان کو شہباز شریف کی بریت پر کوئی اعتزاض نہیں ہے۔


شہباز شریف پر یہ مقدمہ سنہ انیس سو اٹھانوے میں ان کی وزارتِ اعٰلی کے دور میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں پانچ نوجوانوں کی ہلاکت کے قریباً تین برس بعد سنہ دو ہزار ایک میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر درج ہوا تھا اور اس کے مدعی ہلاک شدگان میں سے ایک کے والد سعید الدین ہیں۔

عدالت نے اس مقدمہ میں شہباز شریف کی ضمانت منظور کر رکھی تھی اور ان پر ابھی فردجرم عائد ہونا تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران سنہ دو ہزار تین میں عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے پر شہباز شریف کو مفرور قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیےگئے تھے۔تاہم شہباز شریف کے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکا تھا۔

پچیس نومبر کو پاکستان آمد کے بعد مدعی سعید الدین نے عدالت میں دوبارہ درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اب جبکہ شہباز شریف پاکستان میں ہیں تو پولیس انہیں کیوں گرفتار نہیں کر رہی۔

اس پر عدالت نے پولیس حکام کو نوٹس جاری کیے تھے۔وطن واپسی کے بعد شہباز شریف نے عدالت کے سامنے پیش ہو کر خود کو عدالت کے حوالے کر دیا تھا۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/elections08/story/2008/03/printable/080301_shahbaz_free_sq.shtml
 

زرقا مفتی

محفلین
لاہور ہائیکورٹ: شہباز شریف کیخلاف پٹیشن دائر


لاہور: پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف سبزہ زار پولیس مقابلے میں پانچ نوجوانوں کی ہلاکت کا مقدمہ ری اوپن کرنے کے لئے لاہورہائیکورٹ میں پٹیشن دائرکر دی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس میاں نجم الزمان اور جسٹس نعیم مسعود کے روبرو جاری رٹ پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ شہباز شریف نے اپنے سابقہ دور حکومت میں لاہور کے علاقے سبزہ زار میں جعلی پولیس مقابلہ کرایا جس میں پانچ نوجوان ہلاک ہوئے تھے۔ سابق وزیراعلٰی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت کے حکم پر مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد دوران ٹرائل ایک مقتول کے والد نے شہباز شریف کی وطن واپسی پرانہیں معاف کردیا جس پر فاضل عدالت نے کیس ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ مقابلے میں ہلاک ہونے والے دو مقتولین عبدالروف اور وسیم حیدر کی والدہ کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کو معاف نہیں کیا ان کے خلاف کیس ری اوپن کیا جائے۔عدالت نے درخواست گزاروں کے وکیل آفتاب باجوہ سے استفسار کیا کہ دہشت گردی کی عدالت کے مقدمہ خارج کرنے کے ایک سال بعد پٹیشن کیوں دائر کی جارہی ہے جس پر مدعی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مقتولین کے والد شدید علیل تھے اور گھر میں کوئی اور مقدمے کی پیروی کرنے والا نہیں تھا،فاضل عدالت نے مقتولین کے والد کی بیماری کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے۔

http://urdu.aaj.tv/national/2009/03/04/39581_2_story.html
 

زرقا مفتی

محفلین
Plea against Shahbaz Sharif’s acquittal referred to CJ

Friday, January 13, 2012 - Lahore—A division bench of the Lahore High Court on Thursday referred the appeal against acquittal of Punjab Chief Minister Mian Shahbaz Sharif in the Sabzazar shootout case to the LHC chief justice to fix it before another bench.

Khurshid Khanum, mother of two brothers killed in a fake police encounter, filed the appeal through her counsel, Aftab Ahmad Bajwa.

The petitioner pleaded that she had never pardoned Shahbaz Sharif but the anti-terrorism court had acquitted him in the case without hearing her stance.

Five people were killed during a police encounter on April 4, 1998, in the jurisdiction of Sabzazar police station and an FIR was registered against 12 people, including Mian Shahbaz Sharif, on March 29, 2001.


http://pakobserver.net/detailnews.asp?id=135181
 

x boy

محفلین
فوجی جنرلوں میں دو بہت اہم تھے
آمریت کے دو بہترین کھلاڑی۔
جنرل ایوب خان صاحب
جنرل ضیاالحق صاحب
 

زرقا مفتی

محفلین
اعتزاز احسن کے نام

یاد ہے تم کو تم نے کہا تھا
عدل بنا جمہور نہ ہوگا
اب کیا سب بھول گئے ہو
ظلم کے حامی بن بیٹھے ہو
پہلے تو تم یہ کہتے تھے
ریاست ہو گی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی
کس مشکل میں اب پڑے ہو
جھوٹ ہی اب تو بول رہے ہو
بھول گئے ہو سب وہ نعرے
عدل بنا کمزور ادارے
کیوں دیتے ہو ان کو سہارے
کیا تم بالکل ٹوٹ چکے ہو
سبق پرانا بھول گئے ہو

اعتزاز احسن کی نظم

دنیا کی تاریخ گواہ ہے
عدل بنا جمہور نہ ہو گا
عدل ہوا تو دیس ہمارا
کبھی بھی چکنا چور نہ ہو گا
عدل بنا کمزور ادارے
عدل بنا کمزور اکائیاں
عدل بنا بے بس ہر شہری
عدل بنا ہر سمت دہائیاں
اوردنیا کی تاریخ میں سوچو
کب کوئی منصف قید ہوا ہے؟
آمر کی اپنی ہی اَنا سے
عدل یہاں ناپید ہوا ہے
عدل کے ایوانوں میں سن لو
اصلی منصف پھر آئیں گے
روٹی کپڑا اور گھر اپنا
لوگوں کو ہم دلوائیں گے
آٹا بجلی پانی ایندھن
سب کو سستے دام ملے گا
بے روزگاروں کو ہر ممکن
روزگار اور کام ملے گا
ریاست ہو گی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی
فوج لگے گی سب کو اچھی
جب سرحد کے پاس رہے گی
جاؤجاؤ سب سے کہ دو
محمد علی جنا ح نے لوگو
دیکھا تھا جو سپنا سب کا
ساری دنیا پراب ہو گا
سایہ ایک اور ایک ہی رب کا
وہ رب سچا وہ رب سانجھا
وہ ہرمذھب ہردھرم کا رب ہے
مسلم ہندو سکھ عیسائی
ہرانسان کے کرم کا رب ہے
سانجھا مالک سانجھا خالق
اسکے در پے سب حاصل ہے
عدم تشدد اسکا رستہ
امن ہمارا مستقبل ہے
ظالم اورغاصب کی دشمن
جنتا اب سے عیش کرے گی
مظلوموں کی آخر
جاری جدوجہد رہے گی
رستہ تھوڑا ہی باقی ہے
دیکھودیکھو وہ منزل ہے
ظالم ڈرکے بھاگ رہا ہے
جیت ہمارا مستقبل ہے
 
آخری تدوین:
Top