یاد میری بھی پڑی رہتی ہے تکئیے کے تلے
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں اسے
راہ میں اسکے بچھادیتی ہوں ٹوٹی ہوئی چوڑُی
چھب کے کانٹے کی طرح روز ستاتی ہوں اسے
بھولے بسرے کسی لمحے کی مہکتی خوشبو
گوندھ کر اپنے پراندے میں جھلاتی ہوں اسے
ایک بھیگے ہوئے نیناں کا سمجھکر موتی
شام کے نیلے دوپٹے میں لگاتی ہوں اسے ۔